ورلڈ کپ کی مہم جوئی کے لئے پاکستانی دستہ تیار
مشکل کنڈیشنز میں بیٹسمینوں کا کڑا امتحان ہوگا
پاکستان نے 30 مئی سے 14 جولائی تک شیڈول عالمی کرکٹ کپ کے لئے ابتدائی 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیا، پاکستان نے تجربات سے گریز کرتے ہوئے 2017 کے ورلڈ چیمپئنز فاتح پلیئرز پر اعتماد برقرار رکھا ہے، البتہ فاسٹ بولرمحمد عامر اور اوپنر اظہر علی اس بار گرین شرٹس کا حصہ نہیں بنائے گئے۔
آؤٹ آف فارم عامر کو میگا ایونٹ سے قبل انگلینڈ سے شیڈول سیریز کے لئے ساتھ رکھاگیا ہے، فارم بحال ہونے یا انگلش وکٹوں پر غیرمعمولی پرفارمنس دینے پر ان کے انتخاب پر بھی غور ممکن ہوسکے گا، میگاایونٹ کے لئے تمام شریک ممالک 23 مئی تک اپنے اسکواڈز میں تبدیلی کا حق رکھتے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کی چیمپئن سائیڈ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے ابھر کر سامنے آنے والے برق رفتار محمدحسنین کوبھی شرکت کا پروانہ جاری کیاگیا ہے، جنیدخان کی بھرپور محنت بھی رنگ لے آئی ہے ، وہ بھی انگلینڈ جانے والے سکواڈ میں شامل کرلیے گئے ہیں، نوجوان بیٹسمین عابد علی خدشات کو شکست دے کر جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، منتخب ہونے کے باوجود تجربہ کار محمد حفیظ کوفٹنس ثابت کرنا ہوگی، ٹیسٹ میں فیل عماد وسیم کو سلیکٹرز نے رعایتی نمبر دیتے ہوئے شامل کرلیا۔
اضافی پلیئرکے طورپرلیے جانے والے آصف علی نے انگلش کنڈیشنز میں خود کو پاور ہٹر ثابت کر دیا تو زیر غور لائے جاسکتے ہیں، ان کے علاوہ قومی ٹیم کے ریگولر اوپنر فخر زمان، فہیم اشرف، حارث اعظم، بابراعظم ، کپتان سرفراز، امام الحق بیٹنگ لائن کو سنبھالیں، انھیں حفیظ کے علاوہ سدابہار شعیب ملک کی سنگت بھی میسر ہوگی، بولنگ اٹیک میں چار پیسر جنیدخان، حسن علی، شاہین آفریدی کے ساتھ حسنین کو موقع ملے گا، عماد وسیم بھی اپنی آل راؤنڈ خوبیوں کی بدولت منتخب ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کہا کہ ہم نے چیمپئنز ٹرافی2017 کے اسکواڈ میں شامل11 پلیئرزکودوبارہ منتخب کیا، اضافی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے،آصف علی خود کو پاور ہٹر ثابت کرسکتے ہیں، سرفرازاحمد نمبر ون اور محمدرضوان دوسرے وکٹ کیپر ہیں، کسی بھی کھلاڑی کو انجری ہوئی تومتبادل موجود ہوں گے، انضمام الحق نے کہا کہ میں خود بھی 5 ورلڈکپ کھیل چکا،ایک میں فتح بھی نصیب ہوئی، ہار جیت کا مزا جانتا ہوں، سلیکٹرز، کوچ اور کپتان سب کی مشاورت سے کھلاڑیوں کا انتخاب ہوا، چیمپئنز ٹرافی2017 کے اسکواڈ میں شامل11 کھلاڑیوں کو دوبارہ منتخب کیا گیا ہے۔
محمدعامر اور آصف علی انگلینڈ سے سیریز کے لئے دستیاب ہوں گے، کارکردگی کو دیکھنے کے بعد حتمی ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل کیا جا سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کپ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ ضرور لیا، اگر ضرورت پڑتی تو کسی کو بلاتے، ٹاپ اسکورر عمر اکمل کی پرفارمنس آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں دیکھی، بدقسمتی سے وہ اچھا نہیں کھیل سکے، ہمیں پاورہٹر کی ضرورت ہے، آصف علی خود کو اہل ثابت کرسکتے ہیں۔
آسٹریلیا سے سیریز میں 2 سنچریاں بنانے کے باوجود محمد رضوان کو ٹیم میں منتخب نہ کرنے کے سوال پر چیف سلیکٹر نے کہا کہ جن 6 کھلاڑیوں کو ڈراپ کیا گیا تھا وہ آٹومیٹک چوائس تھے لہٰذا واپس آگئے، رضوان نے کارکردگی پاکستان کرکٹ کے لئے اچھی چیز ہے لیکن کپتان سرفراز احمد نمبر ون وکٹ کیپر اور کافی عرصے سے ذمہ داری نبھا رہے ہیں، رضوان دوسرے وکٹ کیپر ہیں، ان کی فارم اور کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، اگر کسی بھی کھلاڑی کو انجری ہوجائے تو ہمارے پاس متبادل موجود ہوں گے، آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا مقصد بھی یہی تھا،بینچ پاور نے بھی کینگروز کے خلاف میچز میں آسانی سے ہار نہیں مانی جو پاکستان کرکٹ کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔
گزشتہ کم و بیش 9 ماہ کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایک روزہ کرکٹ میں 23 میچزمیں سے صرف 11 میں فتح پائی جبکہ 12 میں شکست کا سامنا رہا، آسٹریلیا کے حالیہ نتائج کو نکال بھی دیں تو بھی قومی ٹیم نے 16 میچوں میں سے 10 میں کامیابی حاصل کی ہے، ایک عرصے سے پاکستان کا ہار جیت کا تناسب مایوس کن یعنی 0.833 رہا ہے۔
ان مقابلوں میں یقینی طور پر ذہنوں میں گھر کر جانے والی آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں محمدرضوان نے جو کارکردگی پیش کی ہے اسے دیکھتے ہوئے انھیں یقینی طور پر پہلی جگہ ملنی چاہیے تھی، محمد رضوان نے آسٹریلیا کے خلاف اپنی ایک یادگار سیریز کھیلی اور اس دوران مڈل آرڈر میں خوب چمکے اور خود کو ایک قابلِ غور معیار کا حامل بیٹسمین ثابت کیا، اضافی کیپر ہونا ان کے لیے ہمیشہ فائدہ مند رہا ہے مگر رضوان شاید اس طرح ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوئے، جس طرح معین خان 1996 میں راشد لطیف کے ساتھ اسکواڈ میں شامل ہوکر کھیلے تھے۔
آصف علی کو ورلڈ کپ اسکواڈ میں جگہ بنانے کے لئے اب انگلینڈ سیریز میں اپنی بیٹنگ صلاحیتوں کے جوہر دکھانا ہوں گے، وہ ٹمپرامنٹ کے حامل عمدہ بیٹسمین ہیں اور جونیئر ٹیموں کے خلاف اسکور کرنے کے باوجود انھیں تاخیر سے ہی سہی لیکن ملک کی نمائندگی کا موقع مل گیا لیکن اب یہ ان کی پرفارمنس پر منحصر ہوگا کہ وہ اس سے کس طرح فائدہ اٹھا پاتے ہیں، اگرچہ ان کا اسٹرائیک ریٹ تو 130 سے زیادہ ہے لیکن ان کے رنز بہت ہی کم ہیں، وہ عمدہ ہٹر بھی ہیں۔
محمد عامر کے لئے سوشل میڈیا پر بھی شائقین نے آواز بلند کی ہے ، ہر کوئی محمد عامر کا 'وہ' اسپیل دیکھنا چاہتا ہے، جس میں روہت شرما چونک گئے تھے اور بھارتی کپتان ویرات کوہلی دھوکہ کھا بیٹھے تھے، عامر یقینی طور پر بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں، اس جادوئی فاسٹ بولنگ کا ایک اور سپیل دیکھنے کی امیدوں کو دوبارہ بھڑکانے کی للچاہٹ اپنی جگہ مگر ان کے حالیہ اعداد و شمار ساتھ نہیں دیتے، شاندار اکانومی ریٹ کے علاوہ، عامر میں ان کی مخصوص صفات سے بھرپور کارکردگی کی جھلک دکھائی نہیں دے رہی ہے، پاکستانی فاسٹ بولرز میں اہم مقام رکھنے والے اس کھلاڑی سے وکٹیں لینے کی توقع کی جاتی ہے مگر لگتا ہے کہ گزشتہ سال سے یہ صلاحیت انہیں خیرباد کہہ چکی ہے۔
محمد عباس کو سلیکٹرز نے ون ڈے کرکٹ میں آزمانے سے گریز کیا وہ ٹیسٹ کرکٹ میں عمدگی سے پاکستانی بولنگ اٹیک کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، اگرچہ حالیہ پی ایس ایل کی کارکردگی کے ساتھ وہ دورئہ آسٹریلیا میں بھی اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کی صلاحیتوں کو کرکٹ کے چھوٹے فارمیٹس میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔
عثمان خان شنواری بھی ورلڈکپ اسکواڈ میں جگہ نہیں بناپائے ، پاکستان نے سب سے شاندار کامیابی گزشتہ برس جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ کے وانڈررز میدان میں حاصل کی تھی، جب جنوبی افریقہ نے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو شاہین شاہ آفریدی اور عثمان خان شنواری نے باؤلنگ کا کھاتہ کھولا، پہلے شاہین نے ٹاپ آرڈر کے 2 بیٹسمینوں کو میدان سے باہر کیا پھر شنواری نے لیٹ آرڈر کے کھلاڑیوں کو باہر کیا، بائیں ہاتھ سے سوئنگ بولنگ کرانے والے عثمان ٹیم میں ' ان ' اور آؤٹ ' ہوتے رہے ہیں، چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے بعد سے عثمان 15 میچز میں 28 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اگر ماضی کے اوراق میں دیکھا جائے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی فتوحات میں زیادہ تر کردار بولرز بالخصوص فاسٹ بولرز کا ر ہا ہے، انگلینڈ کی کنڈیشنز ایشیائی ٹیمو ں کے لئے ہمیشہ مشکل ہی ثابت ہوتی ہیں، پاکستانی بیٹنگ ویسے ہی استحکام کو ترس رہی ہے، اس صورتحال میں سینئرز کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا، بیٹسمینوں نے بہتر ٹوٹل سکور بورڈ پر سجائے تو بولرز دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم 23 اپریل کو انگلینڈ کے لیے روانہ ہو گی جہاں وہ ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ کے خلاف اسی کی سرزمین پر ایک ٹی20 پانچ ون ڈے میچزمیں حصہ لے گی، پھر ورلڈکپ کے آغاز سے قبل پاکستانی ٹیم افغانستان اور بنگلہ دیش کے خلاف وارم اپ میچ کھیلے گی، یہ مقابلہ بالترتیب 24 اور26 مئی کو شیڈول ہیں، میگا ایونٹ میں گرین شرٹس کا سفر 31مئی کو ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ سے شروع ہوگا، 1992ء کے بعد ایک بار پھر ایونٹ میں شریک تمام ملکوں کو تمام شریک ٹیموں سے کھیلنے کا موقع ملے گا اور پوائنٹس ٹیبل کی ٹاپ فور سائیڈز ہی سیمی فائنل میں شریک ہوپائیں گی۔
آؤٹ آف فارم عامر کو میگا ایونٹ سے قبل انگلینڈ سے شیڈول سیریز کے لئے ساتھ رکھاگیا ہے، فارم بحال ہونے یا انگلش وکٹوں پر غیرمعمولی پرفارمنس دینے پر ان کے انتخاب پر بھی غور ممکن ہوسکے گا، میگاایونٹ کے لئے تمام شریک ممالک 23 مئی تک اپنے اسکواڈز میں تبدیلی کا حق رکھتے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کی چیمپئن سائیڈ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے ابھر کر سامنے آنے والے برق رفتار محمدحسنین کوبھی شرکت کا پروانہ جاری کیاگیا ہے، جنیدخان کی بھرپور محنت بھی رنگ لے آئی ہے ، وہ بھی انگلینڈ جانے والے سکواڈ میں شامل کرلیے گئے ہیں، نوجوان بیٹسمین عابد علی خدشات کو شکست دے کر جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، منتخب ہونے کے باوجود تجربہ کار محمد حفیظ کوفٹنس ثابت کرنا ہوگی، ٹیسٹ میں فیل عماد وسیم کو سلیکٹرز نے رعایتی نمبر دیتے ہوئے شامل کرلیا۔
اضافی پلیئرکے طورپرلیے جانے والے آصف علی نے انگلش کنڈیشنز میں خود کو پاور ہٹر ثابت کر دیا تو زیر غور لائے جاسکتے ہیں، ان کے علاوہ قومی ٹیم کے ریگولر اوپنر فخر زمان، فہیم اشرف، حارث اعظم، بابراعظم ، کپتان سرفراز، امام الحق بیٹنگ لائن کو سنبھالیں، انھیں حفیظ کے علاوہ سدابہار شعیب ملک کی سنگت بھی میسر ہوگی، بولنگ اٹیک میں چار پیسر جنیدخان، حسن علی، شاہین آفریدی کے ساتھ حسنین کو موقع ملے گا، عماد وسیم بھی اپنی آل راؤنڈ خوبیوں کی بدولت منتخب ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کہا کہ ہم نے چیمپئنز ٹرافی2017 کے اسکواڈ میں شامل11 پلیئرزکودوبارہ منتخب کیا، اضافی کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے،آصف علی خود کو پاور ہٹر ثابت کرسکتے ہیں، سرفرازاحمد نمبر ون اور محمدرضوان دوسرے وکٹ کیپر ہیں، کسی بھی کھلاڑی کو انجری ہوئی تومتبادل موجود ہوں گے، انضمام الحق نے کہا کہ میں خود بھی 5 ورلڈکپ کھیل چکا،ایک میں فتح بھی نصیب ہوئی، ہار جیت کا مزا جانتا ہوں، سلیکٹرز، کوچ اور کپتان سب کی مشاورت سے کھلاڑیوں کا انتخاب ہوا، چیمپئنز ٹرافی2017 کے اسکواڈ میں شامل11 کھلاڑیوں کو دوبارہ منتخب کیا گیا ہے۔
محمدعامر اور آصف علی انگلینڈ سے سیریز کے لئے دستیاب ہوں گے، کارکردگی کو دیکھنے کے بعد حتمی ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل کیا جا سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کپ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ ضرور لیا، اگر ضرورت پڑتی تو کسی کو بلاتے، ٹاپ اسکورر عمر اکمل کی پرفارمنس آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں دیکھی، بدقسمتی سے وہ اچھا نہیں کھیل سکے، ہمیں پاورہٹر کی ضرورت ہے، آصف علی خود کو اہل ثابت کرسکتے ہیں۔
آسٹریلیا سے سیریز میں 2 سنچریاں بنانے کے باوجود محمد رضوان کو ٹیم میں منتخب نہ کرنے کے سوال پر چیف سلیکٹر نے کہا کہ جن 6 کھلاڑیوں کو ڈراپ کیا گیا تھا وہ آٹومیٹک چوائس تھے لہٰذا واپس آگئے، رضوان نے کارکردگی پاکستان کرکٹ کے لئے اچھی چیز ہے لیکن کپتان سرفراز احمد نمبر ون وکٹ کیپر اور کافی عرصے سے ذمہ داری نبھا رہے ہیں، رضوان دوسرے وکٹ کیپر ہیں، ان کی فارم اور کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں، اگر کسی بھی کھلاڑی کو انجری ہوجائے تو ہمارے پاس متبادل موجود ہوں گے، آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا مقصد بھی یہی تھا،بینچ پاور نے بھی کینگروز کے خلاف میچز میں آسانی سے ہار نہیں مانی جو پاکستان کرکٹ کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔
گزشتہ کم و بیش 9 ماہ کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایک روزہ کرکٹ میں 23 میچزمیں سے صرف 11 میں فتح پائی جبکہ 12 میں شکست کا سامنا رہا، آسٹریلیا کے حالیہ نتائج کو نکال بھی دیں تو بھی قومی ٹیم نے 16 میچوں میں سے 10 میں کامیابی حاصل کی ہے، ایک عرصے سے پاکستان کا ہار جیت کا تناسب مایوس کن یعنی 0.833 رہا ہے۔
ان مقابلوں میں یقینی طور پر ذہنوں میں گھر کر جانے والی آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں محمدرضوان نے جو کارکردگی پیش کی ہے اسے دیکھتے ہوئے انھیں یقینی طور پر پہلی جگہ ملنی چاہیے تھی، محمد رضوان نے آسٹریلیا کے خلاف اپنی ایک یادگار سیریز کھیلی اور اس دوران مڈل آرڈر میں خوب چمکے اور خود کو ایک قابلِ غور معیار کا حامل بیٹسمین ثابت کیا، اضافی کیپر ہونا ان کے لیے ہمیشہ فائدہ مند رہا ہے مگر رضوان شاید اس طرح ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوئے، جس طرح معین خان 1996 میں راشد لطیف کے ساتھ اسکواڈ میں شامل ہوکر کھیلے تھے۔
آصف علی کو ورلڈ کپ اسکواڈ میں جگہ بنانے کے لئے اب انگلینڈ سیریز میں اپنی بیٹنگ صلاحیتوں کے جوہر دکھانا ہوں گے، وہ ٹمپرامنٹ کے حامل عمدہ بیٹسمین ہیں اور جونیئر ٹیموں کے خلاف اسکور کرنے کے باوجود انھیں تاخیر سے ہی سہی لیکن ملک کی نمائندگی کا موقع مل گیا لیکن اب یہ ان کی پرفارمنس پر منحصر ہوگا کہ وہ اس سے کس طرح فائدہ اٹھا پاتے ہیں، اگرچہ ان کا اسٹرائیک ریٹ تو 130 سے زیادہ ہے لیکن ان کے رنز بہت ہی کم ہیں، وہ عمدہ ہٹر بھی ہیں۔
محمد عامر کے لئے سوشل میڈیا پر بھی شائقین نے آواز بلند کی ہے ، ہر کوئی محمد عامر کا 'وہ' اسپیل دیکھنا چاہتا ہے، جس میں روہت شرما چونک گئے تھے اور بھارتی کپتان ویرات کوہلی دھوکہ کھا بیٹھے تھے، عامر یقینی طور پر بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں، اس جادوئی فاسٹ بولنگ کا ایک اور سپیل دیکھنے کی امیدوں کو دوبارہ بھڑکانے کی للچاہٹ اپنی جگہ مگر ان کے حالیہ اعداد و شمار ساتھ نہیں دیتے، شاندار اکانومی ریٹ کے علاوہ، عامر میں ان کی مخصوص صفات سے بھرپور کارکردگی کی جھلک دکھائی نہیں دے رہی ہے، پاکستانی فاسٹ بولرز میں اہم مقام رکھنے والے اس کھلاڑی سے وکٹیں لینے کی توقع کی جاتی ہے مگر لگتا ہے کہ گزشتہ سال سے یہ صلاحیت انہیں خیرباد کہہ چکی ہے۔
محمد عباس کو سلیکٹرز نے ون ڈے کرکٹ میں آزمانے سے گریز کیا وہ ٹیسٹ کرکٹ میں عمدگی سے پاکستانی بولنگ اٹیک کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، اگرچہ حالیہ پی ایس ایل کی کارکردگی کے ساتھ وہ دورئہ آسٹریلیا میں بھی اس بات کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کی صلاحیتوں کو کرکٹ کے چھوٹے فارمیٹس میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔
عثمان خان شنواری بھی ورلڈکپ اسکواڈ میں جگہ نہیں بناپائے ، پاکستان نے سب سے شاندار کامیابی گزشتہ برس جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ کے وانڈررز میدان میں حاصل کی تھی، جب جنوبی افریقہ نے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو شاہین شاہ آفریدی اور عثمان خان شنواری نے باؤلنگ کا کھاتہ کھولا، پہلے شاہین نے ٹاپ آرڈر کے 2 بیٹسمینوں کو میدان سے باہر کیا پھر شنواری نے لیٹ آرڈر کے کھلاڑیوں کو باہر کیا، بائیں ہاتھ سے سوئنگ بولنگ کرانے والے عثمان ٹیم میں ' ان ' اور آؤٹ ' ہوتے رہے ہیں، چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے بعد سے عثمان 15 میچز میں 28 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اگر ماضی کے اوراق میں دیکھا جائے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کی فتوحات میں زیادہ تر کردار بولرز بالخصوص فاسٹ بولرز کا ر ہا ہے، انگلینڈ کی کنڈیشنز ایشیائی ٹیمو ں کے لئے ہمیشہ مشکل ہی ثابت ہوتی ہیں، پاکستانی بیٹنگ ویسے ہی استحکام کو ترس رہی ہے، اس صورتحال میں سینئرز کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا، بیٹسمینوں نے بہتر ٹوٹل سکور بورڈ پر سجائے تو بولرز دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم 23 اپریل کو انگلینڈ کے لیے روانہ ہو گی جہاں وہ ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ کے خلاف اسی کی سرزمین پر ایک ٹی20 پانچ ون ڈے میچزمیں حصہ لے گی، پھر ورلڈکپ کے آغاز سے قبل پاکستانی ٹیم افغانستان اور بنگلہ دیش کے خلاف وارم اپ میچ کھیلے گی، یہ مقابلہ بالترتیب 24 اور26 مئی کو شیڈول ہیں، میگا ایونٹ میں گرین شرٹس کا سفر 31مئی کو ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ سے شروع ہوگا، 1992ء کے بعد ایک بار پھر ایونٹ میں شریک تمام ملکوں کو تمام شریک ٹیموں سے کھیلنے کا موقع ملے گا اور پوائنٹس ٹیبل کی ٹاپ فور سائیڈز ہی سیمی فائنل میں شریک ہوپائیں گی۔