کچھ باتیں دہشت گردوں سے
ہمارا ملک آج کل شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جو کسی بلا یا آفت سے کم نہیں اور ہر خاص و عام محب وطن شہری...
ہمارا ملک آج کل شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جو کسی بلا یا آفت سے کم نہیں اور ہر خاص و عام محب وطن شہری اس وجہ سے ذہنی و نفسیاتی دباؤ اور تشویش کا شکار ہے۔ یقیناً یہ ایک فطری عمل ہے جس کی وجہ سے تشویش کا اظہار ہونا لازم و ملزوم ہے۔ اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے، سمجھ نہیں آتا کہ دہشت گرد (جن کا زیادہ تر تعلق جہادی، مذہبی تنظیموں سے ہوتا ہے) آخر کیوں اس ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کے شہری وہ خود بھی ہیں۔ مثلاً افغانی طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان ہوں، سب مسلمان ہی تو ہیں، غیر مسلم تو نہیں۔
پھر کیوں انھوں نے اس دہشت گردی کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے؟ میں ان سے صرف اتنی درخواست کرسکتا ہوں، التجا کرسکتا ہوں، عاجزی اختیار کرسکتا ہوں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں، صرف جذبات کی رو میں نہ بہیں، ورنہ یہ طوفان دہشت گردی آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ کیا تم یہ نہیں جانتے کہ ''ہر فرعون را موسیٰ'' اور وہ موسیٰ تم ہی میں سے ابھرے گا۔ ارے جذباتیو! جذبات کی تشنگی کو اس طرح نہ بجھاؤ کہ انسانوں (وہ بھی بے گناہ انسان) کے خون کے پیاسے بن جاؤ۔ ہوش سے کام لو جوش سے نہیں۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ پانی کو حد سے زیادہ جوش دیا جائے تو وہ بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔
اس کا اصل وجود ختم ہوجاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی دہشت گردی کی جوشیلی آگ میں جل کر راکھ نہ ہوجاؤ۔ اگر اپنے جذبات کا جوش دکھانا چاہتے ہو تو اٹھو میدان جنگ میں جاکر اپنا جذبہ و جوش دکھاؤ، کیوں ان بے گناہ انسانوں کو مارکر، ان کی املاک تباہ کرکے، ان کے تعلیمی ادارے تباہ کرکے، غریبوں کی بستیاں اجاڑ کر، نظام حکومت کو تباہ و برباد کرکے، امن و امان کو تہہ و بالا کرکے اپنی غیرت و فطری جذبات کو استعمال کرتے ہو، فطری طور پر تو انسان، انسانیت کی خدمت کے لیے اتارا گیا ہے۔
کیا قرآن نے یہ پیغام نہیں دیا کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ، ایک دوسرے کا خون نہ بہاؤ۔ باز آجاؤ اپنے اس عمل سے، نہ جھٹلاؤ قدرت کے شرعی نظام اور شریعت کو، ورنہ معصوم جانوں کو جنت میں جگہ بنانے کی ترغیب دینے والو! تم خود ہی جہنم کا ایندھن نہ بن جاؤ۔ یہ میرا پیغام صرف لفاظی نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے اور اس کو ماننا اور اس پر یقین رکھنا ہی ہمارا ایمان ہے، دین ہے، اسلام ہے، اس میں کسی حیل وحجت کی گنجائش نہیں ہے، کوئی دورائے ہو ہی نہیں سکتی۔
ہم نے تو اپنے دور میں دہشت گردوں کو بھوپت ڈاکو، سلطانہ ڈاکو، شیرو، دادل وغیرہ وغیرہ کے ناموں سے جانا تھا لیکن تم کیسے دہشت گرد ہو۔ تمہارے نام عبداﷲ محسود، حکیم اﷲ محسود وغیرہ ہیں، اس لیے تم لوگ اپنے ناموں سے مسلمان تو ہوسکتے ہو، دہشت گرد نہیں، ہم تو تمہیں مسلمان مانتے ہیں لیکن دہشت گرد ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن تمہاری تنظیموں نے، گروپس نے اور تمہارے مشن نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ تمہارا عمل و مشن دہشت گردی کے سوا اور کچھ نہیں۔
کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کے سب سے بڑے دشمن، سپر پاور کہلانے والا امریکا کبھی تمہیں اپنی ناپاک عزائم کا آلہ کار بنالیتا ہے تو کبھی تمہیں ملک اور قوم کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے تم پر حملے کرتا ہے۔ تم پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لے لیتے ہو تو وہ تمہیں ڈرون حملوں کا نشانہ بناتا ہے۔ جس میں اصل نشانہ تو شکار ہوتا نہیں بلکہ بے گناہ انسانوں کا خون بہتا ہے۔ ان بے گناہوں کی بستیاں اجڑ جاتی ہیں۔ افسوس کہ تم ان بے گناہوں کا خون بہنے میں رکاوٹ بنتے، اپنی جانوں کو محفوظ مقامات پر روپوش ہوکر بچاتے ہو۔ واہ! کیا خوب خدمت کررہے ہو دین اسلام کی۔
دیکھا آپ نے ''دہشت گردوں'' کے اعمال کی عکاسی، کیا اب بھی ہم انھیں اپنا دوست، محب وطن اور وطن کی سلامتی کے لیے جان نچھاور کرنے والے تصور کریں۔ ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔ جن بے گناہوں کا تم خون بہا رہے ہو، ان کی املاک تباہ کررہے ہو، ان کے تعلیمی ادارے تباہ کررہے ہو۔ نوجوان طلبا و طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے ان سے تعلیم کا زیور چھیننا چاہتے ہو، یہ کیسا نظام لانا چاہتے ہو، جو نہ دین کا ہے اور نہ دنیا کا، نہ مسلمان کا نہ کافر کا۔ یہ تو صرف اور صرف جاہلانہ، ظالمانہ اور جبر کا نظام ہوگا۔ اب بھی وقت ہے سدھرجاؤ۔ اپنی روش بدل ڈالو۔
اپنے آپ کو بدل ڈالو۔ حکومتی اداروں، اہلکاروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اہلکاروں، جوانوں اور سپاہیوں کو ہلاک نہ کرو، اس سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، سوائے اس کے کہ ملک وقوم تباہ ہوجائیں گے اور تمہارا حشر بھی اس سے کچھ مختلف نہ ہوگا۔ اگر ملک ہی نہ رہے گا (خدانخواستہ) تو پھر تم کس پر حکومت کروگے؟ تم کیا جانو مظلوموں کے دلوں سے جو آہ نکل رہی ہے وہ کتنا اثر رکھتی ہے۔ اگر تمہیں اس بات کا ادراک ہوتا تو تم کبھی ''دیندار'' سے ''دہشت گرد'' نہ بنتے، بات ہے سمجھنے کی اب بھی سمجھ لو، ہتھیار پھینکو، خودکش جیکٹس اتار پھینکو، آسمان پر پرواز کرنے کے بجائے فرش پر قدم جمالو، دنیا بھی سدھر جائے گی اور آخرت بھی۔ دوسروں کو جنت میں پہنچانے کی ترغیبات سے باز آجاؤ۔ جھوٹ پر جو معاشرہ قائم ہوتاہے وہ کبھی پنپ نہیں سکتا۔ حق وصداقت پر مبنی معاشرہ ہی ابدی ہوتا ہے۔
انسان کے اعمال کے ذریعے ہی جنت بھی ملتی ہے اور جہنم بھی۔ سوچ لو اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ جنت میں جگہ بنانا چاہتے ہو یا دوزخ کا ایندھن بننا چاہتے ہو، جھوٹ فریب، ظلم وجبر، دہشت کے نظام کو لانے کا خیال دل سے نکال دو۔ خلق خدا کا جب نقارہ بجے گا تو آج تم جن بے گناہوں کا خون بہارہے ہو کل وہ تمہارا خون بہائیں گے۔ کیونکہ ''تنگ آمد بجنگ آمد'' اگر تم کمزور کو ایک تھپڑ ماروگے تو وہ تمہیں مرنے سے پہلے چار تھپڑ ضرور مارے گا۔ ملک وقوم کو تباہی کے راستے پر نہ ڈالو۔ سیدھی راہ پر چلو اور دوسروں کو بھی سیدھی راہ پر چلنے دو۔
اﷲ تعالیٰ تمہیں نیک توفیق وہدایت دے اور ملک وقوم کو تباہی سے بچالے (آمین)۔ تمہاری ان انسانیت سوز حرکات سے ملک کا صرف امن و امان ہی تباہ نہیں ہورہاہے بلکہ ملک کی معیشت بھی زمین بوس ہورہی ہے۔ مہنگائی، غربت، بیروزگاری، خودکشیوں کا راج ہورہا ہے، یہ سب تمہاری کارستانیوں کا خمیازہ ہے جو ملک وقوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ تب ہی ممکن ہے کہ جب تم آپس میں ایک ہوجاؤ، گروپ بندی بند کرو، اپنی اپنی مرضی کے مطابق تحریکیں نہ چلاؤ، کوئی انقلابی، کوئی لادینی وغیرہ وغیرہ نہ کہلاؤ، بس مسلمان ہو، مسلمان ہی رہو۔ حقیقی اسلامی عقائد کا پرچار کرو، کوئی غیر اسلامی نظام شریعت یا عقائد کی پیروی نہ کرو۔ کیا اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہوکہ جب ہاتھ کی پانچ انگلیاں الگ الگ ہوتی ہیں تو کوئی طاقت نہیں رکھتیں اور جب پانچوں مل کر ''مٹھی'' بن جاتی ہے تو طاقتور ہوجاتی ہیں۔ آخری بات یہی کہوںگا کہ ''دہشت گردی'' چھوڑدو، محبت واخوت کا پرچم بلند کردو، اسی میں ملک وقوم کی فلاح وسلامتی ہے، ملک کی سلامتی افضل ہے۔