ملک کو درپیش مسائل کے حل کیلئے موثر اقدامات کرنا ہوں گے
حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
ملک کو اس وقت سنگین معاشی، سیاسی،سماجی، داخلی، خارجی و دیگر مسائل درپیش ہیں جن سے نمٹنے کیلئے اگرچہ حکومت کام کر رہی ہے مگر تاحال خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا۔ حال ہی میں وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے اہم وزراء کے قلمدان تبدیل کیے جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ اچھا پرفارم نہیں کر سکے جبکہ وہ آئندہ بھی ملک کو فائدہ نہ دینے والے وزراء کو تبدیل کر دیں گے۔
ملکی معاشی صورتحال کی بات کریں تو عالمی ادارے پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ڈالر اونچی اڑان بھر رہا ہے جبکہ مہنگائی کا طوفان سب کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ملکی مسائل کی فہرست بہت طویل ہے جس کا مکمل ذکر یہاں ممکن نہیں تاہم موجودہ ملکی صورتحال دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم''میں '' ملک کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سعدیہ سہیل رانا
(رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)
ماضی میں کاسمیٹک اقدامات کیے گئے مگر دیر پا حل نہیں نکالا گیا، وزیر اعظم عمران خان ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لیے ماضی میں عارضی حل تلاش کیا گیا، ہر مسئلے کے حل کیلئے اس طرح کے مصنوعی اقدامات سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی گئیں۔ سابق ادوار میں اداروں میں سیاسی عمل دخل رہا، کوئی قانون موجود نہیں تھا اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ان کے اثاثے بڑھتے گئے مگر عوام اور ملک غریب ہوتے گئے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی بات کی گئی۔
جس کے لیے اٹھارویں ترمیم لائی گئی مگر آج تک ملک میں عام آدمی تک اختیارات منتقل نہیں ہوئے۔ انہوں نے لوکل گورنمنٹ کے نام پر مردہ باڈی بنائی جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں بہترین بلدیاتی نظام دیا جس سے لوگوں کے مسائل حل ہوئے۔اب پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں، آئندہ اجلاس میں اسے منظور کر لیا جائے گا، اس سے لوگوں کوگھر کی دہلیز پر انصاف و دیگر سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔
ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے وزیراعظم نے خصوصی ہدایت جاری کی ہے کہ نومبر والے ریٹس دوبارہ بحال کیے جائیں، اس پر کام جاری ہے۔ ہم ملکی تعلیمی نظام میں بہتری لارہے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے نجی تعلیمی اداروں و دیگر سٹیک ہولڈرز سے بات چیت جاری ہے لہٰذا اب یکساں نصاب ہوگا۔ علامہ اقبالؒ، سر گنگا رام و دیگر اہم شخصیات کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ اپنی قومی زبان میں بنیادی تعلیم لازمی قرار دی جائے گی جبکہ دیگر زبانوں کو بطور زبان پڑھایا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ سکل بیسڈ ایجوکیشن پر بھی توجہ دی جائے گی۔ حکومت کی تمام مسائل پر توجہ ہے۔ ہماری نیت صاف ہے اور ہم تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیںصنعتوں کو بہتر کرنا ہوگا، توانائی بحران پر قابو پانا ہوگا، چھوٹے ڈیم بنانا ہوں گے تاکہ عوام کو روزگار سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
تمام اہم منصوبوںپر کام ہورہا ہے تاہم بہتری میں وقت لگے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا ماضی شفاف ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر کابینہ سے رپورٹ لے رہے ہیں مگر مسائل کے حل میں بیورو کریسی آڑے آرہی ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ بھی وزیر اعظم کی نظر میں ہے، انہوں نے ماہ رمضان میں مہنگائی اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کی خصوصی ہدایت جاری کی ہے۔ خارجی محاذ پر حکومت کو کامیابی ملی، بھارت جنگ کے دہانے پر لے آیا تھا مگر وزیراعظم کی بہتر حکمت عملی سے اسے منہ کی کھاناپڑی جبکہ دنیا نے ہمارے عمل کی تعریف کی۔سیاست کا رخ اب تبدیل ہونا چاہیے، حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اپوزیشن کا گٹھ جوڑ ذاتی مفا دکیلئے ہے، انہیں پاکستان کے لیے اکٹھا ہونا اور مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ تمام چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔ آج نیب اور عدلیہ آزاد ہیں۔ حکومت کسی بھی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کر رہی اور نہ ہی ایسا چاہتی ہے۔ ہم اداروں کو خود مختار بنا رہے ہیں اور خود بھی ان کی زد میں آرہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں بہتری کی گنجائش ہے وہاں سب کو مل کر کام کرنا چاہیے اورایک ایسا نظام بنانا چاہیے جس میں کسی کے رنگ، نسل، زبان یا سیاسی وابستگی پر نہیں بلکہ بلا تفریق احتساب ہو۔
رانا ارشد
( رہنما پاکستان مسلم لیگ ،ن)
پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی اپوزیشن نہیں رہی جو حکومت کو کہے کہ ہم آپ کو گرانا نہیں چاہتے بلکہ آپ کی مضبوطی چاہتے ہیں تاکہ آپ اپنے وعدے پورے کریں مگر وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو کنٹینر کی آفر دے رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا دیں، ہم مہنگا ئی کے خاتمے کیلئے حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جب بھارت کے ساتھ معاملات کشیدہ ہوئے تو اپوزیشن نے یک زبان ہو کر بھارت کو واضح پیغام دیا کہ ہم متحد ہیں اور حکومت کے ساتھ ہیں مگر ہمیں اس وقت افسوس ہوا کہ جب حکومت نے تمام پارلیمانی لیڈرز کو بریفنگ کے لیے بلایا تو وزیراعظم مصروفیت کے باعث وہاں نہیں آئے۔
وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ بھارت حملہ کر سکتا ہے مگر وزیراعظم کہتے رہے کہ ہم جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ دشمن کے سامنے عوام اور فوج کھڑی ہے تو وزیراعظم کیوں جھک رہے ہیں۔ ملکی اقتصادی حالت کی بات کریں تو عمران خان نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے مگر اب 9 ماہ تاخیر کے بعد جا رہے ہیں۔دو ماہ قبل عمران خان خود آئی ایم ایف کے سربراہان سے ملے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ اور سینیٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جارہا۔اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے 6سے 8 ارب ڈالر آئیں گے مگر اس کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا جو مذاق ہے۔ اس وقت ڈالر بے قابو ہے۔ روپے کی قدر میں 38 فیصد کمی آئی ہے جو افسوسناک ہے۔
اس سے قرضوں میں 2 ہزار ارب اضافہ ہوا۔ ادویات کی قیمتوں میں 80 سے 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے 72 گھنٹوں میں ادویات کی قیمتیں کم کرنے کا حکم دیا تھا مگر تاحال کچھ نہیں ہوسکا۔ افسوس ہے کہ ایف بی آر بھی ریونیو اکٹھا کرنے میں ناکام رہا ہے، حکومت قرضے لیتی جا رہی ہے مگر فائدہ نہیں ہورہا۔ قوم کو بتایا جائے کہ روزانہ کی بنیاد پر جو 16 ارب روپے قرض لیا جارہا ہے وہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ سابق حکمرانوں نے ملک تباہ کر دیا۔ اگر ایسا ہے تو احتساب کریں لیکن نیب کو انتقام کیلئے استعمال نہ کریں۔مارچ 2018ء میں مہنگائی 3.2 فیصد تھی، آج 9.41 فیصد ہے جو تشویشناک ہے ،عالمی ادارے پاکستان کی معاشی ریٹنگ منفی قرار دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے جو نا اہل ہے۔رمضان کی آمد آمد ہے لہٰذا حکومت کو کم از کم اس ماہ میں عوام کو ریلیف دینا چاہیے۔
بیرسٹر عامر حسن
(رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
72 سالہ ملکی تاریخ کا سب سے مشکل دور آج ہے۔ پاکستان کو شدیدمعاشی بحران اور عالمی تنہائی کا سامنا ہے جبکہ دشمن دندناتے پھر رہے ہیں۔ان مسائل کا سامنا کس طریقے سے کرنا ہے یہ بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ جب تک تیاری نہیں ہوگی تب تک پالیسی سازی نہیں ہوسکتی۔ پیپلزپارٹی نے 22 خاندانوں کے عروج کو توڑا۔ آج جو مڈل کلاس نظر آرہی ہے یہ ذوالفقار علی بھٹو کے لائے ہوئے انقلاب کی وجہ سے ہے جس سے مزدور اور ہاری کا بیٹا بھی سکول گیا اور اسے سرکاری ملازمت ملی۔ موجودہ حکمرانوں نے ماضی میں بلند و بانگ دعوے کیے کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ ٹھیک کر دیں گے مگر سب خراب ہوگیا۔
عالمی ادارے، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک پاکستانی معیشت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، ان کے مطابق شرح نمو 2.4 سے بھی کم ہوجائے گی۔ افسوس ہے کہ ایشیاء میں سب سے بدترین معیشت پاکستان کی ہے جبکہ بنگلہ دیش اور مالدیپ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ ملک میں سونامی آگیا اور غریب اس میں ڈوب گیا۔ موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے 10 لاکھ افراد بے روزگار جبکہ 40 لاکھ مزید افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اگر یہ حالات اسی طرح رہے اور مہنگائی بڑھتی رہی تو غریب کے لیے جینا مشکل ہوجائے گا۔
پیپلز پارٹی نے جب دیکھا کہ ملک میں حالات اچھے نہیں ہیں، غریب کو مسائل کا سامنا ہے تو ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے سوشل سکیورٹی پروگرام شروع کیا تاکہ غریبوں کی مالی معاونت ہوسکے۔ موجودہ حکومت سے جب بھی کچھ پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ سابق حکمرانوں نے لوٹ لیا۔اس حوالے سے احتساب کے ادارے موجود ہیں، انہیں ان کا کام کرنے دیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت روزانہ کی بنیاد پر جو قرضے لے رہی ہے وہ کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ ڈویلپمنٹ بجٹ صفر، تنخواہوں میں اضافہ صفر جبکہ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ افسوس ہے کہ حکومت روزانہ کی بنیاد پر 14 ارب روپے قرض لے رہی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ استحکام اس وقت آئے گا جب اداروں کی عزت ہو۔ وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میںبیٹھنا چاہیے اور اس فورم پر بات کرنی چاہیے، اس سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ واحد حکومت ہے جو اپوزیشن کو احتجاج کیلئے کنٹینر کی آفر کر رہی ہے جبکہ یہ تاریخ کی پہلی اپوزیشن ہے جو حکومت کو میثاق معیشت کی دعوت دے رہی ہے تاکہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنا کر آگے لے جایا جاسکے۔ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ اگر باہم مل کر کام کریں تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
قیصر شریف
(مرکزی سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی)
موجودہ حکومت یوٹرن کی ففٹی کے بعد اب سنچری مکمل کرنے کی جانب گامزن ہے جس پر وہ پریشان ہونے کے بجائے فخر کرتے ہیں۔ میرے نزدیک تحریک انصاف کا کوئی ہوم ورک نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس ایسی ٹیم ہے جو ملک چلا سکے۔ خارجہ پالیسی کی بات کریں تو اس وقت پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔
پاکستان نے اپنے خارجی محاذ پر خاطر خواہ کام نہیں کیا۔وزیراعظم کو بہت پہلے ایران جانا چاہیے تھا، مگر اس میں تاخیر ہوئی ۔افسوس ہے کہ ہمارے دوست اب دوست نہیں جبکہ قریبی ممالک بیگانے ہوچکے ہیں اور ہمیں عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے۔ داخلہ پالیسی کی بات کریں تو چمن واقعہ بہت افسوسناک ہے،ہم اس کے شہداء کیلئے دعا گو ہیں۔ہمارے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ وہاں گئے اور شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔ میرے نزدیک داخلی محاذ پر بھی حکومت کو بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے معاشی لحاظ سے پاکستان کی صورتحال انتہائی ابتر اور تشویشناک ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس میں موجود 480 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف تبدیلی کے نام پر عوام کیلئے تباہی لائی ہے، سونامی نے غریب عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، ادویات کی قیمتوں میںا ضافہ ہوچکا ہے، ہسپتالوں میں مفت علاج ختم ہوچکا ہے جبکہ عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آرہی ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈالر جلد 150 کی حد کراس کر لے گا۔ دی اکانومسٹ کی اکنامک انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افراط زر گزشتہ 56ماہ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
معاشی ترقی کی شرح 3.9 تک آجائے گی جس کے مزید کم ہونے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے معاشی سماجی کمیشن برائے ایشیاء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت معاشی شرح نمو کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بدترین ملک ہے۔ہمارا ہمسایہ ملک بھارت 7.2، چین 6.3 ، بنگلہ دیش 7.3، مالدیپ اور نیپال بھی ہم سے کہیں آگے ہیں جبکہ ہماری ترقی کی شرح 3.9 ہے۔ ہماری درآمدات میں اضافہ جبکہ برآمدات کم ہورہی ہیں جو تشویشناک ہے۔ جی ڈی پی میں خسارے کے حوالے سے اکنامک سروے رپورٹ کا جائزہ لیں توپہلے نمبر پر برونائی جس کا خسارہ 9.9 ہے، دوسرے نمبر پر منگولیا جو 6.2 ہے جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے جس کا خسارہ 5.8 فیصد ہے۔یہ پہلی حکومت ہے جس نے اتنے مختصر عرصے میں تین منی بجٹ دیے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں مگر انہوں نے کاسمیٹک تبدیلیوں سے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت ملک معاشی اعتبار سے آئی سی یو میں ہے، سعودی عرب، یو اے ای اور چین سے جو پیسہ آیا، بتایا جائے اس سے کیا بہتری آئی۔ ملک میں نہ مہنگائی کم ہوئی، نہ لوگوں کو روزگار ملا اور نہ ہی کوئی ترقیاتی کام ہوا۔ میں الزام تراشی نہیں کر رہا، یہ تلخ حقیقت ہے جس پر ہمیں دکھ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کرنا کیا چاہیے۔
میرے نزدیک مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ عمران خان قوم سے معافی مانگیں ، یو ٹرن سے گریز کریں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور غیر سنجیدہ رویہ ترک کر دیں۔ اپوزیشن اگر ملکی دفاع کیلئے اکٹھی ہوسکتی ہے تو ملک بچانے کیلئے بھی ہوسکتی ہے لہٰذاعمران خان کو سب سے بات کرنی چاہیے۔ کرپشن کے خلاف احتسابی عمل سے مایوسی ہوئی، سعودی عرب میں کرپٹ افراد سے 106 ارب ڈالر وصولی ہوئی جبکہ ہماری ریکوری صفر ہے، پاناما و دیگر سکینڈلز میں شامل سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ کسی بھی حکومت میں میڈیا کیلئے ایسے حالات پیدا نہیں کیے گئے جو آج ہیں۔ آزادی اظہار رائے کا نعرہ عمران خان لگاتے تھے، تحریک انصاف کی شہرت سے لے کر حکومت میں لانے تک، میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ پالیسی، رائے اور روزگار کے اعتبار سے میڈیا کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے یہ افسوسناک ہے۔ میڈیا ریاست کا اہم ستون ہے، اگر یہ کمزور ہوگا تو مسائل پیدا ہوں گے لہٰذا اس کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ملکی معاشی صورتحال کی بات کریں تو عالمی ادارے پاکستان کی بگڑتی ہوئی معیشت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ڈالر اونچی اڑان بھر رہا ہے جبکہ مہنگائی کا طوفان سب کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ملکی مسائل کی فہرست بہت طویل ہے جس کا مکمل ذکر یہاں ممکن نہیں تاہم موجودہ ملکی صورتحال دیکھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم''میں '' ملک کو درپیش چیلنجز اور ان کا حل'' کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سعدیہ سہیل رانا
(رکن پنجاب اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف)
ماضی میں کاسمیٹک اقدامات کیے گئے مگر دیر پا حل نہیں نکالا گیا، وزیر اعظم عمران خان ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لیے ماضی میں عارضی حل تلاش کیا گیا، ہر مسئلے کے حل کیلئے اس طرح کے مصنوعی اقدامات سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی گئیں۔ سابق ادوار میں اداروں میں سیاسی عمل دخل رہا، کوئی قانون موجود نہیں تھا اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ان کے اثاثے بڑھتے گئے مگر عوام اور ملک غریب ہوتے گئے۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی بات کی گئی۔
جس کے لیے اٹھارویں ترمیم لائی گئی مگر آج تک ملک میں عام آدمی تک اختیارات منتقل نہیں ہوئے۔ انہوں نے لوکل گورنمنٹ کے نام پر مردہ باڈی بنائی جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں بہترین بلدیاتی نظام دیا جس سے لوگوں کے مسائل حل ہوئے۔اب پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں، آئندہ اجلاس میں اسے منظور کر لیا جائے گا، اس سے لوگوں کوگھر کی دہلیز پر انصاف و دیگر سہولیات کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔
ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے وزیراعظم نے خصوصی ہدایت جاری کی ہے کہ نومبر والے ریٹس دوبارہ بحال کیے جائیں، اس پر کام جاری ہے۔ ہم ملکی تعلیمی نظام میں بہتری لارہے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے نجی تعلیمی اداروں و دیگر سٹیک ہولڈرز سے بات چیت جاری ہے لہٰذا اب یکساں نصاب ہوگا۔ علامہ اقبالؒ، سر گنگا رام و دیگر اہم شخصیات کو نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ اپنی قومی زبان میں بنیادی تعلیم لازمی قرار دی جائے گی جبکہ دیگر زبانوں کو بطور زبان پڑھایا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ سکل بیسڈ ایجوکیشن پر بھی توجہ دی جائے گی۔ حکومت کی تمام مسائل پر توجہ ہے۔ ہماری نیت صاف ہے اور ہم تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیںصنعتوں کو بہتر کرنا ہوگا، توانائی بحران پر قابو پانا ہوگا، چھوٹے ڈیم بنانا ہوں گے تاکہ عوام کو روزگار سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
تمام اہم منصوبوںپر کام ہورہا ہے تاہم بہتری میں وقت لگے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا ماضی شفاف ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر کابینہ سے رپورٹ لے رہے ہیں مگر مسائل کے حل میں بیورو کریسی آڑے آرہی ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ بھی وزیر اعظم کی نظر میں ہے، انہوں نے ماہ رمضان میں مہنگائی اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کی خصوصی ہدایت جاری کی ہے۔ خارجی محاذ پر حکومت کو کامیابی ملی، بھارت جنگ کے دہانے پر لے آیا تھا مگر وزیراعظم کی بہتر حکمت عملی سے اسے منہ کی کھاناپڑی جبکہ دنیا نے ہمارے عمل کی تعریف کی۔سیاست کا رخ اب تبدیل ہونا چاہیے، حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اپوزیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اپوزیشن کا گٹھ جوڑ ذاتی مفا دکیلئے ہے، انہیں پاکستان کے لیے اکٹھا ہونا اور مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ تمام چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔ آج نیب اور عدلیہ آزاد ہیں۔ حکومت کسی بھی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کر رہی اور نہ ہی ایسا چاہتی ہے۔ ہم اداروں کو خود مختار بنا رہے ہیں اور خود بھی ان کی زد میں آرہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں بہتری کی گنجائش ہے وہاں سب کو مل کر کام کرنا چاہیے اورایک ایسا نظام بنانا چاہیے جس میں کسی کے رنگ، نسل، زبان یا سیاسی وابستگی پر نہیں بلکہ بلا تفریق احتساب ہو۔
رانا ارشد
( رہنما پاکستان مسلم لیگ ،ن)
پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی اپوزیشن نہیں رہی جو حکومت کو کہے کہ ہم آپ کو گرانا نہیں چاہتے بلکہ آپ کی مضبوطی چاہتے ہیں تاکہ آپ اپنے وعدے پورے کریں مگر وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو کنٹینر کی آفر دے رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا دیں، ہم مہنگا ئی کے خاتمے کیلئے حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جب بھارت کے ساتھ معاملات کشیدہ ہوئے تو اپوزیشن نے یک زبان ہو کر بھارت کو واضح پیغام دیا کہ ہم متحد ہیں اور حکومت کے ساتھ ہیں مگر ہمیں اس وقت افسوس ہوا کہ جب حکومت نے تمام پارلیمانی لیڈرز کو بریفنگ کے لیے بلایا تو وزیراعظم مصروفیت کے باعث وہاں نہیں آئے۔
وزیر خارجہ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ بھارت حملہ کر سکتا ہے مگر وزیراعظم کہتے رہے کہ ہم جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ دشمن کے سامنے عوام اور فوج کھڑی ہے تو وزیراعظم کیوں جھک رہے ہیں۔ ملکی اقتصادی حالت کی بات کریں تو عمران خان نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے مگر اب 9 ماہ تاخیر کے بعد جا رہے ہیں۔دو ماہ قبل عمران خان خود آئی ایم ایف کے سربراہان سے ملے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ اور سینیٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جارہا۔اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے 6سے 8 ارب ڈالر آئیں گے مگر اس کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا جو مذاق ہے۔ اس وقت ڈالر بے قابو ہے۔ روپے کی قدر میں 38 فیصد کمی آئی ہے جو افسوسناک ہے۔
اس سے قرضوں میں 2 ہزار ارب اضافہ ہوا۔ ادویات کی قیمتوں میں 80 سے 100 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے 72 گھنٹوں میں ادویات کی قیمتیں کم کرنے کا حکم دیا تھا مگر تاحال کچھ نہیں ہوسکا۔ افسوس ہے کہ ایف بی آر بھی ریونیو اکٹھا کرنے میں ناکام رہا ہے، حکومت قرضے لیتی جا رہی ہے مگر فائدہ نہیں ہورہا۔ قوم کو بتایا جائے کہ روزانہ کی بنیاد پر جو 16 ارب روپے قرض لیا جارہا ہے وہ کہاں خرچ ہو رہا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ سابق حکمرانوں نے ملک تباہ کر دیا۔ اگر ایسا ہے تو احتساب کریں لیکن نیب کو انتقام کیلئے استعمال نہ کریں۔مارچ 2018ء میں مہنگائی 3.2 فیصد تھی، آج 9.41 فیصد ہے جو تشویشناک ہے ،عالمی ادارے پاکستان کی معاشی ریٹنگ منفی قرار دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے جو نا اہل ہے۔رمضان کی آمد آمد ہے لہٰذا حکومت کو کم از کم اس ماہ میں عوام کو ریلیف دینا چاہیے۔
بیرسٹر عامر حسن
(رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
72 سالہ ملکی تاریخ کا سب سے مشکل دور آج ہے۔ پاکستان کو شدیدمعاشی بحران اور عالمی تنہائی کا سامنا ہے جبکہ دشمن دندناتے پھر رہے ہیں۔ان مسائل کا سامنا کس طریقے سے کرنا ہے یہ بھی ایک چیلنج ہے کیونکہ جب تک تیاری نہیں ہوگی تب تک پالیسی سازی نہیں ہوسکتی۔ پیپلزپارٹی نے 22 خاندانوں کے عروج کو توڑا۔ آج جو مڈل کلاس نظر آرہی ہے یہ ذوالفقار علی بھٹو کے لائے ہوئے انقلاب کی وجہ سے ہے جس سے مزدور اور ہاری کا بیٹا بھی سکول گیا اور اسے سرکاری ملازمت ملی۔ موجودہ حکمرانوں نے ماضی میں بلند و بانگ دعوے کیے کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ ٹھیک کر دیں گے مگر سب خراب ہوگیا۔
عالمی ادارے، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک پاکستانی معیشت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، ان کے مطابق شرح نمو 2.4 سے بھی کم ہوجائے گی۔ افسوس ہے کہ ایشیاء میں سب سے بدترین معیشت پاکستان کی ہے جبکہ بنگلہ دیش اور مالدیپ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ ملک میں سونامی آگیا اور غریب اس میں ڈوب گیا۔ موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے 10 لاکھ افراد بے روزگار جبکہ 40 لاکھ مزید افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اگر یہ حالات اسی طرح رہے اور مہنگائی بڑھتی رہی تو غریب کے لیے جینا مشکل ہوجائے گا۔
پیپلز پارٹی نے جب دیکھا کہ ملک میں حالات اچھے نہیں ہیں، غریب کو مسائل کا سامنا ہے تو ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ کے نام سے سوشل سکیورٹی پروگرام شروع کیا تاکہ غریبوں کی مالی معاونت ہوسکے۔ موجودہ حکومت سے جب بھی کچھ پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ سابق حکمرانوں نے لوٹ لیا۔اس حوالے سے احتساب کے ادارے موجود ہیں، انہیں ان کا کام کرنے دیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت روزانہ کی بنیاد پر جو قرضے لے رہی ہے وہ کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ ڈویلپمنٹ بجٹ صفر، تنخواہوں میں اضافہ صفر جبکہ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ افسوس ہے کہ حکومت روزانہ کی بنیاد پر 14 ارب روپے قرض لے رہی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ استحکام اس وقت آئے گا جب اداروں کی عزت ہو۔ وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میںبیٹھنا چاہیے اور اس فورم پر بات کرنی چاہیے، اس سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ واحد حکومت ہے جو اپوزیشن کو احتجاج کیلئے کنٹینر کی آفر کر رہی ہے جبکہ یہ تاریخ کی پہلی اپوزیشن ہے جو حکومت کو میثاق معیشت کی دعوت دے رہی ہے تاکہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنا کر آگے لے جایا جاسکے۔ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ اگر باہم مل کر کام کریں تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔
قیصر شریف
(مرکزی سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی)
موجودہ حکومت یوٹرن کی ففٹی کے بعد اب سنچری مکمل کرنے کی جانب گامزن ہے جس پر وہ پریشان ہونے کے بجائے فخر کرتے ہیں۔ میرے نزدیک تحریک انصاف کا کوئی ہوم ورک نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس ایسی ٹیم ہے جو ملک چلا سکے۔ خارجہ پالیسی کی بات کریں تو اس وقت پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔
پاکستان نے اپنے خارجی محاذ پر خاطر خواہ کام نہیں کیا۔وزیراعظم کو بہت پہلے ایران جانا چاہیے تھا، مگر اس میں تاخیر ہوئی ۔افسوس ہے کہ ہمارے دوست اب دوست نہیں جبکہ قریبی ممالک بیگانے ہوچکے ہیں اور ہمیں عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے۔ داخلہ پالیسی کی بات کریں تو چمن واقعہ بہت افسوسناک ہے،ہم اس کے شہداء کیلئے دعا گو ہیں۔ہمارے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ وہاں گئے اور شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔ میرے نزدیک داخلی محاذ پر بھی حکومت کو بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے معاشی لحاظ سے پاکستان کی صورتحال انتہائی ابتر اور تشویشناک ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس میں موجود 480 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف تبدیلی کے نام پر عوام کیلئے تباہی لائی ہے، سونامی نے غریب عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، ادویات کی قیمتوں میںا ضافہ ہوچکا ہے، ہسپتالوں میں مفت علاج ختم ہوچکا ہے جبکہ عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آرہی ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈالر جلد 150 کی حد کراس کر لے گا۔ دی اکانومسٹ کی اکنامک انٹیلی جنس جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں افراط زر گزشتہ 56ماہ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
معاشی ترقی کی شرح 3.9 تک آجائے گی جس کے مزید کم ہونے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے معاشی سماجی کمیشن برائے ایشیاء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت معاشی شرح نمو کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بدترین ملک ہے۔ہمارا ہمسایہ ملک بھارت 7.2، چین 6.3 ، بنگلہ دیش 7.3، مالدیپ اور نیپال بھی ہم سے کہیں آگے ہیں جبکہ ہماری ترقی کی شرح 3.9 ہے۔ ہماری درآمدات میں اضافہ جبکہ برآمدات کم ہورہی ہیں جو تشویشناک ہے۔ جی ڈی پی میں خسارے کے حوالے سے اکنامک سروے رپورٹ کا جائزہ لیں توپہلے نمبر پر برونائی جس کا خسارہ 9.9 ہے، دوسرے نمبر پر منگولیا جو 6.2 ہے جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے جس کا خسارہ 5.8 فیصد ہے۔یہ پہلی حکومت ہے جس نے اتنے مختصر عرصے میں تین منی بجٹ دیے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں مگر انہوں نے کاسمیٹک تبدیلیوں سے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت ملک معاشی اعتبار سے آئی سی یو میں ہے، سعودی عرب، یو اے ای اور چین سے جو پیسہ آیا، بتایا جائے اس سے کیا بہتری آئی۔ ملک میں نہ مہنگائی کم ہوئی، نہ لوگوں کو روزگار ملا اور نہ ہی کوئی ترقیاتی کام ہوا۔ میں الزام تراشی نہیں کر رہا، یہ تلخ حقیقت ہے جس پر ہمیں دکھ ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کرنا کیا چاہیے۔
میرے نزدیک مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ عمران خان قوم سے معافی مانگیں ، یو ٹرن سے گریز کریں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور غیر سنجیدہ رویہ ترک کر دیں۔ اپوزیشن اگر ملکی دفاع کیلئے اکٹھی ہوسکتی ہے تو ملک بچانے کیلئے بھی ہوسکتی ہے لہٰذاعمران خان کو سب سے بات کرنی چاہیے۔ کرپشن کے خلاف احتسابی عمل سے مایوسی ہوئی، سعودی عرب میں کرپٹ افراد سے 106 ارب ڈالر وصولی ہوئی جبکہ ہماری ریکوری صفر ہے، پاناما و دیگر سکینڈلز میں شامل سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ کسی بھی حکومت میں میڈیا کیلئے ایسے حالات پیدا نہیں کیے گئے جو آج ہیں۔ آزادی اظہار رائے کا نعرہ عمران خان لگاتے تھے، تحریک انصاف کی شہرت سے لے کر حکومت میں لانے تک، میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ پالیسی، رائے اور روزگار کے اعتبار سے میڈیا کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے یہ افسوسناک ہے۔ میڈیا ریاست کا اہم ستون ہے، اگر یہ کمزور ہوگا تو مسائل پیدا ہوں گے لہٰذا اس کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔