صوبائی اسمبلی کی تین اورایک قومی نشست کے لئے میدان سج گیا
بلوچستان اسمبلی کی تین اور قومی اسمبلی کی ایک خالی نشست پر 22 اگست کو ضمنی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں...
بلوچستان اسمبلی کی تین اور قومی اسمبلی کی ایک خالی نشست پر 22 اگست کو ضمنی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں، ان انتخابات کیلئے تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کی خالی ہونے والی تین نشستوں جن میں حلقہ پی بی 44 جام کمال کی جانب سے قومی اسمبلی میں حلف اُٹھانے، پی بی 32 سے کامیاب ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار عبدالغفور لہڑی کو سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے اور پی بی 29 جھل مگسی میں عام انتخابات کے دوران اُمیدوار عبدالفتح مگسی کے قتل کے بعد اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے262 کی نشست پشتونخوامیپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی جانب سے خالی کئے جانے پر ضمنی انتخابات ہورہے ہیں۔
توقع یہ کی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر اور قومی اسمبلی کی نشست پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ تاہم قومی اسمبلی کی نشست پر جمعیت اور اے این پی کے اتحاد کے بعد کانٹے دار مقابلہ دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ان انتخابات کے بعد صوبائی کابینہ کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل کرلیا جائے گا۔ کابینہ کی عدم تشکیل کی وجہ سے مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں میں تناؤ پایا جاتا ہے خود وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ کہنا ہے کہ کابینہ کی عدم تشکیل کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں مگر ہمیں کلچر اور رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ کابینہ کی عدم تشکیل کی وجہ سے اتحادی جماعتوں کے ایم پی ایز تذبذب کا شکار ہیں اور اپنے طور پر وہ کابینہ میں شامل ہونے کیلئے لابنگ بھی کر رہے ہیں ۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے جس میں امن و امان سے متعلق تحریک التواء پر عام بحث اور دیگر اُمور زیر بحث ہیں ۔ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ حکومت نے این اے262 کی نشست پر دھاندلی کا پروگرام بنالیا ہے جس کیلئے کوئٹہ سے آٹھ سو افسروں اور دوسرے ملازمین کی ڈیوٹیاں قلعہ عبداﷲ میں لگائی گئی ہیں، الیکشن کمیشن اس کا نوٹس لے۔ اس حوالے سے اپوزیشن اراکین نے اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور ایوان سے باہر چلے گئے جس پر صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ حکومت پرامن الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائے گی۔
بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے ایک ایم پی اے میر عظیم بلیدی نے بعض آزاد ذرائع کے مطابق بلیدہ میں اپنے گھر میں خودکشی کرلی جبکہ پارٹی ذرائع کے کہنا ہے کہ عظیم بلیدی نے خودکشی نہیں کی بلکہ وہ اتفاقیہ گولی لگ جانے سے جاں بحق ہوئے۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک مرتبہ پھر ملکی مفاد میں بلوچ مسلح تنظیموں اور مذہبی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں اور بلوچ مسلح تنظیموں کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دیتا ہوں تاکہ ہم مفاہمت کا وہ عمل شروع کرسکیں جو اس ملک و قوم کے مفاد میں ہو کیونکہ یہ60 کی دھائی نہیں اکیسویں صدی ہے جو قلم و جمہوری اقدار کی صدی ہے، اس میں طاقت و تشدد کے استعمال کے بجائے ہمیں معاملات اور مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کیلئے مل بیٹھنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو سیاسی مسائل تھے خصوصاً لاپتہ افراد کی عدم بازیابی، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے حوالے سے میں وثوق سے کہتا ہوں کہ ہمارے دور اقتدار میں سیاسی کارکنوں کے اغواء اور لاشوں کے ملنے کے واقعات ختم تو نہیں ہوئے لیکن ان میں واضح حد تک کمی ضرور واقع ہوئی ہے ہم نے بگٹی مہاجرین کی بحالی کا کام شروع کردیا ہے۔
ایسی ہی بات گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے بھی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ بدامنی کی صورتحال مخدوش ہے، لگتا ہے جب سے ہماری حکومت بنی ہے تو ہمیں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ، ہم امن کے داعی لوگ ہیں لیکن بدامنی کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی امن کیلئے وزیراعظم بھی ناراض لوگوں کو مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں اور ہم بھی انہیں مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور بات چیت کریں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی دعوت دینا ایک مثبت اور خوش آئند بات ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مذاکرات کیلئے پہلے ماحول کو سازگار بنائے اس کے بعد ہی کوئی پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ بلوچ علاقوں میں آپریشن کیا جا رہا ہے اور سورج کو انگلی سے چھپانا ممکن نہیں ہے۔ ان حلقوں کے مطابق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ ایک طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد لاپتہ افراد کی لاشیں گرنے کا سلسلہ بند ہوگیا ہے یا اس میں کمی آئی ہے یہ ان کی دروغ گوئی ہے۔
جبکہ ایسی بات نہیں ۔ ان حلقوں کے مطابق حالات کو بہتر بنانے اور ناراض لوگوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے حکومت ان کے تحفظات کو پہلے دور کرے اور اس کے بعد ماحول کو سازگار بنانے کیلئے ایسے مثبت اقدامات کئے جائیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ حکومت واقعی مذاکرات میں سنجیدہ ہے۔ ان حلقوں کے مطابق سابقہ ادوار میں بھی ایسے ہی اخباری بیانات دیئے جاتے رہے تاہم کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے جس کے باعث یہ معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے۔