پاکستان بھارت تعلقات میں رخنہ
حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی اور نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے نہ صرف پاکستان کے باشعور حلقوں۔۔۔
حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی اور نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے نہ صرف پاکستان کے باشعور حلقوں میں بلکہ ہندوستان کے عوام دوست حلقوں میں بھی اس خوشی اور امید کا اظہار کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کا عمل شروع ہوجائے گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نواز شریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی سنجیدہ کوششیں شروع کی تھیں اور بھارتی وزیراعظم نے اپنی بس یاترا اور لاہور میں مینار پاکستان پر ایک مثبت تقریر کرکے نواز حکومت کی کوششوں کی پذیرائی کی تھی۔
مئی 2013 کے بعد نواز حکومت نے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی سخت مخالفت کے باوجود ہندوستان سے تعلقات کی بہتری اور دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کی بحالی کے لیے اقدامات شروع کردیے تھے جس کا جواب ہندوستانی حکومت کی جانب سے بھی مثبت دیا گیا تھا اور دونوں ملکوں کے وزیراعظم کے درمیان ملاقات کی تیاریاں بھی جاری تھیں کہ اچانک بھارتی فوج کے چند جوانوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ بھارتی حکومت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ بھارتی فوج کے جوانوں کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے قتل کیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس الزام کی تردید کی گئی اور یہ جوابی الزام لگایا گیا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج مسلسل فائرنگ کر رہی ہے اس فائرنگ سے کچھ جانی نقصان بھی ہوا۔ نواز شریف کے برسر اقتدار آنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ اب مایوسی میں بدل رہی ہے۔ بھارت کے چیف آف آرمی اسٹاف کے جارحانہ اور احمقانہ بیان کے ساتھ بھارت کے سابق فوجی افسروں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ بھارتی حکومت دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی مجوزہ ملاقات کو منسوخ کردے، یہی نہیں بلکہ بھارت میں پاکستانی سفارت خانے پر پرتشدد مظاہرے کیے گئے اور بھارت سے آنے والی دوستی بس کو امرتسر پر روک کر اس کے خلاف نعرے لگائے گئے اور اس کا گھیراؤ کیا گیا۔ بھارت کے بعض ترقی پسند قلمکاروں نے پاکستان کے خلاف اس مہم کو بی جے پی کی مذہبی انتہاپسندی قرار دیتے ہوئے حکمراں جماعت کانگریس پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں ہندوؤں کے ووٹ کو پکا کرنے کے لیے بی جے پی کے راستے پر چل رہی ہے۔ بھارت کا متعصب میڈیا اس آگ پر پٹرول چھڑک رہا ہے۔
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارت کے بعض طاقتور حلقے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو پسند نہیں کرتے۔ 1999 میں بھی کارگل ایڈونچر کو بہانہ بناکر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی کوششوں کو سبوتاژ کیا گیا تھا اور اب بھارتی فوج کے جوانوں کے قتل کو بہانہ بناکر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی تازہ کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر بھی یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری نہیں چاہتی لیکن یہ الزام اس وقت بے جواز ثابت ہوا جب سابق فوجی صدر جنرل (ر) مشرف نے اپنے دورہ آگرہ کے دوران کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی روایتی پالیسی سے ہٹ کر ہندوستان کو غیر معمولی رعایتوں کی پیش کش کی اور اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کے مطابق کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تیاریاں ہورہی تھیں کہ ہندوستان کی طاقتور بیوروکریسی نے اسے ناکام بنادیا اور مشرف بھارت سے خالی ہاتھ واپس آئے۔
ہم فرض کرلیتے ہیں کہ بھارتی فوج کے جوانوں کے قتل میں پاکستانی دہشت گردوں کا ہاتھ ہوگا لیکن کیا بھارتی حکومت اس حقیقت سے واقف نہیں کہ یہی دہشت گرد انتہائی سفاکی کے ساتھ وزیرستان میں پاکستانی فوج کے جوانوں کو ذبح کر رہے ہیں اور جگہ جگہ ٹائم بموں کے ذریعے پاکستانی فوجیوں کے قافلوں اور چیک پوسٹوں پر حملے کرکے ان کا قتل عام کر رہے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی سول شہری یا فوج کے جوانوں کا بلاجواز قتل قابل مذمت ہے لیکن بھارتی حکومت کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ کشمیر میں آئے دن بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو اسی سفاکی سے قتل کر رہی ہے۔
جس سفاکی سے بھارتی فوج کے چند جوانوں کو قتل کرنے کے الزامات پاکستانی فوج پر لگائے جارہے ہیں۔ کیا بھارتی حکمران طبقہ اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اب تک کشمیر میں 80 ہزار کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں اور سیکڑوں کشمیری خواتین کی آبروریزی کی گئی ہے، کیا بھارتی حکومت اس حقیقت سے انکار کرسکتی ہے کہ وہ کشمیر پر 6 لاکھ بھارتی فوج کے ذریعے قابض ہے اور کرفیو کے ذریعے عوام کو دبایا جارہا ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ملکوں کے وہ بھاری وسائل جنگی بمبوں، جنگی جنون، جنگی تیاریوں اور ہتھیاروں کی دوڑ پر ضایع کیے جارہے ہیں جو دونوں ملکوں کے غریب عوام کی بہتری پر خرچ کیے جاتے تو ان کی غربت کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہورہا ہے اور پورا جنوبی ایشیا دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کی زد میں آرہا ہے۔ بھارت کی حکومت اور بھارتی اسٹیبشلمنٹ کو اس کے 5 جوانوں کے قتل پر بہت دکھ ہے اور یہ دکھ اشتعال تک پہنچ رہا ہے لیکن کیا بھارتی حکومت اور بھارت کے سورما چیف آف اسٹاف یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں خیبر سے کراچی تک ہر روز سیکڑوں بے گناہ پاکستانی عوام کا بے دردی اور سفاکی سے قتل عام کیا جارہا ہے؟ کیا بھارت کی حکومت اور بھارت کی ملٹری جنتا اس حقیقت سے انکار کرسکتی ہے کہ پاکستان میں جاری اس بے لگام قتل و غارت کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور اس مسئلے کی ساری ذمے داری بھارتی حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے؟
یہ الزامات پاکستان کی کسی مذہبی جماعت یا پاکستان کے کسی مذہبی انتہاپسند لکھاری کی طرف سے نہیں لگائے جارہے ہیں بلکہ یہ الزام ایک ایسا لکھاری بھارت پر لگا رہا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو اپنی پہلی نظریاتی ترجیح سمجھتا ہے، یہ الزام ایک ایسا لکھاری بھارتی حکمرانوں پر لگا رہا ہے جو تقسیم ہند کو اس خطے کے انسانوں خصوصاً غریب طبقات کی تقسیم سمجھتا ہے۔ یہ الزام وہ ترقی پسند لکھاری لگا رہا ہے جو دہشت گردوں کے بیچ میں بیٹھ کر دہشت گردوں کی سفاکیوں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ یہ الزام صرف ایک لکھاری کا الزام نہیں بلکہ پاکستان کے ان تمام لکھاریوں کا بھارتی حکومت پر الزام ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو اس خطے کے عوام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، یہ الزام پاکستان کے وہ اہل علم اہل دانش بھارتی حکمرانوں پر لگا رہے ہیں جو خود اپنی حکومت اپنی اسٹیبلشمنٹ کی حماقتوں کی نفی کرتے ہیں۔ یہ الزام وہ تمام حلقے بھارتی حکمرانوں پر لگا رہے ہیں جو دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری اور ان کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے خواہشمند ہیں۔
اگر کشمیر میں کسی انتہا پسندگروہ نے بھارتی فوج کے جوانوں کو سفاکی سے قتل کیا ہے تو اس کا یہ فعل نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ قابل نفرت ہے کیونکہ اس فعل سے دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام کے درمیان نفرتیں پھیلانے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس خطے میں دہشت گردی اور جنگی جنون میں اضافہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں حکمران طبقات عوام کے اجتماعی مفادات کے بجائے ایلیٹ کے ایک چھوٹے سے طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں میں عوام کی اجتماعی بھلائی کے بجائے اپنی قومی انا قومی، فخر وغرور کا دخل ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان 65 سال کی طرح تعلقات کشیدہ ہی رہتے ہیں تو اس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ کس کی قومی انا کی تسکین ہوتی ہے؟ اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری اور ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ سے کن طبقات کو فائدہ ہوتا ہے؟
یہ ایسے سوال ہیں جن پر بھارتی حکمرانوں کو سنجیدگی سے غور کرکے تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ بننے والے ہر واقعے کو پس پشت ڈال کر ان کوششوں کو آگے بڑھانا چاہیے جو دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کے لیے کی جارہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں ایسے طاقتور حلقے موجود ہیں جو نظریاتی اور مفاداتی حوالوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو پسند نہیں کرتے۔ اگر من موہن حکومت میں اس خطے کے غریب عوام کی حالت زار کا احساس ہوتا تو پھر اس کی ذمے داری ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی مجوزہ ملاقات کو نہ صرف یقینی بنائے بلکہ بامقصد اور بامعنی بنانے کی کوشش کرے۔
مئی 2013 کے بعد نواز حکومت نے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی سخت مخالفت کے باوجود ہندوستان سے تعلقات کی بہتری اور دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کی بحالی کے لیے اقدامات شروع کردیے تھے جس کا جواب ہندوستانی حکومت کی جانب سے بھی مثبت دیا گیا تھا اور دونوں ملکوں کے وزیراعظم کے درمیان ملاقات کی تیاریاں بھی جاری تھیں کہ اچانک بھارتی فوج کے چند جوانوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔ بھارتی حکومت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ بھارتی فوج کے جوانوں کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے قتل کیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے اس الزام کی تردید کی گئی اور یہ جوابی الزام لگایا گیا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج مسلسل فائرنگ کر رہی ہے اس فائرنگ سے کچھ جانی نقصان بھی ہوا۔ نواز شریف کے برسر اقتدار آنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ اب مایوسی میں بدل رہی ہے۔ بھارت کے چیف آف آرمی اسٹاف کے جارحانہ اور احمقانہ بیان کے ساتھ بھارت کے سابق فوجی افسروں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ بھارتی حکومت دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی مجوزہ ملاقات کو منسوخ کردے، یہی نہیں بلکہ بھارت میں پاکستانی سفارت خانے پر پرتشدد مظاہرے کیے گئے اور بھارت سے آنے والی دوستی بس کو امرتسر پر روک کر اس کے خلاف نعرے لگائے گئے اور اس کا گھیراؤ کیا گیا۔ بھارت کے بعض ترقی پسند قلمکاروں نے پاکستان کے خلاف اس مہم کو بی جے پی کی مذہبی انتہاپسندی قرار دیتے ہوئے حکمراں جماعت کانگریس پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں ہندوؤں کے ووٹ کو پکا کرنے کے لیے بی جے پی کے راستے پر چل رہی ہے۔ بھارت کا متعصب میڈیا اس آگ پر پٹرول چھڑک رہا ہے۔
اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارت کے بعض طاقتور حلقے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو پسند نہیں کرتے۔ 1999 میں بھی کارگل ایڈونچر کو بہانہ بناکر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی کوششوں کو سبوتاژ کیا گیا تھا اور اب بھارتی فوج کے جوانوں کے قتل کو بہانہ بناکر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی تازہ کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر بھی یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری نہیں چاہتی لیکن یہ الزام اس وقت بے جواز ثابت ہوا جب سابق فوجی صدر جنرل (ر) مشرف نے اپنے دورہ آگرہ کے دوران کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی روایتی پالیسی سے ہٹ کر ہندوستان کو غیر معمولی رعایتوں کی پیش کش کی اور اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کے مطابق کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تیاریاں ہورہی تھیں کہ ہندوستان کی طاقتور بیوروکریسی نے اسے ناکام بنادیا اور مشرف بھارت سے خالی ہاتھ واپس آئے۔
ہم فرض کرلیتے ہیں کہ بھارتی فوج کے جوانوں کے قتل میں پاکستانی دہشت گردوں کا ہاتھ ہوگا لیکن کیا بھارتی حکومت اس حقیقت سے واقف نہیں کہ یہی دہشت گرد انتہائی سفاکی کے ساتھ وزیرستان میں پاکستانی فوج کے جوانوں کو ذبح کر رہے ہیں اور جگہ جگہ ٹائم بموں کے ذریعے پاکستانی فوجیوں کے قافلوں اور چیک پوسٹوں پر حملے کرکے ان کا قتل عام کر رہے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی سول شہری یا فوج کے جوانوں کا بلاجواز قتل قابل مذمت ہے لیکن بھارتی حکومت کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ کشمیر میں آئے دن بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو اسی سفاکی سے قتل کر رہی ہے۔
جس سفاکی سے بھارتی فوج کے چند جوانوں کو قتل کرنے کے الزامات پاکستانی فوج پر لگائے جارہے ہیں۔ کیا بھارتی حکمران طبقہ اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اب تک کشمیر میں 80 ہزار کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل ہوچکے ہیں اور سیکڑوں کشمیری خواتین کی آبروریزی کی گئی ہے، کیا بھارتی حکومت اس حقیقت سے انکار کرسکتی ہے کہ وہ کشمیر پر 6 لاکھ بھارتی فوج کے ذریعے قابض ہے اور کرفیو کے ذریعے عوام کو دبایا جارہا ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ملکوں کے وہ بھاری وسائل جنگی بمبوں، جنگی جنون، جنگی تیاریوں اور ہتھیاروں کی دوڑ پر ضایع کیے جارہے ہیں جو دونوں ملکوں کے غریب عوام کی بہتری پر خرچ کیے جاتے تو ان کی غربت کم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہورہا ہے اور پورا جنوبی ایشیا دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کی زد میں آرہا ہے۔ بھارت کی حکومت اور بھارتی اسٹیبشلمنٹ کو اس کے 5 جوانوں کے قتل پر بہت دکھ ہے اور یہ دکھ اشتعال تک پہنچ رہا ہے لیکن کیا بھارتی حکومت اور بھارت کے سورما چیف آف اسٹاف یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں خیبر سے کراچی تک ہر روز سیکڑوں بے گناہ پاکستانی عوام کا بے دردی اور سفاکی سے قتل عام کیا جارہا ہے؟ کیا بھارت کی حکومت اور بھارت کی ملٹری جنتا اس حقیقت سے انکار کرسکتی ہے کہ پاکستان میں جاری اس بے لگام قتل و غارت کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور اس مسئلے کی ساری ذمے داری بھارتی حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے؟
یہ الزامات پاکستان کی کسی مذہبی جماعت یا پاکستان کے کسی مذہبی انتہاپسند لکھاری کی طرف سے نہیں لگائے جارہے ہیں بلکہ یہ الزام ایک ایسا لکھاری بھارت پر لگا رہا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو اپنی پہلی نظریاتی ترجیح سمجھتا ہے، یہ الزام ایک ایسا لکھاری بھارتی حکمرانوں پر لگا رہا ہے جو تقسیم ہند کو اس خطے کے انسانوں خصوصاً غریب طبقات کی تقسیم سمجھتا ہے۔ یہ الزام وہ ترقی پسند لکھاری لگا رہا ہے جو دہشت گردوں کے بیچ میں بیٹھ کر دہشت گردوں کی سفاکیوں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ یہ الزام صرف ایک لکھاری کا الزام نہیں بلکہ پاکستان کے ان تمام لکھاریوں کا بھارتی حکومت پر الزام ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو اس خطے کے عوام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، یہ الزام پاکستان کے وہ اہل علم اہل دانش بھارتی حکمرانوں پر لگا رہے ہیں جو خود اپنی حکومت اپنی اسٹیبلشمنٹ کی حماقتوں کی نفی کرتے ہیں۔ یہ الزام وہ تمام حلقے بھارتی حکمرانوں پر لگا رہے ہیں جو دونوں ملکوں کے عوام کی بہتری اور ان کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے خواہشمند ہیں۔
اگر کشمیر میں کسی انتہا پسندگروہ نے بھارتی فوج کے جوانوں کو سفاکی سے قتل کیا ہے تو اس کا یہ فعل نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ قابل نفرت ہے کیونکہ اس فعل سے دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ عوام کے درمیان نفرتیں پھیلانے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس خطے میں دہشت گردی اور جنگی جنون میں اضافہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں حکمران طبقات عوام کے اجتماعی مفادات کے بجائے ایلیٹ کے ایک چھوٹے سے طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں میں عوام کی اجتماعی بھلائی کے بجائے اپنی قومی انا قومی، فخر وغرور کا دخل ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان 65 سال کی طرح تعلقات کشیدہ ہی رہتے ہیں تو اس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟ کس کی قومی انا کی تسکین ہوتی ہے؟ اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری اور ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ سے کن طبقات کو فائدہ ہوتا ہے؟
یہ ایسے سوال ہیں جن پر بھارتی حکمرانوں کو سنجیدگی سے غور کرکے تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ بننے والے ہر واقعے کو پس پشت ڈال کر ان کوششوں کو آگے بڑھانا چاہیے جو دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کے لیے کی جارہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں ایسے طاقتور حلقے موجود ہیں جو نظریاتی اور مفاداتی حوالوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کو پسند نہیں کرتے۔ اگر من موہن حکومت میں اس خطے کے غریب عوام کی حالت زار کا احساس ہوتا تو پھر اس کی ذمے داری ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی مجوزہ ملاقات کو نہ صرف یقینی بنائے بلکہ بامقصد اور بامعنی بنانے کی کوشش کرے۔