’’ جناب کورٹ مارشل نہیں بلکہ … ‘‘
قانون کے مطابق سول ملا زمین کا کو رٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی فرماتے ہیں کہ آیندہ بجلی چوری میں ملوث افسران کا کورٹ مارشل کیا جائے گا ساتھ عوام کو بھی عندیہ دے گئے کہ عوام صبر کریں ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں۔ اس سے قبل ہمارے یہ محترم وزیر صاحب واپڈا کے افسران اور اہل کاروں کو بلوچستان تبادلے کی خوش خبری سنا چکے ہیں، ہو سکتا ہے کہ بلوچستان جانے کی ''خوش خبری'' کو ہمارے واپڈا کے بھائی بندوں نے واقعتاً خوش خبری سمجھ لیا ہو اب اسی لیے وزیر موصوف کو '' کورٹ مارشل'' کا بیان داغنا پڑا۔ کورٹ مارشل کے تذکر ے پر ہمارے کان بھی کھڑے ہوئے اور ہم نے فوری طور پر اپنے سپریم کورٹ کے دوست وکیل سے اس بابت قانون کی جان کاری لینے کی ٹھانی انھوں نے قانون کی موٹی موٹی کتابوں کو پرکھنے کے بعد فرمایا کہ سول ملا زمین کا کو رٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
شاید اس خبر کو پڑھنے اور سننے کے بعد بہت سے واپڈا ملا زمین بھی دوڑ ے دوڑے وکلا ء حضرات کے پاس گئے ہوں۔ اس تمام تر قصے سے سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا ڈنڈے کے زور پر انتظامی معاملات کو درست کیا جا سکتا ہے؟ کیا سرکاری ملازمین کو ڈرا دھمکا کر مطلوبہ بلکہ من پسند اور عوام پسند نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ اس صاف سی بات کا جواب صاف سی ناں کے سوا کچھ نہیں۔ اگر سرکاری اداروں کا قبلہ محض سخت قسم کے بیانات دینے اور سرکاری ملازمین کو ذہنی طور پر ٹارچر کر نے سے درست ہو سکتا تو مرحوم و مغفور عارف نکئی کی وزارت اعلیٰ کے بعد کم از کم پنجاب میں انتظامی اور سر کاری معاملات کب کے صراط مستقیم پر استوار ہو چکے ہوتے اور عارف نکئی کے بعد آنے والے سیاسی حکمران ان کی''بیا نی محنت'' کے بعد صرف بیٹھ کر اس کا ''پھل'' کھا رہے ہوتے۔
انتظامی اور حکومتی امور شخصی سختی سے نہیں بلکہ دور رس اور معاشرتی عوامل کو مد نظر رکھ کر ٹھوس پالیسیوں کے نفاذ سے ہی درست سمت پر رواں کیے جا سکتے ہیں۔ بجلی چوری کے ضمن میں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بجلی چوری میں ''فتو اور جیدا'' قسم کے لوگ ملوث نہیں بجلی چوری میں تو وہ عناصر ملوث ہیں جو عام طور پر معاشرے میں ''لمبے ہا تھو ں'' والے کہلواتے ہیں۔ لہذا واپڈا کو ان ہاتھوں سے آ زاد کروانے کا فریضہ کو ئی ایس ڈی او یا لائن مین سر انجام نہیں دے سکتا کہ وہ تو ایک تبادلے کی ''مار'' ہوا کرتے ہیں۔ یہ فریضہ حکومت کو انجام دینا پڑے گا اور بلا تخصیص دینا پڑ ے گا۔ بجلی چوری میں ''فری یونٹ'' کا کردار بھی نہایت اہم ہے حکومت کو فری یونٹ کے استعمال میں دیانت داری لانی ہوگی۔
اگر ''فری یونٹ'' کو واپڈا ملازمین کے شناختی کارڈ ایڈریس پر ڈال دیا جا ئے تو اس ضمن میں بجلی کے بچائو اور ضیاع میں مناسب حد تک بہتری آ سکتی ہے۔ فری یونٹ کے مد میں فی الحال ''حوالہ نمبر'' کا قانون لاگو ہے۔ پانی و بجلی کے محکموں کے ملا زمین ''حوالہ نمبر'' دے کر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے فری یونٹ فلاں میٹر پر ڈال دیں اس طریقے میں یہ واضح نہیں ہو تا کہ واقعی وہ میٹر متعلقہ ملازم کا ہے یا وہ اپنے فری یونٹ کو فروخت کر رہا ہے۔ گو یا اس مہذبانہ طریقے سے بھی واپڈا میں اچھی بھلی کرپشن ہو رہی ہے۔ اگر فری یونٹ کو پانی اور بجلی کے محکموں کے ملازمین کے شناختی کارڈ ایڈریس پر منتقل کر دیا جائے تو فری یونٹ کے زیر سایہ جو کرپشن ڈھکے چھپے انداز میں ہو رہی ہے اس پر قابو پا کر وسیع مقدار میں بجلی چوری کا سدباب کیا جا سکتا ہے ۔
ہاں ! ایس ڈی او ز کے پوسٹ کھنگالنے بھی ضروری ہیں، ایس ڈی او ز کی بہت سی مستقل آسامیوں پر عارضی طور پر کام چلایا جا رہا ہے، ایس ڈی اوز کی ایسی آسامیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جہاں ایس ڈی اوز کی پوسٹوں پر ''نان ایس ڈی اوز'' ٹائپ اہلکار براجمان ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اور ان کو کن ہاتھو ں کی پشت پناہی حاصل ہے؟ نہ صر ف اس کا جواب ہما رے دو پیارے وزراء صاحبان کو ڈھونڈنا ہو گا بلکہ ان سب ڈویژن میں بجلی چوری کے واقعات کا تجزیہ ''خورد بینی آنکھوں'' سے کرنا ہو گا۔ واپڈا کے معاملا ت کو سدھارنے کے لیے کور ٹ مارشل اور بلوچستان تبادلوں جیسے بیانات سے درست نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ایسے جذباتی بیانوں سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔
اگر واقعی واپڈا کا قبلہ درست کرنا ہے تو اوپر سے نیچے تک شفافیت اور میرٹ کو فروغ دینے سے لوڈ شیڈنگ کی وبا اور واپڈا میں پائی جا نے والی خرابیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک دعووں اور تاریخیں دینے کی ''تاریخ'' ہے اس طرح کے جلالی اقدامات کے باب میں گزشتہ حکومت کے وزراء خوب نام کما چکے ہیں۔ اگر واپڈا کے مسائل حل کر نے ہیں اور عوام کو لوڈ شیڈ نگ سے واقعی نجات دلانی مقصود ہے پھر زبانی بیانات سے گریز اور عملی اقدامات کی راہ اپنائیے۔ محض قصوں کہانیوں، بیانوں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ ''الم غلم'' جیسے سلو ک سے سرکاری معاملا ت کا قبلہ نہ پہلے درست ہو سکا اور نہ اب ہو گا ۔
واپڈا کے معاملا ت کے حل کا صائب طریقہ یہی ہے کہ بگڑے معاملا ت اور مسائل کا ٹھنڈے دل سے مشاہد ہ کیجیے پھر ان کے حل کے لیے ٹھوس قسم کی پالیسیاں اختیار کیجیے۔ ملک، واپڈا اور قوم کی بھلائی اسی مضمر ہے۔
شاید اس خبر کو پڑھنے اور سننے کے بعد بہت سے واپڈا ملا زمین بھی دوڑ ے دوڑے وکلا ء حضرات کے پاس گئے ہوں۔ اس تمام تر قصے سے سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا ڈنڈے کے زور پر انتظامی معاملات کو درست کیا جا سکتا ہے؟ کیا سرکاری ملازمین کو ڈرا دھمکا کر مطلوبہ بلکہ من پسند اور عوام پسند نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں؟ اس صاف سی بات کا جواب صاف سی ناں کے سوا کچھ نہیں۔ اگر سرکاری اداروں کا قبلہ محض سخت قسم کے بیانات دینے اور سرکاری ملازمین کو ذہنی طور پر ٹارچر کر نے سے درست ہو سکتا تو مرحوم و مغفور عارف نکئی کی وزارت اعلیٰ کے بعد کم از کم پنجاب میں انتظامی اور سر کاری معاملات کب کے صراط مستقیم پر استوار ہو چکے ہوتے اور عارف نکئی کے بعد آنے والے سیاسی حکمران ان کی''بیا نی محنت'' کے بعد صرف بیٹھ کر اس کا ''پھل'' کھا رہے ہوتے۔
انتظامی اور حکومتی امور شخصی سختی سے نہیں بلکہ دور رس اور معاشرتی عوامل کو مد نظر رکھ کر ٹھوس پالیسیوں کے نفاذ سے ہی درست سمت پر رواں کیے جا سکتے ہیں۔ بجلی چوری کے ضمن میں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بجلی چوری میں ''فتو اور جیدا'' قسم کے لوگ ملوث نہیں بجلی چوری میں تو وہ عناصر ملوث ہیں جو عام طور پر معاشرے میں ''لمبے ہا تھو ں'' والے کہلواتے ہیں۔ لہذا واپڈا کو ان ہاتھوں سے آ زاد کروانے کا فریضہ کو ئی ایس ڈی او یا لائن مین سر انجام نہیں دے سکتا کہ وہ تو ایک تبادلے کی ''مار'' ہوا کرتے ہیں۔ یہ فریضہ حکومت کو انجام دینا پڑے گا اور بلا تخصیص دینا پڑ ے گا۔ بجلی چوری میں ''فری یونٹ'' کا کردار بھی نہایت اہم ہے حکومت کو فری یونٹ کے استعمال میں دیانت داری لانی ہوگی۔
اگر ''فری یونٹ'' کو واپڈا ملازمین کے شناختی کارڈ ایڈریس پر ڈال دیا جا ئے تو اس ضمن میں بجلی کے بچائو اور ضیاع میں مناسب حد تک بہتری آ سکتی ہے۔ فری یونٹ کے مد میں فی الحال ''حوالہ نمبر'' کا قانون لاگو ہے۔ پانی و بجلی کے محکموں کے ملا زمین ''حوالہ نمبر'' دے کر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے فری یونٹ فلاں میٹر پر ڈال دیں اس طریقے میں یہ واضح نہیں ہو تا کہ واقعی وہ میٹر متعلقہ ملازم کا ہے یا وہ اپنے فری یونٹ کو فروخت کر رہا ہے۔ گو یا اس مہذبانہ طریقے سے بھی واپڈا میں اچھی بھلی کرپشن ہو رہی ہے۔ اگر فری یونٹ کو پانی اور بجلی کے محکموں کے ملازمین کے شناختی کارڈ ایڈریس پر منتقل کر دیا جائے تو فری یونٹ کے زیر سایہ جو کرپشن ڈھکے چھپے انداز میں ہو رہی ہے اس پر قابو پا کر وسیع مقدار میں بجلی چوری کا سدباب کیا جا سکتا ہے ۔
ہاں ! ایس ڈی او ز کے پوسٹ کھنگالنے بھی ضروری ہیں، ایس ڈی او ز کی بہت سی مستقل آسامیوں پر عارضی طور پر کام چلایا جا رہا ہے، ایس ڈی اوز کی ایسی آسامیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جہاں ایس ڈی اوز کی پوسٹوں پر ''نان ایس ڈی اوز'' ٹائپ اہلکار براجمان ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اور ان کو کن ہاتھو ں کی پشت پناہی حاصل ہے؟ نہ صر ف اس کا جواب ہما رے دو پیارے وزراء صاحبان کو ڈھونڈنا ہو گا بلکہ ان سب ڈویژن میں بجلی چوری کے واقعات کا تجزیہ ''خورد بینی آنکھوں'' سے کرنا ہو گا۔ واپڈا کے معاملا ت کو سدھارنے کے لیے کور ٹ مارشل اور بلوچستان تبادلوں جیسے بیانات سے درست نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ایسے جذباتی بیانوں سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔
اگر واقعی واپڈا کا قبلہ درست کرنا ہے تو اوپر سے نیچے تک شفافیت اور میرٹ کو فروغ دینے سے لوڈ شیڈنگ کی وبا اور واپڈا میں پائی جا نے والی خرابیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک دعووں اور تاریخیں دینے کی ''تاریخ'' ہے اس طرح کے جلالی اقدامات کے باب میں گزشتہ حکومت کے وزراء خوب نام کما چکے ہیں۔ اگر واپڈا کے مسائل حل کر نے ہیں اور عوام کو لوڈ شیڈ نگ سے واقعی نجات دلانی مقصود ہے پھر زبانی بیانات سے گریز اور عملی اقدامات کی راہ اپنائیے۔ محض قصوں کہانیوں، بیانوں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ ''الم غلم'' جیسے سلو ک سے سرکاری معاملا ت کا قبلہ نہ پہلے درست ہو سکا اور نہ اب ہو گا ۔
واپڈا کے معاملا ت کے حل کا صائب طریقہ یہی ہے کہ بگڑے معاملا ت اور مسائل کا ٹھنڈے دل سے مشاہد ہ کیجیے پھر ان کے حل کے لیے ٹھوس قسم کی پالیسیاں اختیار کیجیے۔ ملک، واپڈا اور قوم کی بھلائی اسی مضمر ہے۔