ٹھٹھہ ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ نبردآزما

این اے 237 پر شمس النساء اور ریاض شاہ شیرازی کے درمیان مقابلہ


ثمر حسن August 20, 2013
فوٹو: فائل

ضمنی انتخابات کے سلسلے میں ٹھٹھہ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 237 پر بھی تیاریاں زور و شور سے جاری رہیں، یہاں نزدیکی مقابلہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے درمیان توقع کی جارہی ہے۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے شمس النساء جب کہ نواز لیگ کی جانب سے سید ریاض شاہ شیرازی میدان میں ہیں۔ این اے237 صوبائی حلقوں پی ایس 84، 85 اور 88 پر محیط ہے۔ اس حلقے پر زیادہ تر ملاح، پلیجو، خاصخیلی، خشک، بروہی، سومرو، میمن، جاکھرو، چانڈیو اور جوکھیو برادری کے ووٹ ہیں جو زیادہ تر پیپلز پارٹی کے حامی ہیں، پی ایس 84 ٹھٹھہ پر 11مئی کو پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحمید سومرو بڑی برتری سے جیتے تھے، مگر شیرازی گروپ کے اعجاز علی شاہ (جو اب نواز لیگ میں شامل ہیں) دوبارہ گنتی کرانے کی درخواست ریٹرننگ افسر کو دی تھی، جس میں سید اعجاز شاہ شیرازی کو کام یاب قرار دیا گیا۔

حلقہ پی ایس 85 میر پور ساکرو پر ہمیشہ ہی پیپلزپارٹی کام یابی حاصل کرتی رہی، 2002ء اور 2008ء میں یہاں سے سسی پلیجو کام یاب ہوتی رہیں، مگرحالیہ انتخابات میں وہ نواز لیگ کے سید امیر حیدر شاہ سے شکست کھا گئیں، لیکن انہوں نے دوبارہ گنتی کے لیے درخواست دائر کی۔ سسی پلیجو کا کہنا ہے کہ آر او آفیس میں الیکشن کے بعد بیلٹ پیپرز کی بوریاں کھلی آ رہی تھیں اور کوئی افسر بالا اس پر توجہ نہیں دے رہا ہے، جب کہ پولنگ اسٹیشن کے دروازے صحافیوں کے لیے بند کر دیے گئے تھے۔ حلقے پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد چوتھے روز سید امیر حیدر شاہ کو کام یاب قرار دیا گیا، این اے 237 کے حلقہ پی ایس 88 کے لیے کہا جا رہا تھا کہ یہ حلقہ پی پی کو ملے گا ہی نہیں کیوں کہ یہ حلقہ ملکانیوں کی ملکیت ہے، پیپلز پارٹی نے اس حلقے پر سید اویس مظفر کی صورت میں کام یابی حاصل کی۔

اب حلقہ این اے 237 کی پی ایس 85 اور پی ایس 84 مسلم لیگ ن کے شیرازی برادران کے پاس ہیں، جب کہ حلقہ پی ایس 88 پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ این اے 237 کے ضمنی انتخاب کو جیتنا دونوں پارٹیوں کے لیے اہم ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت یہی چاہے گی کہ ٹھٹھہ سندھ کی یہ نشست ان کو ہی ملے، جب کہ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی بھرپور کوشش کرے گی، کہ یہ سیٹ ان کے ہاتھ سے نہ جائے اور اگر یہ نشست پیپلز پارٹی کو نہ مل سکی تو پارٹی کے لیے یہ ایک بڑا اپ سیٹ ہو گا اور مسلم لیگ ن یہ سیٹ اس لیے حاصل کرنا چاہے گی کہ سندھ سے ان کی قومی اسمبلی کی محدود سیٹوں میں اضافہ ہو تو وہ یہ دعوا کر سکے کہ اس نے نہایت تیزی سے سندھ میں اپنی جگہ بنانا شروع کر دی ہے۔

22 اگست کو ضمنی انتخابات میں دونوں پارٹیاں اپنی زور آزمائی کریں گی، اس وجہ سے دونوں ہی پارٹیوں کی جانب سے ضمنی انتخاب کی تیاریاں زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہیں، جب کہ انتخابات میں ذمہ داریاں سونپنے کا کام بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔ این اے 237 پر 11 مئی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے صادق میمن نے 86 ہزار 705 ووٹ حاصل کر کے کام یابی حاصل کی تھی، جب کہ شیرازی گروپ اور حال ہی میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرنے والے سید ریاض شاہ شیرازی 82 ہزار 909 ووٹ لے سکے تھے، مذکورہ نشست صادق علی میمن کی دُہری شہریت کے باعث خالی ہوگئی تھی اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ضمنی انتخاب میں یہ کس کے حصے میں آتی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں