صحافت کو ضوابط کا احترام کرنا چاہیے
صحافت میرا پیشہ ہی نہیں عشق اور جنون بھی ہے۔
KARACHI:
صحافت میرا پیشہ ہی نہیں عشق اور جنون بھی ہے۔ سچائی کو بھرپور طریقے سے بتانے کی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں تھوڑا بہت حصہ میں نے بھی ڈالا ہے اور ضیاء الحق کے پر آشوب دنوں میں لمبی بے روزگاری اور فاقے بھی کاٹے۔ اس سب کے باوجود میں اس بات پر آج بھی بضد ہوں کہ صحافت کو کچھ پیشہ وارانہ ضوابط کا ویسے ہی احترام کرنا چاہیے جو آپ کچھ اخلاقی اصولوں کے لیے جبلی طور پر اپنا رکھی ہیں۔
اس صدی کے آغاز کے سالوں میں جب ہمارے ہاں 24/7 چینلوں کا چلن ہوا تو میرے جیسے لوگ بہت خوش ہوئے۔ Live کیمروں کے سامنے حقیقی واقعات کی بے ساختہ رپورٹنگ کی اہمیت کا حقیقی احساس صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جن کی جوانیاں اپنی خبروں کو اخبارات کے صفحوں پر دیکھنے کے بجائے ردی کی ٹوکریوں میں پھینکے جانے کے عذاب سہتے گزری ہوں اور یہ عذاب اس وقت مزید کربناک ہو جاتا تھا جب آپ کی لکھی خبریں پیشہ وارانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ سراسر حکومتوں کے خوف سے ضایع کر دی جاتی تھیں۔ 24/7 صحافت کی راحت کے تمام تر احساس کے باوجود میرے جیسے لوگوں نے ان چینلوں کے ذریعے فروغ پانے والی منفی روایات کو ہمیشہ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ٹی وی چینل چلانا ایک بہت مہنگا دھندا ہے۔ اشتہارات اس کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہیں اور ان کا تمام تر انحصارRatings پر ہوتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ابھی تک میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے ملک میں رائج Ratings کے پیمانے کتنے معیاری اور سائنسی بنیادوں پر تیار کیے گئے ہیں۔ مگر Ratings کی اہمیت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ چند فارمولوں کی جاہلانہ نقالی شروع کر دیں۔ مکھی پر مکھی بٹھاتے اور اپنا روٹی پانی چلاتے رہیں۔ صحافت محض ایک پیشہ نہیں فن بھی ہے۔ اس کے لیے مخصوص ہنر بھی درکار ہے۔ ایک بہت ہی متجسس ذہن جو نت نئے موضوعات کو ڈھونڈتا اور اسے تخلیقی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہے۔ ہمارے بچپن میں لاہور کی گلیوں میں ''بے استادا'' کی اصطلاح بہت استعمال ہوا کرتی تھی۔ اس کا مقصد یہ حقیقت اُجاگر کرنا ہوتا تھا کہ آپ ایک بہت ہی تجربہ کار استاد کی رہنمائی کے بغیر اپنے اندر پائے جانے والے ہنر کو موثر طریقے سے استعمال نہیں کر سکتے۔ صحافت میں آپ کا استاد صرف چیف ایڈیٹر ہی نہیں ہوتا۔
آپ کا کام جونیئر سب ایڈیٹروں سے ایک سے زیادہ چھلنیوں کے سپرد ہو جاتا ہے۔ مجھے دُکھ ہے تو یہ کہ 24/7 صحافت میں ہم نے ان چھلنیوں کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ ایک رپورٹر ہوتا ہے اور ایک نیوز اینکر۔ کوئی واقعہ ہو جائے تو رپورٹر جائے وقوعہ پر پہنچ کر اپنے موبائل فون سے بس بولے چلے جاتا ہے۔ خدانخواستہ کہیں کوئی دھماکا وغیرہ ہو جائے تو منٹوں میں اس کو یہ تعین بھی کر دینا ہوتا ہے کہ بمبار خودکش تھا یا نہیں اور دھماکہ خیز مواد کی نوعیت اور قوت کیا تھی۔ اسے حکومتی غفلت اور زخمیوں کی مناسب اسپتالوں تک منتقلی وغیرہ میں تاخیر پرڈرامائی انداز میں سیاپا فروشی بھی کرنا ہوتی جو وہ فوراً کر ڈالتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ 24/7 کام کرنے والے کو خبر جلد از جلد لوگوں کے سامنے لانا چاہیے۔ مگر ایک واقعہ ہو جانے کے بعد یہ بھی تو ہماری ذمے داری ہے کہ اس واقعہ کی رپورٹنگ سے متعلق تمام افراد تھوڑی دیر کو مل بیٹھیں اور سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لیں کہ ان کی رپورٹنگ میں کون کون سے جھول اور خامیاں نمایاں نظر آئیں جنھیں دہرانے سے ہر صورت اجتناب برتنا چاہیے۔
گزشتہ 8 برس سے ٹیلی وژن صحافت سے وابستہ ہو جانے کے بعد کم از کم میں نے ایسی میٹنگ ہوتے ہوئے نہیں دیکھی اور نہ ان اداروں میں اس کا استعمال سنا ہے جن سے میری وابستگی نہیں رہی۔ اس رواج کی عدم موجودگی نے مجھے ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رکھا کہ 24/7 صحافت کی خامیاں ایک حد سے تجاوز کر گئیں تو لوگ ان سے اُکتا جائیں گے۔ حکومتیں اور ہماری بدنیت اور نااہل اشرافیہ لوگوں کی اس اُکتاہٹ اور خفگی کا بڑی مکاری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بتدریج ان روایات کو اس ملک میں دوبارہ متعارف کرا دیں گے جن کے ذریعے خلقِ خدا کو پورا سچ جاننے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ ہفتے سکندر نامی ایک جنونی اور نشئی کے رچائے ڈرامے کی پانچ گھنٹے تک Live Coverage نے بالآخر یہ موقع فراہم کر دیا ہے۔ ہم صحافیوں کو اس وقت بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں بہتر سے بہتر صحافت صرف اور صرف خود احتسابی کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ دوسروں کے بتائے ہوئے ''ضوابطِ اخلاق'' بالآخر حکومتوں اور ہماری بدنیت اور نااہل اشرافیہ کے کام آئیں گے۔
اپنے شعبے کی بُری روایات کا ذکر کرتے ہوئے میں بڑے دُکھ سے یہ شکایت کرنے پر بھی مجبور ہوں کہ ہم میں سے کسی صحافی یا ادارے کی عمارت پر کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو ہم ایک ''نجی ٹیلی وژن'' کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کی سنگینی کو کم تر کر دیتے ہیں۔ صحافت کے بنیادی اصولوں کا آغاز پانچ Ws سے ہوتا ہے۔ کہاں، کیوں، کس طرح، کس پر حملہ اور حملہ کرنے والا کون، ان پانچ سوالوں کا جواب ہر خبر کا انٹرو یا ابتدائیہ بناتے ہیں۔
''نجی ٹیلی وژن پر حملہ'' اس بنیادی اصول کی واضح خلاف ورزی ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں کی بات تو چھوڑئیے میں جو خود کو بڑا پھنے خان رپورٹر سمجھتا ہوں ''ایکسپریس'' کے کراچی والے حملے کے بارے میں واقعہ ہونے کے کئی گھنٹوں بعد باخبر ہو سکا۔ امریکا وغیرہ میں صحافتی اداروں کے درمیان کاروباری مقابلہ ہمارے ہاں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ مگر ایکسپریس کے ٹربیون کے ساتھ ملنے والے ''انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون'' کو صرف دو دن باقاعدگی سے پڑھ لیجیے۔ ان کے کالم نگار ہمارے لیے قطعی انجان جریدوں میں چھپی خبر یا کالم کا ذکر بھی اس اخبار کے رپورٹر یا کالم نگار کے نام کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم یہ سب کیوں نہیں کر سکتے؟ کیوں اس بے وقوفانہ خیال میں مبتلا ہیں کہ لوگ اس گمان میں مبتلا رہیں کہ پاکستان میں صرف وہی ایک اخبار یا ٹیلی وژن ادارہ ہے جس کے لیے میں کام کرتا ہوں۔
صحافت میرا پیشہ ہی نہیں عشق اور جنون بھی ہے۔ سچائی کو بھرپور طریقے سے بتانے کی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں تھوڑا بہت حصہ میں نے بھی ڈالا ہے اور ضیاء الحق کے پر آشوب دنوں میں لمبی بے روزگاری اور فاقے بھی کاٹے۔ اس سب کے باوجود میں اس بات پر آج بھی بضد ہوں کہ صحافت کو کچھ پیشہ وارانہ ضوابط کا ویسے ہی احترام کرنا چاہیے جو آپ کچھ اخلاقی اصولوں کے لیے جبلی طور پر اپنا رکھی ہیں۔
اس صدی کے آغاز کے سالوں میں جب ہمارے ہاں 24/7 چینلوں کا چلن ہوا تو میرے جیسے لوگ بہت خوش ہوئے۔ Live کیمروں کے سامنے حقیقی واقعات کی بے ساختہ رپورٹنگ کی اہمیت کا حقیقی احساس صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جن کی جوانیاں اپنی خبروں کو اخبارات کے صفحوں پر دیکھنے کے بجائے ردی کی ٹوکریوں میں پھینکے جانے کے عذاب سہتے گزری ہوں اور یہ عذاب اس وقت مزید کربناک ہو جاتا تھا جب آپ کی لکھی خبریں پیشہ وارانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ سراسر حکومتوں کے خوف سے ضایع کر دی جاتی تھیں۔ 24/7 صحافت کی راحت کے تمام تر احساس کے باوجود میرے جیسے لوگوں نے ان چینلوں کے ذریعے فروغ پانے والی منفی روایات کو ہمیشہ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ٹی وی چینل چلانا ایک بہت مہنگا دھندا ہے۔ اشتہارات اس کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہیں اور ان کا تمام تر انحصارRatings پر ہوتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ابھی تک میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے ملک میں رائج Ratings کے پیمانے کتنے معیاری اور سائنسی بنیادوں پر تیار کیے گئے ہیں۔ مگر Ratings کی اہمیت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ چند فارمولوں کی جاہلانہ نقالی شروع کر دیں۔ مکھی پر مکھی بٹھاتے اور اپنا روٹی پانی چلاتے رہیں۔ صحافت محض ایک پیشہ نہیں فن بھی ہے۔ اس کے لیے مخصوص ہنر بھی درکار ہے۔ ایک بہت ہی متجسس ذہن جو نت نئے موضوعات کو ڈھونڈتا اور اسے تخلیقی انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا رہے۔ ہمارے بچپن میں لاہور کی گلیوں میں ''بے استادا'' کی اصطلاح بہت استعمال ہوا کرتی تھی۔ اس کا مقصد یہ حقیقت اُجاگر کرنا ہوتا تھا کہ آپ ایک بہت ہی تجربہ کار استاد کی رہنمائی کے بغیر اپنے اندر پائے جانے والے ہنر کو موثر طریقے سے استعمال نہیں کر سکتے۔ صحافت میں آپ کا استاد صرف چیف ایڈیٹر ہی نہیں ہوتا۔
آپ کا کام جونیئر سب ایڈیٹروں سے ایک سے زیادہ چھلنیوں کے سپرد ہو جاتا ہے۔ مجھے دُکھ ہے تو یہ کہ 24/7 صحافت میں ہم نے ان چھلنیوں کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ ایک رپورٹر ہوتا ہے اور ایک نیوز اینکر۔ کوئی واقعہ ہو جائے تو رپورٹر جائے وقوعہ پر پہنچ کر اپنے موبائل فون سے بس بولے چلے جاتا ہے۔ خدانخواستہ کہیں کوئی دھماکا وغیرہ ہو جائے تو منٹوں میں اس کو یہ تعین بھی کر دینا ہوتا ہے کہ بمبار خودکش تھا یا نہیں اور دھماکہ خیز مواد کی نوعیت اور قوت کیا تھی۔ اسے حکومتی غفلت اور زخمیوں کی مناسب اسپتالوں تک منتقلی وغیرہ میں تاخیر پرڈرامائی انداز میں سیاپا فروشی بھی کرنا ہوتی جو وہ فوراً کر ڈالتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ 24/7 کام کرنے والے کو خبر جلد از جلد لوگوں کے سامنے لانا چاہیے۔ مگر ایک واقعہ ہو جانے کے بعد یہ بھی تو ہماری ذمے داری ہے کہ اس واقعہ کی رپورٹنگ سے متعلق تمام افراد تھوڑی دیر کو مل بیٹھیں اور سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لیں کہ ان کی رپورٹنگ میں کون کون سے جھول اور خامیاں نمایاں نظر آئیں جنھیں دہرانے سے ہر صورت اجتناب برتنا چاہیے۔
گزشتہ 8 برس سے ٹیلی وژن صحافت سے وابستہ ہو جانے کے بعد کم از کم میں نے ایسی میٹنگ ہوتے ہوئے نہیں دیکھی اور نہ ان اداروں میں اس کا استعمال سنا ہے جن سے میری وابستگی نہیں رہی۔ اس رواج کی عدم موجودگی نے مجھے ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رکھا کہ 24/7 صحافت کی خامیاں ایک حد سے تجاوز کر گئیں تو لوگ ان سے اُکتا جائیں گے۔ حکومتیں اور ہماری بدنیت اور نااہل اشرافیہ لوگوں کی اس اُکتاہٹ اور خفگی کا بڑی مکاری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بتدریج ان روایات کو اس ملک میں دوبارہ متعارف کرا دیں گے جن کے ذریعے خلقِ خدا کو پورا سچ جاننے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ گزشتہ ہفتے سکندر نامی ایک جنونی اور نشئی کے رچائے ڈرامے کی پانچ گھنٹے تک Live Coverage نے بالآخر یہ موقع فراہم کر دیا ہے۔ ہم صحافیوں کو اس وقت بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں بہتر سے بہتر صحافت صرف اور صرف خود احتسابی کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ دوسروں کے بتائے ہوئے ''ضوابطِ اخلاق'' بالآخر حکومتوں اور ہماری بدنیت اور نااہل اشرافیہ کے کام آئیں گے۔
اپنے شعبے کی بُری روایات کا ذکر کرتے ہوئے میں بڑے دُکھ سے یہ شکایت کرنے پر بھی مجبور ہوں کہ ہم میں سے کسی صحافی یا ادارے کی عمارت پر کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو ہم ایک ''نجی ٹیلی وژن'' کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کی سنگینی کو کم تر کر دیتے ہیں۔ صحافت کے بنیادی اصولوں کا آغاز پانچ Ws سے ہوتا ہے۔ کہاں، کیوں، کس طرح، کس پر حملہ اور حملہ کرنے والا کون، ان پانچ سوالوں کا جواب ہر خبر کا انٹرو یا ابتدائیہ بناتے ہیں۔
''نجی ٹیلی وژن پر حملہ'' اس بنیادی اصول کی واضح خلاف ورزی ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں کی بات تو چھوڑئیے میں جو خود کو بڑا پھنے خان رپورٹر سمجھتا ہوں ''ایکسپریس'' کے کراچی والے حملے کے بارے میں واقعہ ہونے کے کئی گھنٹوں بعد باخبر ہو سکا۔ امریکا وغیرہ میں صحافتی اداروں کے درمیان کاروباری مقابلہ ہمارے ہاں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ مگر ایکسپریس کے ٹربیون کے ساتھ ملنے والے ''انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون'' کو صرف دو دن باقاعدگی سے پڑھ لیجیے۔ ان کے کالم نگار ہمارے لیے قطعی انجان جریدوں میں چھپی خبر یا کالم کا ذکر بھی اس اخبار کے رپورٹر یا کالم نگار کے نام کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم یہ سب کیوں نہیں کر سکتے؟ کیوں اس بے وقوفانہ خیال میں مبتلا ہیں کہ لوگ اس گمان میں مبتلا رہیں کہ پاکستان میں صرف وہی ایک اخبار یا ٹیلی وژن ادارہ ہے جس کے لیے میں کام کرتا ہوں۔