سردار عثمان بزدار کے ساتھ چھاپوں کا ایک دن
msuherwardy@gmail.com
سردار عثمان بزدار کی جانب سے گندم کی کٹائی کے آغاز کے لیے ساتھ جانے کا دعوت ملا۔میں نے سوچا حالیہ بارشوں اور ژالہ باری سے گندم کی فصل کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے۔ اس لیے ساتھ چلتے ہیں ۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ صوبائی وزیر زراعت نعمان لنگڑیال نے اپنے گاؤں میں گندم کی کٹائی کے آغاز کی تقریب رکھی ہوئی ہے۔بہر حال وزیر اعلیٰ نے چیچہ وطنی کے قریب ایک گاؤں میں گندم کی کٹائی کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ایک جلسہ بھی ہوا۔ جس سے نعمان لنگڑیال اور وزیر اعلیٰ نے خطاب کیا۔ سردار عثمان بزدار نے کسانوں کو پیغام دیا کہ ہم کسانوں سے گندم کا ایک ایک دانہ خریدیں گے۔ اس ضمن میں بجٹ کی کوئی قید نہیں ہے۔ گندم کی کٹائی کے بعد ہم لاہور کے لیے واپس روانہ ہوگئے۔ میرے لیے اس دورہ کی ابھی تک کوئی خبر نہیں تھی۔ بس ایک رسمی دورہ تھا۔ کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی تھا کہ میں کیوں آیا، نہ آنے کا فیصلہ زیادہ بہتر تھا۔
چیچہ وطنی سے لاہور کے لیے واپس روانہ ہونے کے لیے دوبارہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئے۔ تو وزیر اعلیٰ نے اپنے ساتھ آنے والے صمصام بخاری سے کہا کہ کہاں چلیں۔ انھوں نے بھی کہا سر لاہور چلنا ہے۔ تو سردار عثمان بزدار نے کہا نہیں میرا لاہور جانے کا پروگرام نہیں ہے۔ ہم سب حیران ہوئے کہ لاہور نہیں جانا تو کہاں جانا ہے۔ سردار عثمان بزدار نے کہا میں مختلف علاقوں میں تھانوں اسپتالوں میں چھاپے مارنا چاہتا ہوں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میرے جانے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے۔ اس لیے آج سب کو پتہ ہے کہ میں ساہیوال ڈویژن میں گندم کی کٹائی میں آیا ہوا ہوں۔ اس لیے پورا ساہیوال تو آج الرٹ ہو گا۔ اس لیے ساہیوال میں کہیں نہیں جانا۔ اس کے بعد طے ہوا کہ ملتان ڈویژن میں وہاڑی چلتے ہیں۔ اور وہاڑی جانے کا فیصلہ ہوگیا۔اب کسی کوکچھ نہیں پتہ تھا کہ وہاڑی میں کیا کرنا ہے۔وزیر اعلیٰ نے اسٹاف کو ہدائت کی بس دو گاڑیاں پرائیوٹ منگوا لیں۔
وہاڑی میں ایک جگہ لینڈنگ کی اجازت مل گئی اور وہاں دو گاڑیاں بھی پہنچ گئیں۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ بیچارے ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر کو بھی پہنچنے کا موقع نہیں مل سکا۔ ہیلی کاپٹر سے نکلے تو وزیر اعلیٰ نے کہا قریبی تھانہ میں چلیں۔ ہم تھانہ سٹی وہاڑی پہنچ گئے۔ وہاں عجیب حالت تھی جیسی پنجاب میں تھانوں کی ہوتی ہے۔ سردار عثمان بزدار حوالات میں قید لوگوں سے ملے۔ ان سے پوچھا کہ وہ کن مقدمات میں ہیں۔ تھانہ کی عمومی حالت کا جائزہ لیا۔ محرر سے ملے۔ تھوڑی دیر بعد کہیں سے بھاگتا ہوا ایس ایچ او پہنچ گیا۔بعد میں ڈی پی او بھی پہنچ گیا۔ ایس ایچ او اور ڈی پی او کے پہنچنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے ان سے پوچھا کہ تھانہ میں اتنی موٹر سائیکل کیوں کھڑی ہیں۔ ایس ایچ او پریشان تھا۔ اس کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔
دوبارہ بات پوچھنے پر اس نے کہا یہ موٹر سائیکلیں منشیات کے مقدمات میں پکڑی ہوئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے پوچھا کہ یہ ساری درجنوں موٹر سائیکلیں منشیات میں پکڑی ہوئی ہیں۔ وہ بولا نہیں سر کچھ دوسرے مقدمات میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا میں نے واضح ہدایات دی ہیں کہ پولیس ناکہ لگا کر عوام کو پریشان نہ کرے۔ تم لوگ ناکہ لگا کر موٹر سائیکلیں بند کرتے ہو پھر عوام کو تنگ کرتے ہو۔انھوں نے موقع پر بند تمام موٹر سائیکلوں کاآڈٹ کرنے کا حکم دیا۔ تھانہ میں اتنی زیادہ موٹر سائیکلیں بند ہونے پر ایس ایچ او معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہم وہاڑی کے ڈی ایچ کیو پہنچے۔ وہاں ہمارے آنے کی اطلاع تھی۔ اسپتال کا ایم ایس موجود تھا۔ ڈاکٹر موجود تھے۔ اس کی شائد وجہ یہ تھی تھانہ میں آدھا گھنٹہ لگ گیا تھا۔ اور سب تک اطلاع ہو گئی تھی کہ وزیر اعلیٰ اچانک وہاڑی پہنچ گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی مریضوں سے بات چیت میں یہ بات سامنے آئی کہ مریضوں کو ادویات میں مسئلہ ہے۔ لوگوں نے شکائت کی کہ ہمیں انسولین نہیں مل رہی ہے۔ جس کے بعد ایم ایس کے خلاف بھی ایکشن لیا گیا۔
وہاں سے نکلے تو محکمہ تعلیم کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں حسب معمول حاضری کم تھی۔ لوگ موجود نہیں تھے۔ جس کی بنا پر ڈی او ایجو کیشن کو بھی ٹرانسفر کر دیا۔ وہاں سے نکل کر سردار عثمان بزدار نے کہا اب مزید کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ اب تک پورے ضلع میں اعلان ہو گیا ہوگا کہ میں یہاں ہوں اور دفتر چیک کر رہا ہوں۔ اس لیے چلتے ہیں۔ وہاڑی سے نکلے تو سب کا خیال تھا کہ اب واپس لاہور جائیں گے۔ لیکن ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر وزیر اعلیٰ پھر پوچھنے لگ گئے کہ اب کہاں چلیں۔ میں حیران تھا کہ سردار عثمان بزدار کیا کر رہے ہیں۔ لوگ اس کو ڈمی وزیر اعلیٰ کہتے ہیں یہ تو پوری طاقت میں ہیں۔ خیر مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ خانیوال چلتے ہیں۔ خانیوال جانے کا فیصلہ ہو گیا۔ ہم خانیوال پہنچے تو وہاں بھی اطلاع نہیں تھی۔ جلدی میں کوئی اچھی گاڑی بھی نہیں پہنچ سکی۔
بہرحال وہاں سے نکلے تو سب کا خیال تھا کہ اسپتال جائیں گے لیکن راستہ میں تھانہ سٹی خانیوال آگیا، تو یک دم وزیر اعلیٰ نے گاڑی کا رخ تھانہ سٹی خانیوال کی جانب کروا دیا۔ تھانے پہنچے تو عجیب ماحول تھا حوالات میں لوگ بغیر گرفتاری کے بند تھے۔ ایک حوالاتی نے بتایا کہ وہ ایک ماہ سے بند ہے۔ سردار عثمان بزدار نے ایس ایچ او سے پوچھا کہ یہ ایک ماہ سے کیوں بند ہے۔ ایس ایچ او پریشان ہو گیا اس نے کہا سر پہلے میرے پاس نہیں تھا ۔ مجھے یہ حوالاتی سی آئی اے نے دیا ہے۔ جب اس کی گرفتاری کا ریکارڈ مانگا گیا تو محرر آج کی گرفتاری ڈال کر لے آیا۔ وزیر اعلی نے اس ریکارڈ کو ماننے سے انکارکر دیا۔ ڈی پی او بھی پہنچ گئے۔ انھوں نے وضاحت دینے کی کوشش کی یہ ایک پیشہ ور چور ہے۔
اس لیے اس سے چوری کا مال واپس لینا ہے اس لیے بند کیا ہوا ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ کا موقف تھا کہ یہ غیر قانونی عمل ہے۔ ہم کیسے کسی کو بھی بغیر گرفتاری اور قانونی تقاضے پورے کیے بند کر سکتے ہیں۔ غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم پولیس میں اصلاحات لانا چاہتے ہیںلہٰذا غیر قانونی کام بند کیے جائیں۔ سردار عثمان بزدار نے ڈی پی او کو ڈانٹتے ہوئے ٹرانسفر کرنے کے احکامات دے دئے۔ انھوں نے ڈرائیور سے کہا کہ محکمہ انہار کے دفتر چلو۔ ساتھ ہی دفتر تھا۔ وہاں ایکسیئن موجود نہیں تھے۔ ان کا دفتر خالی تھا۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایکسیئن صاحب لاہور ٹریننگ پر گئے ہوئے ہیں۔ اس لیے صرف ہفتہ اور اتوار کو خانیوال آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے پوچھا سارا ہفتہ کام کیسے ہوتا ہے۔ ایس ڈی او نے بتایا کہ ان کے لیے ڈاک التوا میں رکھی جاتی ہے۔ جب افسر آتے ہیں دستخط کر دیتے ہیں۔وہاں اسٹیڈیم کی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ اس پر ڈی او اسپورٹس کو شو کاز کر دیا گیا۔خانیوال شہر میں مختلف دفاتر کے دوروں میں دفاتر میں صفائی کا نظام ناقص تھا۔ جس پر کمشنر ملتان اور ڈپٹی کمشنر خانیوال کو شوکازجاری کیے گئے۔ راستہ میں عبدالحکیم جنگل میں درختوں کی کٹائی پر بھی وزیر اعلیٰ خوش نہیں تھے۔ جس پر سیکریٹری جنگلات سے وضاحت مانگ لی گئی۔
خانیوال سے واپسی پر وزیر اعلیٰ کسی اور شہر جانا چاہتے تھے لیکن وزیر اعلیٰ کے اسٹاف نے منت کی اب بہت دیر ہوگئی۔ پنجاب والو سردار عثمان بزدار نکل پڑے ہیں۔ وہ کسی بھی شہر آسکتے ہیں۔ اس لیے سب کو تیار رہنا ہوگا۔ وہ نکلیں گے کہیں پہنچیں گے کہیں۔
چیچہ وطنی سے لاہور کے لیے واپس روانہ ہونے کے لیے دوبارہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئے۔ تو وزیر اعلیٰ نے اپنے ساتھ آنے والے صمصام بخاری سے کہا کہ کہاں چلیں۔ انھوں نے بھی کہا سر لاہور چلنا ہے۔ تو سردار عثمان بزدار نے کہا نہیں میرا لاہور جانے کا پروگرام نہیں ہے۔ ہم سب حیران ہوئے کہ لاہور نہیں جانا تو کہاں جانا ہے۔ سردار عثمان بزدار نے کہا میں مختلف علاقوں میں تھانوں اسپتالوں میں چھاپے مارنا چاہتا ہوں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میرے جانے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے۔ اس لیے آج سب کو پتہ ہے کہ میں ساہیوال ڈویژن میں گندم کی کٹائی میں آیا ہوا ہوں۔ اس لیے پورا ساہیوال تو آج الرٹ ہو گا۔ اس لیے ساہیوال میں کہیں نہیں جانا۔ اس کے بعد طے ہوا کہ ملتان ڈویژن میں وہاڑی چلتے ہیں۔ اور وہاڑی جانے کا فیصلہ ہوگیا۔اب کسی کوکچھ نہیں پتہ تھا کہ وہاڑی میں کیا کرنا ہے۔وزیر اعلیٰ نے اسٹاف کو ہدائت کی بس دو گاڑیاں پرائیوٹ منگوا لیں۔
وہاڑی میں ایک جگہ لینڈنگ کی اجازت مل گئی اور وہاں دو گاڑیاں بھی پہنچ گئیں۔ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ بیچارے ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر کو بھی پہنچنے کا موقع نہیں مل سکا۔ ہیلی کاپٹر سے نکلے تو وزیر اعلیٰ نے کہا قریبی تھانہ میں چلیں۔ ہم تھانہ سٹی وہاڑی پہنچ گئے۔ وہاں عجیب حالت تھی جیسی پنجاب میں تھانوں کی ہوتی ہے۔ سردار عثمان بزدار حوالات میں قید لوگوں سے ملے۔ ان سے پوچھا کہ وہ کن مقدمات میں ہیں۔ تھانہ کی عمومی حالت کا جائزہ لیا۔ محرر سے ملے۔ تھوڑی دیر بعد کہیں سے بھاگتا ہوا ایس ایچ او پہنچ گیا۔بعد میں ڈی پی او بھی پہنچ گیا۔ ایس ایچ او اور ڈی پی او کے پہنچنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے ان سے پوچھا کہ تھانہ میں اتنی موٹر سائیکل کیوں کھڑی ہیں۔ ایس ایچ او پریشان تھا۔ اس کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔
دوبارہ بات پوچھنے پر اس نے کہا یہ موٹر سائیکلیں منشیات کے مقدمات میں پکڑی ہوئی ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے پوچھا کہ یہ ساری درجنوں موٹر سائیکلیں منشیات میں پکڑی ہوئی ہیں۔ وہ بولا نہیں سر کچھ دوسرے مقدمات میں ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا میں نے واضح ہدایات دی ہیں کہ پولیس ناکہ لگا کر عوام کو پریشان نہ کرے۔ تم لوگ ناکہ لگا کر موٹر سائیکلیں بند کرتے ہو پھر عوام کو تنگ کرتے ہو۔انھوں نے موقع پر بند تمام موٹر سائیکلوں کاآڈٹ کرنے کا حکم دیا۔ تھانہ میں اتنی زیادہ موٹر سائیکلیں بند ہونے پر ایس ایچ او معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہم وہاڑی کے ڈی ایچ کیو پہنچے۔ وہاں ہمارے آنے کی اطلاع تھی۔ اسپتال کا ایم ایس موجود تھا۔ ڈاکٹر موجود تھے۔ اس کی شائد وجہ یہ تھی تھانہ میں آدھا گھنٹہ لگ گیا تھا۔ اور سب تک اطلاع ہو گئی تھی کہ وزیر اعلیٰ اچانک وہاڑی پہنچ گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی مریضوں سے بات چیت میں یہ بات سامنے آئی کہ مریضوں کو ادویات میں مسئلہ ہے۔ لوگوں نے شکائت کی کہ ہمیں انسولین نہیں مل رہی ہے۔ جس کے بعد ایم ایس کے خلاف بھی ایکشن لیا گیا۔
وہاں سے نکلے تو محکمہ تعلیم کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں حسب معمول حاضری کم تھی۔ لوگ موجود نہیں تھے۔ جس کی بنا پر ڈی او ایجو کیشن کو بھی ٹرانسفر کر دیا۔ وہاں سے نکل کر سردار عثمان بزدار نے کہا اب مزید کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ اب تک پورے ضلع میں اعلان ہو گیا ہوگا کہ میں یہاں ہوں اور دفتر چیک کر رہا ہوں۔ اس لیے چلتے ہیں۔ وہاڑی سے نکلے تو سب کا خیال تھا کہ اب واپس لاہور جائیں گے۔ لیکن ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر وزیر اعلیٰ پھر پوچھنے لگ گئے کہ اب کہاں چلیں۔ میں حیران تھا کہ سردار عثمان بزدار کیا کر رہے ہیں۔ لوگ اس کو ڈمی وزیر اعلیٰ کہتے ہیں یہ تو پوری طاقت میں ہیں۔ خیر مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ خانیوال چلتے ہیں۔ خانیوال جانے کا فیصلہ ہو گیا۔ ہم خانیوال پہنچے تو وہاں بھی اطلاع نہیں تھی۔ جلدی میں کوئی اچھی گاڑی بھی نہیں پہنچ سکی۔
بہرحال وہاں سے نکلے تو سب کا خیال تھا کہ اسپتال جائیں گے لیکن راستہ میں تھانہ سٹی خانیوال آگیا، تو یک دم وزیر اعلیٰ نے گاڑی کا رخ تھانہ سٹی خانیوال کی جانب کروا دیا۔ تھانے پہنچے تو عجیب ماحول تھا حوالات میں لوگ بغیر گرفتاری کے بند تھے۔ ایک حوالاتی نے بتایا کہ وہ ایک ماہ سے بند ہے۔ سردار عثمان بزدار نے ایس ایچ او سے پوچھا کہ یہ ایک ماہ سے کیوں بند ہے۔ ایس ایچ او پریشان ہو گیا اس نے کہا سر پہلے میرے پاس نہیں تھا ۔ مجھے یہ حوالاتی سی آئی اے نے دیا ہے۔ جب اس کی گرفتاری کا ریکارڈ مانگا گیا تو محرر آج کی گرفتاری ڈال کر لے آیا۔ وزیر اعلی نے اس ریکارڈ کو ماننے سے انکارکر دیا۔ ڈی پی او بھی پہنچ گئے۔ انھوں نے وضاحت دینے کی کوشش کی یہ ایک پیشہ ور چور ہے۔
اس لیے اس سے چوری کا مال واپس لینا ہے اس لیے بند کیا ہوا ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ کا موقف تھا کہ یہ غیر قانونی عمل ہے۔ ہم کیسے کسی کو بھی بغیر گرفتاری اور قانونی تقاضے پورے کیے بند کر سکتے ہیں۔ غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم پولیس میں اصلاحات لانا چاہتے ہیںلہٰذا غیر قانونی کام بند کیے جائیں۔ سردار عثمان بزدار نے ڈی پی او کو ڈانٹتے ہوئے ٹرانسفر کرنے کے احکامات دے دئے۔ انھوں نے ڈرائیور سے کہا کہ محکمہ انہار کے دفتر چلو۔ ساتھ ہی دفتر تھا۔ وہاں ایکسیئن موجود نہیں تھے۔ ان کا دفتر خالی تھا۔
پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایکسیئن صاحب لاہور ٹریننگ پر گئے ہوئے ہیں۔ اس لیے صرف ہفتہ اور اتوار کو خانیوال آتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے پوچھا سارا ہفتہ کام کیسے ہوتا ہے۔ ایس ڈی او نے بتایا کہ ان کے لیے ڈاک التوا میں رکھی جاتی ہے۔ جب افسر آتے ہیں دستخط کر دیتے ہیں۔وہاں اسٹیڈیم کی حالت بھی اچھی نہیں تھی۔ اس پر ڈی او اسپورٹس کو شو کاز کر دیا گیا۔خانیوال شہر میں مختلف دفاتر کے دوروں میں دفاتر میں صفائی کا نظام ناقص تھا۔ جس پر کمشنر ملتان اور ڈپٹی کمشنر خانیوال کو شوکازجاری کیے گئے۔ راستہ میں عبدالحکیم جنگل میں درختوں کی کٹائی پر بھی وزیر اعلیٰ خوش نہیں تھے۔ جس پر سیکریٹری جنگلات سے وضاحت مانگ لی گئی۔
خانیوال سے واپسی پر وزیر اعلیٰ کسی اور شہر جانا چاہتے تھے لیکن وزیر اعلیٰ کے اسٹاف نے منت کی اب بہت دیر ہوگئی۔ پنجاب والو سردار عثمان بزدار نکل پڑے ہیں۔ وہ کسی بھی شہر آسکتے ہیں۔ اس لیے سب کو تیار رہنا ہوگا۔ وہ نکلیں گے کہیں پہنچیں گے کہیں۔