انتظامی مشینری کا زنگ اور عبدالکریم ٹنڈا

میاں صاحب نے ایک بات سو فیصد سچ کہی ہے‘ وہ یہ کہ انتظامی مشینری زنگ آلود ہو چکی ہے۔

latifch910@yahoo.com

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کر ہی دیا' عوام سے زیادہ ان کے ناقدوں کو اس خطاب کا انتظار تھا۔ اپوزیشن کا ردعمل تو ویسا ہی ہے جیسا ہوا کرتا ہے البتہ مجھے ان کی تقریر بہت اچھی لگی ہے تاہم کچھ باتیں میری سمجھ میں نہیں آئیں' مثلاً وہ بھارت سے دوستی چاہتے ہیں اور چین کو گوادر تک لا رہے ہیں' دہشت گردوں کو مذاکرات بھی دے رہے ہیں اور ان کے خلاف آپریشن کی باتیں بھی کرتے ہیں' ڈرون حملے بند کرانا چاہتے ہیں اور امریکا سے دوستی بھی' یہ سارے اہداف یا خواہشات بعدالمشرقین اور مغربین ہیں' وہ یہ سارے کارنامے کیسے انجام دیں گے ' سچی بات ہے' مجھے تو اس کا علم نہیں ہے' فارسی کے بے بدل شاعر حافظ کے ایک شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ سلطنت کے رموز کا بادشاہوں کو ہی علم ہوتا ہے' اے حافظ تو گوشہ نشیں ہے' تمہیں کیا پتہ ان مصلحتوں کا۔ اس لیے مجھے بھی رموز مملکت اور امور سلطنت کا کچھ پتہ نہیں ہے' البتہ میاں صاحب نے ایک بات سو فیصد سچ کہی ہے' وہ یہ کہ انتظامی مشینری زنگ آلود ہو چکی ہے۔ باقی انتظامی محکموں کو توچھوڑیں صرف پولیس اور سول انٹیلی جنس ایجنسیوں پر ہی نظر ڈالیں تو ان کی کارکردگی سکندر نامی شخص نے اسلام آباد میں پوری طرح آشکار کر دی ہے۔

انگریز نے برصغیر میں پولیس اور انٹیلی جنس کا جو نظام بنایا تھا' وہ اب شکستگی کی آخری سطح پر ہے۔ پولیس افسر دفتروں میں بیٹھ کر فائل ورک کرتے ہیں جب کہ انٹیلی جنس کے عہدیدار نا اہلی' سستی کا شکار اور پیشہ ورانہ عزم سے محروم ہو گئے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ چند روز پہلے نئی دہلی کی اسپیشل پولیس نے ممبئی بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ عبدالکریم ٹنڈا نامی ایک 70برس کے باریش بوڑھے کو نیپال کی سرحد کے قریبی کسی علاقے سے گرفتار کر لیا ہے' اخبار میں اس ''دہشت گرد ''کی جو تصویر چھپی ہے' اس میں وہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھ والے بازو کو ایک کپڑے سے ڈھانپے پولیس اہلکاروں کی گرفت میں کھڑا ہے۔

اس ٹنڈے'' دہشت گرد ''کو دیکھ کر نہ جانے مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ اس بابے کو بکرے کی ماں بنایا گیا ہے۔ بھارتی پولیس نے 1993 کے بعد ہونے والی دہشت گردی کی ساری وارداتیں اس کے کھاتے میں ڈال دی ہیں۔ ہمارے مرحوم گروپ ایڈیٹر عباس اطہر (شاہ جی) کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی پولیس جب کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اس پر وہ سب وارداتیں ڈال دیتی ہے جس کے ملزم گرفتار نہیں ہوتے اور وہ سارے جرائم کا اعتراف بھی کر لیتا ہے۔ مجھے ٹنڈا صاحب کا معاملہ اس سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بوڑھا ٹنڈا صاحب بھی کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں قابو آ گیا ہے یا اسے دہشت گردوں نے ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کیا اورپھر اسے بھول گئے۔


بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ لاہور کی نہر کے کنارے ایک قبر پر کسی ملنگ نے ڈیرہ جما لیا' اس نے راہ گیروں سے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا' کچھ عرصے کے بعد قبر کو پکا کر دیا' چندے کے مزید پیسے اکٹھے ہوئے تو قبر کے ساتھ ایک لمبا سا برآمدہ تعمیر کر لیا اور اینٹوں کا فرش بنایا' اس پر صفیںبچھا دیں۔ ملنگ نے وہاں ہینڈ پمپ لگایا' مٹی کی چاٹیاں رکھیں جن میں پانی ہوتا تھا' یوں یہ ایک چھوٹا سا دربار یا سرائے بن گئی' ارد گرد کھیت تھے' اس لیے رات کے وقت ہر طرف سناٹا ہو جاتا تھا۔ ایک رات چند ڈاکو وہاں آ گئے' بابا جی کو سلام کیا' انھیں کچھ رقم دی اور رات گزارنے کی استدعا کی' بابا جی نے فرمایا کہ بیٹا جتنے دن مرضی یہاں رہو۔ ڈاکوئوں نے اطمینان سے رات گزاری اور اگلی صبح وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد اچانک وہاں پولیس پہنچی اور بابا جی کو گرفتار کر لیا۔ باباجی نے بہت منت سماجت کی اور سمجھایا کہ میرا ان ڈاکوئوں سے کوئی تعلق ہے نہیں اور نہ میں ان کے بارے میں کچھ جانتا ہوں' یہ دربار ہے' میں نے انھیں مسافر سمجھا' انھوں نے رات گزاری اور چلے گئے۔ پولیس نے ملنگ کو چھتر مارے تو اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ ڈاکوئوں کا پشت پناہ ہے' اس نے ارد گرد کے دیہات کے کئی بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کرا دیا' پولیس نے سال دو سال میں ہونے والی ساری ڈکیتیاں ان پر ڈال دیں اور وہ بیچارے برسوں عدالتوں کے چکر لگاتے رہے۔

بھارت میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے' وہاں کی پولیس اور ایجنسیاں بھی انھی طریقوں پر عمل کر رہی ہیں جن پر پاکستان میں عمل جاری ہے۔ بیچارے عبدالکریم ٹنڈا صاحب کا انجام کیا ہو گا' یہ ڈھکا چھپا نہیں ہے' وہ سارے جرائم تسلیم کر لے گا' جنرل حمید گل سے رابطے کا اعتراف تو اس نے کر لیا ہے' مجھے لگتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں حافظ سعید سے رابطے کا اعتراف بھی کر لے گا۔ بھارتی پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں پر یہ دبائو ختم ہو جائے گا کہ ممبئی بم دھماکوں کے اصل مجرم گرفتار کیے جائیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

یہاں بھی پاک بھارت سرحد کراس کرنے والے عام اسمگلر یا دیہاتی کو را کا ایجنٹ قرار دے کر نامعلوم مدت کے لیے قید خانے میں رکھا جا سکتا ہے' کوئی عدالت اس کی ضمانت لینے کا رسک نہیں لے گی' بھارت میں بھی بیسیوں آئی ایس آئی کے ایجنٹ قید ہیں حالانکہ وہ بیچارے آئی ایس آئی کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں۔ مجھے دفتر میں اکثر سرکاری محکموں کے اہلکاروں کے فون آتے رہتے ہیں' وہ حمید اختر صاحب کا نمبر مانگتے ہیں' انھیں یہ معلوم نہیں کہ وہ دو تین برس قبل وفات پا چکے ہیں' انھیں جب پتہ چلتا ہے تو حیران ہوتے ہوئے کہتے ہیں' سوری آپ کو بلاوجہ تنگ کیا۔ مجھے یقین ہے کہ انھوں نے اپنی فائل میں حمید اخترصاحب کے نام کے ساتھ مرحوم نہیں لکھا ہو گا۔ اس کی جگہ جو نیا شخص آئے گا' وہ فائل کھولے گا اور حمید اختر کا نمبر معلوم کرنے کے لیے فون کر دے گا۔ یہ ہمارے محکموں اور ان کے افسروں اور اہلکاروں کا حال ہے۔

پاکستان میں سرکاری اداروں' افسروں اور اہلکاروں میں پروفیشنل ازم کا فقدان ہو گیا ہے۔ پاکستان میں پولیس کے پروفیشنل ازم کی حالت یہ ہے کہ تھانے کے ایس ایچ اوز نے پرانے زمانے کے ریٹائرڈ محرر یا تھانے داروں کی خدمات لے رکھی ہیں جو ایف آئی آر درج کرتے ہیں' انکوائری رپورٹ تیار کرتے اور ضمنیاں لکھتے ہیں' سی ایس پی افسروں کو ایف آئی آر اور ضمنیاں لکھنے کا فن آتا ہے نہ وہ پی پی سی' سی آر پی سی اور پولیس ایکٹ سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ تھانے کی سطح پر انٹیلی جنس کا نظام ختم ہو چکا ہے۔پولیس کا مخبر صرف قحبہ خانے' جوئے کے اڈے یا منشیات فروشوں تک رسائی رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے سچ کہا ہے کہ وہ پاکستان کی زنگ آلود انتظامیہ کے ساتھ نہیں چل سکتے لیکن حال ان کا بھی چماروں کی بہو والا ہونا ہے۔ وہ جب بیاہ کر سسرال آئی تو اسے وہاں چمڑے کی بدبو محسوس ہوتی تھی۔ وہ روز سسرال والوں کو طعنہ دیتی کہ تمہارے گھر میں تو بہت بدبو ہے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ اس ماحول کی عادی ہو گئی۔ ایک روز اس نے سسرال والوں کو تنک کر کہا کہ دیکھا جب سے میں بیاہ کر آئی ہوں تمہارے گھر کی بدبو ختم ہو گئی ہے۔
Load Next Story