چلو چین چلیں
وہ سپر پاور ہی کیا جو اپنے کام سے کام رکھے، دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ نہ اڑائے۔
خناس دو قسم کے ہوتے ہیں۔ یعنی خیالی خناس یعنی میں جو کہوں وہ صحیح باقی سب غلط، دوسرا سپر خناس یعنی جو میرے منہ سے نکل جائے وہی صحیح باقی سب غلط۔ مثلاً جارحانہ دفاع، پیشگی حملے جیسی تھیوریاں گھڑ کر قدرتی وسائل سے مالامال پس ماندہ ملکوں پر چڑھائی کرنا، گوریلا جنگ میں پھنسنا جس سے نمٹنے کے لیے دو قارون کے خزانے چاہئیں۔ ایک قارون کا خزانہ گوریلا جنگ لڑنے کے لیے، ایک قارون کا خزانہ سر پر پیر رکھ کر بھاگنے کے لیے کیونکہ یہی تو گوریلا جنگ کا کلائمیکس ہوتا ہے۔
(A) فرانس نے الجزائر میں طویل گوریلا جنگ لڑی۔ جب خود فرانس کا معاشی بھٹہ بیٹھنے لگا تو سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ آیا۔ دوسری مرتبہ وہی فرانس دوبارہ ویت نام میں گوریلا جنگ میں پھنسا لیکن پوری طرح پھنسنے سے پہلے دوبارہ بھاگ کھڑا ہوا۔ (B) اس کی جگہ امریکا نے لے لی۔ جن کو اپنے کام سے کام رکھنے کی چڑ ہے۔ B-52 طیاروں کی کارپٹ بمباری، نیپام بم کے شعلے، لاکھوں امریکیوں کی بے گور و کفن لاشیں بھی کام نہ آئیں، بھاگنا پڑا۔ (C) اس کے بعد گوادر (گرم پانیوں کی بندرگاہ پر) قبضہ کرنے کے لیے روس افغانستان کی گوریلا جنگ میں پھنسا۔ بھاگنے میں دیر لگا دی، سوویت یونین دنیا کے نقشہ سے غائب ہو گیا، اس کی جگہ رشین فیڈریشن رہ گئی۔ (D) ایک مرتبہ پھر امریکا نے روس کے خالی کیے دلدل میں چھلانگ لگا دی۔ روس کی آدھی تاریخ دہرا کر بھاگنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ کیونکہ بھاگنے میں دیر ہوئی تو روس کی پوری تاریخ دہرانے کی نوبت نہ آ جائے۔ یہ فرمودہ سپر پاورز کے تعلق سے قطعاً غلط ہے کہ عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ ٹھوکر کھانے سے آتی ہے۔ کیونکہ وہ سپر پاور ہی کیا جو اپنے کام سے کام رکھے، دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ نہ اڑائے۔
ایک بچہ پارک میں بینچ پر بیٹھا چاکلیٹ بار کھائے جا رہا تھا۔ اسی بینچ پر ایک بڑی بی بیٹھی دیکھ رہی تھیں۔ انھوں نے بچے کو سمجھایا ''بیٹا اتنے چاکلیٹ بار مت کھایا کرو، دانت میں کیڑا لگے گا، پیٹ خراب ہو جائے گا، بیمار پڑ جائو گے'' بچے نے سنی ان سنی کر دی اور جیب سے نیا چاکلیٹ نکالا اور ریپر پھاڑنے لگا۔ بڑھیا چڑ گئی، بولی ''بیٹا! اتنی چاکلیٹ مت کھائو مر جائوگے'' بچہ ایک بڑا سا چاکلیٹ کا ٹکڑا چبا کر نگلتے ہوئے بولا ''میری دادی کی عمر 95 سال ہے، چلتی پھرتی ہنستی بولتی ٹھیک ٹھاک ہیں'' بڑھیا نے حیرت سے پوچھا ''وہ ضرور چاکلیٹ نہیں کھاتی ہوں گی'' ''ایسی کوئی بات نہیں'' بچے نے رُکھائی سے جواب دیا۔ ''وہ اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔''
اس وقت افغانستان میں امریکی فوج کے حوصلے، معاشی بد حالی اور سپر خناسی کی ایک ایک مثال عرض کروں گا۔
(1) امریکی فوج کے حوصلے کا یہ عالم ہے کہ ان کا قافلہ چاہے شہروں سے گزر رہا ہو یا جنگلوں اور پہاڑوں سے، وہ گاڑی سے نیچے اتر نہیں سکتے۔ کنگ سائز ڈائپر استعمال کرتے ہیں۔ (2) مالی حالات ایسے ہیں کہ افغانستان میں ہونے والے سارے اخراجات چین سے قرضہ لے کر پورے کیے جا رہے ہیں۔ (3) امریکا نے اپنی واپسی کے بعد افغانستان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ایک افغان سیکیورٹی فورس تشکیل دی ہے۔ یعنی شکست خوردہ فوج کے جرنیل جنگجو افغان جوانوں کو اس بات کی تربیت دے کر جا رہے ہیں کہ افغانستان کو کیسے قابو میں رکھنا ہے جو ان کا اپنا وطن ہے۔
امریکا بحیثیت سپر پاور دنیا کے ہر مسئلے میں مداخلت کرنا، ہر معاملہ میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض سمجھتا ہے، ماضی میں ''مرد آہن'' سے کام چلاتے تھے ایک مرد آہن مارکوس جو فلپائن کے صدر تھے ان کے گلے میں اٹک گئے۔ قابو سے باہر ہو گئے، کرپشن میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچادیا، کرپشن وہ کر رہے تھے بدنام امریکا ہو رہا تھا، کیونکہ ساری دنیا جانتی تھی کہ وہ امریکا کے ''بھون بھون'' ہیں امریکی صدر کے سارے مشیران خاص اکٹھے صدر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشورہ دیا کہ مارکوس سے فوری نجات حاصل کر لی جائے۔ اس کتیا کے بچے کی وجہ سے امریکا بدنام ہو رہا ہے۔ ''امریکی صدر سوچ میں پڑ گئے پھر بڑی مایوسی اور بے بسی سے بولے ''افسوس! میں اس سے نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ آپ لوگ صحیح کہہ رہے ہو کہ وہ کتیا کا بچہ ہے لیکن وہ ہماری کتیا کا بچہ ہے۔''
اس کے بعد امریکا بادشاہت، جرنیلی جمہوریت یا جاگیردارانہ جمہوریت کی حمایت کرنے لگا، کیونکہ کام امریکا کا ہوتا ہے اور بدنام بادشاہ، جرنیل یا جاگیردار ہوتا ہے، رہا عوامی جمہوریت کا سوال تو صرف امریکا اور مغربی ممالک کے لیے ہی موزوں ہے ۔
سیاست شطرنج کی طرح اوپن کھیل ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف چلی جانے والی چالیں نظروں کے سامنے ہوتی ہیں، البتہ یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کونسی چال کب چلی جائے گی؟ یعنی موزوں وقت پر موزوں ترین چال ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ مثلاً جب روس افغانستان کی جنگ اپنے عروج پر تھی تب ساتھ ساتھ پاکستان کی اہمیت اور امریکا کی مجبوری بھی اپنی انتہا پر تھی۔ کیا امریکا کو اس وقت پتہ نہیں تھا کہ ایٹم بم بنانے کی پاکستانی کوششیں بھی آخری حد پار کر گئیں ہیں؟ سوائے برسلز ترمیم جیسے اقدامات کے وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ تجاہل عارفانہ کے علاوہ اس کا اور کوئی حل تھا ہی نہیں۔
اس وقت بھی افغانستان سے امریکی فوجوں کی مع اٹھارہ ارب ڈالر کی فوجی تام جھام کے ساتھ نکلنے کی مجبوری کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تعاون کی اہمیت اپنے کلا ئمیکس پر پہنچنے والی ہے۔ مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ پاکستان نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دھماکا خیز خبر نہایت معصومیت، سادگی اور سرسری انداز میں ریلیز کر دی کہ ''پاکستان نے گوادر انتظام چین کے حوالے کر دیا اور چین نے انتظام سنبھال لیا۔''
اس سے بھارت کی سپر پاور بننے کی آرزو، سیکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت کی خواہش وغیرہ ملیا میٹ ہو گئی۔ امریکا کے بھارت کے توسط سے اس خطے پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے ارادوں پر اوس پڑ گئی۔ پاکستان کو دبائو میں لا کر بھارت کی برتری تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کا امکان باقی نہیں رہا۔ تلوئوں میں لگی آگ کھوپڑی تک پہنچ گئی۔
سوال یہ ہے کہ دشمنی کی حد تک شدید اختلافات کے باوجود امریکا چین میں تجارت، سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان بھی تجارتی، صنعتی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں تو پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی، صنعتی روابط کیوں قائم نہیں ہو سکتے؟ پاکستان ''دوستی سب سے، دشمنی کسی سے نہیں'' کا قائل ہے۔ جس میں بھارت شامل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر دنیا کے ترقی پذیر، پس ماندہ ممالک دو وجوہات کی بنا پر چین کی عظمت کے قابل ہیں۔ (1) زیرو توسیع پسندانہ عزائم کی تاریخ (2) بھوکے کو کھانے کے لیے مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنا سکھاتا ہے۔ جب کہ امریکا بھوکے کو کھانے کے لیے مچھلی دیتا ہے، پیسے نہ ہوں تو ادھار بھی دیتا ہے، لیکن مچھلی پکڑنے کے تالاب کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم آج جیسے نہیں تھے۔ کرپشن سے پاک تھے، اپنے فیصلے خود کرتے تھے، دنیا میں ہمارا نام تھا اور ہمارے گرین پاسپورٹ کی دھاک تھی، اس وقت چین تنہا تھا، ایک سپر پاور امریکا اس کا دشمن اور دوسرے سپر پاور روس سے اس کا سرحدی تنازعہ تھا۔ اس وقت ہم اس کے قابل بھروسہ واحد دوست تھے، آج ہم ویسے نہیں ہیں جیسے اس وقت تھے۔ پہلے ہم کرپشن کے جوہڑ میں ہاتھ منہ دھونے لگے، پھر کنارے بیٹھ کر نہانے دھونے لگے، اس کے بعد غوطہ خوری پر اتر آئے، آج ہمارے ماتھے پر کرپشن کا داغ، گلے میں دہشت گردی کی تختی، سر پر بد عنوانیوں کا ٹوکرا ہے۔ امریکا کی مہربانی اور دہشت گردوں کی من مانی کی وجہ سے ہم دنیا میں تنہا ہوکر رہ گئے ہیں، ایک ہی قابل بھروسہ دوست بچا ہے جس کی دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی ثابت ہوئی ہے، چنانچہ چلو! چین چلے چلیں۔