بلیو ایریا کے واقعہ نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی نااہلی ثابت کر دی

بڑھتی ہوئی افراتفری اور نفسا نفسی کے اس عالم میں پاکستانی قوم کو چاروں طرف سے بے یقینی نے گھیر رکھا ہے ...

فوٹو : فائل

بڑھتی ہوئی افراتفری اور نفسا نفسی کے اس عالم میں پاکستانی قوم کو چاروں طرف سے بے یقینی نے گھیر رکھا ہے اور زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے سکندر جیسے کردار کو با آسانی اسلحہ دستیاب ہے اور حکمران تمام تر مسائل سے آگاہی کے باوجودعملی اقدامات کرنے کے حوالے سے شدید بے یقنی کا شکار ہیں۔

ہفتہ رفتہ کے دوران وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے سکندر کے حواس باختگی کیس نے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت کی قلعی اس بیدردی سے کھولی ہے کہ وزارت داخلہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار چوہدری نثار علی خان ابھی تک مختلف اوقات میں دیئے گئے اپنے بیانات میں الجھے پڑے ہیں۔ حافظ آباد کے رہائشی ملک سکندر حیات کی ذاتی زندگی کے مسائل اس قدر گنجلک ہیں کہ اسے ان کا واحد حل دوقیمتی گنیں خرید کر وفاقی دارالحکومت پہنچ کر ٹریفک پولیس سے الجھنے کے بعد اپنا اور بعد میں اپنے خاندان کا تماشا بنوانا قدرے آسان حل نظر آیا۔

بظاہر وہ ایک حواس باختہ شخص ہے مگر اسے تمام تر الزامات سے بری قرار دینے کی گنجائش کسی صورت موجود نہیں، اس کی تمام تر تحقیق اور تفتیش ہونی چاہئے اور حقائق بغیر کسی قومی مفاد کی الجھن میں پڑے قوم کے سامنے من و عن پیش کر دینے چاہئیں۔ سکندر حواس باختہ،ذہنی مریض،جنونی یا غیر ملکی ایجنٹ ہے یا نہیں البتہ اس ساڑھے پانچ گھنٹوںسے بہت کچھ ثابت ہوگیا مثلا ہمارے سکیورٹی انتظامات انتہائی ناقص ہیں، کوئی بھی شخص پولیس ناکوں پر کھڑے اہلکاروں کو چکمہ دے کر پارلیمنٹ ہاوس ،ایوان صدر اور دیگر حساس اداروں کی عمارتوں کے انتہائی قریب پہنچ سکتا ہے ۔ ہمارے میڈیا ذمہ داران کو اس بات کا پتہ نہیں کہ کون سی چیز کتنی دیر تک آن ایئر رکھنی ہے،کس ایشو کو کس زاویئے سے کس انداز میں کورکرنا ہے۔

ان ٹیلی ویژن چینلز کو ریگولیٹ کرنے کی بظاہر ذمہ داری تو پیمرا کی ہے مگر اگلے روز انھوں نے یہ کہہ کر اپنی نااہلی ظاہر کردی کہ چینلز کو ہم سکندر کی لائیو کوریج سے نہ روک سکے۔ پولیس کو چکمہ دے کر کلاشنکوفوں کے ہمراہ بلیو ایریا پہنچ جانے والے حافظ آباد کے سکندر حیات کے بے وقوفانہ اقدام کی براہ راست کوریج کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کو عوام کی جانب سے بھی بے حد تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جانب اس غیر معمولی واقعہ کی کوریج کرنا میڈیا کی پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی اور دوسری طرف اسے اس واقعہ کی مسلسل چھ گھنٹے تک کوریج کو بھی پاکستانی میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ حرکت قرار دیا جاتا رہا۔ جب سکندر کی بیوی کنول نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک کے میزبان جاوید چوہدری سے بذریعہ فون گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ہماری ایس ایس پی سے بات ہوچکی ہے اور ہم یہاں یعنی بلیو ایریا سے جارہے ہیں ایسی صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے زمرد خان کو سکندر سے ملنے کی اجازت دینا ہماری پیاری پولیس کی حواس باختگی نہیں تو اور کیا ہے۔


زمرد خان کی جراتمندانہ بے وقوفی ابھی جاری تھی کہ سکندر کی گنیں یا ان گنوں کو چلانے کی صلاحیت جواب دے گئی سکندر نے ہینڈز اپ کردئیے اس کی ایک وجہ اس کے معصوم بچوں کی چیخ و پکار بھی ہوسکتی ہے، مگر ہماری حواس باختہ پولیس نے بلا سوچے سمجھے سکندر پر گولیاں چلا دیں پھر اسے دبوچ لینے کے بعد بعض پولیس اہلکاروں نے تفاخرانہ انداز میں یوں ہوائی فائرنگ کی ،جس کے نتیجے میں موقع پر خوف وہراس کے باعث وہ بھگدڑ مچی کہ صحافیوں اور عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی اپنے زخم سہلانے پر مجبور ہے۔

حواس باختگی کا یہ سفر یہاں ختم نہیں ہوا ہمارے محترم وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ فتوٰی جاری کردیا کہ سکندر دہشتگرد نہیں حالانکہ انہیں پولیس کی تفتیش سے حاصل ہونے والے ممکنہ نتائج کا انتظار کرنا چاہیے تھا، اب سکندر ہسپتال میں صاحب استراحت ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت میڈیا اور قوم کو ٹھنڈے دل و دماغ سے تفتیش کاروں کو اپنے فرائض سرانجام دینے کی مہلت دینی چاہئے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بھی ہماری استدعا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں داخلے کے تمام راستوںپرمستقل بنیادوں پر چیک پوسٹیں قائم کرکے ناکارہ ترین کی بجائے اہل ترین افسران و اہلکاران کو وہاں تعینات کیا جائے عوام کو از خود معلوم ہوجائے گا کہ جس نے اسلام آباد میں داخل ہونا ہے اسے دس منٹ کا اضافی وقت پولیس چیکنگ کیلئے درکار ہوگا۔البتہ میکینزم ترتیب دیا جائے کہ چیکنگ کا یہ عمل دس منٹ سے زائد کسی صورت نہ ہو۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف کا قوم سے خطاب بھی اس ہفتے کا اہم ترین واقعہ ہے۔ وزیر اعظم پاکستان محمد نوازشریف کو اللٰہ تعالی نے چودہ سال کے وقفہ کے بعد بھاری اکثریت سے تیسری بار وزارت عظمٰی کا عہدہ عطا کیا ہے ۔ اس ذمہ داری کے بارتلے دبے وزیر اعظم اپنے اقتدار کے پہلے پچہتر دنوں میں ملک و قوم کو درپیش مسائل کی درست نشاندہی میں کامیاب رہے ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران انھوں نے توانائی کی صورتحال کی ممکن حد تک درست تفصیلات بھی پیش کردی ہیں اور یہ امید دلائی ہے کہ وہ بہت جلد چھ ہزار چھ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی گڈانی کے مقام پر افتتاح کی خوشخبری قوم کو سنائیں گے۔

انھوں نے دہشتگردی اور امن عامہ کے مسائل کی حقیقی وجہ کے تعین کے ساتھ بجا طور پر انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کو مذکرات کی دعوت دی ۔ ملک میں اقتصادی تجارتی و کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کیلئے درست سمت میں آگے بڑھتے ہوئے بھارت سے دوستی اور چین سے معاہدوں کی بات کی۔ بلوچستان میں اعتماد سازی کی بابت بھی ان کی بات میں کوئی تذبذب دیکھنے کو نہ ملا ،امریکہ اور افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں صورتحال کا صحیح طور پر ادراک ہے مگر عام آدمی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جناب وزیر اعظم اب جن مسائل کا ذکر کررہے ہیں یہ تو ہمارے اینکرپرسنز نے پوری قوم کو ازبر کرادیئے ہیں، آپ کو اگر یہ سمجھنے میں پچھتر دن لگے ہیں تو عملی طور پر آپ اقدام کب اٹھائیں گے۔ وزیر اعظم نوازشریف کی بیوروکریسی کی نااہلی اور کج روی کے حوالے سے جھنجھلاہٹ بھی بجا ہے اور اب معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلا تاخیر حکومتی بیوروکریسی کا قبلہ درست کرنے کیلئے سخت ترین اقدامات اٹھائینگے۔
Load Next Story