کراچی میں ضمنی انتخاب فوج کی نگرانی سے سیاسی جماعتیں مطمئن

سیاسی قوتوں کے اعتماد نے اس چناؤ کی اہمیت بڑھا دی ہے


Rizwan Tahir Mubeen August 20, 2013
سیاسی قوتوں کے اعتماد نے اس چناؤ کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ فوٹو : فائل

بلدیاتی نظام پر متحدہ اور پیپلزپارٹی کے درمیان محاذ گرم ہونے سے ضمنی انتخاب کے سلسلے میں جاری انتخابی مہم میں تیزی آگئی ہے۔

شہر قائد کے دو صوبائی اور ایک قومی، جب کہ میر پور خاص کی ایک صوبائی نشست پر ضمنی انتخاب کے سلسلے میں متحدہ کے قائد الطاف حسین کو اتوار کے روز خطاب کرنا تھا، جسے پیر تک کے لیے ملتوی کیا گیا۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس التوا کا ایک مقصد آیندہ روز سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام کے مسودے کے پیش کرنے سے متعلق ہو۔ پیر کے روز اپنے خطاب میں الطاف حسین نے نئے منظور شدہ بلدیاتی نظام کو نہایت سختی سے مسترد کر کے اسے برطانوی سامراجی نظام سے تشبیہ دی اور پیپلزپارٹی کی جانب سے اسے سندھ کو تقسیم کرنے کی کوشش قرار دیا اور کارکنوں کو بلدیاتی نظام پر احتجاج کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی۔

الطاف حسین کے خطاب کے فوراً بعد صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے بھی نہایت جارحانہ انداز اپناتے ہوئے الطاف حسین کے بیان کا جواب دیا۔ اپنی ہنگامی اخباری کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بلدیاتی نظام برطانوی نہیں، بلکہ ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو برطانوی شہری ہونے کے ناتے الطاف حسین کو برطانوی قانون پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے 2013ء کے بلدیاتی نظام کو سندھ کے عوام کی امنگوں کے مطابق قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے نظاموں پر عوام کو اعتراضات تھے، اس لیے ہم نے سندھ کے عوام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نظام بنایا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس میں پانچ سے چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ قبل ازیں سندھ اسمبلی میں بلدیاتی نظام 2013ء کی منظوری کے موقع پر فنکشنل اور نواز لیگ نے حمایت کی، جب کہ تحریک انصاف غیر جانب دار رہی۔ قائد حزب اختلاف فیصل سبزواری نے نئے بلدیاتی نظام کو 1979ء کے بلدیاتی نظام کا چربہ قرار دیا اور کہا کہ سندھ اسمبلی میں 33 فی صد نمایندگی رکھنے والی جماعت اور صوبے کے لاکھوں لوگ اس بل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

ضمنی انتخاب میں کراچی بھر کے تمام پولنگ اسٹیشن حساس قرار دے دیے گئے ہیں۔ جہاں ان سطور کی اشاعت تک فوج کی تعیناتی عمل میں آچکی ہو گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں کراچی کی دوسری بڑی سیاسی قوت سمجھی جانے والی جماعت اسلامی میدان میں موجود نہیں، تاہم اس کی جگہ گزشتہ انتخابات میں اُبھر کر سامنے آنے والی تحریک انصاف بھر پور قوت کے ساتھ زروآزمائی کے لیے تیار ہے اور مثبت بات یہ ہے کہ فوج کی تعیناتی سے اب تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے عاید کردہ دھاندلی کے الزامات کی بیخ کنی ہو سکے گی۔

ساتھ ہی شہر کی سب سے نمایاں سیاسی جماعت متحدہ بھی اپنی قوت آزمانے کے لیے پوری طرح کمر کس چکی ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں سیاسی قوتوں کے تحفظات کے خاتمے کے بعد بھر پور شرکت سب سے بہتر معاملہ ہے۔ بالخصوص کراچی شہر میں شفاف انتخابات کے حوالے سے ملک بھر میں سب سے زیادہ اعتراضات اور الزامات سامنے آرہے تھے۔ اب امید ہے کہ ضمنی انتخاب میں ان الزامات کا خاتمہ ہوگا اور ایک بھرپور سیاسی مقابلہ دیکھنے کو ملے گا اور اس کے نتائج تمام سیاسی جماعتیں کھلے دل سے قبول بھی کریں گی۔ شہر قائد میں کافی دن بعد ایک ایسے چناؤ کی امید کی جا رہی ہے، جس میں امیدواران کو انتخابی عمل پر اعتبار ہے اور وہ اپنی اپنی سیاسی حیثیت منوانے اور اس کے پیمانے کو دیکھنے کے لیے میدان میں موجود ہیں۔

کراچی کے ضمنی انتخابات کا دوسرا اہم پہلویہ ہے کہ یہ چناؤ، واضح طور پر نہ سہی جزوی طور پر ہی سہی شہر کے سیاسی مزاج کی خبر بھی دے گا۔ فتح و شکست سے قطع نظر، حق رائے دہی کا تناسب اور مختلف امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق بھی شہر کے لوگوں کے سیاسی رجحانات کا پتا دے گا۔ اب خدا کرے تمام امیدواران انتخابی عمل اور نتائج کے آنے تک اپنے اسی اعتماد کو برقرار رکھیں اور آنے والے نتائج کو اعتبار بخشیں، کیوں کہ انتخاب ہارنے والے کے لیے بھی یہ معرکہ کسی طرح اہمیت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس سے اسے معلوم چلتا ہے کہ وہ عوامی مقبولیت کی کس منزل پر ہے۔

اگر ہارنے والا امیدوار ہار تسلیم نہ کرے تو سیاسی لحاظ سے وہ ایک طرح کی خوش فہمی میں ہی موجود رہے گا اور کبھی بھی اپنی ہار کی وجوہات کو دور کرکے فتح کے راستے ہم وَار نہیں کر سکے گا، کیوں کہ اس نے تو مانا ہی نہیں کہ اب عوام اس سے پرے ہونے لگے ہیں۔ اسی طرح جیت کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن ماضی اور حال کے مقابلوں کو سامنے رکھ کر اپنی کارکردگی، مقبولیت اور دیگر امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، یہ نتائج فتح مند امیدواروں کے لیے بھی کسی آئینے سے کم نہیں ہوتے، کہ آیا انہوں نے کتنے ووٹوں سے کام یابی حاصل کی اور ان کے مقابلے میں جن امیدواروں کو ووٹ پڑے ان میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے۔

بلدیاتی نظام اور ضمنی انتخاب کی گرما گرمی کے ساتھ مصر میں جاری خوںریز واقعات پر بھی جماعت اسلامی کی جانب سے شدید احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے راہ نما محمد حسین محنتی، لیاقت بلوچ اور دیگر نے سابق صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے اور اس کے بعد مصری فوج کی جانب سے جاری ظالمانہ کارروائیوں کی سخت مذمت کی۔ سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ نشانہ وار قتل کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لوگوں کو ہدف بناتی گولیوں کے ساتھ بم دھماکے بھی ہوئے۔ لیاری میں فٹبال میچ کے اختتام پر ہونے والے دھماکے میں 11 افراد ہلاک ہوئے۔ یوم آزادی کی شب دہشت گردی کی لہر میں تیزی آئی اور اسماعیلی جماعت خانے اور دیگر مقامات پر بھی دستی بم حملہ کیے گئے۔ شہر میں مجموعی طور پررمضان المبارک میں بھی دہشت گردی نہ رک سکی اور 186 افراد اس کی نذر ہوگئے۔ جس میں مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کے کارکنان نشانہ بنے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں