کراچی پولیس ناکام کیوں

پی پی کی سابقہ صوبائی حکومت کے5 سالہ دور میں سندھ پولیس کے بجٹ میں 28 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو...


Muhammad Saeed Arain August 19, 2013

پی پی کی سابقہ صوبائی حکومت کے5 سالہ دور میں سندھ پولیس کے بجٹ میں 28 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جو 2008 میں 21 ارب روپے تھا جو 2012 میں 40 ارب روپے ہوگیا تھا اور 2013 میں سندھ پولیس کا بجٹ اس کی کارکردگی کے برعکس 48 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے جب کہ کراچی میں بھتے اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے سندھ میں 5 سال کے دوران چھ آئی جی پولیس اور تین وزیر داخلہ تبدیل ہوئے مگر امن وامان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی گئی۔ 5 سال میں تقریباً 9 ہزار افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ 224 چھوٹے بڑے بم دھماکوں میں تقریباً 1300 افراد اپنی جان سے گئے۔ اغوا ہونے والے 613 افراد 71 کروڑ روپے کا تاوان ادا کرکے اپنے گھروں میں واپس آئے ہیں۔

سندھ حکومت اور پولیس حکام اجلاسوں میں مصروف رہے مگر بہتری نہ لائی جاسکی البتہ پولیس افسران کی مراعات، تنخواہوں اور غیرقانونی ترقیاں جاری رہیں۔ سندھ بھر کے عوام میں مایوسی بڑھتی گئی اور سندھ خصوصاً کراچی میں خوف کے سائے میں زندگی بسر کرنے والے بے گناہ عوام شدید بدامنی کا سامنا اب بھی کر رہے ہیں جب پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی دوسری حکومت بناچکی ہے اورگڈگورننس کے دعوؤں کے باوجود تبدیلی نہیں آئی۔ سندھ حکومت اپنے من پسند ان پولیس افسران کے حصار میں رہی جنھیں سیاسی بنیادوں،کراچی آپریشن میں حصہ لینے والوں، جعلی کارکردگی دکھاکر غیرقانونی طور پر ترقی پہ ترقی حاصل کرکے بڑی جائیدادوں کے مالک اور اربوں پتی بن جانے والے اور مصنوعی کارکردگی سے شہرت ملی اور سپریم کورٹ کے حکم پر غیرقانونی ترقیاں حاصل کرنے والوں کی تنزلی کے معاملات میں سندھ حکومت نے 12 من پسند افسروں کو کراچی پولیس کے لیے ناگزیر سمجھتے ہوئے تنزلی سے بچانے کے لیے عدالت عظمیٰ سے ایک ماہ کی مہلت لی اور کام نہ بننے پر مجبوراً ان کی بھی غیرقانونی ترقیوں کے خاتمے پر مجبور ہونا پڑ گیا۔

سندھ میں ہی نہیں پورے ملک میں کراچی کو پولیس کا دبئی سمجھا جاتا ہے۔ اندرون ملک سے کراچی میں تعیناتی سے صرف ترقی ہی نہیں ملتی بلکہ قارون کا خزانہ کرپٹ پولیس افسروں کے ہاتھ آجاتا ہے۔ مجھے اپنے آبائی شہر شکار پور کا ایک ہیڈ کانسٹیبل یاد آجاتا ہے جو کراچی تبادلہ کرواکر آیا اور جلد ہی ترقی کرکے سب انسپکٹر بن گیا اور رشوت دے کر اچھا تھانہ لینے کے بعد اس پر کراچی مہربان ہوا تو اس نے واپس جانا بہتر سمجھا اور اس نے مجھے بتایا کہ کراچی میں مخصوص مدت میں اتنا کمالیا ہے جس کا تصور بھی نہیں تھا۔

کراچی میں پولیس تھانوں کی فروخت بہت پرانی بات ہے جب پی پی کے منتخب تہجد گزار صدر فاروق لغاری نے کہا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ کراچی میں ایک تھانہ ایک کروڑ روپے میں ملتا ہے۔ پی پی دور کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے دور میں کسے نہیں معلوم تھا کہ تھکا ہوا تھانہ بھی 5 لاکھ روپے سے کم میں نہیں ملتا تھا اور آئے دن پولیس افسروں کے تبادلے معمول بنے ہوئے تھے۔ انسپکٹروں کو نظرانداز کرکے جب سب انسپکٹر ایس ایچ او بنیں گے سینئر کی جگہ جونیئرز اعلیٰ عہدوں پر فائز کیے جائیں گے تو سینئرز کے دل پر کیا گزرے گی وہ کیا کارکردگی دکھائے گا اور وقت گزارنے کے لیے کرپشن میں کیوں پیچھے رہے گا؟ ان غیر قانونی ترقیوں کا سب کو پتہ تھا۔ سیاسی دباؤ پر ترقی و تبادلوں کا کراچی میں منفرد ریکارڈ قائم ہوا جس پر حق سے محروم رکھے جانے والے بعض پولیس افسران سے برداشت نہ ہوا اور انھوں نے عدلیہ سے انصاف مانگا جس کے نتیجے میں کراچی پولیس میں بادشاہ بنے ہوئے افسران کی تنزلی عمل میں آئی ہے۔

کراچی میں کون سا ایسا غیرقانونی کام اور برائی نہیں ہے جہاں پولیس کا ہاتھ نہ ہو۔ پتھارے اور ریڑھیاں لگوانے، کچے گھروں کو پختہ کرنے، چھت بھرائی، کباڑیوں سے ہفتہ وصول کرنے سمیت سرکاری زمینوں پر قبضے کرنے اور کرانے کی باتیں تو اب پرانی ہوچکی ہیں اور حکومت پولیس کی ناقص کارکردگی چھپانے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے پولیس کے ادنیٰ سپاہیوں کو کمائی کا خود موقعہ دیتی آئی ہو وہاں پولیس کے سپاہی سے اعلیٰ افسران تک اچھی کارکردگی کی توقع کیوں کر رکھی جاسکتی ہے۔

کراچی پولیس میں چند سال قبل تک عوام میں مقبول اور اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران بھی تھے جو عوام اور میڈیا سے قریبی رابطے رکھتے تھے۔ سماجی تقریبات میں شریک ہوتے تھے، عوام کے لیے ان کے دروازے کھلے ہوتے تھے اور آج یہ حالت ہے کہ گارڈن کے پولیس ہیڈکوارٹر کا دروازہ میڈیا پر بند کردیا جاتا ہے اور میڈیا کو پولیس کے ڈی ایس پی کی نماز جنازہ میں بھی شریک نہیں ہونے دیا جاتا اور دہشت گردی سے خوفزدہ اعلیٰ پولیس افسران شاید میڈیا سے بھی خوف کھانے لگے ہیں۔

48 ارب روپے کے بجٹ، غیرقانونی ترقیوں، جعلی پولیس مقابلوں میں شہرت، ایک عام داڑھی والے کو پکڑ کر انتہائی خطرناک دہشت گرد قرار دے کر خودساختہ ہتھیار برآمد کرنے کے دعویدار کراچی پولیس کے اعلیٰ افسران اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، آئے دن دہشت گردی، مجرموں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں، شہر بھر میں تیزی سے پھیلتی بھتہ خوری، سیاسی، لسانی اور فرقہ پرستانہ بنیاد پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ روکنے میں ناکام کیوں ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جو سیاسی، مذہبی اور عوامی حلقوں میں اتنا عام ہوگیا ہے کہ کہا جاتا کہ کراچی میں حکومت، حکومتی رٹ اور پولیس کی حقیقی کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں کراچی پولیس نے بڑا جانی نقصان اٹھایا ہے اور اعلیٰ پولیس افسران دہشت گردی سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ ہلاک ہونے والے پولیس کے سپاہیوں کو تو کیا پولیس انسپکٹرز اور سب انسپکٹروں کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہوتے ۔ گورنر، وزیر اعلیٰ، وزراء، آئی جی، ڈی آئی جی سخت سیکیورٹی میں سفر کرتے ہیں اور ڈپٹی کمشنرز اور ایس پی تک حفاظتی اسکواڈ کے بغیر شہر میں سفر نہیں کرسکتے۔

جب کرپشن سرائیت کرجائے اور ہر دم جان کا خوف لاحق رہنے لگے تو کراچی پولیس کیوں کر کامیاب ہوسکتی ہے یہ سوال اعلیٰ پولیس افسران کے خود سوچنے کا ہے۔

اب سندھ پولیس کے پاس خود پولیس اہلکاروں سے ملنے، ان کی سننے، ان کی حوصلے افزائی کے لیے موقعہ پر فوری پہنچنے، عوام تک رسائی رکھنے والے اعلیٰ پولسی افسران کا فقدان ہے۔ پولیس کا مورال بلند کرنے اور پولیس کو حقیقی خدمت کے لیے کمیونٹی پولیس سروس شروع کرکے عوام اور پولیس کے درمیان حائل خلیج ختم کرنے والے اعلیٰ پولیس افسران کی اشد ضرورت ہے۔ بجٹ، تنخواہیں اور مراعات میں اضافے سے کارکردگی میں اضافہ نہیں ہوا جب کہ اصل ضرورت کراچی پولیس کی کارکردگی بڑھانے کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں