ڈاکٹر جمیل جالبی
Amjadislam@gmail.com
مانچسٹر سے ایڈنبرا جاتے ہوئے فیس بُک پر نظر پڑی تو سامنے ہی ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی تصویر نظر آئی اور ساتھ ہی ایک دم دماغ میں گھنٹی سی بجی کہ اب یہ محبت بھری آنکھیں اور شفیق چہرہ ایک ایسے سفر پر روانہ ہوچکا ہے جو ہر ذی روح کا مقدر ہے لیکن جسے ہر کوئی کسی دوسرے کے حوالے سے ہی دیکھنا اور ماننا پسند کرتا ہے اوراس کے ساتھ ہی ایک اپنا ہی کہا ہوا شعر ذہن کی دہلیز پر روشن ہوگیا کہ
مری زندگی میں جو لوگ تھے مرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا انھیں روکتا، میری بات بیچ میں رہ گئی
ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف اُن کی زیر ادارت نکلنے والے ادبی جریدے''نیا دور'' کے حوالے سے ہوا جو ایک زمانے میں نقوش اور فنون کی صنف میں گناجاتا تھا دوسرا تعارف اُن کی کلچر کے خدوخال اُجاگر کرنے والی قدرے کم معروف مگر شاندار کتاب کے حوالے سے ہوا جو کم از کم اُردو زبان میں اس موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں اپنی مثال آپ کہی جاسکتی ہے۔اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات عبدالعزیز خالد مرحوم کے توسط سے ہوئی جو اُن کے کولیگ بھی تھے اور دوست بھی۔ سول سروس سے یونیورسٹی کی وائس چانسلری اور وہاں سے مقتدرہ کی صدر نشینی تک وہ جس بھی منصبِ جلیلہ پر فائز ہوئے انھوں نے غالب کے اس مصرعے پر ایک سوالیہ نشان ضرور لگایا کہ
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
وہ ایک ہمہ جہت اور بھر پور شخصیت کے مالک تھے اوراُن کی پوری زندگی طرح طرح کے کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن اُردو ادب کی تاریخ اور انگریزی اُردو ڈکشنری کی شاندار اشاعت ایسے تاریخ ساز کام ہیں جن کی وجہ سے اُردو ادب کی تاریخ میں اُن کا نام ہمیشہ سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔ ذاتی سطح پر میرا اُن کا تعلق تقریباً چار دہائیوں پر محیط تھا اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس طویل عرصے کے دوران میں کبھی بھی اُن کی طرف سے محبت اور شفقت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ وہ میری تنقیدی کتاب ''نئے پرانے '' کا ذکر بھی ہمیشہ بہت تعریفی اندازمیں کیا کرتے تھے اور بلاشبہ اُن کی یہ حوصلہ افزائی میرے لیے کسی بے حد قیمتی تحفے سے کم نہیں تھی لیکن اُن کا یہ روّیہ کسی محدود دائرے کا اسیر نہیں تھا۔
وہ اُن بزرگوں میں سے تھے جوداد اور تعریف کے فن میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتا تھا اُن کی بظاہر بھاری بھرکم شخصیت اور ادبی مقام کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ہمہ وقت بہت سنجیدہ رہتے ہوں گے مگر جن احباب کو اُن کے قریب رہنے اور اُن سے کُھل کر گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ اُن کی طبیعت میں ایک خاص طرح کی شگفتگی ایسی تھی جسے آپ زیر لب تبسم سے تشبیہہ تو دے سکتے ہیں مگر اُن کی حسِ مزاح اس سے بہت آگے کی چیز تھی ۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں کسی کتاب کی تقریب رونمائی میں اُن کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھا تھا ایک بہت معروف نقاد کتاب پر گفتگو فرما رہے تھے لیکن بار بار موضوع سے ہٹ جاتے تھے۔
میں نے جالبی صاحب سے سرگوشی میں پوچھا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور کتاب پر بات کیوں نہیں کرتے انھوں نے اپنے چہرے کی سنجیدگی کو قائم رکھتے ہوئے آہستہ سے کہا '' اس لیے کہ یہ کتاب کو پڑھے بغیر محض اندازے اور تجربے سے کام لینے کی کوشش کر رہے ہیں'' میں نے چند لمحوں بعد اسی بات کو ایک شعر کی شکل میں موزوں کرکے چِٹ اُن کی طرف بڑھا دی وہ کچھ دیر تو ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کرتے رہے اور پھر باتھ روم جانے کا بہانہ کرکے اسٹیج سے اُتر گئے۔ بعد میں انھوں نے شعر کی معنویت اور برجستگی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ اگر وہ کچھ دیر اور وہاں سے نہ اٹھتے تو اُن کے لیے ہنسی پر قابو رکھنا ناممکن ہوجاتا وہ شعر کچھ اس طرح سے تھا۔
بات وہ کرتے رہے ہم جس کا مطلب کچھ نہیں
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں
بعد میں کئی جگہ انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ ہماری بیشتر فرمائشی تاثراتی اور لحاظ داری والی تنقید کے ساتھ یہی معاملہ ہے کہ اس میں کی جانے والی بیشتر باتوں کاآخری نتیجہ بس یہی ہوتا ہے کہ ان کا سرے سے کوئی مقصد ہوتا ہی نہیں۔
جالبی صاحب گزشتہ کئی مہینوں سے علیل اور لکھنے لکھانے سے دُور تھے مگر جس طرح سے انھوں نے رب کریم کی طرف سے عطا کردہ طویل عمر کا حق ادا کیا اُس کی مثالیں آسانی سے نہیں ڈھونڈی جاسکتیں وہ بیک وقت نقاد بھی تھے اور محقق بھی ،اُن کی نثر عالمانہ تو تھی مگر آپ اسے خشک یا بے رنگ نہیں کہہ سکتے۔ اُن کی چار جلدوں میں شایع ہونے والی اُردوادب کی ضخیم تاریخ کا ایک ایک باب اور جملہ اس بات کا گواہ ہے کہ انھوں نے انتہائی محنت اور باریک بینی سے اپنے اخذ کردہ نتائج کو ایسی سادگی اور روانی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ دل سے بے ساختہ اُن کے لیے دعا اور داد نکلتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی خدمات کا دورانیہ تقریباً ستر برس پر پھیلا ہوا ہے اور جس طرح سے انھوں نے مقدار اور معیار میں توازن کی عمدگی کو قائم اور برقرار رکھا ہے اُس کی خوشبو اُردو ادب کی فضاؤں میں دیر تک اور بہت دُور تک اُن کی یادوں کو زندہ اور محبوب رکھے گی۔
مری زندگی میں جو لوگ تھے مرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا انھیں روکتا، میری بات بیچ میں رہ گئی
ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف اُن کی زیر ادارت نکلنے والے ادبی جریدے''نیا دور'' کے حوالے سے ہوا جو ایک زمانے میں نقوش اور فنون کی صنف میں گناجاتا تھا دوسرا تعارف اُن کی کلچر کے خدوخال اُجاگر کرنے والی قدرے کم معروف مگر شاندار کتاب کے حوالے سے ہوا جو کم از کم اُردو زبان میں اس موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں اپنی مثال آپ کہی جاسکتی ہے۔اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات عبدالعزیز خالد مرحوم کے توسط سے ہوئی جو اُن کے کولیگ بھی تھے اور دوست بھی۔ سول سروس سے یونیورسٹی کی وائس چانسلری اور وہاں سے مقتدرہ کی صدر نشینی تک وہ جس بھی منصبِ جلیلہ پر فائز ہوئے انھوں نے غالب کے اس مصرعے پر ایک سوالیہ نشان ضرور لگایا کہ
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
وہ ایک ہمہ جہت اور بھر پور شخصیت کے مالک تھے اوراُن کی پوری زندگی طرح طرح کے کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن اُردو ادب کی تاریخ اور انگریزی اُردو ڈکشنری کی شاندار اشاعت ایسے تاریخ ساز کام ہیں جن کی وجہ سے اُردو ادب کی تاریخ میں اُن کا نام ہمیشہ سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔ ذاتی سطح پر میرا اُن کا تعلق تقریباً چار دہائیوں پر محیط تھا اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس طویل عرصے کے دوران میں کبھی بھی اُن کی طرف سے محبت اور شفقت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہو ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ وہ میری تنقیدی کتاب ''نئے پرانے '' کا ذکر بھی ہمیشہ بہت تعریفی اندازمیں کیا کرتے تھے اور بلاشبہ اُن کی یہ حوصلہ افزائی میرے لیے کسی بے حد قیمتی تحفے سے کم نہیں تھی لیکن اُن کا یہ روّیہ کسی محدود دائرے کا اسیر نہیں تھا۔
وہ اُن بزرگوں میں سے تھے جوداد اور تعریف کے فن میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتا تھا اُن کی بظاہر بھاری بھرکم شخصیت اور ادبی مقام کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ہمہ وقت بہت سنجیدہ رہتے ہوں گے مگر جن احباب کو اُن کے قریب رہنے اور اُن سے کُھل کر گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ اُن کی طبیعت میں ایک خاص طرح کی شگفتگی ایسی تھی جسے آپ زیر لب تبسم سے تشبیہہ تو دے سکتے ہیں مگر اُن کی حسِ مزاح اس سے بہت آگے کی چیز تھی ۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں کسی کتاب کی تقریب رونمائی میں اُن کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھا تھا ایک بہت معروف نقاد کتاب پر گفتگو فرما رہے تھے لیکن بار بار موضوع سے ہٹ جاتے تھے۔
میں نے جالبی صاحب سے سرگوشی میں پوچھا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور کتاب پر بات کیوں نہیں کرتے انھوں نے اپنے چہرے کی سنجیدگی کو قائم رکھتے ہوئے آہستہ سے کہا '' اس لیے کہ یہ کتاب کو پڑھے بغیر محض اندازے اور تجربے سے کام لینے کی کوشش کر رہے ہیں'' میں نے چند لمحوں بعد اسی بات کو ایک شعر کی شکل میں موزوں کرکے چِٹ اُن کی طرف بڑھا دی وہ کچھ دیر تو ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کرتے رہے اور پھر باتھ روم جانے کا بہانہ کرکے اسٹیج سے اُتر گئے۔ بعد میں انھوں نے شعر کی معنویت اور برجستگی کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ اگر وہ کچھ دیر اور وہاں سے نہ اٹھتے تو اُن کے لیے ہنسی پر قابو رکھنا ناممکن ہوجاتا وہ شعر کچھ اس طرح سے تھا۔
بات وہ کرتے رہے ہم جس کا مطلب کچھ نہیں
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں
بعد میں کئی جگہ انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ ہماری بیشتر فرمائشی تاثراتی اور لحاظ داری والی تنقید کے ساتھ یہی معاملہ ہے کہ اس میں کی جانے والی بیشتر باتوں کاآخری نتیجہ بس یہی ہوتا ہے کہ ان کا سرے سے کوئی مقصد ہوتا ہی نہیں۔
جالبی صاحب گزشتہ کئی مہینوں سے علیل اور لکھنے لکھانے سے دُور تھے مگر جس طرح سے انھوں نے رب کریم کی طرف سے عطا کردہ طویل عمر کا حق ادا کیا اُس کی مثالیں آسانی سے نہیں ڈھونڈی جاسکتیں وہ بیک وقت نقاد بھی تھے اور محقق بھی ،اُن کی نثر عالمانہ تو تھی مگر آپ اسے خشک یا بے رنگ نہیں کہہ سکتے۔ اُن کی چار جلدوں میں شایع ہونے والی اُردوادب کی ضخیم تاریخ کا ایک ایک باب اور جملہ اس بات کا گواہ ہے کہ انھوں نے انتہائی محنت اور باریک بینی سے اپنے اخذ کردہ نتائج کو ایسی سادگی اور روانی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ دل سے بے ساختہ اُن کے لیے دعا اور داد نکلتی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی خدمات کا دورانیہ تقریباً ستر برس پر پھیلا ہوا ہے اور جس طرح سے انھوں نے مقدار اور معیار میں توازن کی عمدگی کو قائم اور برقرار رکھا ہے اُس کی خوشبو اُردو ادب کی فضاؤں میں دیر تک اور بہت دُور تک اُن کی یادوں کو زندہ اور محبوب رکھے گی۔