افغانستان میں داعش اور طالبان میں لڑائی
افغان عوام نے طویل خانہ جنگی کے دوران بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان ملک کے مشرقی حصے پر قبضے کے لیے شدید لڑائی جاری ہے۔ افغانستان کے تناظر میں یہ نئی تبدیلی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے ننگرہار صوبے کے دو اضلاع میں داعش کے جنگجوؤں نے طالبان کے زیرکنٹرول دو دیہات اورچھ دیگرنواحی دیہات پر قبضہ کر لیا ہے جب کہ مقامی لوگوں کی بڑی تعداد نے لڑائی سے بچنے کی خاطر اپنا علاقہ چھوڑ دیا ہے۔
گھر بار چھوڑنے والوں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ بتائی گئی ہے تاہم ابتدائی اطلاعات میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد کا علم نہیں ہو سکا۔ جب امریکا نے 18سال پہلے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کا اقتدار ختم ہوگیا تھا لیکن افغانستان کے اس مشرقی علاقے پر ان کا قبضہ برقرار رہ گیا تھا۔
کہا جاتاہے کہ داعش کے جنگجو 2014ء میں اس علاقے میں نمودار ہوئے تھے۔ افغانستان کاصوبہ ننگر ہار اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ اس علاقے میں بعض شہروں پر طالبان کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
اگست میں داعش کے 150 سے زیادہ جنگجوؤں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے حالانکہ ان کی طرف سے اس سے پیشتر طالبان کو شکست دینے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ امریکا کی فوج کا اندازہ ہے کہ فی الوقت افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی تعداد 2000 کے لگ بھگ ہے، ان میں سے بہت سے طالبان میں شامل تھے لیکن بعد میں وہ طالبان سے الگ ہو گئے۔ بہرحال افغانستان کی صورتحال خاصی پیچیدہ ہو چکی ہے۔
افغان طالبان امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک ہیں اور ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جن سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ فریقین جلد کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑا بریک تھرو ہے جس کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ جہاں تک اس ملک میں داعش کی موجودگی کا تعلق ہے تو اگر طالبان، افغان حکومت اور امریکا کسی امن معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر داعش کو شکست دینا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ داعش افغانستان میں اتنی مضبوط نہیں ہے۔
کسی ضلع کے ایک دو دیہات پر قبضہ کر لینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ داعش افغانستان میں کوئی بڑی طاقت ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام اس وقت سب سے اہم بات ہے کیونکہ گزشتہ 40 سال کی لڑائی میں افغان عوام کو بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل افغانستان کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ گزشتہ 40 سال میں افغان تنازع کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان دونوں نے بہت نقصان اٹھایا اور اب ایک طویل عرصے کے بعد افغان امن عمل خطے میں امن کا تاریخی موقع پیدا کر رہا ہے اور پاکستان اس کو پوری طرح سپوٹ کرتا ہے۔ وزیراعظم کا یہ بیان حقائق پر مبنی ہے' بلاشبہ افغان عوام نے طویل خانہ جنگی کے دوران بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی غیر معمولی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 2019ء کی پہلی سہ ماہی میں امریکی افواج کے آپریشن کے نتیجے میں مارے جانے والے سویلین کی تعداد حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے' اتنے لوگ طالبان کے ہاتھوں نہیں مارے گئے جتنے کہ امریکی افواج کے ہاتھوں مارے گئے ۔ یکم جنوری سے 31مارچ تک 1773 سویلین کی ہلاکتیں ہوئیں۔ افغانستان میں امن کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
افغانستان میں داعش کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر اپنے ملک کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے امن معاہدے پر راضی ہو جائیں تا کہ افغانستان ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔
گھر بار چھوڑنے والوں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ بتائی گئی ہے تاہم ابتدائی اطلاعات میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد کا علم نہیں ہو سکا۔ جب امریکا نے 18سال پہلے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کا اقتدار ختم ہوگیا تھا لیکن افغانستان کے اس مشرقی علاقے پر ان کا قبضہ برقرار رہ گیا تھا۔
کہا جاتاہے کہ داعش کے جنگجو 2014ء میں اس علاقے میں نمودار ہوئے تھے۔ افغانستان کاصوبہ ننگر ہار اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ اس علاقے میں بعض شہروں پر طالبان کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
اگست میں داعش کے 150 سے زیادہ جنگجوؤں نے حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے حالانکہ ان کی طرف سے اس سے پیشتر طالبان کو شکست دینے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ امریکا کی فوج کا اندازہ ہے کہ فی الوقت افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی تعداد 2000 کے لگ بھگ ہے، ان میں سے بہت سے طالبان میں شامل تھے لیکن بعد میں وہ طالبان سے الگ ہو گئے۔ بہرحال افغانستان کی صورتحال خاصی پیچیدہ ہو چکی ہے۔
افغان طالبان امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک ہیں اور ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں جن سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ فریقین جلد کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت بڑا بریک تھرو ہے جس کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ جہاں تک اس ملک میں داعش کی موجودگی کا تعلق ہے تو اگر طالبان، افغان حکومت اور امریکا کسی امن معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر داعش کو شکست دینا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ داعش افغانستان میں اتنی مضبوط نہیں ہے۔
کسی ضلع کے ایک دو دیہات پر قبضہ کر لینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ داعش افغانستان میں کوئی بڑی طاقت ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام اس وقت سب سے اہم بات ہے کیونکہ گزشتہ 40 سال کی لڑائی میں افغان عوام کو بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل افغانستان کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ گزشتہ 40 سال میں افغان تنازع کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان دونوں نے بہت نقصان اٹھایا اور اب ایک طویل عرصے کے بعد افغان امن عمل خطے میں امن کا تاریخی موقع پیدا کر رہا ہے اور پاکستان اس کو پوری طرح سپوٹ کرتا ہے۔ وزیراعظم کا یہ بیان حقائق پر مبنی ہے' بلاشبہ افغان عوام نے طویل خانہ جنگی کے دوران بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی غیر معمولی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 2019ء کی پہلی سہ ماہی میں امریکی افواج کے آپریشن کے نتیجے میں مارے جانے والے سویلین کی تعداد حیرت انگیز حد تک زیادہ ہے' اتنے لوگ طالبان کے ہاتھوں نہیں مارے گئے جتنے کہ امریکی افواج کے ہاتھوں مارے گئے ۔ یکم جنوری سے 31مارچ تک 1773 سویلین کی ہلاکتیں ہوئیں۔ افغانستان میں امن کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
افغانستان میں داعش کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر اپنے ملک کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے امن معاہدے پر راضی ہو جائیں تا کہ افغانستان ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔