وجہ کچھ بھی ہو آپ کیوں ہلکان ہیں

زیادہ عمر کی غیر شادی شدہ لڑکیوں سے متعلق اپنی سوچ بدلیں  

زیادہ عمر کی غیر شادی شدہ لڑکیوں سے متعلق اپنی سوچ بدلیں۔ فوٹو: فائل

''شادی تو بڑی کا حق تھا، مگر دیکھو چھوٹی کی کررہے ہیں، کوئی تو وجہ ہے۔۔۔''

''ہاں بھئی۔ مجھے تو بڑا دکھ ہوا اسے دیکھ کر۔ معلوم نہیں اس کے نصیب میں بَر ہے کہ نہیں۔''

یہ نازو کی رشتے دار خواتین تھیں جو اس کی چھوٹی بہن کی شادی کی تقریب میں شریک تھیں۔ نازو کی سماعت سے یہ جملے اس وقت ٹکرائے جب وہ ان کے ساتھ والی ٹیبل پر ایک فیملی سے محوِ گفتگو تھی۔

ایسی باتیں سن کر خود کو ٹٹولنے کا دل کرتا ہے اور دل، بے سبب ہی کوئی وجہ ڈھونڈنے لگتا ہے اب تک شادی نہ ہونے کی۔ اور اگر کوئی وجہ مل جائے، جیسے چھوٹی بہن کی بہ نسبت رنگت کا زیادہ گندمی مائل ہونا، پست قامتی، یا دبلا پتلا ہونا تو گویا اس کمی یا محرومی کا احساس کسی دکھتے پھوڑے کی طرح تکلیف دینا شروع کردیتا ہے۔ نازو کے جذبات کو ٹھیس تو پہنچی، مگر وہ کسی کا منہ بند نہیں کرسکتی تھی، سو وہاں سے ہٹ گئی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ خواتین کی اکثریت عیب جوئی کے لیے سَر جوڑنے کو اپنے لیے ایک نادر موقع سمجھتی ہے اور کسی طور ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی۔ چاہے شادی کی تقریب ہو یا سال گرہ کی، بیمار کی عیادت کو گئی ہوں یا میت کے گھر میں موجود ہوں اپنی بات کہے بغیر نہیں رہتیں۔ یہ سب پسماندہ اور بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ بے حسی بھی ہے جو ہمارے رویوں کا بھونڈا پن عیاں کرتی ہے۔ ناخواندہ اور بے شعور عورت ہی نہیں پڑھی لکھی خواتین بھی اس کی عادی ہوتی ہیں ۔

والدین کسی وجہ سے بڑی سے پہلے اگر چھوٹی بیٹی کی شادی کررہے ہوں تو اس کے ہر فنکشن جیسے مایوں، منہدی، بارات، ولیمے میں عورتیں بڑی بیٹی کے لیے ہم دری اور دکھ اس شدت سے ظاہر کرتی ہیں کہ ہر شوخ و شنگ فنکشن میں اسے اپنے سارے خواب جلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ سب سننے کے بعد جب اس کی نظر اسٹیج پر موجود نئے نویلے جوڑے پر پڑتی ہے تو اس کا جذباتی ہونا بھی فطری امر ہے۔ منہدی کی خوش بو، چوڑیوں کی کھنک، سرسراتے ریشمی ملبوسات کی چمک دمک اس وقت بری لگتی ہے جب سرخ جوڑے کی حسرت میں اسے اپنے دل کو بہلانا پڑتا ہے۔

چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے خود کو مصروف ظاہر کرنا سہل نہیں ہوتا۔ وہ شدت سے محسوس کرتی ہے کہ اس تقریب میں خوب سجنے سنورنے اور تیار ہو کر آنے کے باوجود وہ کہیں نہیں ہے۔ کسی کی نظر اس کی طرف نہیں اٹھ رہی۔ اور اگر بھولے بھٹکے کوئی نگاہ اس کی جانب اٹھتی بھی ہے تو وہ ترحم آمیز اور اس کی ہمدرد ہوتی ہے۔ یوں حوصلے کے ساتھ تقریب میں شریک رہنا اور خود کو کسی بھی تکلیف دہ جملے کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ تقریب کے تمام ہونے تک شرکا کی ذاتی رائے، ان کے اس حوالے سے تبصرے دلہن کی بڑی اور غیر شادی شدہ بہن کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔

بسا اوقات زبان سے نہیں تاسف اور ترحم آمیز نظروں اور رویوں سے بھی پسماندہ اور اذیت پسند سوچ کی مالک عورتیں خوب کام لیتی ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ یہ لمحہ اگر چھوٹی بہن کے لیے مسرت بھرا ہے تو بڑی بہن کے لیے ضرور ایک مشکل موقع ہو گا۔ وہ بھی سوچتی ہو گی کہ اپنے والدین پر بوجھ بن گئی ہے۔ وہ اس کی وجہ سے مشکل میں ہیں۔ لڑکی کی والدہ سے یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ '' عمر زیادہ ہوجائے تو ویسے ہی شادی مشکل ہو جاتی ہے، اچھا ہوا جو چھوٹی کی کردی، ورنہ بڑی کی آس میں چھوٹی کی زندگی برباد ہو جاتی۔'' اگر ایسی کسی تقریب میں غیر شادی شدہ بڑی بہن سے یہ کہا جائے کہ تمہاری چھوٹی بہن کتنی خوش قسمت ہے کہ جلدی اپنے گھر کی ہو گئی تو سوچیے اس لڑکی پر کیا گزرے گی۔ مگر اکثر عورتیں اس حد تک بھی چلی جاتی ہیں۔


اکثر والدین بڑی بیٹی کا کسی وجہ سے رشتہ نہ ہونے کی صورت میں مجبوراً اور بسا اوقات اچھا رشتہ مل جانے پر چھوٹی بیٹی کی شادی کر دیتے ہیں۔ بڑی بیٹی کا کم رُو ہونا، پست قامتی، چہرے پر کوئی داغ یا نشان، لاغر جسم یا اسی قسم کا کوئی اور مسئلہ بھی ہو سکتا ہے جو اس کی شادی میں رکاوٹ بن رہا ہو۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکی کے لیے جو پیام آئے، اسے والدین نے کسی وجہ سے خود مسترد کیا ہو۔ اکثر لڑکیوں کو کسی وجہ سے اپنے کنبے کی کفالت کرنا پڑ جاتی ہے اور وہ خود اپنے ارمانوں کی قربانی دے دیتی ہیں یا اسی میں ان کی عمر نکل جاتی ہے اور پھر کوئی رشتہ نہیں آتا۔ وجہ کچھ بھی ہو بڑی لڑکی گھر میں ہو اور چھوٹی کی شادی کر دی جائے تو کیا اس کا موضوعِ بحث بننا ضروری ہے؟ کیا اس حوالے سے غیر ذمہ دار اور منفی رویہ کسی کی دل آزاری نہیں۔ یہ وہ موقع نہیں ہوتا کہ آپ آتے جاتے غیر شادی بڑی لڑکی سے ہم دردی کا اظہار کریں، اسے کچھ جتائیں اور اسی تقریب کے دوران یہ سمجھانے کی کوشش کریں یہ سب مقدر کا کھیل ہے، بے فکر رہو، سب اچھا ہو جائے گا۔۔۔ مگر بدقسمتی سے ایسا کم ہی لوگ سوچتے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ کوئی صبر کی داد دے رہا ہوتا ہے کہ تقریب میں بڑی بہن کس طرح اپنے آپ کو سنبھالے ہوئے ہے، اور کوئی اس کی ہر بات کو بناوٹی کہتا ہے، جب کہ اشاروں کنایوں میں اسے بدنصیب اور منحوس تک کہہ دیا جاتا ہے۔ غرض شادی کی رسموں کے دوران جتنے منہ اتنی ہی باتیں والا معاملہ ہوتا ہے، مگر جہاں والدین اپنی بڑی بیٹی کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہیں، دل جُوئی کرتے ہیں اور اسے پہلے سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو وہ اذیت کا شکار نہیں ہوتی اور پُراعتماد نظر آتی ہے۔ اسی طرح باشعور قریبی عزیز و اقارب بھی اس کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں۔ سہیلیاں اور ہم عمر کزنز بھی اسے کسی بھی موقع پر نظر انداز نہ کریں تو یہ ایک لڑکی کے لیے بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ باشعور اور معاملہ فہم لوگ ہمیشہ جذبات و احساسات کو اہمیت دیتے ہیں جو ایک خوبی اور انسانی وصف ہے۔

والدین کے علاوہ چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ایسی بڑی بہن سے محبت اور نرمی سے پیش آئیں۔ گھر والے ہی اگر لڑکی کی مجبوری نہیں سمجھیں گے یا اس کی قربانی کا احترام نہیں کریں گے تو دوسروں سے کیا شکوہ۔ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹی بہن کے گھر کسی خوشی اور تقریب کے موقع پر اور اسی طرح قریبی عزیزوں کے ہاں بھی ایسی غیرشادی شدہ لڑکی کو اس لیے کام نمٹانے کی غرض سے بلایا جاتا ہے کہ اس پر کون سی اپنے شوہر اور بچوں کی ذمہ داری ہے، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا اس کڑوی حقیقت کا احساس دلائے بغیر بھی اسے ہاتھ بٹانے کے لیے نہیں بلایا جاسکتا؟ بات احساس اور مثبت طرزِ فکر کی ہے!

بڑی بیٹی کی شادی اگر تاخیر سے ہوئی ہے تو اس کی بھی وجوہ مختلف ہوسکتی ہیں جن میں زیادہ تر معاشی مسائل کی وجہ سے ملازمت اور اکثر تعلیمی سلسلہ ہوتا ہے۔ عموماً پہلوٹی کا بیٹا ہو یا بیٹی گھر کے سربراہ کے بعد اسی کو کنبے کا نگراں اور ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب خاندان کو معاشی طور پر نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑے تو یہی بڑا قربانی کا بکرا بنتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسے نہ صرف کماؤ پوت مان کر اسے مشقت کی چکی میں جھونک دیا جاتا ہے بلکہ اس کا جذباتی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

والد کی وفات یا معذوری کی صورت میں بیٹی بڑی کو گھر کا ماہانہ خرچ، دوسرے بہن بھائیوں کی تعلیم کا ذمہ اٹھانا پڑے تو اس میں اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ اس کے لیے نامناسب اور بے جوڑ رشتے آنے لگتے ہیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس میں بعض اوقات بڑی اولاد کو نہ چاہتے ہوئے بھی معاشی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ گھر کے حالات، معاشی مجبوریاں اور محرومیاں اس کی زندگی کی مسکراہٹوں کو حسرتوں میں بدل دیتے ہیں۔ شادی میں دوسری وجہِ تاخیر لڑکی کی زیادہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ہو سکتی ہے یا والدین بھی یہ چاہتے ہوں کہ لڑکی بہت اچھا پڑھے اور ڈگریاں لے۔ اس دوران عموماً اچھا اور مناسب رشتہ آنے پر یہ کہہ کر ٹھکرا دیا جاتا ہے کہ ابھی لڑکی کی عمر ہی کیا ہے، پڑھ لے، پھر دیکھیں گے۔ بعد میں ڈگریاں ہاتھ آجاتی ہیں، مگر عمر نکل جاتی ہے اور ایک اچھی بھلی لڑکی کو اپنا جوڑ نہیں مل پاتا۔

ایسی غیر شادی شدہ لڑکیاں گھر میں بوڑھے والدین اور دیگر اہلِ خانہ کی ذمہ داریاں پوری کرتی، بھائیوں کے بچے سنبھالتی اور خانگی سیاست کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں زندگی گزارتی ہیں جو انھیں طرح طرح کی بیماریوں، چڑچڑاہٹ اور اکتاہٹ کا شکار بنا دیتی ہیں۔ لہذا یہاں والدین کا کردار بامعنی اور اہم ہونا چاہیے۔ والدین کو ایسی بیٹی کے جذبات اور احساسات کو اہمیت دیتے ہوئے اس کے معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ عموماً گھر کی خوشی کی تقاریب میں غیر شادی شدہ بڑی بیٹی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کا دکھ عیاں نہ ہو یا کوئی اسے حاسد نہ سمجھے اور اسی لیے وہ ہر معاملے میں پیش پیش رہتی ہے۔ مگر والدین سے اس کا کرب چھپا نہیں ہوتا، لہذا انھیں احتیاط اور بہت باریکی سے محبت اور توجہ کا حصار اس کے گرد بننا چاہیے۔

اسے یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ ان پر بوجھ نہیں، وہ تنہا نہیں ہے۔ خصوصاً ایک ماں کو جو ایک عورت بھی ہوتی ہے اور زیادہ حساس بھی، اسے اپنی بیٹی کے قہقہوں میں چھپے درد کو سمجھنے کے لیے وقت نکالنا ہوگا۔ چھوٹی بیٹی شادی کے حوالے سے لمبی فہرستوں کے درمیان کہیںبڑی کا بھی ہاتھ تھام کر اسے یہ احساس دلائیں کہ میں تمہارے لیے دُعاگو بھی ہوں اور پُرامید بھی کہ یہ وقت تم پر بھی آئے گا۔ تم ہمارے گھر کی رونق ہو، ہمارا فخر اور ہماری سب سے پیاری بیٹی۔ تم کسی کی بات پر دھیان مت دو، ہم ایسا نہیں سوچتے جیسا لوگ کہتے ہیں۔ ہماری طرف دیکھو، ہمارا یقین کرو۔۔۔اور ہاں، تمہارے بھائی بہن بھی تمہیں بہت چاہتے ہیں کہ ہم نے ان کی تربیت ہی ایسی کی ہے۔ وہ بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ شاید ڈھلتی ہوئی عمر کی وہ لڑکی کبھی والدین کی دہلیز سے ڈولی میں بیٹھ کر پیا گھر نہ جاسکے، مگر یقین جانیے آپ کا پیار، مسلسل توجہ اور مثبت رویہ اپنی زندگی میں خوشی کے رنگ بھرنے میں مدد دے گا۔
Load Next Story