سرکار دو عالم کے دربار میں
ہمارے دوست کالم نگار اور پرانے جید سیاسی کارکن قیوم نظامی نے بڑی ہمت کر کے آنحضرت ﷺ کے معاملات اور معمولات پر۔۔۔
ہمارے دوست کالم نگار اور پرانے جید سیاسی کارکن قیوم نظامی نے بڑی ہمت کر کے آنحضرت ﷺ کے معاملات اور معمولات پر کچھ مستند معلومات مرتب کی ہیں۔ سرکار دو عالم کی سوانح مبارک پر مسلمانوں اور غیر مسلموں نے بہت کچھ لکھا ہے۔
حضور پاک کی وہ منفرد شخصیت ہے جس کے ساتھیوں نے آپ کی زندگی کے ہر گوشے پر کچھ نہ کچھ بیان کیا ہے یا لکھا ہے جسے بعد میں مدون کر لیا گیا ہے۔ کسی دوسری شخصیت کی ذات گرامی اور اس کے معمولات کے بارے میں اس قدر تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا۔ حضور کے ساتھ عشق کرنے والوں نے اپنے ہادی اور رہنما کے روز مرہ کو گویا زبان و بیان میں زندہ رکھا ہے۔ حضور نے اپنے ساتھ اپنے صحابہ کے عشق اور غیر معمولی تعلق کو محسوس کرتے ہوئے ایک بار فرمایا کہ وہ وقت آئے گا جب کوئی کہے گا کہ میرا سب کچھ لے لو بس ایک بار زیارت کرا دو لیکن ایسا نہیں ہو سکے گا۔
حضور پر نور کے صحابہ کرام نے آنحضرت کے بارے میں اتنا کچھ بیان کیا ہے اور اپنے مشاہدات اس قدر تفصیل کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سپرد کیے ہیں کہ کسی خوش نصیب کو یہ سب پڑھ سن کر کبھی یوں لگتا ہے جیسے وہ بھی اپنے ہادی و رہنما کی زیارت کر رہا ہے ان کی صحبت مبارک میں موجود ہے۔
قیوم نظامی نے ''معاملات رسولﷺ'' کے عنوان سے تاریخی مستند معلومات جمع کی ہیں اور ان کی خوبصورت اور مبارک ترتیب کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ مجھ میں اب اتنی جان اور سکت باقی نہیں رہی کہ حضور کی حیات مبارک پر کچھ پڑھنے کی ہمت کر سکوں۔ سیرت کی انتہائی بنیادی عربی اور اردو کتابوں کا ذخیرہ میرے پاس موجود ہے۔ میں نے روضہ مبارک کی ایک بار سے زیادہ زیارت بھی کی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی برکات کا ذکر میرے کرمفرما سید سرفراز اے شاہ نے میرے ایک مرحوم کمیونسٹ دوست احمد بشیر کے کہنے اور ان کی موجودگی میں مجھ پر منکشف کیے۔
مجھ پر اس عنایت بے پایاں اور خسروانہ کے وقت شاہ صاحب میرے آس پاس کہیں بھی نہیں تھے بس یہ ان کا کشف تھا اور جیسے ان کو پیغام دیا گیا تھا کہ میرے فلاں غلام کو یہ بتا دینا۔ شاہ صاحب نے میرے دوست اور اپنے ملنے والے احمد بشیر کے ذریعے مجھے طلب کر کے اپنا یہ فرض ادا کیا۔
میں حیرت زدہ ہو کر شاہ صاحب کے چہرے کو تکتا رہا اور پھر اسی بے خودی کے عالم میں اس پہلی ملاقات سے نہ جانے کس لمحے رخصت چاہی۔ اس انکشاف کے بعد ایسے کئی مواقع آئے کہ میں بڑی آزمائش سے گزرا۔ اب جب کبھی شاہ صاحب کسی بات پر مجھ سے کہتے ہیں کہ ان کی تو بات ہی اور ہے تو میں گھبرا جاتا ہوں کہ ہر گز کسی طور بھی اس کے قابل نہیں ہوں لیکن رحمت اللعالمین کی رحمت کا سایہ جس سر پر ایک بار پڑ جائے وہ اس خوش نصیب سر سے اترتا نہیں ہے۔ بے پایاں رحمت کی طرح ان کا وجود بھی بے پایاں ہے۔ حضور کی امت کا ہر فرد خوش قسمت ہے اور پھر میں کیا عرض کروں۔
قیوم صاحب نے یہ کتاب بھیج کر مجھے ایک آزمائش میں ڈال دیا۔ حضور کی عملی زندگی پر یہ کتاب پڑھنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے ،کوئی چار سو صفحات کی اس کتاب میں حضورکی عرب قوم، حضور کا خاندان اور پھر ذات مبارک کے واقعات کا مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
یہ غیر معمولی انسان حیران کن اوصاف کے ساتھ اس کتاب میں کسی حد تک متعارف کرایا گیا ہے۔ اگر کسی کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں تو چشم تصور سے وہ بہت کچھ دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔ اردو زبان کے وسیع ذخیرے میں سیرت پاک کے ذکر پر یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ خوش نصیب ہیں قیوم نظامی جو اس سعادت سے سرفراز ہوئے ہیں۔ محمدؐ کے غلاموں میں انھوں نے اپنی جگہ بنانے کی ایک بہت اچھی کوشش کی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ ان کی اس کوشش کو قبول فرمائیں۔
حضور پاک کی زندگی کا ہر پہلو اس کتاب میں مذکور ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر بات اور واقعہ کا مستند حوالہ دیا گیا ہے۔ ایسا حوالہ جس کی صداقت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ یوں تو اس کتاب کا ہر واقعہ اس قابل ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ کس بات کا ذکر ہو اور کس کا نہ ہو۔ کتاب دیکھیں اور حیرت زدہ ہوں کہ ایسے انسان بھی ہوا کرتے ہیں اور فخر کریں کہ ہم اس انسان کے پیروکار اور روز قیامت اس کی شفاعت کے طلب گار ہیں۔
یہ کتاب پڑھیں اور آنحضرت کی سیرت پاک کے کسی بھی پہلو کی برکت کو اپنی ذات پر طاری کرنے کی کوشش کریں۔ ایک نارمل انسان جب اس کتاب کی فضا میں سے گزرتا ہے اس میں اگر ذرہ بھر بھی صلاحیت ہے تو وہ کسی خوبی سے جگمگا سکتا ہے، بدل سکتا ہے وہ ایک نیا قابل فخر انسان بن سکتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اس کتاب کے مرتب کا کیا حال ہو گا۔ ہمارے ایک عزیز دوست رفیق ڈوگر نے سیرت پر تفصیل کے ساتھ کتاب لکھی تو انھیں نہ صرف ایک لاعلاج مرض سے نجات ملی، مکمل صحت یابی ہوئی بلکہ اور کیا کچھ ہوا یہ وہی جانتے ہیں اور اس کتاب کی برکات کا شمار صرف وہی کر سکتے ہیں۔ میں زیادہ عرض نہیں کر سکتا سوائے قیوم نظمی کو مبارک باد دینے کے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول کرے اور ہمیں اس کا ذکر کرنے کے اجر سے محروم نہ کرے۔
میں نے برادرم قیوم کی ان دیکھی کسی کیفیت کا اندازہ اور ذکر کیا ہے ایسی ہی کیفیت ہمارے بہت بڑے شاعر پر بھی گزری تھی۔ مرزا اسد اللہ غالب کو انسانی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کا بڑا زعم تھا لیکن جب ذکر اس شخصیت کا کرنا تھا تو غالب بے بس ہو گیا سب کچھ ہوا ہو گیا اور کہا کہ
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتم
آں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
کہ غالب میں خواجہ کی مداح و ثنا کیا کروں اسے حق تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں کہ وہی محمدؐ کے مرتبہ کا حقیقی جاننے والا ہے اور آج کے ایک شاعر خورشید رضوی کا حوالہ دیتا ہوں۔ نعت کا یہ بے مثال نمونہ ہے
شان ان کی سوچئے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
ہمارا یہ شاعر بے کسی اور بے بسی کے عالم میں بے زبان ہو گیا اور چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ حضور پاکؐ ہمارے شاعروں اور مصنفوں کے جذبات اور عقیدت کو قبول فرمائیں۔
حضور پاک کی وہ منفرد شخصیت ہے جس کے ساتھیوں نے آپ کی زندگی کے ہر گوشے پر کچھ نہ کچھ بیان کیا ہے یا لکھا ہے جسے بعد میں مدون کر لیا گیا ہے۔ کسی دوسری شخصیت کی ذات گرامی اور اس کے معمولات کے بارے میں اس قدر تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا۔ حضور کے ساتھ عشق کرنے والوں نے اپنے ہادی اور رہنما کے روز مرہ کو گویا زبان و بیان میں زندہ رکھا ہے۔ حضور نے اپنے ساتھ اپنے صحابہ کے عشق اور غیر معمولی تعلق کو محسوس کرتے ہوئے ایک بار فرمایا کہ وہ وقت آئے گا جب کوئی کہے گا کہ میرا سب کچھ لے لو بس ایک بار زیارت کرا دو لیکن ایسا نہیں ہو سکے گا۔
حضور پر نور کے صحابہ کرام نے آنحضرت کے بارے میں اتنا کچھ بیان کیا ہے اور اپنے مشاہدات اس قدر تفصیل کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سپرد کیے ہیں کہ کسی خوش نصیب کو یہ سب پڑھ سن کر کبھی یوں لگتا ہے جیسے وہ بھی اپنے ہادی و رہنما کی زیارت کر رہا ہے ان کی صحبت مبارک میں موجود ہے۔
قیوم نظامی نے ''معاملات رسولﷺ'' کے عنوان سے تاریخی مستند معلومات جمع کی ہیں اور ان کی خوبصورت اور مبارک ترتیب کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ مجھ میں اب اتنی جان اور سکت باقی نہیں رہی کہ حضور کی حیات مبارک پر کچھ پڑھنے کی ہمت کر سکوں۔ سیرت کی انتہائی بنیادی عربی اور اردو کتابوں کا ذخیرہ میرے پاس موجود ہے۔ میں نے روضہ مبارک کی ایک بار سے زیادہ زیارت بھی کی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی برکات کا ذکر میرے کرمفرما سید سرفراز اے شاہ نے میرے ایک مرحوم کمیونسٹ دوست احمد بشیر کے کہنے اور ان کی موجودگی میں مجھ پر منکشف کیے۔
مجھ پر اس عنایت بے پایاں اور خسروانہ کے وقت شاہ صاحب میرے آس پاس کہیں بھی نہیں تھے بس یہ ان کا کشف تھا اور جیسے ان کو پیغام دیا گیا تھا کہ میرے فلاں غلام کو یہ بتا دینا۔ شاہ صاحب نے میرے دوست اور اپنے ملنے والے احمد بشیر کے ذریعے مجھے طلب کر کے اپنا یہ فرض ادا کیا۔
میں حیرت زدہ ہو کر شاہ صاحب کے چہرے کو تکتا رہا اور پھر اسی بے خودی کے عالم میں اس پہلی ملاقات سے نہ جانے کس لمحے رخصت چاہی۔ اس انکشاف کے بعد ایسے کئی مواقع آئے کہ میں بڑی آزمائش سے گزرا۔ اب جب کبھی شاہ صاحب کسی بات پر مجھ سے کہتے ہیں کہ ان کی تو بات ہی اور ہے تو میں گھبرا جاتا ہوں کہ ہر گز کسی طور بھی اس کے قابل نہیں ہوں لیکن رحمت اللعالمین کی رحمت کا سایہ جس سر پر ایک بار پڑ جائے وہ اس خوش نصیب سر سے اترتا نہیں ہے۔ بے پایاں رحمت کی طرح ان کا وجود بھی بے پایاں ہے۔ حضور کی امت کا ہر فرد خوش قسمت ہے اور پھر میں کیا عرض کروں۔
قیوم صاحب نے یہ کتاب بھیج کر مجھے ایک آزمائش میں ڈال دیا۔ حضور کی عملی زندگی پر یہ کتاب پڑھنے کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے ،کوئی چار سو صفحات کی اس کتاب میں حضورکی عرب قوم، حضور کا خاندان اور پھر ذات مبارک کے واقعات کا مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
یہ غیر معمولی انسان حیران کن اوصاف کے ساتھ اس کتاب میں کسی حد تک متعارف کرایا گیا ہے۔ اگر کسی کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں تو چشم تصور سے وہ بہت کچھ دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔ اردو زبان کے وسیع ذخیرے میں سیرت پاک کے ذکر پر یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ خوش نصیب ہیں قیوم نظامی جو اس سعادت سے سرفراز ہوئے ہیں۔ محمدؐ کے غلاموں میں انھوں نے اپنی جگہ بنانے کی ایک بہت اچھی کوشش کی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ ان کی اس کوشش کو قبول فرمائیں۔
حضور پاک کی زندگی کا ہر پہلو اس کتاب میں مذکور ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر بات اور واقعہ کا مستند حوالہ دیا گیا ہے۔ ایسا حوالہ جس کی صداقت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ یوں تو اس کتاب کا ہر واقعہ اس قابل ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ کس بات کا ذکر ہو اور کس کا نہ ہو۔ کتاب دیکھیں اور حیرت زدہ ہوں کہ ایسے انسان بھی ہوا کرتے ہیں اور فخر کریں کہ ہم اس انسان کے پیروکار اور روز قیامت اس کی شفاعت کے طلب گار ہیں۔
یہ کتاب پڑھیں اور آنحضرت کی سیرت پاک کے کسی بھی پہلو کی برکت کو اپنی ذات پر طاری کرنے کی کوشش کریں۔ ایک نارمل انسان جب اس کتاب کی فضا میں سے گزرتا ہے اس میں اگر ذرہ بھر بھی صلاحیت ہے تو وہ کسی خوبی سے جگمگا سکتا ہے، بدل سکتا ہے وہ ایک نیا قابل فخر انسان بن سکتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اس کتاب کے مرتب کا کیا حال ہو گا۔ ہمارے ایک عزیز دوست رفیق ڈوگر نے سیرت پر تفصیل کے ساتھ کتاب لکھی تو انھیں نہ صرف ایک لاعلاج مرض سے نجات ملی، مکمل صحت یابی ہوئی بلکہ اور کیا کچھ ہوا یہ وہی جانتے ہیں اور اس کتاب کی برکات کا شمار صرف وہی کر سکتے ہیں۔ میں زیادہ عرض نہیں کر سکتا سوائے قیوم نظمی کو مبارک باد دینے کے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول کرے اور ہمیں اس کا ذکر کرنے کے اجر سے محروم نہ کرے۔
میں نے برادرم قیوم کی ان دیکھی کسی کیفیت کا اندازہ اور ذکر کیا ہے ایسی ہی کیفیت ہمارے بہت بڑے شاعر پر بھی گزری تھی۔ مرزا اسد اللہ غالب کو انسانی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کا بڑا زعم تھا لیکن جب ذکر اس شخصیت کا کرنا تھا تو غالب بے بس ہو گیا سب کچھ ہوا ہو گیا اور کہا کہ
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتم
آں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
کہ غالب میں خواجہ کی مداح و ثنا کیا کروں اسے حق تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں کہ وہی محمدؐ کے مرتبہ کا حقیقی جاننے والا ہے اور آج کے ایک شاعر خورشید رضوی کا حوالہ دیتا ہوں۔ نعت کا یہ بے مثال نمونہ ہے
شان ان کی سوچئے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
ہمارا یہ شاعر بے کسی اور بے بسی کے عالم میں بے زبان ہو گیا اور چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ حضور پاکؐ ہمارے شاعروں اور مصنفوں کے جذبات اور عقیدت کو قبول فرمائیں۔