آخر کب تک …

جب معاشرہ غلط سمت جا رہا ہو تو معاشرے کا ہر فرد اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ ذمے دار ہوتا ہے.

گزشتہ کالم میں ہم نے کراچی میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے ضمن میں اس کی وجوہات میں اداروں میں بدعنوانی، غیر تربیت یافتہ، نااہل، سفارشی اور رشوتی عناصر کی موجودگی کے علاوہ قانون نافذ کرنے والوں کی غیر ذمے دارانہ روش اور غیر سنجیدہ رویے کو بھی قرار دیا تھا۔ صورتحال اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ کسی کو بھی ذمے دار قرار دے کر ہم خود اپنا دامن نہیں بچا سکتے، کیوں کہ جب معاشرہ غلط سمت جا رہا ہو تو معاشرے کا ہر فرد اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ ذمے دار ہوتا ہے... اگر ہم جو مستقل غلط راہ پر گامزن ہیں اپنی سمت درست کر لیں تو کیا معاشرہ از خود درست نہیں ہو جائے گا؟

اسلام کے نام پر ہم نے مذہبی انتہا پسندی، تعصب، ذہنی دیوالیہ پن کو تو فروغ دیا ہے مگر ہم اسلام کے زریں اصولوں پر عمل پیرا ہو کر، رواداری، در گزر اور روشن خیالی کو پروان نہیں چڑھا سکتے؟ آخر کیوں؟

قرآن پاک میں واضح طور پر علماء یہود کا ذکر ہے کہ وہ توریت کے پیغام کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کرتے ہیں، جو لوگوں کو پیغام الٰہی سے گمراہ کر دیتے ہیں۔ کیا یہی صورتحال ہمارے علمائے اسلام میں ان عالموں پر پوری نہیں اترتی جو قوم کو اصل پیغام کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے باعث ملت میں تفرقے کو ہوا دے رہے ہیں... بحیثیت انسان ہی اگر ہم انسانیت کی خدمت کا عزم کریں تو کیا آج انسان اس قدر کسمپرسی کی زندگی بسر کرتا اور بحیثیت مسلمان تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہونا چاہیے تھا مگر نہ صرف پاکستان بلکہ تمام اسلامی ممالک کی صورتحال اس بات کا منہ بولتی تصویر ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کی سیاست کو اپنا شعار بنالیا ہے اور نتیجے میں آج ہم خود اپنے گرداب میں اس طرح الجھ گئے ہیں کہ ان سے نکلنا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے... رمضان کے ماہ مبارک میں شام میں مقدس ہستیوں کے مزارات کی بے حرمتی کے واقعات نے جہاں دین پر عمل کرنے والوں کو، اسلام کے نام لیوائوں کو شدید ذہنی اور روحانی کرب میں مبتلا کیا ہے وہیں اسلام دشمن عناصر کو اسلام کے خلاف مزید دلیر بنا دیا، ان کی ہمت خدانخواستہ اسلام کو مٹانے کے لیے مزید بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر کو خود پر ہنسنے اور دین اسلام کے خلاف سازشیں کرنے کے مواقعے خود ہم نے فراہم کیے ہیں اور ہمارے اسلام کے ٹھیکیدار ہنود و یہود کو ذمے دار ٹھہرا کر خود اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا حق ادا کر دیا۔


ملک کی اسی صورتحال کے باعث وطن عزیز کی ایک ہونہار، دلیر، باہمت اور روشن خیال بیٹی کو ہمارے ذرایع ابلاغ میں وہ مقام نہ مل سکا جو اس کا حق تھا۔ اگر آج ہم میں یہ تعصب اور انتہا پسندی نہ ہوتی تو کیا ملالہ کو عالمی ذرایع ابلاغ سے بڑھ کر خود ہم خراج تحسین نہ پیش کر رہے ہوتے... مگر اس باہمت بچی پر قلم اٹھاتے ہوئے بھی ہمارے قلمکار ڈرتے ہیں، ہمارے چینلز ہر موضوع پر گھنٹے بھر کے پروگرام پیش کرتے ہیں مگر ملالہ کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر کو نہ صرف یہ کہ براہ راست دکھا نہیں سکتے بلکہ اس پر کوئی باقاعدہ پروگرام بھی نہیں پیش کر سکتے ہیں۔

کیونکہ ہم ہنود و یہود سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ حق گوئی سے گریز ہماری عادت بن چکی ہے۔ دوسرے ممالک کے نمایاں کارنامے انجام دینے والوں کو تو ہم پوری کوریج دیتے ہیں لیکن خود اپنے ہونہاروں کے لیے ہم آگے بڑھ کر کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں... اور اس کی صاف وجہ ملک میں انتہا پسندوں کا غلبہ ہے جو حق بات کہنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے... اور کوئی طاقت ایسی نہیں جو ان پر قابو پا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملالہ کا خطاب اسلام کی اصلی شکل سامنے لانے کی ایک چھوٹی ہی سہی مگر کامیاب کوشش ضرور ہے۔ اس بچی نے اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کو معاف کر کے ان کے حق میں بہتری کی کوشش کی ہے، ملالہ نے بتایا کہ ''اسلام رواداری، درگزر، محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام خود مسلمانوں کے درمیان تو کجا دیگر مذاہب کے درمیان بھی نفرت کے فروغ کو پسند نہیں کرتا۔''

قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ اے مسلمانو! تم اپنے مخالفین کے عقائد کو بھی برا بھلا مت کہو کیونکہ پھر پلٹ پر وہ تمہارے رب اور عقائد کو برا کہیں گے۔'' گویا دین اسلام انسانی نفسیات کا ایک زریں اصول بتا رہا ہے کہ اگر کسی کے عقائد یا خیالات کو دلائل کے بغیر محض تنگ نظری یا مخاصمت کی بنا پر برا کہو گے تو وہ بھی پلٹ کر تمہارے لیے اس سے زیادہ غلط انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کریں گے اور یوں انسانیت پاش پاش ہو جائے گی... اس کا واضح مطلب ہے فروغ اسلام کے لیے یا دین کی تبلیغ کے لیے دوسروں کو برا کہنے کے بجائے اپنے عقائد کو بہتر اور موثر انداز میں پیش کرنے کے علاوہ اپنے اعمال و کردار سے مخالفین کو متاثر کرنے کی کوشش زیادہ کامیاب اور معاشرتی انتشار سے بچنے کی بہترین صورت ہے۔

عالم اسلام کی موجودہ سیاسی، معاشرتی و معاشی صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم نے اپنے کردار کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے جو ہمارے دین کی سر بلندی اور انسانیت کے فروغ کا باعث تھا۔ جس دین نے اپنی ضروریات سے زیادہ دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہو، اس کے نام لیوا آج سب کو لوٹ کر تکلیف پہنچا کر خود اپنی تجوریاں بھرنے اور خود چین سے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں، آج ہم تمام مادی وسائل کے ہوتے ہوئے غیروں کے دست نگر ہیں، غیر ملکی امداد کے بغیر ایک قدم چلنے کو تیار نہیں۔ اپنے وسائل دوسروں کے ہاتھ میں دے کر ان ہی کے آگے دست سوال دراز کر رہے ہیں... ہم اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے خود اپنی صلاحیت پر بھروسہ کرنے کے بجائے غیروں کی صلاحیت پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد غیر ممالک میں اپنی صلاحیت آزما کر ان کی ترقی میں حصہ بٹا رہے ہیں جب کہ ہم امریکا، چین اور برطانیہ کے ہنرمندوں کی خدمات حاصل کر رہے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہیں... آخر ذاتی مفادات کی یہ روش کب تک رہے گی؟ اور ہم کب اپنے پائوں پر کھڑے ہوں گے۔ 65 سال کسی قوم و ملک کے لیے اپنا راستہ متعین کرنے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت جب عوام اور حکمران خود اپنے ملک سے مخلص ہوں۔
Load Next Story