پروسٹیٹ گلینڈ کی سوزش سے بچاؤ کے فطری طریقے

انسانی زندگی کو عام طور پر تین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، بچپن،جوانی اور بڑھاپا

بڑھاپے میں کئی ایک امراض بڑی شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں

انسانی زندگی کو عام طور پر تین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے، بچپن،جوانی اور بڑھاپا۔ان ادوار کے بدنی مسائل،غذائی ضروریات اور معمولات کی نوعیت بھی جداہوتی ہے جبکہ بیماریاں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ہاں ایک حقیقت جس سے طبی نقطہ نظر سے انکار ممکن نہیں کہ بچپن اور بڑھاپے میں ایک قدر مشترک ہے، وہ ہے کمزوری۔ بچپن میں بچے کی قوتِ مدافعت کمزور ہوتی ہے، بڑھاپے میں بھی جسمانی اعضاء کی کارکردگی میں ضعف واقع ہونے سے بیماریوں کے خلا ف قوتِ مدافعت کمزور پڑجاتی ہے۔

بچے اور بوڑھے کی زندگی کے مابین ایک واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ بچے کو والدین انتہائی توجہ،تحفظ اور پیار دیتے ہیں جبکہ بوڑھے افراد اکثر بے توجہی اور اولاد کی لا پرواہی کا شکار ہونے کی وجہ سے امراض کے نرغے میں زیادہ پھنستے ہیں حالانکہ بزرگوں کی صحت بھی بچوں کی طرح ہی توجہ،تحفظ اور بہتر نگہداشت کی متقاضی ہو تی ہے۔ بڑھاپا تو بذاتِ خود ایک بہت بڑا مرض ہے، جب اس سے بے توجہی برتی جائے تو بڑھاپے سے جڑے دیگر عوارض اس کی شدت میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ یوں تو بڑھاپے میں کئی ایک امراض بڑی شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں ان میں جسمانی کمزوری،عضلاتی و اعصابی کمزوری، ضعفِ بصارت وسماعت،امراضِ قلب و گردہ،دماغی مراض اور بلڈ پریشر وغیرہ شامل ہیں۔

بوڑھے افراد کے امراض میں سب سے زیادہ اذیت ناک اور تکلیف دہ بیماری غدہ قدامیہ(پروسٹیٹ گلینڈ) کی سوزش یا عظمِ غدہ قدا میہ ہے۔ یہ دورِ جدید کا ایک کثیر الوقوع اور صرف مردوں کا مرض ہے۔دنیا کے ہر خطے میں یکساں طور پایا جاتا ہے،عام طور پر 50 سال کی عمر کے بعد سامنے آتا ہے۔ایسے افراد جو صحت کے حوالے سے بے احتیاطی اور لا پرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں یہ مرض40 سال کے بعد لاحق ہونے کے خطرات موجود ہوتے ہیں۔اسے تکلیف دہ اس لیے بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ بوڑھے اور ضعیف افراد کا مرض ہے جبکہ ضعیف افراد تو پہلے ہی انحطاط پزیر ہوتے ہیں، قوتِ مدافعت کمزور پڑجانے سے ان میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی سکت بہت کم رہ جاتی ہے۔

عظمِ غدہ قدامیہ کے اسباب

یہ غدود مثانے کے منہ پر پایا جاتا ہے اور پیشاب کی نالی اس میں سے گزرتی ہے۔جب یہ غدود بڑھتا ہے تو پیشاب کی نالی پر دباؤ پڑ جاتا ہے جس سے پیشاب آنے میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔غدہ قدامیہ کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ مردانہ ہارمونز کی افزائش میں بتدریج کمی ہوتی ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وقوع پزیر ہوتی ہے۔مائکرو سکوپی کے ذریعے تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پراسٹیٹ گلینڈکے اندرونی حصہ کے خلیات کا سائز بڑھ جاتا ہے،اور غدود کی فائبرس مسکولر بافتوں کی ساخت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔غدہ قدامیہ کے بڑھنے سے پیشاب کی نالی کی ساخت میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے جس سے پیشاب کے اخراج میں رکاوٹ اورتنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ پیشاب پوری طرح سے خارج نہ ہونے کی وجہ سے مثانہ بھرا بھرا سا رہتا ہے جس سے مثانہ اور گردے متاثر ہوتے ہیں۔

طب قدیم کی رو سے غدہ قدامیہ کی سوزش کے اسباب میں بوڑھے افراد کو ٹھنڈ لگ جانا،پیشاب کو زیادہ دیر تک روکے رکھنا، بدہضمی، تیزابیت، تبخیر، قبض اور بعض بخاروں کا شدید حملہ شامل ہیں۔آج کل ادھیڑ عمر افراد میں بھی غدہ قدامیہ کی سوزش سامنے آرہی ہے۔ایسے افراد جو جنسی عمل میں بہت زیادتی کا مرتکب ہوتے ہیںانھیں اس پریشانی سے پالا پڑسکتا ہے۔

علامات

پیشاب کی شدید رکاوٹ اچانک غدود کے بڑھنے سے ہوتی ہے۔اس کی وجہ غدود کی انفیکشن اور سوزش ہوتا ہے۔مریض کو پیشاب کی حاجت ہوتی ہے لیکن وہ اسے خارج کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔مثانہ پیشاب سے بھرجاتا ہے اور اس میں سخت کھچاؤ اور شدید درد ہوتا ہے۔عام طور پر پیشاب میں خون کی آمیزش ہوتی ہے۔غدہ قدامیہ کی سوزش کی علامات میں دو پہلو زیرِ غور رہنے چاہئیں۔ اول: مریض کو پیشاب کی شدید حاجت ہوتی ہے لیکن جب وہ پیشاب کرنے لگتا ہے تو پیشاب خارج نہیں ہوتا اور اسے پیشاب کے اخراج کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔پیشاب کی دھار بھی بہت کمزور ہوتی ہے۔دوم: مریض کو پیشاب کی حاجت بار بار ہوتی ہے۔ایسی حالت میں پیشاب تھوڑا تھوڑا اور با ر بار آتا ہے ۔بعض اوقات پیشاب آنے کا درمیانی وقفہ صرف پانچ یا دس منٹ تک ہوتا ہے۔

تشخیص


اس مرض کی تشخیص میں علامات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور معالج علامات کو مدِ نظر رکھ کر ہی تشخیص کر تاہے۔ پروسٹیٹ کی انفیکشن کی تشخیص کا سب سے بڑا ذریعہ تو پیشاب کی رکاوٹ ہی ہوتی ہے لیکن بسا اوقات یہ علامت کافی نہیںسمجھی جاتی یا یہ مرض کی پوری کیفیت کو ظاہر نہیں کر پاتی۔ تاہم تشخیصی نظام کی جدید ایجادات الٹرا سونو گرافی اور سسٹو سکوپی سے اس مرض کی تشخیص میں کافی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقعد کے ذریعے امتحان بھی تشخیص میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر مزید تشخیص درکار ہو تو ہڈیوں کا سکین، ایکسرے LFT وغیرہ Test کروانے سے مرض کی تشخیص میں آسانی ہوجاتی ہے۔

نیچرو پیتھی علاج

طبِ قدیم غدہ قدامیہ کی سوزش کا مکمل،شافی اور کامیاب علاج موجو دہے۔ وقتی افاقہ کے لییِ کیسو کے پھولوں کو پانی میں پکا کر بیرونی طور پر ٹکور کرنے سے فوری آرام ملتا ہے۔ اسی طرح تمباکو کو پانی میں ابال کر نیم گرم باندھنے سے بھی فوری طور پر درد سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ گلِ بنفشہ5 گرام، بادیاں5گرام ،جڑ کاسنی5گرام ،مکو خشک 5 گرام،بیج قرطم5 گرام،خطمی5 گرام اور منقیٰ 9 عددکو ایک پاؤپانی میںپکا کر چھان لیں۔ دن میں دو بار شربتِ بزوری کے چار چمچ ملا کر استعمال کریں۔سماق دانہ کو باریک پیس کر ہموزن مصری ملا کر نہار منہ 5 گرام کی خوراک دینے سے بھی مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔علاوہ ازیں بازار میں دستیاب ادویات بھی کمال نتائج کی حامل ہیں۔عرقِ مکو ،عرقِ کاسنی وغیرہ بھی بہترین نتائج کی حامل ادویات ہیں۔

جدیدعلاج

جدید طب میں غدود کے سائز کو کم کرنے کے لیے الفا بلاکرز ڈرگز دی جاتی ہیں۔یہ ایسی ادویات ہوتی ہیں جنہیں مسلسل استعمال کیا جائے تو افاقہ ، دوا چھوڑتے ہی مرض دوبارہ ظاہر ہو کر تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔علاوہ ازیںان ادویات کے ذیلی اور ما بعد اثرات بھی ہوتے ہیں۔جیسے بلڈ پریشر اور سر چکرانا۔ جدید طب میں اس کا سب سے اچھا اور آسان حلTUR ہے۔اس سے پیشاب کی رکاوٹ فوری دور ہوجاتی ہے۔اس آپریشن کو عام طور پر چھوٹے آپریشنز میں شمار کیا جاتا ہے جس سے مریض جلد ہی صحت یاب ہوجاتا ہے لیکن مرض کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے امکانات بہر حال موجود رہتے ہیں۔دھیان رہے کہ اس مرض سے بے توجہی برتی جائے تو مرض شدت اختیار کرکے کینسر کے مراحل میں بھی داخل ہوسکتا ہے۔لہٰذا مرض کی ہلکی سی علامت ظاہر ہونے پر ہی اس کے علاج پر بھرپور توجہ دی جانی چاہیے تاکہ بعد ازاں کسی بھی خطرناک صورتِ حال سے بچا جاسکے۔

پرہیز

دورانِ مرض مریض کو چاہیے کہ مکمل طور پر آرام و سکون کرے۔جسمانی حرکات و سکنات سے باز رہے۔وظیفہ زوجیت کی ادائیگی سے بھی دور رہے۔چاہے،کولا مشروبات، شراب، گوشت، تیز مصالحہ جات،سرخ مرچ، چاول، گوبھی، بینگن، چکنائیاں،مٹھائیاں،ترش اور بادی اشیا کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا جائے۔پیشاب آور مشروبات، پھلوں کے جوس وغیرہ کثرت سے استعمال کیے جائیں۔حفظ ما تقدم کے طور پر بچاؤ کے لیے''سدا بہار جوانی'' اور مخصوص لمحات سے محظوظ ہونے کے نسخوں سے بہر صورت دور رہا جائے۔طاقت بڑھانے کے شوقیہ فارمولوں سے بھی پرہیز کیا جائے۔مرغن اور تلی ہوئی غذاؤں سے بھی اجتناب کیا جائے۔حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہوکر روزانہ صبح کی سیر تواتر سے کی جائے۔ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ آپ اس اذیت ناک مرض سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہوںگے۔ n

حکیم نیاز احمد ڈیال
niazdayal@gmail.com
www.hkniaz.com
Load Next Story