پاک بھارت تنازع
ayazbabar@gmail.com
وزیراعظم عمران خان نے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خارجہ پالیسی کے معاملہ میں وہ اور فوج ایک صفحہ پر ہیں، حال ہی میں کہا کہ مودی کو ووٹ پاکستان کے حق میں ہو گا۔ ان کے اس بیان کی منطق یہ تھی کہ بھارت میںصرف دائیں بازوکی قوم پرست پارٹی ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیرکے پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرسکتی ہے۔
یہ منطق مضحکہ خیز ہے کیونکہ مودی مسلمان مخالفٖ اور پاکستان دشمن ہونے کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان کے انتخابی منشور میں کشمیرکے موجودہ تعطل کو حل کرنے کے بجائے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو جو کشمیریوں کو مزید خود مختاری دیتے ہیں، ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی ایسے خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے وزیر اعظم نے یہ متنازع بیان دیا کہ مودی کے دوبارہ منتخب ہونے سے بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی تو ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔
دوسری طرف بھارت کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور عمران خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میںکہہ چکے ہیں کہ بھارت بالا کوٹ کے ناکام حملے کے بدلے میں پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کر سکتا ہے۔
پرویز مشرف کی حکومت کے دوران مسائل حل کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کے ایک دوسرے کے قریب آنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اس موضوع پر "Neither a Hawk Nor a Dove" کے نام سے پوری ایک کتاب لکھی۔
قصوری نے پس پردہ مذاکرات کے ذریعے کشمیرکے تصفیہ کے لیے فریم ورک کے بعض عوامل کی نشان دہی کی۔ ان میں دیگر عوامل کے علاوہ فوج کی واپسی، DDR (غیر مسلح اور غیر فعال کر کے معمول کے حالات کی واپسی) کے ذریعے عسکریت پسندوں سے چھٹکارا، سیلف گورننس اور غیر ریاستی ادا کاروںکی طرف سے شورشوں پر قابو پانا شامل تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں لکھا کہ طویل بات چیت کے بعد دونوں ملکوں نے آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں مسلح افواج میں کمی کرنے سے اتفاق کیا۔ بقول خورشید محمود قصوری ''اس بات پر بھی رضامندی ظاہرکی گئی کہ یہ کمی، زمینی صورت حال کی بہتری سے مطابقت رکھتے ہوئے رفتہ رفتہ کی جائے گی۔''
خورشید محمود قصوری کے مطابق بھارت نے اپنے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دورے میں تاخیر کی، کیونکہ وکلاء کی تحریک سے پرویز مشرف کی حکومت کمزور پڑ گئی تھی۔ جناب قصوری نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ فوجی جرنیلوں کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر کے غیر روایتی حل کی حمایت کی گئی، یہ حل بیک چینل ڈپلومیسی مذاکرات میں طے کیے گئے تھے۔
مشرف نے، جو کارگل حملہ کے معمار تھے، حیرت انگیز طور پر یو ٹرن لیا اور مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کی حد تک چلے گئے۔ انھوں نے چار غیر روایتی حل (out of box solutions) تجویز کیے:
پہلا کشمیر کے ان جغرافیائی علاقوں کی نشاندہی کرنا تھا جنھیں حل کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان والا حصہ دو علاقوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تقسیم ہے۔ بھارت والا حصہ تین علاقوں جموں، سرینگر اور لداخ میں تقسیم ہے۔ کیا ان سب پر بات چیت چیت ہونی ہے یا یہ تین الگ نسلی، سیاسی اور اسٹرٹیجک سوال ہیں جو کچھ لو اور کچھ دو کا تقاضا کرتے ہیں؟
دوسرا یہ تھا کہ جس علاقے یا علاقوں کی نشاندہی ہو وہاں سے فوج کو ہٹایا جائے اور آزادی کی جدوجہد کے تمام عسکری پہلوؤں پر قابو پایا جائے۔ اس سے ان کشمیریوں کو سکون ملے گا جو دونوں طرف لڑائی اور ہلاکتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تیسرا اُس علاقے یا اُن علاقوں میں،جن کی نشاندہی ہو، سیلف گورننس یا سیلف رول متعارف کرانا تھا، یعنی کشمیریوں کو کسی بین الاقوامی کردار اور آزادی کے بغیر اپنے معاملات خود چلانے کا اطمینان دلانا۔
چوتھا اور سب سے اہم یہ تھا کہ پاکستانیوں، بھارتیوں اور کشمیریوں کی رکنیت پر مشتمل ایک ایسا مشترکہ انتظامی طریقہ کار وضع کیا جائے جو سیلف گورننس کی نگرانی کرے اور باقی ماندہ ایسے موضوعات کو نمٹائے جو نشاندہی کیے جانے والے تمام علاقوں کے لیے یکساں ہیں اور ان موضوعات کو دیکھے جو سیلف گورننس کے دائرے سے باہر ہیں۔
اگر پاکستان کا مسئلہ اپنے آبی وسائل کو محفوظ بنانا ہے تو پھر اسے اس حقیقت کا سامنا ہے کہ فطرت مختلف علاقوں کو وسائل دینے میں سیکولر ہے ۔ پاکستان کا اصل مقصد اپنے آبی وسائل کو محفوظ بنانا ہے۔ دریائے سندھ لداخ سے بہتا ہوا آ رہا ہے اور دریائے چناب کا منبع، ہماچل پردیش کے لہال اور سپیٹی اضلاع میں ہمالیہ کے پہاڑ وں میں ہے اور جموں سے گزرتا ہوا، جہاں آبادی کی اکثریت ہندو ہے، پنجاب کے میدانی علاقوں میں آتا ہے، جہلم دریائے سندھ کا معاون دریا ہے جو وادی ِکشمیر سے گزرتا ہے۔
بھارت کے ساتھ تنازع کے بارے میں پاکستانی رائے عامہ کا ایک افقی جائزہ:
بلوچستان کبھی بھی بھارت دشمن نہیں رہا اور کشمیر کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ سندھ کے لوگ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور ایم کیو ایم کی قیادت میں اردو بولنے والے بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ کشمیرکے بارے میں جذباتی نہیں ہیں۔ جنوبی پنجاب (سرائیکی پٹی) بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کی حامی ہے مگر جنوبی پنجاب میں بڑے جاگیرداروں کوکشمیر کے مسئلہ سے دستبردار ہونے پر تحفظات ہیں۔ انھیں اس بارے میں تشویش ہے کہ بھارت اس علاقے کی طرف آنے والے دریاؤں، سندھ، چناب اور جہلم کا پانی روک دے گا۔ وسطیٰ پنجاب کی قیادت صنعتکاروں کو منتقل ہو چکی ہے، جو بھارت کے ساتھ امن کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ دونوں ملکوں کے معاشی فوائد کو سمجھتے ہیں۔ صرف جہادیوں اور مذہبی جماعتوں کی ایک طاقتور لابی اُس وقت تک امن کوششوں کی مخالف ہے جب تک کہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔
اب ہم پاکستان کے عمودی منظر کو سامنے رکھ کر ان دونوں معاملات کا جائزہ لیتے ہیں:
اسٹیبلشمنٹ ایک ایسے حل پر آ گئی ہے جو کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہو۔ بڑے کاروباری ادارے بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنا چاہتے ہیں مگر انھیں بھارت میں نان ٹیرف پابندیوں پر تشویش ہے۔ جاگیر داروں اور زراعت پیشہ لوگوںکو پریشانی ہے کیونکہ وہ اسے آبی وسائل کا کنٹرول بھارت کو دے دینے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں.... بگلیہار اورکشن گنگا ڈیم سے مدد نہیں ملی۔
بڑی سیاسی جماعتیں کسی ایسے حل کا ساتھ دیں گی جوکشمیر میں پلیئرز کی اکثریت کے لیے قابل قبول ہو گا۔ یہ سب جماعتیں بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے حق میں ہیں، مگر جہادی ایک بڑا خطرہ ہیں، یہ اپنے پروپیگنڈہ میں حکومت کو چیلنج کرتے ہیں اگر دونوں فریق اس مسئلہ کو حل کر بھی لیں تو امکان ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
پاکستان کے حکمران طبقات میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے جائیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا دباؤ ہماری معیشت پر پڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اب یہ سوچتی ہے کہ پاکستان کو فوری خطرہ دہشتگردوں سے ہے اس لیے وہ بھارت کے ساتھ تناؤکم کرنے کے حق میں ہیں۔ یہ احساس بھی موجود ہے کہ بھارتی کشمیر میں عسکریت پسند تحریک زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گی۔ بھارت کو اب بڑی طاقت کا کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان پر عزم ہیں اور بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں مگر جہادی امن کوششوں کو تباہ کرتے رہیں گے۔
ہمارے پاس واحد آپشن یہ ہے کہ ہم اپنی امن کوششیں جاری رکھیں اور اپنی کوششوں کی رفتار سست کر کے یا امن مارچ کو روک کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔
یہ منطق مضحکہ خیز ہے کیونکہ مودی مسلمان مخالفٖ اور پاکستان دشمن ہونے کا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ان کے انتخابی منشور میں کشمیرکے موجودہ تعطل کو حل کرنے کے بجائے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو جو کشمیریوں کو مزید خود مختاری دیتے ہیں، ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی ایسے خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے وزیر اعظم نے یہ متنازع بیان دیا کہ مودی کے دوبارہ منتخب ہونے سے بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی تو ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔
دوسری طرف بھارت کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور عمران خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میںکہہ چکے ہیں کہ بھارت بالا کوٹ کے ناکام حملے کے بدلے میں پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کر سکتا ہے۔
پرویز مشرف کی حکومت کے دوران مسائل حل کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کے ایک دوسرے کے قریب آنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اس موضوع پر "Neither a Hawk Nor a Dove" کے نام سے پوری ایک کتاب لکھی۔
قصوری نے پس پردہ مذاکرات کے ذریعے کشمیرکے تصفیہ کے لیے فریم ورک کے بعض عوامل کی نشان دہی کی۔ ان میں دیگر عوامل کے علاوہ فوج کی واپسی، DDR (غیر مسلح اور غیر فعال کر کے معمول کے حالات کی واپسی) کے ذریعے عسکریت پسندوں سے چھٹکارا، سیلف گورننس اور غیر ریاستی ادا کاروںکی طرف سے شورشوں پر قابو پانا شامل تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں لکھا کہ طویل بات چیت کے بعد دونوں ملکوں نے آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں مسلح افواج میں کمی کرنے سے اتفاق کیا۔ بقول خورشید محمود قصوری ''اس بات پر بھی رضامندی ظاہرکی گئی کہ یہ کمی، زمینی صورت حال کی بہتری سے مطابقت رکھتے ہوئے رفتہ رفتہ کی جائے گی۔''
خورشید محمود قصوری کے مطابق بھارت نے اپنے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دورے میں تاخیر کی، کیونکہ وکلاء کی تحریک سے پرویز مشرف کی حکومت کمزور پڑ گئی تھی۔ جناب قصوری نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ فوجی جرنیلوں کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر کے غیر روایتی حل کی حمایت کی گئی، یہ حل بیک چینل ڈپلومیسی مذاکرات میں طے کیے گئے تھے۔
مشرف نے، جو کارگل حملہ کے معمار تھے، حیرت انگیز طور پر یو ٹرن لیا اور مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کی حد تک چلے گئے۔ انھوں نے چار غیر روایتی حل (out of box solutions) تجویز کیے:
پہلا کشمیر کے ان جغرافیائی علاقوں کی نشاندہی کرنا تھا جنھیں حل کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان والا حصہ دو علاقوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تقسیم ہے۔ بھارت والا حصہ تین علاقوں جموں، سرینگر اور لداخ میں تقسیم ہے۔ کیا ان سب پر بات چیت چیت ہونی ہے یا یہ تین الگ نسلی، سیاسی اور اسٹرٹیجک سوال ہیں جو کچھ لو اور کچھ دو کا تقاضا کرتے ہیں؟
دوسرا یہ تھا کہ جس علاقے یا علاقوں کی نشاندہی ہو وہاں سے فوج کو ہٹایا جائے اور آزادی کی جدوجہد کے تمام عسکری پہلوؤں پر قابو پایا جائے۔ اس سے ان کشمیریوں کو سکون ملے گا جو دونوں طرف لڑائی اور ہلاکتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تیسرا اُس علاقے یا اُن علاقوں میں،جن کی نشاندہی ہو، سیلف گورننس یا سیلف رول متعارف کرانا تھا، یعنی کشمیریوں کو کسی بین الاقوامی کردار اور آزادی کے بغیر اپنے معاملات خود چلانے کا اطمینان دلانا۔
چوتھا اور سب سے اہم یہ تھا کہ پاکستانیوں، بھارتیوں اور کشمیریوں کی رکنیت پر مشتمل ایک ایسا مشترکہ انتظامی طریقہ کار وضع کیا جائے جو سیلف گورننس کی نگرانی کرے اور باقی ماندہ ایسے موضوعات کو نمٹائے جو نشاندہی کیے جانے والے تمام علاقوں کے لیے یکساں ہیں اور ان موضوعات کو دیکھے جو سیلف گورننس کے دائرے سے باہر ہیں۔
اگر پاکستان کا مسئلہ اپنے آبی وسائل کو محفوظ بنانا ہے تو پھر اسے اس حقیقت کا سامنا ہے کہ فطرت مختلف علاقوں کو وسائل دینے میں سیکولر ہے ۔ پاکستان کا اصل مقصد اپنے آبی وسائل کو محفوظ بنانا ہے۔ دریائے سندھ لداخ سے بہتا ہوا آ رہا ہے اور دریائے چناب کا منبع، ہماچل پردیش کے لہال اور سپیٹی اضلاع میں ہمالیہ کے پہاڑ وں میں ہے اور جموں سے گزرتا ہوا، جہاں آبادی کی اکثریت ہندو ہے، پنجاب کے میدانی علاقوں میں آتا ہے، جہلم دریائے سندھ کا معاون دریا ہے جو وادی ِکشمیر سے گزرتا ہے۔
بھارت کے ساتھ تنازع کے بارے میں پاکستانی رائے عامہ کا ایک افقی جائزہ:
بلوچستان کبھی بھی بھارت دشمن نہیں رہا اور کشمیر کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ سندھ کے لوگ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور ایم کیو ایم کی قیادت میں اردو بولنے والے بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ کشمیرکے بارے میں جذباتی نہیں ہیں۔ جنوبی پنجاب (سرائیکی پٹی) بھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کی حامی ہے مگر جنوبی پنجاب میں بڑے جاگیرداروں کوکشمیر کے مسئلہ سے دستبردار ہونے پر تحفظات ہیں۔ انھیں اس بارے میں تشویش ہے کہ بھارت اس علاقے کی طرف آنے والے دریاؤں، سندھ، چناب اور جہلم کا پانی روک دے گا۔ وسطیٰ پنجاب کی قیادت صنعتکاروں کو منتقل ہو چکی ہے، جو بھارت کے ساتھ امن کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ دونوں ملکوں کے معاشی فوائد کو سمجھتے ہیں۔ صرف جہادیوں اور مذہبی جماعتوں کی ایک طاقتور لابی اُس وقت تک امن کوششوں کی مخالف ہے جب تک کہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔
اب ہم پاکستان کے عمودی منظر کو سامنے رکھ کر ان دونوں معاملات کا جائزہ لیتے ہیں:
اسٹیبلشمنٹ ایک ایسے حل پر آ گئی ہے جو کشمیریوں کے لیے قابل قبول ہو۔ بڑے کاروباری ادارے بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنا چاہتے ہیں مگر انھیں بھارت میں نان ٹیرف پابندیوں پر تشویش ہے۔ جاگیر داروں اور زراعت پیشہ لوگوںکو پریشانی ہے کیونکہ وہ اسے آبی وسائل کا کنٹرول بھارت کو دے دینے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں.... بگلیہار اورکشن گنگا ڈیم سے مدد نہیں ملی۔
بڑی سیاسی جماعتیں کسی ایسے حل کا ساتھ دیں گی جوکشمیر میں پلیئرز کی اکثریت کے لیے قابل قبول ہو گا۔ یہ سب جماعتیں بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے حق میں ہیں، مگر جہادی ایک بڑا خطرہ ہیں، یہ اپنے پروپیگنڈہ میں حکومت کو چیلنج کرتے ہیں اگر دونوں فریق اس مسئلہ کو حل کر بھی لیں تو امکان ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
پاکستان کے حکمران طبقات میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے جائیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا دباؤ ہماری معیشت پر پڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اب یہ سوچتی ہے کہ پاکستان کو فوری خطرہ دہشتگردوں سے ہے اس لیے وہ بھارت کے ساتھ تناؤکم کرنے کے حق میں ہیں۔ یہ احساس بھی موجود ہے کہ بھارتی کشمیر میں عسکریت پسند تحریک زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گی۔ بھارت کو اب بڑی طاقت کا کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان پر عزم ہیں اور بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں مگر جہادی امن کوششوں کو تباہ کرتے رہیں گے۔
ہمارے پاس واحد آپشن یہ ہے کہ ہم اپنی امن کوششیں جاری رکھیں اور اپنی کوششوں کی رفتار سست کر کے یا امن مارچ کو روک کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔