بیری ہے خوشیوں کی یہ ظالم فیس بُک

مسلسل دو ہفتے ایف بی استعمال کرنے والے افسردگی کا شکار ہوجاتے ہیں

امریکا کی مشی گن یونی ورسٹی کے محققین کی تحقیق ۔ فوٹو : فائل

KARACHI:
انٹرنیٹ کی دنیا میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا جہانِ نو پیدا ہوا تو اس انقلاب کو دنیا بھی میں محسوس کیا گیا۔

سماجی ویب سائٹس کے ظہور میں آتے ہی برسوں سے ٹوٹے تعلقات کی ڈور پھر بندھ گئی۔ مدتوں کے بچھڑے دوست اور رشتے دار ایک دوسرے سے دوبارہ مل گئے۔ جو اپنے پیاروں سے سات سمندر کے فاصلے پر تنہائی جھیل رہے تھے مسلسل رابطے کی سہولت اور اپنی بابت خبر دینے اور اپنے پیاروں کی خبر رکھنے اور متواتر ان کی تصاویر دیکھنے اور اپنے روزوشب کے عکس دکھانے کے قابل ہوگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یوزرز کو نئے لوگوں سے تعلقات بنانے کا موقع بھی ملا۔

مشترکہ دل چسپیوں کے حامل افراد ایک دوسرے کے قریب آئے، مختلف ثقافتوں، تہذیبوں کے حامل، ایک دوسرے سے متضاد نظریات اور سوچ رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کی بات سمجھنے کا موقع ملا۔ سوشل ویب سائٹس کی دنیا میں ذہنی مطابقت نہیں کہیں دوستی کا روپ دھارا تو کہیں یہ تعلق دلوں کا آہنگ بن کے محبت کی خوش بو میں ڈھل گیا اور کہیں یہ تعلق شادی کے رشتے میں بدل گیا۔ مگر مثبت پہلوؤں کے ساتھ اس کے منفی پہلو بھی ہیں۔ سوشل ویب سائٹس کے ایسے ہی کچھ گوشے بے نقاب کرتی ایک تحقیق حال ہی میں سامنے آئی ہے۔




امریکا کی یونی ورسٹی آف مشی گن سے وابستہ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق دنیا کی مقبول ترین سماجی ویب سائٹ فیس بُک، جسے عمومی طور پر تفریح کا سامان اور مکالمے کے ذریعے دل بہلانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، درحقیقت لوگوں کو باہم مربوط رکھنے کے ساتھ ساتھ ان میں افسردگی پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ماہرینِ نفسیات پر مشتمل اس تحقیقی ٹیم کے مطابق تحقیق کے بعد اس پر یہ حقیقت کُھلی ہے کہ فیس بُک پر دو ہفتے سے زیادہ متواتر وقت بتانے والے لوگ اس عرصے کے بعد افسردگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس دوستوں سے فون پر بات کرکے یا ان سے بالمشفافہ ملاقات انھیں اعلیٰ سطح کی مسرت سے ہم کنار کرتی ہے۔

یہ تحقیقی مطالعہ کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر Ethan Krossاس ضمن میں کہتے ہیں،'' بہ ظاہر فیس بُک لوگوں کی اس بنیادی انسانی ضرورت کی تکمیل کے لیے ایک قابل قدر ذریعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ دوسروں سے رابطہ کریں، مگر اس کے بجائے کہ (فیس بک کے ذریعے) لوگوں کی بہبود کا سامان ہو، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فیس بک اس کے برعکس نتائج دے رہی ہے۔''

تحقیقی مطالعے کے لیے ان محققین نے 82 نوجوانوں کی خدمات حاصل کیں، جن کے پاس اسمارٹ فون تھے اور جو فیس بک پر اپنا اپنا اکاؤنٹ رکھتے تھے۔ ان نوجوانوں کو ہدف دے کر ان کی مسرت کی ذاتی سطح کا تجزیہ کیا گیا۔ اس ہدف کے مطابق اس تحقیقی مطالعے کے عمل میں شرکت کرنے والوں کو روزانہ مختلف غیرطے شدہ اوقات میں دو ہفتے تک ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے سوالات بھیجے گئے۔ واضح رہے کہ "experience sampling" کی یہ تیکنیک لوگوں کے خیالات سے آگاہی، ان کے محسوسات جانے اور یہ معلوم کرنے کا قابل اعتماد طریقہ کے کہ وہ اپنی روزانہ کی زندگی میں کس طرح کے رویے اختیار کرتے ہیں۔

دو ہفتے گزرنے کے بعد اس تجرباتی عمل میں شریک نوجوانوں سے پوچھا گیا کہ اب وہ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ وہ کتنے پریشان اور تنہا ہوگئے ہیں؟ اور فیس بک استعمال کرنے اور لوگوں سے رابطے میں رہنے سے ان میں کیا چیز وسعت پذیر ہوئی؟ ان سوالات کے جواب ملنے سے سامنے آنے والے حقائق بیان کرتے ہوئے یہ محققین کہتے ہیں کہ فیس بک کے بہت زیادہ استعمال خوشی کے لیے نقصان کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس دو ہفتے کی مدت پر مشتمل تجربے اور اس کے ذریعے حالت اطمینان کے تخمینے سے پتا چلا کہ لوگ بڑی تعداد میں فیس بُک سے ناتا کیوں توڑ رہے ہیں۔
Load Next Story