کھپرو این اے 235 پر شازیہ مری کو مختلف برادریوں کی حمایت حاصل

فنکشنل لیگ کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقے میں سخت مقابلے کی توقع


ملک غلام حسین August 20, 2013
فوٹو : فائل

کل ہونے والے ضمنی انتخابات میں تعلقہ کھپرو کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 235 سانگھڑ II پر بھی میدان سجے گا۔

یہاں کُل 13 امیدوار سید گل حسن شاہ، پریم سونی، مدد علی، نثار احمد، حاجی خدا بخش درس، محمد اسماعیل درس، منٹھار راجڑ، دیوداس، عبدالستار، محمد اسرار، شازیہ مری، قراۃ العین مری اور غلام مرتضیٰ شر میدان میں ہیں، لیکن اصل مقابلہ مسلم لیگ فنکشنل کے حاجی خدا بخش درس اور پیپلزپارٹی کی سابق صوبائی وزیر شازیہ مری کے درمیان ہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے ضمنی انتخاب میں ووٹوں کا تناسب بڑھانے کے لیے پارٹی کے ذمہ داروں کو مختلف یونین کونسلوں میں انتخابی مہم کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں اور یونین کونسل کھپرو کے لیے سابق سٹی ناظم محمد وسیم قائم خانی کا انتخاب کیا گیا ہے۔

دوسری طرف اگر تعلقہ کھپرو کو فنکشنل لیگ کے گہرے اثر سے خالی سمجھنا مناسب نہ ہو گا۔ ماضی میں یہاں ہمیشہ فنکشنل لیگ کے امیدوار ہی کام یاب ہوتے رہے ہیں۔ 2002ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی حلقہ 235 کے لیے فنکشنل لیگ کے قاضی عبدالقدوس راجڑ نے 61 ہزار 671 ووٹ لے کر سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجوکے فرزند اسد جونیجو کو شکست دی اور پیپلز پارٹی نے 34 ہزار 888 ووٹ حاصل کیے۔ 2008ء کے عام انتخابات میں فنکشنل لیگ کے غلام دستگیر راجڑ نے 68 ہزار 122، جب کہ پیپلزپارٹی کے سرفراز راجڑ نے محض31 ہزار 997 ووٹ لیے۔

حالیہ عام انتخابات میں فنکشنل لیگ کے صوبائی صدر پیر صدر الدین شاہ راشدی نے 73ہزار 350 ووٹ لے کرپیپلز پارٹی کی امیدوار شازیہ مری کو شکست دی، جنہیں 61 ہزار 919 ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم یہاں ماضی میں پیپلزپارٹی کے امیدوار 35 ہزار ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکی، لیکن اب61 ہزار سے زاید ووٹ ملنے کے بعد سخت مقابلے کی صورت پیدا ہونے لگی ہے۔

قومی اسمبلی کا حلقہ 235 سانگھڑ II تین تعلقوں پر مشتمل ہے، جس میں تعلقہ کھپرو، سندھڑی اور تعلقہ جام نواز علی شامل ہیں۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2لاکھ 26 ہزار 726ہے۔ یہاں سروری، غوثیہ، حُر اور دیگر پیروں کے مریدین کی اکثریت ہے۔ جیلانی جماعت کے پیشوا پیر نور محمد حسینی، پیر آف بھٹ شاہ سید نثار حسین شاہ، دادو کے پیر سید غلام شاہ، پیر آف رانی پور آغا روشن علی شاہ، مری برادری کے پیشوا پیر عبداللہ شاہ فراسانی، راما پیر مندر ٹنڈو الہ یار کے انچارج سابق سینیٹر کھٹو مل جیون اور بھیل برادری کے مرکزی راہ نماؤں کی حمایت کے بعد شازیہ مری کی حیثیت مستحکم ہو چکی ہے۔

شازیہ مری نے جیلانی جماعت کے پیشوا پیر سید نور محمد شاہ جیلانی کے ہم راہ تھر کے دور افتادہ علاقوں کا دورہ کیا، جب کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کا امیدوار کبھی تھر میں اپنی مہم نہیں چلا سکا۔ تھر میں ہمیشہ جیلانی جماعت کے کارکن فنکشنل لیگ کو ہی ووٹ دیتے تھے، تاہم اس مرتبہ جیلانی جماعت کی جانب سے پیپلز پارٹی کی حمایت کے بعد تھر سے بھی پیپلزپارٹی کو بڑی تعداد میں ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ فنکشنل لیگ کی گرھوڑ شریف کی درگاہ کے سجادہ نشین سید آصف علی شاہ نے حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مختلف پیروں و سجادہ نشینوں کی پی پی پی کی حمایت نے یہاں پہلی بار فنکشنل لیگ کے لیے پریشانی سی پیدا کردی ہے۔ دوسری طرف غوثیہ جماعت نے بھی کسی امیدوار کی حمایت نہیں کی بلکہ اپنے پیروکاروں کو مرضی سے ووٹ دینے کا اختیار دیا ہے۔

قومی اسمبلی کے حلقے این اے 235 میں تعلقہ جام نواز علی اور تعلقہ سندھڑی میں پی پی پی کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہے، جب کہ تعلقہ کھپرو میں فنکشنل لیگ کا مضبوط ووٹ بینک ہے۔ حالیہ انتخابات میں پی ایس 80 تعلقہ کھپرو سے فنکشنل لیگ کے امیدوار حاجی خدا بخش راجڑ نے 49 ہزار 939 ووٹ اور پی پی پی کے علی حسن ہنگورجو نے 36 ہزار 100 ووٹ حاصل کیے، جب کہ پی ایس 81 جام نواز علی سے فنکشنل لیگ کے جام مدد علی نے 35 ہزار 548 اور پی پی پی امیدوار اصغر علی عرف جنید جونیجو نے 34 ہزار 175 ووٹ حاصل کیے تھے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی پی پی امیدوار نے حالیہ ضمنی انتخاب میں جام نواز علی کے حلقے سے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کر لیے تو تعلقہ کھپرو سے انہیں 36 ہزار ووٹ ملنے کی وجہ سے کام یابی کے روشن امکانات ہیں۔ تعلقہ کھپرو سے حالیہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے دیو داس نے 1564 ووٹ حاصل کیے، اس بار بھی دیوداس ہی متحدہ کے امیدوار ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مختلف امیدوار کس کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فتح وشکست کس امیدوار کا مقدر بنتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں