شاعری کرکٹر امتیاز احمد کا ایک اور طرہ امتیاز
کرکٹ لیجنڈ کھلاڑی امتیاز احمد کو اگر چھپا رستم کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔
ہمارے مایہ ناز کھلاڑیوں نے محض کھیل کے میدان میں ہی نہیں بلکہ دیگر میدانوں میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان کو ہی لے لیجیے جو کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے بعد خدمت خلق اور اس کے بعد اب سیاست کے میدان میں بھی اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہی بات پاکستان ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی اور سابق کپتان اولمپیئن اختر رسول کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے جنھیں میدان سیاست میں اترے ہوئے ایک عرصہ دراز ہو چکا ہے۔ پاکستان ہاکی کے ایک اور سپر اسٹار قمر زمان کا شمار بھی ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ دوسری جانب سابق کرکٹر اور سیلیکٹر محسن حسن خان ہیں جنہوں نے پہلے ایک بھارتی فلمی اداکارہ سے شادی کر کے شہرت حاصل کی اور پھر اس کے بعد بذات خود بھی فلمی میدان میں اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔ اسی طرح ماضی کے ایک عظیم وکٹ کیپر بلے باز تسلیم عارف بھی گائیکی کے شعبے میں اپنی خدا داد صلاحیت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
اس حوالے سے کرکٹ لیجنڈ کھلاڑی امتیاز احمد کو اگر چھپا رستم کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم فضل محمود کی کپتانی میں بھارت کے دورے پر گئی ہوئی تھی تو تب دلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کی کمنٹری کرتے ہوئے اپنے وقت کے ممتاز کرکٹ کمنٹیٹر بھارت کے مہاراج کمار وزیانگرم نے جو وزی کے نام سے جانے جاتے تھے امتیاز احمد کا ریڈیو پر سامعین سے تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہمارے کھلاڑیوں کو امتیاز احمد سے سیکھنا چاہیے کہ بلا کیسے پکڑا جاتا ہے، بال کو کیسے کھیلا جاتا ہے اور وکٹ کیپنگ کس طرح کی جاتی ہے۔'' بلاشبہ وزی صاحب نے امتیاز صاحب کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا وہ حرف بہ حرف درست ہے۔ امتیاز پاکستان کرکٹ اور پاکستانی فضائیہ کے لیے ہی نہیں بلکہ شاعری کے لیے بھی طرہ امتیاز ہیں۔ امتیاز احمد عرصہ دراز سے سخنوری فرما رہے ہیں جس کے متعلق مولانا حسرت موہانی کی روح سے معذرت طلب کرتے ہوئے ہم یہی عرض کر سکتے ہیں کہ:
ہے مشق سخن جاری
کرکٹ کی مشقت بھی
اگر امتیاز احمد نے کرکٹ کے بجائے شاعری کو اولیت دی ہوتی تو معلوم نہیں کتنے شاعروں کے چھکے چھڑا دیے ہوتے اور کتنوں کو شاعری میں اسٹمپ آؤٹ کر دیا ہوتا۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات انکشاف کا درجہ رکھتی ہو کہ امتیاز احمد ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں اور ''میرے شعر'' کے زیر عنوان ان کا مجموعہ کلام عرصہ دراز قبل شایع ہو کر منظر عام پر آ چکا ہے۔ امتیاز احمد کے اس دیوان پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے اردو کے بے مثل طنز و مزاح نگار شوکت تھانوی نے کہا تھا کہ ''امتیاز ایسا کرکٹ کا کھلاڑی اگر صاحب دیوان بن سکتا ہے تو حفیظ جالندھری اور خواجہ دل محمد کو آیندہ سال ٹیسٹ میچز کھیلنے پاکستانی ٹیم کے ساتھ ولایت بھیجنا پڑے گا۔ اس کے لیے امتیاز احمد کُل پاکستان مشاعرے میں شرکت کا وعدہ کر چکے ہوں گے اور عبدالحفیط کاردار شاہنامہ کی باقی جلدیں لکھنے میں یہ کہہ کر مصروف ہو جائیں گے کہ کرکٹ ٹیم کو ایک حفیظ چاہیے، وہ کاردار نہ سہی جالندھری سہی اور دنیائے شعر کو ایک حفیظ چاہیے وہ جالندھری نہ سہی کاردار سہی۔ نتیجہ یہ کہ فضل احمد کریم فضلی کی اسکور بک شایع ہوا کرے گی اور فضل محمود کی چشم غزل۔ وقار انبالوی وقار حسن کی جگہ لے لیں گے اور علیم الدین علم الدین سالک کی۔''
امتیاز احمد کے شعری مجموعے کے حوالے سے شوکت تھانوی آگے رقم طراز ہیں کہ ''اس کتاب کو دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرکٹ کے آئین مشاعروں میں نافذ ہو جائیں اور آداب مشاعرہ کا رواج کرکٹ کے میدان میں شروع ہو جائے تو عجیب و غریب انقلاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ مشاعروں میں تو خیر اب بھی اکثر چوکے اور چھکے لگ جایا کرتے ہیں اور بہت سے شاعر مائیکرو فون پر آ کر ایل بی ڈبلیو ہو جایا کرتے ہیں، مگر اس انقلاب کے بعد تو نقشہ ہی کچھ اور ہو جائے گا کہ کرکٹ کے میدان میں فضل محمود گیند لیے کھڑے ہیں اور تماشائیوں سے کہہ رہے ہیں ''عرض کرتا ہوں شاید کسی قابل ہو'' اور یہ کہہ کر جو دوڑ کر گیند پھینکتے ہیں تو وکٹ اڑتا ہے تو ہر طرف سے سبحان اللہ، واہ وا، کیا خوب فرمایا ہے مکرر ارشاد کا ایک شور برپا ہو گیا اور فضل محمود نے ہر طرف فرشی سلام کرنے کے بعد ''مکرر ارشاد'' کی تعمیل میں پھر وہی گیند پھینک کر اسی طرح وکٹ اڑایا۔ یا حنیف نے ایک چھکا مارا تو ہر طرف سے داد کا شور اٹھا کہ ''ارے سبحان اللہ کیا برجستہ چھکا ارشاد ہوا ہے۔
زحمت تو ہو گی ایک مرتبہ پھر اور حنیف نے آداب بجا لا کر اور انکسار سے ''میں کس قابل ہوں'' کہہ کر پھر وہی چھکا مارا تو پھر شور اٹھا کہ ''حقیقی سیری نہیں ہوئی، ایک مرتبہ تو اور'' اور حنیف نے پھر تسلیمات عرض کرتے ہی چھکا مار کر کہا ''دل بڑھاتے ہیں آپ حضرات۔ ایک صاف سا کٹ عرض کیا ہے''۔ اب جو کٹ مارتا ہے تو ایک بزرگ تماشائیوں میں سے نکل کر آئے کہ ''صاحبزادے خدا عمر میں برکت دے، ہم کہنہ مشقوں کے کان کاٹتے ہو'' اور ان کے داد دینے پر تمام تماشائیوں نے داد کے شور سے زمین آسمان ایک کر دیے۔ اس لیے کہ یہ داد سند تھی اور داد دینے والے کرکٹ کے مستند اساتذہ میں سے تھے۔ حنیف کا یہ حال کہ بیٹ رکھ کر کبھی ہاتھ جوڑتے ہیں اور کبھی سلام کرتے ہیں اور باقی تمام کھلاڑی اس وقفے سے فائدہ اٹھا کر حقہ پینے میں مصروف ہیں اور خاصدانوں کی طرف متوجہ ہیں۔''
امتیاز احمد کی شعر گوئی کو دنیائے کرکٹ کے انقلاب سے تعبیر کرتے ہوئے شوکت تھانوی کا استدلال ہے کہ ''اگر ایک تھانیدار شعر کہہ سکتا ہے، ایک پہلوان اکھاڑے کے علاوہ مشاعرے میں بھی جا سکتا ہے، ایک ریلوے گارڈ سیٹی بجا سکتا ہے اور شعر بھی سنا سکتا ہے، ایک حکیم نسخہ بھی لکھ سکتا ہے اور غزل بھی تو امتیاز احمد بھی یقینا کرکٹ بھی کھیل سکتے ہیں اور شعر بھی کہہ سکتے ہیں۔''
ہم شوکت تھانوی کی تائید کیے بغیر اس لیے نہیں رہ سکتے کہ ہم نے ڈاکٹر یاور عباس اور ڈاکٹر پریم لعل شفا کو نسخے بھی لکھتے دیکھا ہے اور شعر تحریر کرتے ہوئے بھی۔ کون نہیں جانتا کہ امام بخش ناسخ نامی گرامی پہلوان بھی تھے اور بلند پایہ شاعر بھی۔ اور صاحب سیف و قلم امیر خسرو کا لوہا تو سبھی مانتے ہیں۔ سو امتیاز احمد نے جہاں ایک جانب بڑے بڑے طرم خان قسم کے گیند بازوں کو چوکے اور چھکے مارے ہیں تو دوسری جانب شاعری کے میدان میں بھی اپنی خداداد صلاحیت کے خوب خوب جوہر دکھائے ہیں۔ ایک جانب کرکٹ کا میدان ہے تو دوسری جانب پاک فضائیہ کے حوالے سے بلند پرواز اور سونے پہ سہاگہ تخیل کی پرواز۔
امتیاز احمد کا مجموعہ کلام ''میرے شعر'' نظموں کے علاوہ غزل اور رباعیات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ابراہیم جلیس کا مختصر سا مقدمہ بھی ہے جس کو بقول شوکت تھانوی ''مقدمہ نہیں صرف وکالت نامہ کہنا چاہیے'' اس مجموعے کی پہلی نظم سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
ہم نشیں مجھ پر گزرتا ہے اک ایسا وقت بھی!
زندگی کے سارے ہنگاموں سے تھک جاتا ہوں میں
تنگ تر ماحول کے حلقے سے گھبراتا ہوں میں
اور انجام کار
چند لمحے پرسکوں لہروں میں بہہ لیتا ہوں میں
ہاں اسی عالم میں کھو کر شعر کہہ لیتا ہوں میں
امتیاز کی نظم ''اندیشہ'' بھی بے حد خوبصورت اور داد طلب ہے۔ کہتے ہیں:
تیرے خاموش لبوں پر یہ تکلم نمود
تیری چپ چاپ نگاہوں میں یہ الفت کا پیام
یہ تو سچ ہے کہ یہ آغاز حسیں ہے لیکن
کون جانے کہ اس آغاز کا کیا ہو انجام
ان کی ایک اور خوبصورت نظم ''چہرے'' کے دو بند ملاحظہ ہوں:
میری نظروں میں مری یاد کی محرابوں میں
کتنے خاکے ہیں کہ اس وقت بھی منڈلاتے ہیں
جن کے دم سے ہے عبارت مری دنیائے خیال
ایک اک کر کے وہ سب نقش ابھر آتے ہیں
شوکت تھانوی کے الفاظ میں ''اس مجموعے سے چند یہ نمونے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ امتیاز کی شاعری کے یا تو قائل ہو جائیے ورنہ حضرت جگر مرادآبادی سے، مولانا عبدالمجید سالک سے احمد ندیم قاسمی سے، عابد علی عابد، احسان دانش سے اور آپ کو اختیار ہے جس شاعر سے آپ کا جی چاہے کرکٹ کھلوا کر ہم کو دکھا دیجیے، یہ لوگ اناڑی نہ ثابت ہوئے تو ہمارا ذمہ۔ کم سے کم امتیاز اناڑی تو نہیں معلوم ہوتا!''