بلوچستان کی شورش اور یورش

بلوچستان میں عام پنجابی کوکیوں مارا جاتا ہے؟ یہ سوال ہر اُس نئے واقعے کے بعد پھر سے اُبھر آتا ہے، جس میں...


عابد میر August 19, 2013
[email protected]

بلوچستان میں عام پنجابی کوکیوں مارا جاتا ہے؟ یہ سوال ہر اُس نئے واقعے کے بعد پھر سے اُبھر آتا ہے، جس میں بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، اور بلوچ تحریک کی اخلاقی حمایت کرنے والے اچھے خاصے روشن فکر دوست بھی اس نوعیت کے واقعات پہ تلملا اٹھتے ہیں۔ان کا ایسا ردِ عمل قابلِ فہم ہے، لیکن یہ معاملے کی نزاکت سے ناواقفیت کا بھی مظہر ہے۔ حالانکہ عید سے قبل مچھ کے علاقے میں تیرہ پنجابی مزدوروں کو بسوں سے اتارنے اور شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد قتل کرنے کا واقعہ ،اپنی نوعیت میں پہلا یا نیا نہیں۔ اس کا آغاز تین برس قبل بولان کے اسی علاقے میں پانچ پنجابی مزدوروں کو اسی طرح بسوں سے اتار کر انھیں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں پنجرہ پل سے لٹکا دینے کے دل سوز واقعہ سے ہوا تھا۔ اس تسلسل میں اپنی نوعیت کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

اس کالم کا مقصد کسی بھی صورت اس طرح کے واقعات حمایت نہیں ہے، بلکہ اس کا بنیادی مقصد صرف اس پس منظر سے آگاہی دینا ہے کہ آخر اس طرح کے واقعات کے رونما ہونے کا سبب کیا ہے،نیز ان کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟!اس لیے ان معروضات کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ کسی کو پسند آئے یا برا لگے لیکن اسے ایک حقیقت کے طور پر مان لینا چاہیے کہ بلوچستان کا مسئلہ اب صوبائی خود مختاری اور ساحل و وسائل کے حقوق سے کہیں آگے کا ہے۔ بلوچستان میں ایک براہِ راست جنگ کی سی کیفیت ہے، اور اس جنگ کے حقیقی فریقین ہیں؛ بلوچ علیحدگی پسند گروہ اور قانون نافذ کرنے والے ریاستی ادارے۔ علیحدگی پسند گروہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق جبری اور غیر فطری ہے، اس لیے وہ ایک مکمل آزاد بلوچستان کے حصول کے لیے برسرپیکار ہیں، اسی کو وہ اپنی حتمی منزل قرار دیتے ہیں، اس سے کم وہ کسی نقطے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

دوسری طرف پاکستانی ریاست بلوچستان کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتی ہے، اور ظاہر ہے کوئی بھی ریاست اس طرح کے مسلح گروہوں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھ سکتی۔ عالمی طاقتوں کے منڈیوں کے حصول کی جدوجہدکی گریٹ گیم اپنی جگہ، لیکن جب تک اسے خالصتاََ اندرونی تضادات کے پس منظر میں نہیں دیکھا جاتا، تب تک کسی ممکنہ حل کی جانب پیش رفت بھی ممکن نہیں۔

اب جب یہ طے ہو کہ یہ فریقین کے مابین جنگ کا معاملہ ہے تو پھر آگے یہ تلخ حقیقت منہ چڑاتی ہوئی ملتی ہے کہ جنگ کا کوئی اصول، کوئی قاعدہ، کوئی قانون، کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ جنگ بنیادی طور پر ایک غیر اخلاقی سرگرمی ہے، اس سے کسی قسم کی اخلاقیات کی توقع ہی عبث ہے۔ دنیا کی تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی جنگ میں عالمی انسانی اصولوں کی پاسداری کی گئی ہو۔ ایسے اصول بنانے اور انھیں نبھانے کے لیے فیڈل کاسٹرو جیسی فکر، ماؤزے تنگ جیسی حکمت عملی اور منڈیلا جیسا عمل چاہیے۔

طاقت کو ہر مسئلے کا حل سمجھنے والی ریاستی قوتوں اور نیم خانہ بدوشانہ معاشرے میں تحریک چلانے والوں سے ابھی نہ ایسی کوئی توقع کی جا سکتی ہے، نہ کوئی مطالبہ۔ سو ایسی جنگ میں فریقین کی تمام تر توجہ ایک دوسرے کو ممکنہ نقصان پہنچانے اور نیچا دکھانے پہ ہوتی ہے۔ کمزور ترین ہدف سب سے پہلے نشانہ بنتا ہے۔ اور ایک عام آدمی سے بڑھ کر کمزور ترین ہدف کیا ہو سکتا ہے، جس کے لیے نہ کوئی آواز اٹھانے والا ہو ،نہ کوئی اشک بہانے والا۔ وہ خاک نشیں، جن کا لہو رزقِ خاک ہو جاتا ہے، جنھیں نہ کوئی مدعی ملتا ہے نہ منصف اور ان کا حساب پاک ہو جاتا ہے۔ اور اس تلخ حقیقت کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ کمزور ترین ہدف کو نشانہ بنانے کی اس بے اصول حکمت عملی میں پہل ریاستی اداروں کی جانب سے کی گئی۔

جب اکبر بگٹی کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاج کے جرم میں سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا، جن کے لواحقین آج تک اپنے پیاروں کا پتہ پوچھتے پھر رہے ہیں۔ اسی کے ردِ عمل میں پھربالخصوص کوئٹہ او ر اندرونِ بلوچستان میں عام پنجابیوں کے قتلِ عام کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے سامنے پھر کوئی بند نہ باندھا جا سکا۔ طاقت کے ذریعے ہر بغاوت کو کچل ڈالنے کی نفسیات کی حامل اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ چھ برسوں میں طاقت کی استعمال کی ۔

مسلح تنظیموں کے سامنے مسلح تنظیمیں کھڑی کی گئیں، علیحدگی پسندوں کے اندر پھوٹ ڈال کر ان کے مرکزی کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ کے رکھ دی،لیکن تحریک ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ بلوچستان کو مٹھی بھر شر پسندوں کا مسئلہ قرار دینے والے بھول بیٹھے کہ اب کے یہ تحریک خود رو طور پر عوام میں اپنی جڑیں بنا چکی ہے۔اور جب کوئی تحریک عوام میں چلی جائے تو کوئی طاقت ان کی جڑوں کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتی۔ اس پہ وقتی طور پر تو قابو پایا جا سکتا ہے ، اس کی جڑوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا۔

سو بلوچستان میں یہ جو اب عام پنجابیوں کی لاشیں گر رہی ہیں، یہ دراصل ردِ عمل ہیں اس ریاستی پالیسی کا جس کے تحت بلوچستان میں آپریشن ہورہا ہے اور اصول یہ ہے کہ آپ عمل پہ قابو پالیں، ردِ عمل ازخود رک جائے گا۔ بلوچوں کا سرداروں کے ہاتھوں کھیلنے کا طعنہ بھی اب گھسا پٹا ہوچکا۔ یہ دلیل اب یوں بھی اپنا اثر کھو چکی کہ بلوچستان کے سبھی سردار، ماسوائے ایک کے، پارلیمنٹ میں موجود ہیں، اور یہ سبھی بلوچستان کے حقوق کی لڑائی پاکستانی وفاق کے اندر رہتے ہوئے، پارلیمانی نظام کے ذریعے لڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ پچاس ہزار کے حلقے میں پانچ ووٹ لینے والے کو بھلا کس طرح عوام کا نمایندہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا کہ پہاڑ نشیں علیحدگی پسندوں کو تمام بلوچستان یا ہر بلوچ کی حمایت حاصل ہے، لیکن اتنا ضرور کہاجا سکتا ہے کہ وسیع عوامی حمایت کے بغیر ایسی کارروائیوں کا تسلسل سے جاری رہنا ممکن بھی نہیں۔

یاد رہے کہ سیکیورٹی اداروں نے مچھ میں دو روزہ کارروائیوں کے دوران چار افراد کو ہلاک کیا گیا، جن پہ مسلح کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ لیکن ساتھ ہی چودہ اگست کے روز تربت میں ایک کارروائی کے دوران ایک سیاسی تنظیم بلوچ نیشنل موومنٹ کے ایک رہنما اور طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل کو قتل کر دیاگیا۔ ملکی اخبارات میں انھیں دہشت گرد لکھا گیا، جب کہ بلوچ عوام نے انھیں شہید کہا۔

سو یہ طے ہے کہ جب تک عام بلوچ محفوظ نہیں، تب تک بلوچستان میں عام پنجابی بھی محفوظ نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں عام پنجابی یا عام بلوچ نہیں مررہا، سچائی مر رہی ہے۔ ہم اور آپ اس پہ آہ و زاری کر سکتے ہیں، اس کی مذمت تو کر سکتے ہیں، لیکن اسے تب تک نہیں روکا جا سکتا ، جب تک حقیقی قوتیں اس کا حل نہ چاہئیں۔اصل قوت ریاست ہے، ریاست سپریم ہوتی ہے، اس لیے اس کی ذمے داریاں بھی سپریم بھی ہوتی ہیں۔ جب تک ریاستی ادارے طاقت کا استعمال بند نہیں کریں گے، فریقِ مخالف سے اس کی توقع اور مطالبہ عبث ہی رہے گا۔ حتمی حل بات چیت ہی ہے، لیکن اس کے بامعنی ہونے کی ضمانت دیے بنا بھی اس کی جانب پیش رفت ممکن نہیں۔

باقی جن کا خیال ہے کہ آبادی کے لحاظ سے کمزور بلوچوں پہ طاقت کے ذریعے قابو جا سکتا ہے، وہ یہ لکھ لیں کہ جب تک بلوچستان میں ایک بھی بلوچ غیر مطمئن ہے، بلوچستان پہ کتنی ہی یورش کر لی جائے، یہ شورش جاری رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں