خاک نشینوں کے خون پر ایوانوں میں بے حسی
ملبے تلے دبے خاک نشینوں کے خون میں اتنی طاقت نہیں کہ حکومتی ایوانوں کو لرزا سکے
لاہور:
ہفتہ 20 اپریل کو معمول کے مطابق میں آفس میں کام کر رہا تھا کہ دوپہر کو اچانک مختلف ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز آنا شروع ہوئی کہ لاہور، بھاٹی گیٹ کے علاقہ میں تین منزلہ خستہ حال عمارت زمین بوس ہو گئی۔ چونکہ میرا اپنا گھر اس علاقے میں ہے، اس لیے خبر سنتے ہی میرے کان کھڑے ہوئے۔ فوری طور پر ٹی وی نیوز کی تصویریں اتار کر گھر والوں کو واٹس ایپ کر دیں اور ساتھ ہی ساتھ سوچتا رہا کہ کونسا علاقہ ہو سکتا ہے؟ بازار حکیماں، محلہ اسلام خاں، فصیل روڈ، محلہ چومالہ یا کوئی اور... گھر والوں کی طرف سے کوئی جواب آیا نہ کسی نیوز چینل پر کوئی ایسی تفصیل دی گئی۔ خاصی دیر تک ٹی وی چینلز یہ خبر چلاتے رہے اور میں علاقہ پہچاننے کی کوشش کرتا رہا۔
خیر! شام کو فارغ ہوکر جب گھر پہنچا تو بھاٹی گیٹ کے باہر بہت سی ڈی ایس این جیز کھڑی تھیں۔ کچھ آگے بڑھا تو پتا چلا کہ علاقہ سیل کیا ہوا ہے، داخلہ منع ہے۔ دوسرے رستے سے ہوتا ہوا گھر پہنچا تو علاقے میں بجلی غائب تھی۔ اسی دوران کسی نے پوچھا تو پتا چلا کہ وہ فلاں کا گھر گر گیا ہے، لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ریسکیو ٹیمیں کام کر رہی ہیں... میرے گھر کی عقبی جانب ''محلہ اسلام خاں'' میں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ (اکثر اخبارات میں محلے کا نام اسلم خاں شائع ہوا۔) فوراً جائے وقوعہ پر پہنچا، اگرچہ اسے چاروں طرف سے بند کیا گیا تھا مگر لوگ دائیں بائیں سے ہوتے ہوئے، رکاوٹیں پھاندتے وہاں پہنچ رہے تھے۔ جائے حادثہ پر بہت بھیڑ لگی تھی اور لوگ طرح طرح کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ علاقے کی بجلی خود بند کروائی گئی تھی تاکہ بجلی کی تاروں کے سبب کوئی اور حادثہ پیش نہ آ جائے، البتہ جنریٹرز سے فلڈ لائٹس لگا کر کام کیا جا رہا تھا۔ پولیس بھی موقعے پر موجود تھی جو ایک طرف ہجوم کو کنٹرول کر رہی تھی اور دوسری جانب راستہ بنانے میں مشغول تھی کیونکہ تنگ و تاریک گلیوں کے سبب کام میں بہت دشواری پیش آرہی تھی۔
جس جگہ یہ حادثہ پیش آیا وہاں کوئی گاڑی، ایمبولینس نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اگرچہ چند سو میٹر کے فاصلے پر بھاٹی گیٹ کا مین بازار ہے مگر وہاں تو عمومی اوقات میں بھی گاڑیوں کو راستہ نہیں ملتا، اسی وجہ سے بھاٹی گیٹ میں بالخصوص گاڑیوں وغیرہ کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔ صرف ایمبولینس، فائر بریگیڈ یا ریسکیو کی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت تھی۔ میڈیا کی گاڑیاں بھی بھاٹی گیٹ سے باہر ہی کھڑی تھیں۔ جائے حادثہ پر موجود کچھ لوگوں سے بات چیت ہوئی تو پتا چلا کہ ان کے سامنے ملبے سے صرف لاشیں ہی نکلی ہیں، اگرچہ پہلے ملبے تلے سے لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں مگر قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔
تفصیلات کے مطابق گھر کی بالائی منزل پر تعمیراتی کام جاری تھا مگر 3 منزلہ عمارت، جس میں 4 خاندان (تین بھائی اور ایک رشتہ دار) رہائش پذیر تھے، بوسیدہ ہونے کی وجہ سے منہدم ہو گئی۔ 3 خواتین، 1 بچہ اور 2 مرد اس حادثے میں جاں بحق ہوئے جبکہ ایک مرد اور تین بچوں کو زخمی حالت میں میو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ یہ ریسکیو آپریشن ساری رات جاری رہا۔
یہ تو مذکورہ سانحہ کا کچھ آنکھوں دیکھا حال تھا مگر پاکستان جیسے ملک میں ایسے حادثات وقوع پذیر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ آئے دن ایسے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ امسال فروری میں شہرِ قائد کے علاقے ملیر جعفر طیار سوسائٹی میں تین منزلہ عمارت گرنے سے دو خواتین سمیت تین افراد جاں بحق ہو گئے تھے؛ حالانکہ یہ عمارت 20 سے 25 سال پہلے ہی تعمیر کی گئی تھی۔ اسی طرح ماہِ مارچ میں کراچی ہی کے علاقے بوٹ بیسن کے قریب زیر تعمیر عمارت کی لفٹ گرنے سے 6 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ حادثہ چھت کا کچھ حصہ گرنے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ مذکورہ تمام حادثات کے بعد سب سے پہلے ذہن میں یہی سوال ابھرتا ہے کہ وہ کون سی کنسٹرکشن کمپنی، ٹھیکیدار یا مالکان تھے جنہیں اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ عمارت ابھی ناپختہ یا مخدوش ہے اور تمام تعمیر کا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔
ٹھیکیدار یا کنسٹرکشن کمپنیاں تو چلیے اپنے منافع کےلیے کچھ بھی کر گزریں، ان سے تو کچھ بعید نہیں۔ کیا متعلقہ محکموں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس حوالے سے فعالیت کا مظاہرہ کریں؟
اسی حوالے سے چند سال پرانا ایک ذاتی واقعہ یاد آ گیا۔ گھر سے ملحقہ کمرے کی لکڑی کے شہتیروں سے بنی چھت خستہ ہوئی تو مسمار کرکے دوبارہ تعمیر کرنے کا خیال آیا۔ والد صاحب نے کام شروع کروا دیا۔ کوئی ایک دو دن بعد صبح کے وقت دیکھا کہ دو نوجوان لڑکے تعمیراتی کام کی تصاویر اتار رہے اور ارد گرد لوگوں سے کچھ پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جاکر معاملہ دریافت کیا تو تعمیر کو غیر قانونی کہہ کر دھمکانے لگے۔ میں ان سے یہ سوال کرنے کی جسارت کر بیٹھا کہ وہ کس محکمے سے ہیں اور کیا ان کے پاس محکمے کا کوئی کارڈ موجود ہے؟ چونکہ اس حوالے سے پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ ذرا سی کوئی تعمیر کرو تو سو طرح کے محکمے محض مال بٹورنے کے چکر میں آن حاضر ہوتے ہیں، لہٰذا متجسس ہوا کہ کس محکمے کو اعتراض ہے۔ ان لڑکوں کو جواب کیا دینا تھا، وہاں سے رخصت ہو گئے۔ البتہ قریب آدھ گھنٹے بعد دو پولیس اہلکار آئے اور مزدوروں کو کام کرنے کی صورت میں جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ میں آیا تو مجھے پکڑ کر تھانے لے گئے۔
عقدہ کھلا کہ والڈ سٹی اتھارٹی کے ایک اعلیٰ افسر نے میرے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت، غیر قانونی تعمیر، سرکاری اہلکاروں کو دھمکانے اور نجانے کن کن مدات میں کارروائی کی درخواست دی ہے۔ وہی دونوں لڑکے جن سے میری بات چیت ہوئی تھی، اس معاملے کے گواہ تھے۔ اولاً تو پولیس والے درخواست گزار کا نام پتا بتانے سے ہی گریزاں رہے کیونکہ اس وقت تک پولیس کے اپنے پاس بھی کوئی درخواست نہیں پہنچی تھی۔ محض سرکاری دفتر سے فون موصول ہونے پر پولیس نے مستعدی دکھائی اور مجھے حوالات کا دیدار کرا دیا۔ تاہم بعد میں افسر کا نام اور فون نمبر دے دیا۔ البتہ یہ الگ قصہ کہ علاقے کا کونسلر جو میرا محلہ دار اور اسکول کا دوست بھی ہے، بروقت پہنچا۔ فوری طور پر متعلقہ افسر سے بات کی، درخواست واپس کروائی اور مجھے باہر کی راہ دکھلائی۔ لیکن اس سارے قضیے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ اس دوران تھانے کے اندر کا ماحول دیکھنے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ بعد ازاں اُس افسر سے صرف یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ میری جناب سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی کہ سرکار نے میرے خلاف پولیس میں درخواست ہی دے دی۔
والڈ سٹی ایکٹ 2012 کی دفعہ 45 کے تحت نہ تو محکمانہ اجازت کے بغیر کوئی تعمیر کی جا سکتی ہے اور نہ ہی پہلے سے تعمیر شدہ عمارت کو گرایا جا سکتا ہے۔ (یہ الگ بات کہ 2012 میں چپکے چپکے قانون سازی ہوگئی اور والڈ سٹی کے مکینوں کو مطلع کرنا تک گوارا نہ کیا گیا۔) خلاف ورزی کرنے پر دس لاکھ جرمانہ، تین سال قید یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں لیکن اس قانون پر عملدرآمد دیکھنا ہو تو ایک بار والڈ سٹی کا دورہ کر لیجیے۔ مارچ سے اکتوبر تک تعمیراتی کام کا سیزن ہوتا ہے۔ ہر دوسری گلی میں کوئی مکان بنتا اور جا بجا تعمیراتی میٹریل پڑا نظر آتا ہے مگر متعلقہ محکمے گنگ ہیں۔
والڈ سٹی کی گرین بیلٹ، جس کے سبب لاہور باغات کا شہر کہلاتا تھا، آج ناجائز قابضین کی زد میں ہے۔ یہ وہ والے ناجائز قابضین نہیں جو کھوکھے لگا کر یا جھونپڑیاں بنا کر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں، بلکہ یہ وہ والے قابضین ہیں جو ان جگہوں سے ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں۔ زیادہ تر جگہوں پر ناجائز پارکنگ اسٹینڈ بنے ہوئے ہیں، کہیں سرکاری عمارات بھی نظر آتی ہیں۔ جس کا جتنا زور چلتا ہے، اتنے حصے پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتا ہے مگر کوئی اتھارٹی سوال کرنے والی نہیں۔
سابقہ گورنمنٹ نے ایک طرف کچھ باغات کو بحال کیا اور دوسری طرف کچھ باغات کو شہر بھر کے کچرے کا ڈپو بنا دیا۔ سرکاری سطح پر ان باغات میں شہر بھر کا کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے اور کہیں کوئی حفظانِ صحت کا مسئلہ سر نہیں اٹھاتا کیونکہ وہ مسئلہ صرف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں عوام کچرا پھینکیں۔
بات خستہ حال عمارتوں سے شروع ہوئی تھی تو اس ضمن میں یہ بھی سن لیجیے کہ گزشتہ سال مون سون سے پہلے کرائے گئے ایک سرکاری سروے کے مطابق، لاہور میں 488 خطرناک عمارتوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔ ڈی سی لاہور کو دی گئی بریفنگ کے مطابق 227 کی مرمت اور 147 کو گرا دیا گیا ہے۔ باقیوں کو نوٹسز جاری کیے گئے، البتہ ایسے افراد جو ازخود اپنے گھر مرمت نہیں کراسکتے، ان کے بجٹ کے اجراء کےلیے ایم سی ایل کو خط لکھا گیا... شاید کہ کبھی جواب آجائے۔
اسی طرح گزشتہ سال ایک سروے میں پنجاب بھر میں 730 اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خطرناک قرار دی گئیں جن میں لاہور کے 17 اسکول بھی شامل تھے۔ اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا یہ مؤقف سامنے آیا کہ خطرناک عمارتوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے، جلد ان کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ تاہم گزشتہ ماہ یہ خبر سننے کو ملی کہ اسکولوں کی خطرناک عمارتوں کی بحالی کےلیے مجموعی طور پر 90 کروڑ کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس حوالے سے 84 کروڑ روپے مختص بھی کیے گئے مگر تاحال خرچ نہیں کیے جا سکے۔ شاید سانحہ بھاٹی گیٹ جیسے کسی بڑے سانحے کا انتظار کیا جارہا ہے۔
شنید ہے کہ بھگت سنگھ نے اسمبلی میں بم پھوڑنے کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ جو کان اونچا سننے کے عادی ہوں، انہیں سنانے کےلیے دھماکا چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارے آس پاس، ہر دوسرے دن اتنے دھماکے ہوتے ہیں، نجانے ہم پھر بھی کیوں متوجہ نہیں ہوتے۔ شاید اس لیے کہ خاک نشینوں کے خون میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ حکومتی ایوانوں کو لرزا سکے، وہ رزقِ خاک بننے کےلیے بہتا ہے اور خاک میں مل جاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہفتہ 20 اپریل کو معمول کے مطابق میں آفس میں کام کر رہا تھا کہ دوپہر کو اچانک مختلف ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز آنا شروع ہوئی کہ لاہور، بھاٹی گیٹ کے علاقہ میں تین منزلہ خستہ حال عمارت زمین بوس ہو گئی۔ چونکہ میرا اپنا گھر اس علاقے میں ہے، اس لیے خبر سنتے ہی میرے کان کھڑے ہوئے۔ فوری طور پر ٹی وی نیوز کی تصویریں اتار کر گھر والوں کو واٹس ایپ کر دیں اور ساتھ ہی ساتھ سوچتا رہا کہ کونسا علاقہ ہو سکتا ہے؟ بازار حکیماں، محلہ اسلام خاں، فصیل روڈ، محلہ چومالہ یا کوئی اور... گھر والوں کی طرف سے کوئی جواب آیا نہ کسی نیوز چینل پر کوئی ایسی تفصیل دی گئی۔ خاصی دیر تک ٹی وی چینلز یہ خبر چلاتے رہے اور میں علاقہ پہچاننے کی کوشش کرتا رہا۔
خیر! شام کو فارغ ہوکر جب گھر پہنچا تو بھاٹی گیٹ کے باہر بہت سی ڈی ایس این جیز کھڑی تھیں۔ کچھ آگے بڑھا تو پتا چلا کہ علاقہ سیل کیا ہوا ہے، داخلہ منع ہے۔ دوسرے رستے سے ہوتا ہوا گھر پہنچا تو علاقے میں بجلی غائب تھی۔ اسی دوران کسی نے پوچھا تو پتا چلا کہ وہ فلاں کا گھر گر گیا ہے، لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ریسکیو ٹیمیں کام کر رہی ہیں... میرے گھر کی عقبی جانب ''محلہ اسلام خاں'' میں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ (اکثر اخبارات میں محلے کا نام اسلم خاں شائع ہوا۔) فوراً جائے وقوعہ پر پہنچا، اگرچہ اسے چاروں طرف سے بند کیا گیا تھا مگر لوگ دائیں بائیں سے ہوتے ہوئے، رکاوٹیں پھاندتے وہاں پہنچ رہے تھے۔ جائے حادثہ پر بہت بھیڑ لگی تھی اور لوگ طرح طرح کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ علاقے کی بجلی خود بند کروائی گئی تھی تاکہ بجلی کی تاروں کے سبب کوئی اور حادثہ پیش نہ آ جائے، البتہ جنریٹرز سے فلڈ لائٹس لگا کر کام کیا جا رہا تھا۔ پولیس بھی موقعے پر موجود تھی جو ایک طرف ہجوم کو کنٹرول کر رہی تھی اور دوسری جانب راستہ بنانے میں مشغول تھی کیونکہ تنگ و تاریک گلیوں کے سبب کام میں بہت دشواری پیش آرہی تھی۔
جس جگہ یہ حادثہ پیش آیا وہاں کوئی گاڑی، ایمبولینس نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اگرچہ چند سو میٹر کے فاصلے پر بھاٹی گیٹ کا مین بازار ہے مگر وہاں تو عمومی اوقات میں بھی گاڑیوں کو راستہ نہیں ملتا، اسی وجہ سے بھاٹی گیٹ میں بالخصوص گاڑیوں وغیرہ کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔ صرف ایمبولینس، فائر بریگیڈ یا ریسکیو کی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت تھی۔ میڈیا کی گاڑیاں بھی بھاٹی گیٹ سے باہر ہی کھڑی تھیں۔ جائے حادثہ پر موجود کچھ لوگوں سے بات چیت ہوئی تو پتا چلا کہ ان کے سامنے ملبے سے صرف لاشیں ہی نکلی ہیں، اگرچہ پہلے ملبے تلے سے لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں مگر قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔
تفصیلات کے مطابق گھر کی بالائی منزل پر تعمیراتی کام جاری تھا مگر 3 منزلہ عمارت، جس میں 4 خاندان (تین بھائی اور ایک رشتہ دار) رہائش پذیر تھے، بوسیدہ ہونے کی وجہ سے منہدم ہو گئی۔ 3 خواتین، 1 بچہ اور 2 مرد اس حادثے میں جاں بحق ہوئے جبکہ ایک مرد اور تین بچوں کو زخمی حالت میں میو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ یہ ریسکیو آپریشن ساری رات جاری رہا۔
یہ تو مذکورہ سانحہ کا کچھ آنکھوں دیکھا حال تھا مگر پاکستان جیسے ملک میں ایسے حادثات وقوع پذیر ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ آئے دن ایسے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ امسال فروری میں شہرِ قائد کے علاقے ملیر جعفر طیار سوسائٹی میں تین منزلہ عمارت گرنے سے دو خواتین سمیت تین افراد جاں بحق ہو گئے تھے؛ حالانکہ یہ عمارت 20 سے 25 سال پہلے ہی تعمیر کی گئی تھی۔ اسی طرح ماہِ مارچ میں کراچی ہی کے علاقے بوٹ بیسن کے قریب زیر تعمیر عمارت کی لفٹ گرنے سے 6 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ یہ حادثہ چھت کا کچھ حصہ گرنے کی وجہ سے پیش آیا تھا۔ مذکورہ تمام حادثات کے بعد سب سے پہلے ذہن میں یہی سوال ابھرتا ہے کہ وہ کون سی کنسٹرکشن کمپنی، ٹھیکیدار یا مالکان تھے جنہیں اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ عمارت ابھی ناپختہ یا مخدوش ہے اور تمام تعمیر کا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔
ٹھیکیدار یا کنسٹرکشن کمپنیاں تو چلیے اپنے منافع کےلیے کچھ بھی کر گزریں، ان سے تو کچھ بعید نہیں۔ کیا متعلقہ محکموں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس حوالے سے فعالیت کا مظاہرہ کریں؟
اسی حوالے سے چند سال پرانا ایک ذاتی واقعہ یاد آ گیا۔ گھر سے ملحقہ کمرے کی لکڑی کے شہتیروں سے بنی چھت خستہ ہوئی تو مسمار کرکے دوبارہ تعمیر کرنے کا خیال آیا۔ والد صاحب نے کام شروع کروا دیا۔ کوئی ایک دو دن بعد صبح کے وقت دیکھا کہ دو نوجوان لڑکے تعمیراتی کام کی تصاویر اتار رہے اور ارد گرد لوگوں سے کچھ پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جاکر معاملہ دریافت کیا تو تعمیر کو غیر قانونی کہہ کر دھمکانے لگے۔ میں ان سے یہ سوال کرنے کی جسارت کر بیٹھا کہ وہ کس محکمے سے ہیں اور کیا ان کے پاس محکمے کا کوئی کارڈ موجود ہے؟ چونکہ اس حوالے سے پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ ذرا سی کوئی تعمیر کرو تو سو طرح کے محکمے محض مال بٹورنے کے چکر میں آن حاضر ہوتے ہیں، لہٰذا متجسس ہوا کہ کس محکمے کو اعتراض ہے۔ ان لڑکوں کو جواب کیا دینا تھا، وہاں سے رخصت ہو گئے۔ البتہ قریب آدھ گھنٹے بعد دو پولیس اہلکار آئے اور مزدوروں کو کام کرنے کی صورت میں جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ میں آیا تو مجھے پکڑ کر تھانے لے گئے۔
عقدہ کھلا کہ والڈ سٹی اتھارٹی کے ایک اعلیٰ افسر نے میرے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت، غیر قانونی تعمیر، سرکاری اہلکاروں کو دھمکانے اور نجانے کن کن مدات میں کارروائی کی درخواست دی ہے۔ وہی دونوں لڑکے جن سے میری بات چیت ہوئی تھی، اس معاملے کے گواہ تھے۔ اولاً تو پولیس والے درخواست گزار کا نام پتا بتانے سے ہی گریزاں رہے کیونکہ اس وقت تک پولیس کے اپنے پاس بھی کوئی درخواست نہیں پہنچی تھی۔ محض سرکاری دفتر سے فون موصول ہونے پر پولیس نے مستعدی دکھائی اور مجھے حوالات کا دیدار کرا دیا۔ تاہم بعد میں افسر کا نام اور فون نمبر دے دیا۔ البتہ یہ الگ قصہ کہ علاقے کا کونسلر جو میرا محلہ دار اور اسکول کا دوست بھی ہے، بروقت پہنچا۔ فوری طور پر متعلقہ افسر سے بات کی، درخواست واپس کروائی اور مجھے باہر کی راہ دکھلائی۔ لیکن اس سارے قضیے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ اس دوران تھانے کے اندر کا ماحول دیکھنے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ بعد ازاں اُس افسر سے صرف یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ میری جناب سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی کہ سرکار نے میرے خلاف پولیس میں درخواست ہی دے دی۔
والڈ سٹی ایکٹ 2012 کی دفعہ 45 کے تحت نہ تو محکمانہ اجازت کے بغیر کوئی تعمیر کی جا سکتی ہے اور نہ ہی پہلے سے تعمیر شدہ عمارت کو گرایا جا سکتا ہے۔ (یہ الگ بات کہ 2012 میں چپکے چپکے قانون سازی ہوگئی اور والڈ سٹی کے مکینوں کو مطلع کرنا تک گوارا نہ کیا گیا۔) خلاف ورزی کرنے پر دس لاکھ جرمانہ، تین سال قید یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں لیکن اس قانون پر عملدرآمد دیکھنا ہو تو ایک بار والڈ سٹی کا دورہ کر لیجیے۔ مارچ سے اکتوبر تک تعمیراتی کام کا سیزن ہوتا ہے۔ ہر دوسری گلی میں کوئی مکان بنتا اور جا بجا تعمیراتی میٹریل پڑا نظر آتا ہے مگر متعلقہ محکمے گنگ ہیں۔
والڈ سٹی کی گرین بیلٹ، جس کے سبب لاہور باغات کا شہر کہلاتا تھا، آج ناجائز قابضین کی زد میں ہے۔ یہ وہ والے ناجائز قابضین نہیں جو کھوکھے لگا کر یا جھونپڑیاں بنا کر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں، بلکہ یہ وہ والے قابضین ہیں جو ان جگہوں سے ماہانہ لاکھوں کما رہے ہیں۔ زیادہ تر جگہوں پر ناجائز پارکنگ اسٹینڈ بنے ہوئے ہیں، کہیں سرکاری عمارات بھی نظر آتی ہیں۔ جس کا جتنا زور چلتا ہے، اتنے حصے پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتا ہے مگر کوئی اتھارٹی سوال کرنے والی نہیں۔
سابقہ گورنمنٹ نے ایک طرف کچھ باغات کو بحال کیا اور دوسری طرف کچھ باغات کو شہر بھر کے کچرے کا ڈپو بنا دیا۔ سرکاری سطح پر ان باغات میں شہر بھر کا کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے اور کہیں کوئی حفظانِ صحت کا مسئلہ سر نہیں اٹھاتا کیونکہ وہ مسئلہ صرف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں عوام کچرا پھینکیں۔
بات خستہ حال عمارتوں سے شروع ہوئی تھی تو اس ضمن میں یہ بھی سن لیجیے کہ گزشتہ سال مون سون سے پہلے کرائے گئے ایک سرکاری سروے کے مطابق، لاہور میں 488 خطرناک عمارتوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔ ڈی سی لاہور کو دی گئی بریفنگ کے مطابق 227 کی مرمت اور 147 کو گرا دیا گیا ہے۔ باقیوں کو نوٹسز جاری کیے گئے، البتہ ایسے افراد جو ازخود اپنے گھر مرمت نہیں کراسکتے، ان کے بجٹ کے اجراء کےلیے ایم سی ایل کو خط لکھا گیا... شاید کہ کبھی جواب آجائے۔
اسی طرح گزشتہ سال ایک سروے میں پنجاب بھر میں 730 اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خطرناک قرار دی گئیں جن میں لاہور کے 17 اسکول بھی شامل تھے۔ اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا یہ مؤقف سامنے آیا کہ خطرناک عمارتوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے، جلد ان کی تعمیر و مرمت کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ تاہم گزشتہ ماہ یہ خبر سننے کو ملی کہ اسکولوں کی خطرناک عمارتوں کی بحالی کےلیے مجموعی طور پر 90 کروڑ کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس حوالے سے 84 کروڑ روپے مختص بھی کیے گئے مگر تاحال خرچ نہیں کیے جا سکے۔ شاید سانحہ بھاٹی گیٹ جیسے کسی بڑے سانحے کا انتظار کیا جارہا ہے۔
شنید ہے کہ بھگت سنگھ نے اسمبلی میں بم پھوڑنے کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ جو کان اونچا سننے کے عادی ہوں، انہیں سنانے کےلیے دھماکا چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارے آس پاس، ہر دوسرے دن اتنے دھماکے ہوتے ہیں، نجانے ہم پھر بھی کیوں متوجہ نہیں ہوتے۔ شاید اس لیے کہ خاک نشینوں کے خون میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ حکومتی ایوانوں کو لرزا سکے، وہ رزقِ خاک بننے کےلیے بہتا ہے اور خاک میں مل جاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔