ضمنی الیکشن کے نتائج صوبائی سیاست پر دور رس اثرات مرتب کریں گے
ضمنی انتخابات کے لیے کل سجنے والا میدان پوری طرح گرم ہے جس میں حکومتی اتحاد اورمشترکہ اپوزیشن کا مقابلہ ہونے جارہا ہے۔
ضمنی انتخابات کے لیے کل سجنے والا میدان پوری طرح گرم ہے جس میں حکومتی اتحاد اورمشترکہ اپوزیشن کا مقابلہ ہونے جارہا ہے ۔
کیونکہ پشاور کے این اے ون سے لے کر لکی مروت کے این اے 27 تک اور اسی طرح چاروں صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے امیدوار ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اور یہ مقابلہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ حکومتوں کے قیام کے تین ماہ کے اندر یہ مقابلہ ہونے جارہا ہے اور عوام نے ان ضمنی انتخابات میں فیصلہ کرنا ہے کہ جن پارٹیوں کو انہوں نے گیارہ مئی کو مینڈیٹ دیا تھا آیا وہ اس عرصہ میں عوام کے اعتماد پر پورا اتری ہیں یا نہیں۔
اور جن پارٹیوں کو عوام نے عام انتخابات میں مسترد کردیا تھا وہ عوام کے دلوں میں اس عرصہ میں گھر بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں یا نہیں؟کل ہونے والے ضمنی انتخابات کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بہت سے امیدواروں کے سیاسی کیرئیر کے مستقبل میں جاری رہنے اور بہت سوں کے ختم ہونے کا بھی فیصلہ ہوگا اور ان انتخابات کے بطن سے اور بھی بہت کچھ نکلنے کی امیدیں کی جارہی ہیں کیونکہ اگر خیبرپختونخوا کی حد تک اپوزیشن جماعتیں ضمنی انتخابات میں نو میں سے اکثریتی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہیں تو پھر اپوزیشن جماعتوں کے اندر جو کچھڑی پک رہی ہے وہ بھی سامنے آجائے گی جس کے لیے کسی نہ کسی سطح پر تیاریاں بہرکیف جاری ہیں ۔
چونکہ ضمنی انتخابات حکومت اور اپوزیشن جماعتوں دونوں کے لیے ہی ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے دونوں جانب سے نظریں ان انتخابات کے نتائج پر مرکوز ہیں اور جس طرح کہ سطور بالا میں کہا گیا ہے کہ اگر نتائج اپوزیشن کی منشاء کے مطابق نکلتے ہیں تو اس صورت میں وہ بلی بھی تھیلے سے باہر آجائے گی جسے عدم اعتماد کے نام سے اب تک تھیلے کے اندر بند کرکے رکھا گیا ہے ۔گوکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف اقتدار کے پہلے تین ماہ کے اندر ہی تحریک عدم اعتماد جیسا انتہائی اقدام کرنا خود اپوزیشن کی بعض پارٹیوں کو ہضم نہیں ہوپارہا اور وہ اس سے اتفاق نہیں کررہیں۔
تاہم بعض اپوزیشن پارٹیاں ان خطوط پر سو چ رہی ہیں کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے مطابق بننے والے حالات میں یہ کام کرلیا جائے اور اس حوالے سے اس ساری کہانی کے تانے بانے بننے والے اس کے ڈانڈے خیبرپختونخوا میں حکومتی اتحاد میں شامل ایک پارٹی کے رہنما کی مرکز کی ایک اہم شخصیت کے ساتھ ملاقات سے جوڑتے ہیں کہ کہانی کا مرکزی خیال اسی ملاقات میں زیر بحث آیا اور حکومتی اتحاد میں شامل رہنما کو اسی ملاقات کے دوران یہ ٹاسک سونپا گیا کہ وہ صوبہ میں یہ کام کریں اور مذکورہ شخصیت کو اس سلسلے میں صوبہ کا گورنر بنائے جانے کی پیشکش کی خبریں بھی اڑتی ،اڑتی ہوئی مل رہی ہیں اور اگر گورنرکے عہدہ پر تبدیلی اسی فارمولے کے تحت ہوتی ہے تو اس صورت میں وزارت اعلیٰ ،سپیکر ،سینئر وزراء اور دیگر عہدوں کی تقسیم بھی اسی فارمولے کے تحت ہوگی جو اندر ہی اندر کہیں بن بھی رہا ہے اور جس پر مشاورت بھی جاری ہے تاہم اس حوالے سے یہ مسلہ ضرور درپیش ہے کہ ماضی کی برسراقتدار دونوں پارٹیاں اس ساری کہانی سے متفق نہیں ہورہیں ، تبدیلی کی خواہاں وہ دونوں پارٹیاں بھی ہیں۔
تاہم وہ یہ کام ''مناسب''وقت پر چاہتی ہیں اور ان کے خیال میں وہ مناسب وقت ابھی نہیں آیا اس لیے اس کام میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، تاہم اگر تمام اپوزیشن جماعتیں متفق ہو بھی جائیں تو یہ کام حکمران اتحاد میں شامل ایک جماعت اور خود پی ٹی آئی کے اندر فارورڈ بلاک کے بننے کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا اور پی ٹی آئی کی صورت حال یہ ہے کہ کچھ وزیر ہیں ،کچھ مشیر ،کچھ معاونین خصوصی ،بعض کو ضلعی مشاورتی کمیٹیوں کا چیئرمین لگایا گیا ہے اور کچھ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین لگ جائیں گے ایسے میں اس وقت شاید ہی اتنی تعداد میں ناراض ارکان مل سکیں کہ مذکورہ بالا کھیل کھیلا جاسکے ۔
اگر اکھاڑ پچھاڑ کی اس کہانی کے مطابق معاملات آگے نہ بھی بڑھیں تب بھی صوبہ کے گورنر کی تبدیلی کے حوالے سے معاملات ضرور زیر غور ہیں جس کے لیے بظاہر تو صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب اور مسلم لیگ(ن)کے مرکزی سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا ہی بطور امیدوار نظر آرہے ہیں، تاہم ان تمام باتوں کا انحصار آئندہ ایک ماہ کے اندر ہونے والی تبدیلیوں پر ہے کہ یہ تبدیلیاں حالات کوکونسا رخ دیتی ہیں ، ہر تبدیلی کے صوبہ کی سیاست اور معاملات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
تبدیلی کا عمل جس کی نوید تحریک انصاف کے مرکزی چیئرمین عمران خان نے انتخابی مہم اور صوبائی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو سنائی تھی اس کی جانب سب ہی کی نظریں ہیں اور سب 31 اگست کی اس ڈیڈ لائن کے منتظر ہیں کہ جس سے تبدیلی کا یہ عمل شروع ہوگا تاہم اس تبدیلی کے عمل کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت اطلاعات تک رسائی کے قانون کانفاذ ہے گوکہ اس کی عملی شکل سامنے آنے میں ابھی مزید تین سے چار مہینے لگیں گے کیونکہ کسی سرکاری محکمہ کی جانب سے کسی قسم کی معلومات کی فراہمی سے انکار کی صورت میں جس انفارمیشن کمیشن اور چیف انفارمیشن کمشنر کو اپیل کی جانی ہے اس کی تشکیل اور تقرریوں کے لیے چار ماہ کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔
تاہم یہ ایک مثبت پیش رفت ہے جس کے بعد مزید تبدیلیوں کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کا آنے والا سیشن نہایت اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اس سیشن میں اراکین اسمبلی کے ذاتی کاروبار کرنے پر پابندی عائد کرنے اور سرکاری محکموں میں جزا وسزا کا عمل شروع کرنے سے متعلق قانون سازی کی جانی ہے جس سے یقینی طور پر کسی نہ کسی حد تک بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ،کیونکہ اب تک کئی معاملات زبانی کلامی حد تک ہی محدود تھے ۔ اگر ایک مرتبہ قانون سازی ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب بڑا واضح ہوگا کہ اس قانون کی خلاف ورزی پر قانون ہی ان قانون شکن عناصر سے نمٹے گا ۔ صوبائی حکومت اگر حقیقی معنوں میں تبدیلی لانے کی خواہاں ہے تو اسے ان قوانین کے نفاذ کے مرحلے پر زیادہ توجہ دینی ہوگی کیونکہ قوانین پہلے سے بھی بہت سے موجود ہیں مگر ان کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے ان قوانین کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ۔
ضمنی انتخابات کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کو بھی ایک بڑا مرحلہ درپیش ہوگا اور وہ مرحلہ11 مئی کو عام انتخابات کے دوران اے این پی کی شکست کی وجوہا ت پر مبنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کو منطر عام پر لانا ہے جس کی طرف سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اس رپورٹ کے ذریعے ہی تعین ہوگا کہ اے این پی کی عام انتخابات میں شکست میں دہشت گردی کے علاوہ دیگر کون سے عوامل شامل تھے کیونکہ امکان ظاہر کیاجارہا ہے اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پارٹی کے صوبائی سیٹ اپ کو تحلیل بھی کیا جاسکتا ہے اور پارٹی کے اندر نئی روح پھونکنے کے لیے وارڈ کی سطح سے نیا انتخابی عمل شروع ہوسکتا ہے جس میں گو کہ کچھ وقت تو لگے گا مگر اس کے نتیجے میں ایک نیا پارٹی سیٹ اپ منظر عام پر آئے گا تاکہ پارٹی کارکن اور تنظیمیں نئے جوش اور جذبے کے ساتھ کام کرسکیں۔ اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ پارٹی کا تھنک ٹینک اور سنٹرل ورکنگ کمیٹی مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے اور پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ۔