’’ایک نمبر کا جھوٹا شخص‘‘

tanveer.qaisar@express.com.pk

tanveer.qaisar@express.com.pk

نوجوت سنگھ سدھو کو ہمارے ہاں اب کون نہیں جانتا؟ وہ جب بھارت کی طرف سے کرکٹ کھیل رہے تھے، تب بھی پاکستان میں کرکٹ کے شیدائیوں میں مقبول تھے ۔ کرکٹ کی دُنیا میں انھوں نے خوب نام، کام اور دام کمایا ہے۔ وہاں سے کامیاب اننگز کھیل کر نکلے تو اداکاری اور سیاست کی دُنیا میں قدم رکھا اور یہاں بھی مقبول رہے۔

ایک انڈین ٹی وی پر شگفتہ شگفتہ ''کپل شرما شو'' کا بھی وہ خوبصورت اور قہقہہ بار حصہ رہے ہیں۔ سدھو جی کی مزاحیہ شاعری، شوخ و شنگ لطائف، بلند آہنگ تالی اور زندگی سے بھرپور قہقہے اس شو کو مزید دلچسپ اور دلفریب بنا دیتے تھے۔ بھارتی (مشرقی) پنجاب کی صوبائی حکومت (کیپٹن امریندر سنگھ کی قیادت میں) سدھو صاحب وزیر بھی ہیں اور نریندر مودی کے مخالف کے طور پر جانے مانے جاتے ہیں۔ وہ ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان کے بھی پرانے دوست ہیں۔ خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا تو سدھو جی کو خاص طور اسلام آباد مدعو کیا۔ کچھ دیگر معروف بھارتیوں کو بھی دعوت دی گئی تھی لیکن وہ سب بہانے بنا کر پاکستان نہ آئے لیکن نوجوت سنگھ سدھو صاحب پورے شوق اور چاؤ کے ساتھ اسلام آباد تشریف لائے۔ واہگہ بارڈر سے اسلام آباد تک انھیں پاکستان اور پاکستانیوں کی بھرپور محبت اور احترام ملا۔ ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی انھیں زبردست کوریج دی گئی۔ بھارت میں مودی سمیت اُن کے کئی ہم عصر سیاستکار اور کھیل کار مارے حسد کے جل بھن کر رہ گئے۔

اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے سدھو جی سے کہا گیا کہ چونکہ سکھوں کے عظیم اور بانی رہنما، گرو نانک جی، کا 550 واں جنم دن عنقریب آ رہا ہے، اس لیے پاکستان فراخدلی کا عملی مظاہرہ کرتے ہُوئے کرتار پور ( ضلع نارووال، تحصیل شکرگڑھ) میں واقع صدیوں پرانے سکھوں کے مقدس مقام کو براہِ راست سکھوں کے لیے کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ عالمی سکھ برادری نے اس اعلان کی زبردست تحسین کی۔ خانصاحب کی نئی حکومت نے آتے ہی عالمی سطح پر رواداری اور امن سازی کے میدان میں ایک چھکا مارا تھا۔ سدھو صاحب بھی اس کا مرکزی کردار بن گئے تھے۔ بھارت واپسی پر انھیں مقتدر بی جے پی کی طرف سے سخت مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں ''ملک دشمن'' اور ''بھارت کا غدار'' بھی کہا گیا۔ کپل شرما شو سے بھی نکال دیا گیا۔ وہ سب کچھ برداشت کر گئے لیکن پاکستان کے خلاف زبان درازی کرنے پرتیار نہ ہُوئے۔

آجکل بھارت میں سات مرحلہ عام انتخابات کا یُد پڑا ہُوا ہے۔ تین مراحل ختم ہو چکے ہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے نریندر مودی اور بی جے پی کے خلاف خوب چہک رہے ہیں ۔ سدھو جی بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔ وہ چند دن پہلے بھارتی صوبہ بہار میں کانگریس کے ایک مسلمان اُمیدوار کی الیکشن کمپین میں حصہ لینے پہنچے۔ اس اُمیدوار کا نام طارق انور ہے۔ طارق صاحب پہلے بھی پانچ بار لوک سبھا ( قومی اسمبلی) اور دو بار راجیہ سبھا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ سابق وزیر مملکت بھی رہ چکے ہیں۔

پچھلے لوک سبھا کے انتخابات میں وہ بی جے پی اور مودی کے اُمیدوار کے مقابل کھڑے ہُوئے تھے اور ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر فتحیاب ٹھہرے تھے۔ اِس بار بھی طارق انور کے مقابل بی جے پی نے مضبوط اتحادی اُمیدوار کھڑے کیے ہیں۔ کوشش پوری ہے کہ انھیں ہرا دیا جائے ؛ چنانچہ طارق انور کی انتخابی مہم کو تیز اور محبوب بنانے کی خاطر نوجوت سنگھ سدھو بہار پہنچے۔ طارق صاحب کے حلقے (Katihar) میں 40 فیصد مسلمان ووٹرز ہیں۔ یہ زیادہ تر غریب ہیں لیکن ہمیشہ طارق انور کے ساتھ کھڑے رہے ہیں ۔ اس بار مگر دباؤ زیادہ ہے۔ طارق انور کے ووٹروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے سدھو جی نے بہار میں ایک جلسے سے شعلہ بار خطاب کرتے ہُوئے دلیری سے کہا: '' وزیر اعظم نریندرمودی ایک نمبر جھوٹے ہیں۔ انھیں لمبی لمبی چھوڑنے کی بُری عادت ہے۔


یہ نمبر وَن جھوٹے بھی ہیں اور نمبر وَن پھینکو بھی ۔'' سدھو جی نے مزید کہا: ''مجھے حیرانی ہے کہ گجرات کی سرزمین سے گاندھی ایسا لیڈر پیدا ہُوا لیکن اِسی سرزمین سے مودی ایسے جھوٹے آدمی نے بھی جنم لیا۔ یہ آدمی کسان دشمن اور مزدور مخالف ہے۔ وعدہ شکن بھی ہے۔ اس آدمی نے پانچ سال پہلے لوگوں سے کروڑوں نوکریاں دینے کاوعدہ کیا تھا۔ پانچ سال گزر گئے لیکن ایک وعدہ پورا نہ کر سکا۔'' انھوں نے کانگریسی مسلمان اُمیدوار کے مسلمان ووٹوںکا دل بڑھاتے ہُوئے کہا: ''اپنی طاقت کو جانئے ۔ یہاں خود کو اقلیت مت سمجھئے۔ آپ یہاں 40 فیصد نہیں، 60 فیصد ہیں۔ مودی اور بی جے پی سے خوفزدہ نہ ہوں۔ مودی نے الیکشن جیتنے کی خاطر (پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے) دو ہمسایہ ممالک میں جان بوجھ کر کشیدگی کو ہوا دی ۔''

سدھو جی نے مودی کو ''نمبر وَن جھوٹا'' قرار دیا ہے تو بِلاوجہ نہیں کہا ہے۔ سدھو صاحب کے ساتھ ساتھ بھارت کے اور بھی ایسے سیاستدان ہیں جو مودی صاحب کو سرِ عام جھوٹا کہہ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارتی ریاست کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنیاری وجیان !! پنیاری صاحب نے اپریل 2019ء کے وسط میں کیرالہ کے ایک انتخابی جلسے میں خطاب کرتے ہُوئے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں مودی کو جھوٹا کہا ۔ ''خلیج ٹائمز'' نے بھی اپنی رپورٹنگ میںکیرالہ کے وزیر اعلیٰ کے ان الزامات کا تذکرہ کیا ہے۔

بھارتی اخبار ''دی اکنامک ٹائمز'' نے بھی راہل گاندھی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہُوئے لکھا ہے کہ مودی نمبر وَن جھوٹاہے۔ معروف بھارتی مسلمان سیاستدان، اسد الدین اویسی، کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے: ''وزیر اعظم نریندر مودی نت نئے جھوٹ گھڑنے والی فیکٹری کے چیئرمین ہیں۔'' یہ تو بھارتی اخبارات اور سیاستدانوں کے الزامات اور بیانات تھے لیکن مودی نے پاکستان کے خلاف جو بے بنیاد جھوٹ بولے ہیں، ان کے تو ہم سب پاکستانی گواہ بھی ہیں اور ہدف بھی بنے ہیں۔ مودی صاحب نے پاکستان کے خلاف تسلسل سے دروغ گوئی کر کے دراصل ہمدردیاں اور ووٹ سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ پلوامہ (مقبوضہ کشمیر) میں ایک خود کش دھماکے کے پس منظر میں مودی نے جھوٹ بول کر سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی قابلِ مذمت کوشش کی لیکن کامیابی پھر بھی نہ مل سکی۔

ممکن ہے کچھ لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہُوئے ہوں۔ پاکستان کا ایک ایف سولہ طیارہ مار گرانے بارے بھی انھوں نے مسلسل جھوٹ بولا اور اب بھی بول رہے ہیں۔ اندازہ یہی ہے کہ جب تک بھارتی لوک سبھا کے انتخابات ختم نہیں ہو جاتے، وہ جھوٹ بولتے رہیں گے۔

اِس سے پہلے وہ پاکستان کے خلاف نام نہاد ''سرجیکل اسٹرائیکس'' کے نام پر بھی جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ''سرجیکل اسٹرائیکس'' کے دعووں پر تو خود بھارتی ذمے دار بھی یقین نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر 17 اپریل2019ء کو بھارتی ریاست راجستھان کے وزیر اعلیٰ، اشوک گہلٹ، نے پریس کانفرنس میں ایک بار پھر یہ بات دہرائی ہے کہ پاکستان کے خلاف مودی کے سرجیکل اسٹرائیکس کے تمام دعوے جھوٹے ہیں ۔ مودی کے جھوٹا ہونے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی یہ بیان دے کر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ ''بالا کوٹ پر بھارتی فضائی در اندازی میں کوئی پاکستانی شہری جان سے نہیں گیا تھا۔''مودی اور بھارت کا موقف اس سے سے پہلے قطعی مختلف تھا؛ چنانچہ افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے کے سربراہ نے سشما سوراج کے اس اعترافی بیان پر بجا طور پر یوں ٹویٹ کی:''اُمید ہے بھارت باقی جھوٹوں سے متعلق بھی سچ بولے گا۔'' حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایسے مستند جھوٹے مودی کو رُوس بھی ایوارڈ دے رہا ہے اور متحدہ عرب امارات بھی !!

 
Load Next Story