احوال ایک سفر اور انجام ایک مسافر کا
اپنے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک بزرجمہر، افلاطون، ارسطو اور سقراط و بقراط پایا جاتا ہے۔
اپنے ہاں آپ کو تو پتہ ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک بزرجمہر، افلاطون، ارسطو اور سقراط و بقراط پایا جاتا ہے۔ آج کل اخباروں اور چینلوں کی کثرت نے ان کے لیے زمین بھی سازگار بنائی ہوئی ہے، اس لیے ان کی تعداد میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے، چونکہ ہر سقراط و بقراط کی نشانی بولنا اور صرف بولنا ہی ہوتی ہے، اس لیے یہ بولتے ہیں، بے تحاشا بولتے ہیں کہ ''بولنا'' بھی ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہہ دیتا ہے کہ بس کرو بچے کی جان لو گے کیا؟ اس دن ہماری ایک اس طرح کے ''بولو'' سے ملاقات ہوئی۔ ہماری بدقسمتی اور اس کی خوش قسمتی یہ ہوئی کہ یہ حادثہ فاجعہ ایک بس کے اندر ہوا جو ایک لمبے سفر پر جا رہی تھی، دنیا جہاں کے موضوعات پر اپنے زریں خیالات کا اظہار کرنے کے بعد آج کل کے سب سے ''چالو'' موضوع مہنگائی پر آئے، وہاں سے پھسلے تو حکومت کے آنگن میں پہنچے اور پھر این جی اوزکا موضوع ایسا پکڑا، ایسا پکڑا، جیسے شیر شکار کا جبڑا پکڑتا ہے۔
شیر کا یہ خاصا ہوتا ہے کہ جب شکار کو کسی جگہ سے پکڑ کر دانت گاڑھتے ہیں تو دانتوں اور جبڑوں کو وہیں پر لاک کر دیتے ہیں پھر چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے، جبڑا وہیں پر لاک رہتا ہے اور بدقسمتی سے جس ہم سفر نے ہمیں جبڑے میں لے رکھا تھا، وہ کچھ خصوصی نسل کا لگتا تھا، بس کے اندر نہ پانی تھا اور نہ ڈنڈا اس لیے وہ ہمیں جھنجھوڑتے رہے، بھنبھوڑتے رہے، کھکھوڑتے رہے، مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ وہ ایک نظریاتی شیر بھی تھے اور اس قبیلے میں سے تھے جن کا خیال ہے کہ دنیا بھر کے چھوٹے بڑے ممالک کے کفار اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر صرف مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں، یہ تو خیر دنیا کے سارے '' نکموں '' کا مشترکہ خیال ہوتا ہے کہ ان کی ناکامی کی ذمے داری سو فی صد دوسروں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دشمن ان کی صفات عالیہ کو دیکھ کر جل بھن جاتی ہے، چونکہ پاکستانیوں کو یہ بیماری خاندانی وراثت کے طور پر ملی ہے، اس لیے ان کی گائے اگر کسی دن دودھ بھی کم دے تو اس کی ذمے داری سازش کرنے والے کفار اور یہود و ہنود پر عائد کی جاتی ہے، کیونکہ ان کے خیال میں پاکستان اس وقت اسلام کا قلعہ، اسلام کا مینار، اسلام کا معدن اور اسلام کا سب کچھ ہے، اس لیے تمام کفار نے اپنی توپوں کا رخ ادھر کر کے سازشوں کے گولے پھینکنا شروع کیے ہیں، ان کو خطرہ ہے کہ پاکستانی مسلمان تو ایک دن ساری دنیا بلکہ پوری کائنات پر قبضہ کرنے والے ہیں کیونکہ
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے
اس لیے پہلے ہی اس کے خلاف سازشوں کے جال پھیلائے جا رہے ہیں کہ کہیں پاکستان کے مسلمان سارے عالم پر قبضہ نہ کر لیں، کافروں کو ڈر ہے کہ پاکستان کے مسلمان تیاری بھی خوب کر رہے ہیں، تعلیم سائنس ٹیکنالوجی ایجادات وغیرہ سب کو تیاگ کر صرف ''دین'' کے ہو رہے ہیں، اوپر سے ایک مسلمان ایک ہزار کافروں پر بھاری ہوتا ہے۔ یہ آٹھ دس کافر تو مسلمان کی چھنگلیا کا وار بھی نہیں سہہ سکتے ہیں، جلد یا بہ دیر پاکستان کے مسلمان ہر طرح کے دنیاوی کام کاج پر لعنت بھیج کر صرف مجاہد بن جائیں گے اور پھر،
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
اور کافروں کو ڈر ہے کہ پھر ان کے لیے عالم میں کہیں بھی جائے پناہ نہیں ہے، وہ کھوج تو کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا سیارہ دریافت نہیں کر پائے ہیں جہاں فرار ہونے کے بعد ٹک سکیں، اس لیے ابھی سے یہود و ہنود امریکی افریقن، چینی جاپانی، تائی، گورے کالے چتکبرے، لمبے ناٹے سارے کفار مل کر مسلمانوں خاص طور پر قلعہ اسلام پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، ہمارے اس ہم سفر بلکہ ہم قفس کیونکہ ہم بس سے چھلانگ لگا کر بھاگ تو سکتے نہیں تھے، انھوں نے دنیا میں مسلمانوں کے خلاف کفار کی سازشوں کی تفصیل سنائی تو پھر گریز کرتے ہوئے ''این جی اوز'' پر آ گئے اور یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ یہ رنگ برنگے این جی اوز بھی اسی کام کا ایک حصہ ہیں کہ مسلمانوں کا دین خراب کر سکیں ، بات کو اچھی طرح نچوڑ کر وہ یہ نکتے لے آئے کہ دنیا کے سارے کفار مسلمانوں سے ڈرے ہوئے ہیں اور ان کو دنیا پر قبضہ کرنے سے روکنے کے لیے این جی اوز کے ذریعے ان کو بھٹکایا جارہا ہے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ اگرچہ دست اندازی پولیس کے قابل نہیں ہے کیونکہ ہم نے اس بولنے والے بولو کے ساتھ جو کچھ کیا وہ صرف دل ہی دل میں کیا تھا، پہلے ہم نے اس کا گلا پکڑا، جب آنکھیں اور زبان باہر نکل آئیں تو آنکھیں تو نکال کر ہم نے جیب میں ڈال لیں کہ بچوں کو گوٹیاں کھیلنے کو دیں گے اور زبان کو کھنیچ کر سیٹ کے لوہے والے حصے پر بچھایا اور نہ جانے کہاں سے ایک ہتھوڑا ہمارے ہاتھ میں آیا کہ اس سے اس کی زبان کا قیمہ بنانے لگے، جب زبان کے بارے میں تسلی ہو گئی کہ اب یہ بات تو کیا صرف اوں اوں کرنے کے لیے بھی غیر ملکی مدد کی محتاج ہو گئی ہے تو دانتوں کی باری آگئی، سوچا ہم محمود غزنوی تو نہیں بن سکتے کہ اس کے لیے فوج کی ضرورت پڑے گی لیکن دندان شکن تو بن سکتے ہیں چنانچہ سترہ بار ہتھوڑا مار کر اس کے منہ کی سومنات کا وہ حال کر دیا جیسے سڑک کوٹنے والا کوئی انجن خربوزے پر سے گزرا ہو، پوری تفصیل کیا بتائیں، سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن کیا کریں ایسے ایسوں کا کیسا کیسا علاج کرنا پڑتا ہے۔
بس کلر کہار پہنچی تو ہم نے اسے دونوں ہیتھلیوں کے درمیان خوب رگڑ کر کھڑکی سے اڑا دیا کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے، اب آپ سوچیں گے کہ آخر ہم نے اس ایک ''بولنے والے'' کا یہ حشر نشر کیوں کر دیا ہے، اگر ایسا ہے تو پاکستان کی آبادی کو کم کرتے کرتے 1/4 پر لانا پڑے گا ، تب ہی کہیں جا کر اس ملک میں ''بولنے'' والی مشینوں کی جگہ کوئی آدمی کا بچہ نظر آئے گا، لیکن اصل بات یہ نہیں کہ وہ بھی تمام پاکستانیوں کی طرح شدید نرگسیت میں مبتلا تھا۔ یہ مرض تو اب پاکستان کا سرکاری مرض بن چکا ہے، ہر اچھے کام کو اپنی جھولی میں ڈالنا اور ہر غلطی کو دوسرے کے کندھے پر لادنا تو یہاں کا عام رواج ہے لیکن شاید آپ کو علم نہیں کہ ہم اس مرض نرگسیت کے ماہر خصوصی ہیں اور جانتے ہیں کہ کس اسٹیج پر اس کا کیا علاج ہونا چاہیے اور وہ جو ہمارا ہم سفر ہم بس بلکہ ہم قفس تھا، اس مرض کی آخری اسٹیج پر تھا، جہاں کوئی دوا کوئی دعا کوئی علاج کام نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ مرض کو مریض سمیت ملیا میٹ کر دیا جائے، ان مرغیوں کی طرح جن میں برڈ فلو کی وباء سرایت کر چکی ہو۔
اس آخری اسٹیج کا پتہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں، مریض کی ہر ہر بات ہر ہر حرکت بلکہ ہر نشست و برخاست سے صرف ایک ہی علامت ٹپکتی ہے کہ ہمچو من دیگرے نیست ۔۔۔ دنیا جہاں کی ساری صفات وہ اپنے اندر جلوہ گر پاتا ہے اور ساری برائیاں دوسروں میں نظر آتی ہیں، ایسے مریض کے مرض کی پوری پوری تصدیق کرنا ہو تو اس سے صرف ایک سوال پوچھئے کہ کیا آپ نے زندگی بھر کبھی کوئی غلط کام یا غلطی کی ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں آیا تو سوال کا دوسرا حصہ ماریئے کہ کیا دنیا میں کسی اور نے کبھی کوئی صحیح کام کیا ہے یقیناً اس کا جواب اس بار بھی نفی میں ہو گا، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیا کے سارے اچھے کام وہی کرتا ہے اور برے کام دوسرے کرتے ہیں یا یہ کہ دوسرے جو بھی کرتے ہیں برا کرتے ہیں اور وہ جو بھی کرتا ہے وہ ٹھیک ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی اگر اس کا وہ علاج نہیں کیا گیا جو ہم نے اس شخص کا کیا ہے کیوں کہ ہمیں صاف صاف لگا تھا کہ اس کے بعد وہ کیا کرنے بلکہ بولنے والا ہے ''کرنا'' تو ایسے مریضوں کے مزاج میں ہوتا ہی نہیں، ہمیں معلوم تھا کہ اس کے بعد وہ یہ کہے گا کہ اگر عرب ممالک کا سارا تیل، ملائیشیا وغیرہ کا سارا پام آئل، افریقہ کا سارا سونا، یورپ کی ساری دولت اور روس و امریکا کی ساری ایجادات پاکستان میں پیدا ہوتیں تو آج ساری دنیا پر ہمارا جھنڈا لہرا رہا ہوتا بلکہ کسی ''طاقتور بازو'' کو بھیج کر چاند پر ہلال لہرا چکے ہوتے۔