پرندوں کو آزادی سے روشناس کراتا محکمہ وائلڈ لائف کا ہونہار اہلکار

اعجاز مودانی 36 سالہ کیریر میں لاکھوں پرندوں کو غیرقانونی شکاریوں کی قید سے آزاد کراچکے

 انسپکٹر اعجاز علی مودانی کو سندھ وائلڈ کنزرویٹر جاوید مہر نے ’ہیرو آف دی منتھ‘ قرار دیا ہے۔ فوٹو: فائل

سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے انسپکٹر اعجاز علی مودانی کُھلی فضا میں محو پرواز پرندے بے انتہا پیارے لگتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ36 سال کے دوران وہ بلاشبہ لاکھوں پرندوں کو شکاریوں اور چڑی ماروں کے چُنگل سے آزاد کراچکے ہیں۔

سندھ وائلڈ کنزرویٹر جاوید مہر انھیں ' ہیرو آف دی منتھ' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گذشتہ برس مودانی نے 20000 سے زائد طیور آزاد کرائے تھے۔ ان دنوں میں حیدرآباد میں فرائض منصبی انجام دینے والے انسپکٹر اعجاز علی مودانی 1983ء میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہوئے۔

36 برسوں کے دوران انھوں نے حیدرآباد، جامشورو، دادو اور بدین میں غیرقانونی شکاریوں اور چڑی ماروں سے لاکھوں کو پرندوں کو آزاد کرایا اور ان کی غیرقانونی تجارت میں ملوث درجنوں گروہ گرفتار کیے اور ان سے جرمانے کی مد میں مجموعی طور پر 40 لاکھ روپے وصول کیے۔


مودانی نے ایکسپریس ٹربیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجروں میں قید پرندوں کو آزادی کے ساتھ کُھلی فضا میں اڑتے ہوئے دیکھ کر مجھے ناقابل بیان خوشی و مسرت ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ یہ میری ملازمت کا حصہ ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ مجھے اس کا صلہ مجھے اخروی زندگی میں ملے گا۔

مودانی نے بتایا کہ وہ پرندوں کے غیرقانونی شکار اور تجارت میں ملوث درجنوں گروہوں کو ختم اور ان کے اراکین کو گرفتار کراچکے ہیں جن پر مقدمے بھی چل رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک خفیہ اطلاع پر انھوں نے سہون کے قریب ایک کنٹینر پر چھاپہ مار کر 14000 پرندے آزاد کرائے تھے، اور ملزموں کے خلاف سنڈھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 1972ء کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔ بدقسمی سے انسپکٹر اعجاز علی مودانی کی محنت کو محکمانہ سطح پر کچھ زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ 36 برسوں میں انھیں صرف ایک بار پروموشن دی گئی۔

مودانی کے مطابق انھیں چھوٹ موٹے انعامات بھی دیے گئے مگر وہ اپنی ترقی کے منتظر ہیں۔ وائلڈ لائف کنزرویٹر جاوید پمہر کہتے ہیں کہ انھوں نے مودانی کے کیس کو میرٹ پر لیا ہے اور جل انھیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ترقی دے دی جائے گی۔
Load Next Story