گھر کیوں اجڑ رہے ہیں

’’طلاق کیوں اور کیسے؟‘‘ میں راقم نے حلالہ کے بارے میں تحریر کیا تھا کہ رسول اکرمؐ نے اس عمل پر...


Adnan Ashraf Advocate August 19, 2013
[email protected]

پچھلے اظہاریہ ''طلاق کیوں اور کیسے؟'' میں راقم نے حلالہ کے بارے میں تحریر کیا تھا کہ رسول اکرمؐ نے اس عمل پر لعنت فرمائی ہے اور اس کو کرنے والے کو ''تیس مستعار'' یعنی کرایہ کا سانڈ قرار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ اﷲ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کرانے والے لائے گئے تو میں انھیں رجم کردوں گا۔ حلالہ میاں بیوی میں طلاق ہوجانے کی بعد دوبارہ یکجائی کے لیے کی جانے والی رسم کا نام ہے، جو آج کل بڑی عام ہے۔ میاں بیوی بڑی عجلت اور جذبات میں بغیر سوچے سمجھے یا کسی کے بہکاوے میں یا غلط فہمی و بدگمانی میں علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں جس میں شوہر کی جانب سے طلاق یا پھر عدالت کے ذریعے خلع کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے، کورٹ کے ذریعے خلع کے طریقے پر علماء حضرات کو اعتراض ہے، ان کا کہنا ہے کہ خلع کی ڈگری جاری ہوجانے سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے اور رجوع کا حق برقرار رہتا ہے لیکن فریقین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ طلاق واقع ہوگئی ہے جب کہ قاضی یا جج کا فرض ہے کہ وہ خلع کی صورت میں شوہر کو عدالت میں طلب کرکے اس سے طلاق کے الفاظ ادا کروائے اور اگر وہ ادا نہیں کرتا تو اسے قید میں ڈلوائے کیونکہ جب عورت اپنا مہر معاف کرکے خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ اس کا شرعی حق ہوتا ہے کہ شوہر اس کو طلاق دے۔

ہمارے سماجی اور عدالتی نظام میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ بعض مرتبہ بیویاں طلاق حاصل کرنے کے لیے شوہر کا غلط پتہ تحریر کرتی ہیں جس کی وجہ سے شوہر کو مقدمے کا علم بھی نہیں ہوتا یا پھر عملے سے مل کر شوہر پر عدالتی نوٹس کی تعمیل نہیں ہونے دیتیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شوہر بیرون ملک ملازمت کر رہا ہے اور بیوی نے یہاں عدالت میں خلع حاصل کر کے دوسری شادی بھی کرلی۔ اس کے بھیجے ہوئے منی آرڈر اور تحائف بھی وصول کر رہی ہوتی ہے، جب شوہر واپس آتا ہے تو اس کے علم میں آتا ہے کہ اس کی بیوی تو خلع لے کر دوسری شادی بھی کرچکی ہے۔ بہرحال میاں بیوی میں علیحدگی کی کوئی بھی وجہ یا طریقہ کار ہو بعض مرتبہ انھیں خود اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے یا دلایا جاتا ہے تو ساتھ ہی انھیں یہ واحد راستہ بھی دکھادیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ یکجائی کے لیے حلالہ کرلیں ان کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔ یعنی بیوی کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے پھر وہ شخص اس کو طلاق دے دے تو اپنے سابقہ شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی۔

اس مقصد کے لیے بہت سے ناصح، ہمدرد اور مشورہ گر اور پیشہ ور افراد کی کمی نہیں ہے جو اس سے پیسہ اور ہمدردیاں دونوں سمیٹتے ہیں۔ اس صورت میں حلالہ کرنے کے لیے کسی شخص سے طے کرلیا جاتا ہے وہ ایسی طلاق یافتہ عورت سے ایک دن کے لیے نکاح کرلے اور شب بسری کے بعد اسے طلاق دے دے، اس کے بعد اس عورت کا اس کے پہلے شوہر سے نکاح کردیا جاتا ہے اس عمل سے بعض اوقات بہت سے گمبھیر اور خطرناک مسائل جنم لیتے ہیں مثلاً جس شخص سے نکاح کیا جاتا ہے وہ طلاق دینے پر راضی نہیں ہوتا یا دونوں فریقین اس بات پر متفق ہوجاتے ہیں کہ اب وہ علیحدگی اختیار نہیں کریں گے یا پھر عورت پہلے شوہر سے نکاح کرنے کے باوجود بدکاری کی راہ پر نکل پڑتی ہے جو کسی مسلمان کی غیرت کا جنازہ نکال دیتا ہے اور ایسی عورتوں کو حیا باختہ کردیتا ہے، جو ان کی ازدواجی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے۔ جس کے پورے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حلالہ کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق طلاق کی صورت میں دوبارہ رجوع کے لیے حلالہ کی نیت سے کیے جانے والے نکاح میں عدت کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا نہ ہی پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کے معاملے میں عدت کی تکمیل کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔

اس صورت حال میں حلالہ کے لیے کیے گئے نکاح اور پھر پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کی کیا شرعی حیثیت رہ جاتی ہے؟ جب کہ اﷲ کے حکم کے مطابق عدت کے دوران نہ عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے نہ نکاح یا منگنی کا پیغام دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے ایام عدت شوہر کے گھر پر گزارنے کا حکم دیا اور اس دوران نان و نفقہ اور رہائش خاوند کی ذمے داری قرار دیا ہے تاکہ رجوع کرنے کا امکان باقی رہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد بیوی شوہر کے لیے حرام ہوجاتی ہے جب تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے نکاح نہ کرلے اور پھر کبھی ان میں طلاق واقع ہوجائے یا شوہر وفات پا جائے تو پہلے شوہر سے نکاح جائز ہوگا لیکن مشروط (Conditional) نکاح کی حیثیت جو حلالہ کے لیے اختیار کی جاتی ہے قطعی غیر شرعی اور لعنتی عمل قرار دیا گیا ہے۔

حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والی ان بد عادات کو ختم کرنے کے لیے تین قسم کے اقدامات کیے تھے (1) وہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینے والوں کو سزا دیتے تھے۔ (2) ایک وقت میں 3 طلاقوں کو تین طلاقیں ہی شمار کرتے تھے لیکن(3) حلالہ کرنے والوں کے لیے رجم کی سزا بھی مقرر کی تھی۔

حضرت عمرؓ کے دور میں جب کثرت سے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کا رجحان بڑھنے لگا تو آپؓ نے بطور سزا اور ڈرانے دھمکانے کے لیے وقتی، سیاسی اور تعزیری طور پر ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا قانون نافذ کیا تھا۔ اس لیے علما کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ سیاسی وہ تہدیدی طور پر لاگو کیا گیا تھا، معاملہ اس وقت کے حالات و واقعات میں ان کے اجتہاد کا تھا اور اس کی حیثیت وقتی، سیاسی اور تعزیری تھی جیساکہ آج کے نظام میں کسی آرڈیننس کی ہوتی ہے۔ لہٰذا قرآن اور سنت اور نبی اکرمؐ کے فیصلے کے مطابق ازلی طریقہ وہی ہے جو حضور اکرمؐ، حضرت ابوبکرصدیقؐ اور خود حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور خلافت میں مروج رہا۔ پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت خلع و طلاق کے لاکھوں مقدمات چل رہے ہیں۔ عوام الناس عائلی قوانین طلاق، خلع اور حلالہ جیسے معاملات سے لاعلم یا ابہام کا شکار ہیں۔ علماء پر فقہی جمود طاری ہے ۔ علما، وزارت قانون، عدالتیں اپنے موثر کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں گھر اجڑ رہے ہیں۔ لوگ لاعلمی اور غلط مشوروں کی وجہ سے کچھ کا کچھ کر رہے ہیں، اس لیے علمائے وقت، حکومت اور سیاسی تنظیموں کو اس گمبھیر مسئلے پر جو ان کی نظروں سے اوجھل یا ترجیحات سے باہر ہے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ورنہ من مانے، لاعلمی اور غیر شرعی اعمال کی ذمے داری ان ہی کے دامن میں جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں