معاشی سسٹم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت

وزراء میڈیا پر حقائق بتائیں‘ لوگوں کو ڈرائیں نہیں اُمید دلائیں

وزراء میڈیا پر حقائق بتائیں‘ لوگوں کو ڈرائیں نہیں اُمید دلائیں۔ فوٹو:فائل

میڈیا کی اطلاع کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ کے لیے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے اگلے مالی سال میں 600 ارب کے نئے ٹیکس لگانے پرآمادگی کا اظہار کیا ہے۔ مشیرخزانہ اگلے بجٹ کے اسٹرٹیجی پیپر 30 اپریل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کریں گے تاکہ آئی ایم ایف کے مذاکرات کو ٹریک پر رکھا جاسکے۔

حکومت نے عالمی ادارے کو ٹیکس آمدن 1.7 فیصد بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔اس میں 600 ارب کے نئے ٹیکس جی ڈی پی کا 1.4 فیصد ہونگے، باقی 0.3 فیصد ٹیکس انتظامی معاملات کو بہتر بنا کر اکٹھے کیے جائیں گے۔یوں حکومت کو دفاعی بجٹ میں کمی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بجٹ کا بنیادی خسارہ بھی پورا ہوجائے گا۔آئی ایم ایف نے نئے پروگرام کے لیے دفاعی اور ترقیاتی بجٹ میں کمی اور محاصل سے حاصل ہونے والی آمدن بڑھانے کی شرائط رکھی ہیں۔حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں پہلے ہی کمی کردی ہے، جہاں تک دفاعی بجٹ کا معاملہ ہے اسے محاصل کے ذریعے آمدنی بڑھا کر پورا کیا جائے گا۔

حکومت بجٹ خسارے اور معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے بالآخر آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور ہو گئی ہے، اب آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے حصول کے لیے اس کی شرائط کو تسلیم کرنا ہے جنکی قبولیت کا حکومت نے عندیہ دے دیا ہے۔ اگلے مالی سال میں6سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پر آمادگی کا اظہار اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے بہرصورت قرضہ لینا چاہتی ہے خواہ اس کے لیے اسے اس عالمی ادارے کی کڑی سے کڑی شرائط کو بھی قبول کیوں نہ کرنا پڑے۔ مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں کمی کوئی خوش آیند فیصلہ نہیں، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے کی حالت دگرگوں رہنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں' نہروں کی مرمت اور تعمیر کے علاوہ دیگر ترقیاتی امور بھی متاثر ہوں گے۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے عہدیداروں سے ملاقاتوں کا آغاز کر دیا ہے۔


اطلاع ہے کہ ان ملاقاتوں میں آئی ایم ایف مشن کے اس ماہ کے آخر میں دورہ پاکستان پر اتفاق کیا گیا ہے۔ حکومت نئے ٹیکس لگانے کے لیے آمادہ تو ہو گئی ہے لیکن اس نے موجودہ گلے سڑے ٹیکس نظام کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ نئے ٹیکس لگانے سے بہتر ہے کہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ بارہا اس امر کی وضاحت آ چکی ہے کہ ملک بھر میں بہت کم افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ اکثریت نہ تو ٹیکس ادا ہی نہیں کرتی یا ٹیکس چوری کرتی ہے۔ جاگیرداروں' سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ ملک میں تبدیلی لانے اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے دعوے دار سیاستدانوں کے مالی معاملات بھی شفاف نہیں' متعدد پر کرپشن اور سرکاری خزانے سے لوٹ مار کے الزامات ہیں' ایسے سیاستدانوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک میں مالی معاملات کو بہتر بنائیں گے۔ ملک میں جاگیرداری نظام بھی بھرپور قوت کے ساتھ موجود ہے' یہ جاگیردار اپنے علاقوں میں تعلیم' صحت کے علاوہ دیگر ترقیاتی کام بھی نہیں ہونے دیتے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت بنی گالہ میں ہفتے کو ہونے والے مشاورتی اجلاس میں وزرائے اعلیٰ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ وزراء میڈیا پر حقائق بتائیں' لوگوں کو ڈرائیں نہیں اُمید دلائیں۔

حکومتی وزراء سے جب بھی معاشی اور سیاسی بحران کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آج بھی پہلے دن کی طرح وہ اس کا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کو آئے اب 8ماہ گزر چکے ہیں' اب اسے ملک کے موجودہ حالات کا ذمے دار سابق حکمرانوں کو قرار دینے کے بجائے اپنی پالیسیاں اور کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینا چاہیے' یہ نہ ہو کہ معاشی حالات بہتر بنانے کے بجائے حکمران طبقہ اپنی پانچ سالہ مدت الزامات کی نذر کر دے۔

اخباری اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کی ٹیکس آمدنی جی ڈی پی کے 13.2فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن حکومت پاکستان نے 12.7فیصد تک بڑھانے کی اسے یقین دہانی کرائی ہے لیکن دوسری جانب بعض ذرایع مایوس کن صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ایف بی آر کی آمدن 10.5فیصد سے بڑھنے کی امید کم ہی ہے۔ مہنگائی جس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے لوگوں کی کم ہوتی آمدنی اور بڑھتا ہوا افراط زر ملکی معاشی بحران کو مہمیز کر رہا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومتوں کو اپنا معاشی نظام چلانے کے لیے قرضہ لینا پڑتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب تک معاشی نظام بہتر بنانے کے لیے انقلابی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے، قرضوں کے حصول کے باوجود بھی کسی معاشی انقلاب کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔
Load Next Story