کارکردگی جائزہ خیبر پختونخوا کی کابینہ میں بھی ردوبدل ہو گا

پی ٹی آئی اپنے طور پر معاملات کو سلجھانے اور اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے کوشاں ہے۔

پی ٹی آئی اپنے طور پر معاملات کو سلجھانے اور اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے کوشاں ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان ہفتہ رفتہ کے دوران ایک اور قبائلی ضلع اورکزئی کا بھی دورہ کرگئے ہیں اور یقینی طور پر جس طرح خیبر، مہمند، باجوڑ اور وزیرستان میں وزیراعظم کے دوروں کے بعد مختلف امور کے حوالے سے کام شروع ہوگیا ہے اور موبائل فون نیٹ ورک کھلنے سمیت کئی معاملات آگے بڑھنے شروع ہوئے ہیں اسی طرح اورکزئی کے دورے کے نتیجے میں بھی بہتری کی راہیں کھلیں گی اور وہاں بسنے والوں کو وزیراعظم کے دورے سے یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔

وزیراعظم کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا کہ جب وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر کابینہ سے رخصت ہو چکے ہیں جبکہ کئی وزراء کے محکموں میں ردوبدل کیا گیا ہے اور یہ رخصتی اور ردوبدل مذاق میں نہیں کیا گیا بلکہ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ مذکورہ وزراء اس معیار کی کارکردگی نہیں دکھا پائے جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی یا پھر وزیراعظم بطور پارٹی چیئرمین ان سے توقع کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی رخصتی ٹھہر گئی تھی اور وزیراعظم کے اس دورے کے دوران بھی یہ معاملہ چھایا رہا جس کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا کی کابینہ ایک خوف کے عالم میں بھی مبتلاء رہی۔

وزیراعظم نے اورکزئی میں اپنے خطاب کے دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے واضح طور پر ہدایت کی کہ وہ اپنی ٹیم پر نظر رکھیں جو بالکل واضح کرگیا کہ دونوں صوبوں میں بھی اب تبدیلی کی ہوا چلے گی اور عثمان بزدار اور محمود خان کی ٹیموں میں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی جبکہ کچھ حلقے تو یہ پتا بھی دے رہے ہیں کہ شاید معاملہ اس سے بھی اوپر تک جائے تاہم اگر ایسا نہ بھی ہوا تو اس صورت میں بھی کچھ چہرے رخصت اور کچھ نئے حکومتی ٹیم میں آتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حکومتی ٹیم ارکان کے چہروں پر پریشانی واضح طور پر پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ ایک جانب تو حالیہ کاروائی کے بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں تو ساتھ ہی پہلے سے صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کی صفوں میں جو اختلافات ہیں ان کا بھی اپنا اثر ہے ،اب تک یہ اختلافات سراٹھاتے رہے اور یہ سرکچلا جاتا رہا لیکن اختلاف بہرکیف موجود ہے جس کے ساتھ ہی یہ بھی محسوس کیاجارہا ہے کہ مرکز نے صوبائی حکومت پروزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کی صورت میں چیک بھی رکھا ہوا ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت جہاں اسی ماہ کے اواخر میں ضلع باجوڑ میں کابینہ کا اجلاس منعقد کرنے جا رہی ہے وہیں اصلاحاتی ایجنڈے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے کیونکہ قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ماہ جون میں منعقد ہونے کا قوی امکان ہے جس کی تیاری کے لیے وقت اب انتہائی کم رہ گیا ہے۔


یقینی طور پرصوبائی حکومت اورتحریک انصاف کی قیادت کواس بات کا بھرپوراحساس ہے کیونکہ قبائلی اضلاع سے16جنرل اور پانچ مخصوص نشستوں کے ساتھ مجموعی طورپر21 نشستوں کا معاملہ ہے اور تحریک انصاف قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے اس پہلے معرکے کو سرکرنا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب جمعیت علماء اسلام (ف)جو اگرچہ قبائلی اضلاع میں ملین مارچ کے انعقاد کا سلسلہ تو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اب تک جے یوآئی کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نے کھل کر یہ اعلان نہیں کیا کہ آیا ان کی پارٹی قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات میں حصہ لے گی یا نہیں؟

اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ ان کی پارٹی کسی بھی طور میدان کسی دوسرے کے لیے کھلا نہیں چھوڑے گی اور ہر صورت الیکشن میں حصہ لے گی تاہم باقاعدہ اعلان کا بھی بہرکیف انتظار کیاجا رہا ہے جو اب تک نہیں کیا گیااور یقینی طور پر حیران کن ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت اور پی ٹی آئی کی خیبرپختونخوا حکومت جہاں وزیراعظم کے جلسوں اورصوبائی کابینہ اجلاسوں کا قبائلی اضلاع میں انعقاد کر رہی ہے وہیں اس نے پی ٹی ایم کے حوالے سے بھی نرم گوشہ ظاہر کیا ہے، صوبائی حکومت نے پی ٹی ایم کے مطالبات پر بات چیت کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے پی ٹی ایم کے رہنماؤں سے بات چیت کرنی تھی تاہم پی ٹی ایم یہ معاملہ ٹالتی رہی جس کے نتیجے میں یہ بیٹھک اب تک نہیں ہو سکی، یہی وجہ ہے کہ اب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ایک مرتبہ پھر پی ٹی ایم کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جس کے لیے ان کے ساتھ رابطہ کیاجائے گا اور امید ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم جلد ہی مشترکہ نشست کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی جس کا فائدہ پی ٹی آئی قبائلی اضلاع کے انتخابات میں لے گی۔

اور اس کے اثرات بعدازاں بلدیاتی انتخابات پر بھی مرتب ہونگے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ تیار کرلیا ہے جسے جلد ہی صوبائی اسمبلی سے منظور کرا لیا جائے گا جس کے بعد اسی سال ستمبر، اکتوبر میں صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگا جو ایک نیا تجربہ ہوگا کیونکہ اب تک اضلاع کو بلدیاتی نظام میں بنیادی حیثیت حاصل تھی تاہم اب یہ حیثیت تحصیلوں کو حاصل ہو گی اور آئندہ چار سالوں تک یہ نظام برقرار رہے گا۔

پی ٹی آئی اپنے طور پر معاملات کو سلجھانے اور اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی میں پائے جانے والے اندرونی اختلافات کے تحت پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کو رہبر تحریک بنانے کی جو کوششیں ایک مرتبہ پھر شروع کی گئی تھی وہ پھر دم توڑ گئی ہیں کیونکہ اسفندیارولی خان کی جانب سے واضح کردیا گیا ہے کہ وہ انٹراپارٹی انتخابات میں مرکزی صدارت کے لیے خود امیدوار ہونگے۔

جمعیت علماء اسلام(ف)کے انٹراپارٹی انتخابات میں چونکہ کئی اضلاع کے انتخابات تاحال منعقد نہیں ہو پائے اس لیے پارٹی کے صوبائی انتخابات جون اور مرکزی جولائی میں منعقد ہونگے جس میں مولانا فضل الرحمن کو تو مولانامحمدخان شیرانی سمیت کسی کی بھی جانب سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا البتہ مرکزی جنرل سیکرٹری اور صوبائی انتخابات میں کچھ نہ کچھ ہونے کی توقع ہے ۔
Load Next Story