سوشل میڈیا کی دین۔۔۔۔۔۔۔سٹیزن فوٹوجرنلزم

اب دنیا میں ہونے والے ہر واقعے کی پہلی تصاویر سوشل ویب سائٹس کا حصہ بن جاتی ہیں

سماجی ویب سائٹس کے عکسی صحافت کی دنیا میں پیدا کردہ انقلاب کے کچھ پہلو ۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
تصور کریں! آپ اپنے شہر کی کسی سڑک یا گلی سے گزر رہے ہیں۔

وہاں آپ کوئی اچھوتا واقعہ رونما ہوتے دیکھتے ہیں، جیسے جرم کی کوئی واردات، تو آپ کو فوری ردعمل کیا ہوگا؟ اگر آپ کا جواب ہے کہ ''میں فوری طور پر اس منظر کی تصویر لیتا/ لیتی'' تو اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ آپ سوشل میڈیا کے برپا کیے ہوئے انقلاب کا حصہ ہیں۔ ان لمحات میں موبائل فون سے منسلک اور سوشل میڈیا سے جُڑا کوئی بھی شخص اس جگہ موجود ہو وہ فوری طور پر نیوز فوٹو گرافر ہوسکتا ہے۔

کسی خوف ناک حادثے سے لے کر بم باری کے منظر، جرم کی وارداتوں اور مضحکہ خیز واقعات تک روزانہ کتنے ہی مناظر سوشل میڈیا کے یوزرز کے ہاتھوں تصویر کی صورت میں مختلف ویب سائٹس پر آجاتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والا شاید ہی کوئی اہم واقعہ ہو جس کے پہلی تصاویر سوشل ویب سائٹس پر آتی ہیں۔ اکثر یہی تصاویر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بنتی ہیں۔



کینیڈا کی یونی ورسٹی آف ٹورنٹو کے ڈائریکٹر جرنلزم پروگرام Jeffrey Dvorkin اس حوالے سے کہتے ہیں، یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آخری دفعہ کسی عالم گیر شہرت کے حامل واقعے کی تصویر کب نہیں لی گئی تھی۔ تاہم یہ بارہ سال پہلے کی بات ہے جب نائن الیون کے سانحے کے موقع پر نیویارک ٹائمز، رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے تجربہ کار اور فوٹوگرافرز ہی نے کسی بڑے واقعے کو کور کیا تھا۔ چناں چہ ہمارے پاس اس واقعے کی حیرت انگیز تصاویر موجود ہیں۔ ''اس کے بعد سے پروفیشنل فوٹوجرنلزم زوال کا شکار ہے اور سٹیزن فوٹو جرنلزم فروغ پارہا ہے۔''

سوشل میڈیا کے ذریعے مجموعی طور پر میڈیا میں بدلاؤ آرہا ہے۔ اس سال مئی کے مہینے میں ایک امریکی اخبار ''شکاگو سن ٹائمز'' نے اپنے تمام فوٹو گرافرز کو ملازمت سے فارغ کردیا اور رپورٹرز پر ذمے داری ڈال دی کہ وہ اپنے آرٹیکلز کے لیے اپنے اسمارٹ فونز کے ذریعے تصاویر اور وڈیوز بنائیں۔ ذرایع ابلاغ کی دنیا میں سوشل میڈیا کے طفیل وجود میں آنے اور فروغ پانے والی فوٹو گرافی نے ''کراؤڈ میڈیا'' کا نام پایا ہے، جس نے اب تجارت کی صورت اختیار کرلی ہے۔

یہ رجحان میڈیا آرگنائزیشنز کا اس طرح مددگار ثابت ہوا ہے کہ وہ اپنے فوٹوگرافرز پر انحصار کرنے کے بہ جائے سوشل میڈیا فوٹو جرنلسٹس کی بروقت کھینچی گئی اور بہتر سے بہتر تصاویر کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ ''کراؤڈ میڈیا'' پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی معاون ثابت ہورہی ہے۔ یہ ویب سائٹ اپنے خودکار سرچنگ سسٹم کے ذریعے روزانہ کھینچی جانے والی 150ملین تصاویر میں سے سرچ کرکے مطلوبہ تصاویر فراہم کرسکتی ہے۔ اس طرح درکار وقت میں تصاویر کے خزانے سے کسی نیوز اسٹوری سے متعلق تصاویر بہ آسانی دست یاب ہوجاتی ہیں۔


کراؤڈ میڈیا یہ تصاویر عام صارفین سے حاصل کرتی ہے، جو عموماً فیس بُک، ٹوئٹر وغیرہ جیسی سوشل ویب سائٹس پر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ کراؤڈ میڈیا نیوز ایجنسیز کے لیے صارفین کی ان تصاویر یا مطلوبہ تصویروں تک رسائی کا سہل ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے سی ای او Martin Roldan کا کہنا ہے کہ وہ کوشاں ہیں کہ جو ہی کوئی واقعہ رونما ہو ان کی ویب سائٹ فوری طور پر اس واقعے کی کھینچی گئی تصاویر تلاش کرکے اور تصاویر کھینچنے والے صارف کو خودکار طریقے سے تصاویر کے حصول کے لیے میل سینڈ کردے۔

کراؤڈ میڈیا کو آن لائن ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ اس ویب سائٹ نے ٹوئٹر پر آنے والی امریکی صدر باراک اوباما کی ایک فنڈریزنگ تقریب میں شرکت کی اولین تصاویر کرلیں اور ان کی اشاعت کے لیے گاہک بھی تلاش کرلیا۔



Martin Roldan کا کہنا ہے کہ جو شخص کسی واقعے کے رونما ہوتے ہوئے عین وقت پر وہاں موجود ہے، اسے (عکس بندی کا) موقع میسر آتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تصویر اچھی ہے یا نہیں۔ یہ رائے اپنی جگہ تاہم معیار کی اپنی اہمیت ہے۔ Jeffrey Dvorkin کہتے ہیں کہ اگرچہ سٹیزن میڈیا مین اسٹریم میڈیا کے لیے اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے، اور اسے بڑا صحت مند رجحان گردانا جاتا ہے، مگر سوشل میڈیا کے یوزرز کی بنائی ہوئی تصاویر کے معاملے سے بہت سے خطرات وابستہ ہیں۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سٹیزن فوٹو جرنل ازم میں فریب کاری اور جعل سازی (digitally-created ) کا خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سٹیزن فوٹو جرنلسٹس کے لیے کچھ معیارات کا تعین ضروری ہے، جو ان کی تصاویر کو مین اسٹریم میڈیا قابل اعتماد بنادیں گی۔ جن خطرات کا تذکرہ Jeffrey Dvorkin نے کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی حد تک تو یہ خطرات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔Jeffrey Dvorkin کہتے ہیں کہ خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں میں تصویریں کھینچنے والے سٹیزن فوٹو گرافر اپنی تصاویر کو قابل قدر بنانے کے لیے ان میں ردوبدل کردیتے ہیں۔

سینیر صحافی سٹیزن فوٹو جرنلزم کو معیار کا انحطاط مگر مواد کی توسیع قرار دیتے ہیں۔

معیار کا معاملہ اپنی جگہ مگر سٹیزن فوٹو جرنلزم ان مجبوریوں اور قیود سے آزاد ہے جن کا سامنا مین اسٹریم جنرل ازم کے فوٹو گرافرز کو ہوتا ہے، تاہم ان قیود کے ساتھ سٹیزن فوٹو جرنل ازم اخلاقیات اور ذمے داریوں سے بھی آزاد ہے۔
Load Next Story