پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر چھپی ہوئی تاریخ
پاکستان کی تاریخ جاننے کے کئی ذریعے ہیں۔اس کالم میں یہ ذریعہ پاکستان کے کرنسی نوٹ ہیں۔ان نوٹوں کے شایع ہونے کی...
پاکستان کی تاریخ جاننے کے کئی ذریعے ہیں۔اس کالم میں یہ ذریعہ پاکستان کے کرنسی نوٹ ہیں۔ان نوٹوں کے شایع ہونے کی ترتیب میں ہی پاکستان کی تاریخ بھی مرتب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔خطے کے حالات بدلے،تو نوٹوں کے رنگ،ڈیزائن اورہندسے بدلے۔کبھی حکومتیں بدلیں اورکبھی حکمران بدلے۔ اس بدلاؤ میں نوٹوں کی مالیت کم اورزیادہ ہوتی رہی۔موجودہ دور میں تو صرف مالیت کاگراف نیچے ہی جارہاہے۔ان کرنسی نوٹوں کاملکی نفسیات اوررویوں سے بھی گہراتعلق ہے،اس پہلو پر پھر کبھی بات کریں گے۔
قیامِ پاکستان کے وقت سب سے پہلے جن کرنسی نوٹوں کا استعمال ہوا،وہ ریزروبینک آف انڈیاکے جاری کردہ تھے۔ یہ بینک غیر منقسم ہندوستان کی ملکیت تھا۔تقسیم کے فوراً بعد پاکستان میں اس بینک کے جاری شدہ ایک،دو،پانچ ،دس اور سو روپے کے نوٹ استعمال کیے گئے،البتہ ان کرنسی نوٹوں کی پیشانی پر انگریزی اوراردو زبان میں حکومت پاکستان بھی درج تھا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ان نوٹوں کااستعمال 30ستمبر1948تک ہوا۔ان نوٹوں کی پیشانی پر غیرمنقسم ہندوستان کے گورنر جنرل کی تصویر چھپی ہوئی تھی،جب کہ پشت پر مختلف تصاویر شایع کی گئیں،مثال کے طور پر پانچ روپے کے نوٹ پر ہرن ،دس روپے کے نوٹ پرکشتی، سوروپے کے نوٹ پر چیتے کے منہ والی تصویر چھاپی گئی ،ان نوٹوں کارنگ ہلکاسبز اورنیلاتھا۔
چھپائی کے اعتبار سے مجموعی طور پر پاکستانی کرنسی نوٹوں کے چھ مرکزی اورتین ذیلی ادوار ہیں۔مرکزی ادوار میں پہلادور اسے کہاجاسکتاہے،جب پاکستان معرض وجود میں آیا تقریباً ایک برس تک پاکستانی عوام نے غیرمنقسم ہندوستان کے مرکزی بینک آف انڈیا کے چھاپے ہوئے نوٹ استعمال کیے۔قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ان نوٹوں کی اشاعت کادوسرا دور یکم اکتوبر1948سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت بینک دولت پاکستان نے اپنے کرنسی نوٹ چھاپے۔
تیسرے دورمیں،یکم مارچ 1949سے لے کر پندرہ ستمبر1953تک مزید نئے کرنسی نوٹ چھاپے گئے۔چوتھا دور 1956سے 1970تک کاہے،جس میں پہلی مرتبہ کرنسی نوٹوں کی پیشانی پرقائداعظم محمد علی جناح کی تصویر شایع کی گئی۔پانچواںدورمشرقی پاکستان کے جداہونے کے بعد 1974 سے 1988تک کاہے،جس میں پاکستانی کرنسی پر چھپنے والے بنگالی زبان کے حروف ختم کیے گئے۔چائے کے باغات ،دریاؤں اورکشتیوں کی تصاویر ہٹادی گئیں۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بنگالی بھائیوں کو ،حکومت وقت سے بنگالی زبان کوفروغ نہ دینے کی شکایت تھی،لیکن کرنسی نوٹوں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے ،مشرقی پاکستان کے تاریخی مقامات اورعلامتیں اورزبان سب کو کرنسی نوٹوں پر یکساں حیثیت میں جگہ دی گئی۔پاکستانی کرنسی نوٹوں کا چھٹا دور حالیہ دور ہے۔ 13 اگست 2005میں نئے کرنسی نوٹ متعارف کروائے گئے،ابھی تک یہی نوٹ قابل استعمال ہیں۔
ان چھ ادوار کے علاوہ کرنسی نوٹوں کی اشاعت کے تین ذیلی ادوار بھی ہیں۔پہلاذیلی دور1950سے 1978تک کاہے،جس میں حاجیوں کی سفری دشواریوں کومدنظر رکھتے ہوئے مخصوص کرنسی چھاپی گئی،جس کااستعمال صرف حج کے لیے ممکن تھا۔ اس وقت دس اورسوروپے کے خصوصی نوٹ چھاپے گئے،جن کی پشت پر شالیمار باغ،موہنجو داڑوکے آثار قدیمہ اوراسلامیہ کالج کی تصویریں چھاپی گئیں۔دوسرا ذیلی دور 1971میں مشرقی پاکستان میں برپاہونے والی خانہ جنگی کاہے، جس میں حکومت پاکستان نے کئی کرنسی نوٹ منسوخ کر کے نئے نوٹ چھاپے۔تیسرا ذیلی دور 1997کابرس ہے، جس میں پاکستان کے قیام کے پچاس برس مکمل ہونے پر پانچ روپے کاخصوصی نوٹ چھاپاگیا۔اس خاص نوٹ کی پشت پر ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی تصویر شایع کی گئی۔
مختلف ادوار میں چھاپے گئے ان نوٹوں کاپس منظر اوردیگر تفصیلات بھی بہت دلچسپ ہیں۔پاکستانی کرنسی صرف لین دین کے استعمال تک ہی محدود نہیں رہی،بلکہ پاکستان کی عمارتی تاریخ کاچلتا پھرتا البم بھی ہے۔یہ کرنسی نوٹ ہم سب روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں،مگر ہم نے کبھی ان کرنسی نوٹوں کی بناوٹ پر غور نہیں کیا۔بینک دولت پاکستان کے تحت1948میں جب ہنگامی حالت میں 5،10 اور سو روپے کے نوٹ چھاپے گئے،تو ان کی بناوٹ قابل دید تھی۔ پانچ روپے کانوٹ گہرے نیلے رنگ کاتھا۔
دس روپے کانوٹ نارنجی اورسوروپے کانوٹ گہرے سبز رنگ کاتھا۔ان سب نوٹوں کی پیشانی پر دائیں طرف چاند ستارہ بناہواتھااوربائیں طرف رقم کاہندسہ در ج تھا۔درمیان میں اردو میں رقم لکھی ہوئی تھی۔1949میں جونئے نوٹ چھاپے گئے،ان میں ایک اوردوروپے کے نوٹ تھے۔ایک روپے کانوٹ ہرے رنگ کاتھا۔اس کی پیشانی پر چاندستارہ جب کہ پشت پر شاہی قلعے میں بنے ہوئے ''نولکھاسائبان''کی تصویر تھی۔دوروپے کے نوٹ کی پیشانی پر مقبرہ ٔ جہانگیر کامیناراورپشت پر بادشاہی مسجد کی تصویر تھی۔ان کے علاوہ پانچ،دس اورسوروپے کے نئے نوٹ جب ڈیزائن کیے گئے،تو ان میں صرف سوروپے والے نوٹ کے ڈیزائن کو اسٹیٹ بینک کی عمارت کی تصویرکی وجہ سے مستردکیاگیا،کیونکہ یہ عمارت کرایے کی تھی۔
اسی طرح 1951میںپانچ ،دس اورسوروپے کے مزید نئے نوٹ جاری کیے گئے۔پانچ روپے کے نوٹ کی پشت پرخیبر پاس کی تصویر چھاپی گئی۔دس روپے کے نوٹ کی پیشانی پر شالیمار باغ اورپشت پرمکلی کے مقبرے کی تصویر کوشایع کیاگیا۔اسی برس ایک سو روپے کانوٹ بھی چھاپا گیا، یہ سرخ رنگ کاسادہ نوٹ تھا،جس پر کسی عمارت کی کوئی تصویر نہیں تھی۔اسی دہائی میں نوٹوں کی نئی سیریز چھاپی گئی،جس میں پہلی مرتبہ قائداعظم محمد علی جناح کی تصاویر کو کرنسی نوٹوں کی پیشانی کی زینت بنایاگیا۔مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے موقعے پر پرانے نوٹ منسوخ ہوئے اوراس کے بعد نوٹوں کی نئی سیریز چھاپی گئی۔
یہ وہ موڑ تھا،جہاں ہماری تاریخ ہرپہلو سے دوحصوں میں تقسیم ہورہی تھی۔اس وقت پانچ،دس اورپچاس کے نوٹ جاری کیے گئے۔ان سب کی بناوٹ یکساں مگر رنگ مختلف تھے۔ایک روپے کے نوٹ کارنگ بادامی،دوروپے کے نوٹ کارنگ ہلکاخاکی،دس روپے کے نوٹ کارنگ سبز اورپچاس روپے کے نوٹ کا رنگ نیلاتھا۔سوروپے کے نوٹ کی پیشانی پر قائداعظم کی تصویر اورپشت پر بادشاہی مسجد تھی۔اس وقت تک بھی نوٹوں پر بنگالی زبان میں لکھے ہوئے حروف موجود تھے۔1974میں جب نئے نوٹوں کی سیریز جاری ہوئی،توان نوٹوں پر سے بنگالی زبان کے حروف سمیت،کشتی،دریا اورچائے کے باغات کی تصاویر بھی ہٹائی گئیں۔اسی دکھ کو فیض نے لکھاتھاکہ ''ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد۔''
پاکستانی کرنسی کے چوتھے دور میں جو نوٹ جاری کیے گئے،وہ پھر ایک طویل عرصے تک استعمال ہوتے رہے۔کبھی کبھی اس دوران کوئی نیا نوٹ بھی جاری ہوجاتا۔اس عرصے میں جو سب سے پہلانوٹ جاری ہوا،وہ ایک روپے کا نیلا نوٹ تھا۔اس کے نیچے پنجابی،سندھی،بلوچی اورپشتو زبان میں ایک روپیہ لکھاہواتھا،جب کہ نوٹ کے درمیانی حصے میں اردو میں بینک دولت پاکستان ،ایک روپیہ اوراسٹیٹ بینک کے گورنر کانام درج تھا۔اس نوٹ کی پشت پر مینار پاکستان کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔اس کے بعد مختلف برسوں میں ایک،دو،پانچ ،دس ،ایک سو،پانچ سو اورایک ہزار روپے کے نئے نوٹ بھی جاری ہوئے۔اس عرصے کے بعد جو آٹھ کرنسی نوٹ چھاپے گئے۔یہ نوٹ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال میں رہنے والے نو ٹ تھے۔اس کرنسی نوٹوں کی سیریز میں ایک روپے اور دو روپے کے نوٹوں کی پیشانی پر چاند ستارہ تھا،جب کہ ایک روپے کی پشت پر علامہ اقبال کامزاراوردوروپے کے نوٹ پر بادشاہی مسجد کی تصویر تھی۔
نوٹوں کی اس سیریز میں ان دونوٹوں کے علاوہ آج تک شایع ہونے والی نوٹوں کی پیشانی پر قائداعظم کی تصویر چھپتی ہے اوران کرنسی نوٹوں کی پشت پر مختلف عمارتوں کی تصاویر چھاپی گئیں۔ نئے نوٹوں کی اس سیریز کو ستر کی دہائی میں جب چھاپا گیا تو 5 روپے کے نوٹ کی پشت پر بلوچستان کے کوجک ٹنل ،دس روپے کے نوٹ پر سندھ کاآثار قدیمہ موہنجوداڑو،پچاس روپے کے نوٹ پر پنجاب کے شاہی قلعہ کے عالمگیری دروازہ،سوروپے کے نوٹ پر خیبرپختون خوا کے اسلامیہ کالج ،پانچ سوروپے کے نوٹ پر مرکزی آفس اسٹیٹ بینک آف پاکستان اورہزار کے نوٹ پر مقبرہ جہانگیر کی تصویر تھی۔
موجودہ دور میں استعمال ہونے والی کرنسی نوٹوں کی سیریز میں نوٹوں کی پشت پر جو مختلف تاریخی عمارتوں کی تصویریں چھاپی گئی ہیں،ان میں گوادر پورٹ، خیبر پاس، موہنجوداڑو کے آثارقدیمہ،کے ٹو چوٹی،قائداعظم ریذیڈینسی زیارت،بادشاہی مسجدلاہور،اسلامیہ کالج پشاوراورفیصل مسجد، اسلام آبادکی تصویریں چھپی ہوئی ہیں۔مدھم اورگاڑھے نیلے، ہلکے اورگہرے سبز ،سرخ اورنارنجی رنگوں کوان نوٹوں میں استعمال کیاگیاہے۔اس سیریز کے نوٹوں میں بیس روپے اور پانچ ہزار روپے میں رنگ اوربناوٹ کی مشابہت کی وجہ سے اکثر لوگوں کو پریشانی کاسامنا رہتاہے۔اس کے علاوہ تمام نوٹ جاذب نظر ہیں ۔
نوٹ:اس کالم میں پیش کردہ اعدادوشمار کے لیے میں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ سے استفادہ کیاہے۔
قیامِ پاکستان کے وقت سب سے پہلے جن کرنسی نوٹوں کا استعمال ہوا،وہ ریزروبینک آف انڈیاکے جاری کردہ تھے۔ یہ بینک غیر منقسم ہندوستان کی ملکیت تھا۔تقسیم کے فوراً بعد پاکستان میں اس بینک کے جاری شدہ ایک،دو،پانچ ،دس اور سو روپے کے نوٹ استعمال کیے گئے،البتہ ان کرنسی نوٹوں کی پیشانی پر انگریزی اوراردو زبان میں حکومت پاکستان بھی درج تھا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ان نوٹوں کااستعمال 30ستمبر1948تک ہوا۔ان نوٹوں کی پیشانی پر غیرمنقسم ہندوستان کے گورنر جنرل کی تصویر چھپی ہوئی تھی،جب کہ پشت پر مختلف تصاویر شایع کی گئیں،مثال کے طور پر پانچ روپے کے نوٹ پر ہرن ،دس روپے کے نوٹ پرکشتی، سوروپے کے نوٹ پر چیتے کے منہ والی تصویر چھاپی گئی ،ان نوٹوں کارنگ ہلکاسبز اورنیلاتھا۔
چھپائی کے اعتبار سے مجموعی طور پر پاکستانی کرنسی نوٹوں کے چھ مرکزی اورتین ذیلی ادوار ہیں۔مرکزی ادوار میں پہلادور اسے کہاجاسکتاہے،جب پاکستان معرض وجود میں آیا تقریباً ایک برس تک پاکستانی عوام نے غیرمنقسم ہندوستان کے مرکزی بینک آف انڈیا کے چھاپے ہوئے نوٹ استعمال کیے۔قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ان نوٹوں کی اشاعت کادوسرا دور یکم اکتوبر1948سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت بینک دولت پاکستان نے اپنے کرنسی نوٹ چھاپے۔
تیسرے دورمیں،یکم مارچ 1949سے لے کر پندرہ ستمبر1953تک مزید نئے کرنسی نوٹ چھاپے گئے۔چوتھا دور 1956سے 1970تک کاہے،جس میں پہلی مرتبہ کرنسی نوٹوں کی پیشانی پرقائداعظم محمد علی جناح کی تصویر شایع کی گئی۔پانچواںدورمشرقی پاکستان کے جداہونے کے بعد 1974 سے 1988تک کاہے،جس میں پاکستانی کرنسی پر چھپنے والے بنگالی زبان کے حروف ختم کیے گئے۔چائے کے باغات ،دریاؤں اورکشتیوں کی تصاویر ہٹادی گئیں۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بنگالی بھائیوں کو ،حکومت وقت سے بنگالی زبان کوفروغ نہ دینے کی شکایت تھی،لیکن کرنسی نوٹوں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے ،مشرقی پاکستان کے تاریخی مقامات اورعلامتیں اورزبان سب کو کرنسی نوٹوں پر یکساں حیثیت میں جگہ دی گئی۔پاکستانی کرنسی نوٹوں کا چھٹا دور حالیہ دور ہے۔ 13 اگست 2005میں نئے کرنسی نوٹ متعارف کروائے گئے،ابھی تک یہی نوٹ قابل استعمال ہیں۔
ان چھ ادوار کے علاوہ کرنسی نوٹوں کی اشاعت کے تین ذیلی ادوار بھی ہیں۔پہلاذیلی دور1950سے 1978تک کاہے،جس میں حاجیوں کی سفری دشواریوں کومدنظر رکھتے ہوئے مخصوص کرنسی چھاپی گئی،جس کااستعمال صرف حج کے لیے ممکن تھا۔ اس وقت دس اورسوروپے کے خصوصی نوٹ چھاپے گئے،جن کی پشت پر شالیمار باغ،موہنجو داڑوکے آثار قدیمہ اوراسلامیہ کالج کی تصویریں چھاپی گئیں۔دوسرا ذیلی دور 1971میں مشرقی پاکستان میں برپاہونے والی خانہ جنگی کاہے، جس میں حکومت پاکستان نے کئی کرنسی نوٹ منسوخ کر کے نئے نوٹ چھاپے۔تیسرا ذیلی دور 1997کابرس ہے، جس میں پاکستان کے قیام کے پچاس برس مکمل ہونے پر پانچ روپے کاخصوصی نوٹ چھاپاگیا۔اس خاص نوٹ کی پشت پر ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی تصویر شایع کی گئی۔
مختلف ادوار میں چھاپے گئے ان نوٹوں کاپس منظر اوردیگر تفصیلات بھی بہت دلچسپ ہیں۔پاکستانی کرنسی صرف لین دین کے استعمال تک ہی محدود نہیں رہی،بلکہ پاکستان کی عمارتی تاریخ کاچلتا پھرتا البم بھی ہے۔یہ کرنسی نوٹ ہم سب روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں،مگر ہم نے کبھی ان کرنسی نوٹوں کی بناوٹ پر غور نہیں کیا۔بینک دولت پاکستان کے تحت1948میں جب ہنگامی حالت میں 5،10 اور سو روپے کے نوٹ چھاپے گئے،تو ان کی بناوٹ قابل دید تھی۔ پانچ روپے کانوٹ گہرے نیلے رنگ کاتھا۔
دس روپے کانوٹ نارنجی اورسوروپے کانوٹ گہرے سبز رنگ کاتھا۔ان سب نوٹوں کی پیشانی پر دائیں طرف چاند ستارہ بناہواتھااوربائیں طرف رقم کاہندسہ در ج تھا۔درمیان میں اردو میں رقم لکھی ہوئی تھی۔1949میں جونئے نوٹ چھاپے گئے،ان میں ایک اوردوروپے کے نوٹ تھے۔ایک روپے کانوٹ ہرے رنگ کاتھا۔اس کی پیشانی پر چاندستارہ جب کہ پشت پر شاہی قلعے میں بنے ہوئے ''نولکھاسائبان''کی تصویر تھی۔دوروپے کے نوٹ کی پیشانی پر مقبرہ ٔ جہانگیر کامیناراورپشت پر بادشاہی مسجد کی تصویر تھی۔ان کے علاوہ پانچ،دس اورسوروپے کے نئے نوٹ جب ڈیزائن کیے گئے،تو ان میں صرف سوروپے والے نوٹ کے ڈیزائن کو اسٹیٹ بینک کی عمارت کی تصویرکی وجہ سے مستردکیاگیا،کیونکہ یہ عمارت کرایے کی تھی۔
اسی طرح 1951میںپانچ ،دس اورسوروپے کے مزید نئے نوٹ جاری کیے گئے۔پانچ روپے کے نوٹ کی پشت پرخیبر پاس کی تصویر چھاپی گئی۔دس روپے کے نوٹ کی پیشانی پر شالیمار باغ اورپشت پرمکلی کے مقبرے کی تصویر کوشایع کیاگیا۔اسی برس ایک سو روپے کانوٹ بھی چھاپا گیا، یہ سرخ رنگ کاسادہ نوٹ تھا،جس پر کسی عمارت کی کوئی تصویر نہیں تھی۔اسی دہائی میں نوٹوں کی نئی سیریز چھاپی گئی،جس میں پہلی مرتبہ قائداعظم محمد علی جناح کی تصاویر کو کرنسی نوٹوں کی پیشانی کی زینت بنایاگیا۔مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے موقعے پر پرانے نوٹ منسوخ ہوئے اوراس کے بعد نوٹوں کی نئی سیریز چھاپی گئی۔
یہ وہ موڑ تھا،جہاں ہماری تاریخ ہرپہلو سے دوحصوں میں تقسیم ہورہی تھی۔اس وقت پانچ،دس اورپچاس کے نوٹ جاری کیے گئے۔ان سب کی بناوٹ یکساں مگر رنگ مختلف تھے۔ایک روپے کے نوٹ کارنگ بادامی،دوروپے کے نوٹ کارنگ ہلکاخاکی،دس روپے کے نوٹ کارنگ سبز اورپچاس روپے کے نوٹ کا رنگ نیلاتھا۔سوروپے کے نوٹ کی پیشانی پر قائداعظم کی تصویر اورپشت پر بادشاہی مسجد تھی۔اس وقت تک بھی نوٹوں پر بنگالی زبان میں لکھے ہوئے حروف موجود تھے۔1974میں جب نئے نوٹوں کی سیریز جاری ہوئی،توان نوٹوں پر سے بنگالی زبان کے حروف سمیت،کشتی،دریا اورچائے کے باغات کی تصاویر بھی ہٹائی گئیں۔اسی دکھ کو فیض نے لکھاتھاکہ ''ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد۔''
پاکستانی کرنسی کے چوتھے دور میں جو نوٹ جاری کیے گئے،وہ پھر ایک طویل عرصے تک استعمال ہوتے رہے۔کبھی کبھی اس دوران کوئی نیا نوٹ بھی جاری ہوجاتا۔اس عرصے میں جو سب سے پہلانوٹ جاری ہوا،وہ ایک روپے کا نیلا نوٹ تھا۔اس کے نیچے پنجابی،سندھی،بلوچی اورپشتو زبان میں ایک روپیہ لکھاہواتھا،جب کہ نوٹ کے درمیانی حصے میں اردو میں بینک دولت پاکستان ،ایک روپیہ اوراسٹیٹ بینک کے گورنر کانام درج تھا۔اس نوٹ کی پشت پر مینار پاکستان کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔اس کے بعد مختلف برسوں میں ایک،دو،پانچ ،دس ،ایک سو،پانچ سو اورایک ہزار روپے کے نئے نوٹ بھی جاری ہوئے۔اس عرصے کے بعد جو آٹھ کرنسی نوٹ چھاپے گئے۔یہ نوٹ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال میں رہنے والے نو ٹ تھے۔اس کرنسی نوٹوں کی سیریز میں ایک روپے اور دو روپے کے نوٹوں کی پیشانی پر چاند ستارہ تھا،جب کہ ایک روپے کی پشت پر علامہ اقبال کامزاراوردوروپے کے نوٹ پر بادشاہی مسجد کی تصویر تھی۔
نوٹوں کی اس سیریز میں ان دونوٹوں کے علاوہ آج تک شایع ہونے والی نوٹوں کی پیشانی پر قائداعظم کی تصویر چھپتی ہے اوران کرنسی نوٹوں کی پشت پر مختلف عمارتوں کی تصاویر چھاپی گئیں۔ نئے نوٹوں کی اس سیریز کو ستر کی دہائی میں جب چھاپا گیا تو 5 روپے کے نوٹ کی پشت پر بلوچستان کے کوجک ٹنل ،دس روپے کے نوٹ پر سندھ کاآثار قدیمہ موہنجوداڑو،پچاس روپے کے نوٹ پر پنجاب کے شاہی قلعہ کے عالمگیری دروازہ،سوروپے کے نوٹ پر خیبرپختون خوا کے اسلامیہ کالج ،پانچ سوروپے کے نوٹ پر مرکزی آفس اسٹیٹ بینک آف پاکستان اورہزار کے نوٹ پر مقبرہ جہانگیر کی تصویر تھی۔
موجودہ دور میں استعمال ہونے والی کرنسی نوٹوں کی سیریز میں نوٹوں کی پشت پر جو مختلف تاریخی عمارتوں کی تصویریں چھاپی گئی ہیں،ان میں گوادر پورٹ، خیبر پاس، موہنجوداڑو کے آثارقدیمہ،کے ٹو چوٹی،قائداعظم ریذیڈینسی زیارت،بادشاہی مسجدلاہور،اسلامیہ کالج پشاوراورفیصل مسجد، اسلام آبادکی تصویریں چھپی ہوئی ہیں۔مدھم اورگاڑھے نیلے، ہلکے اورگہرے سبز ،سرخ اورنارنجی رنگوں کوان نوٹوں میں استعمال کیاگیاہے۔اس سیریز کے نوٹوں میں بیس روپے اور پانچ ہزار روپے میں رنگ اوربناوٹ کی مشابہت کی وجہ سے اکثر لوگوں کو پریشانی کاسامنا رہتاہے۔اس کے علاوہ تمام نوٹ جاذب نظر ہیں ۔
نوٹ:اس کالم میں پیش کردہ اعدادوشمار کے لیے میں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ سے استفادہ کیاہے۔