عمران خان سے اختر مینگل کی ناراضی کیا ہے
جناب اختر مینگل کا ایک مبینہ بیان چند دن قبل اِن الفاظ میں میڈیا کی زینت بنا ہے۔
56سالہ سردار اختر مینگل ہمارے ملک کے اُن سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو درحقیقت منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔ سردار ابنِ سردار ۔ وہ خود بھی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے اور اُن کے والد سردار عطا ء اللہ مینگل بھی ۔ سردار اختر مینگل منفرد آدمی ہیں ۔ کئی بار وفاق سے ناراض بھی رہے۔ اُن کی ناراضی میں مگر طیش ہوتا ہے نہ ضد۔ اپنی بات دھڑلّے سے کہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دَورِ حکومت میں انھیں گرفتار بھی کیا گیا ۔ سردار اختر کی ناراضی مگر ختم نہیں ہُوئی تھی اور وہ خود ساختہ جلاوطنی پر (دبئی) چلے گئے تھے۔
چار سال کے لیے۔ بلوچستان کے ہمارے یہ معروف اور طاقتور سیاستدان بی این پی کے سربراہ بھی ہیں ۔ خضدار ( این اے 269) سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے ۔ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کے لیے جب اعتمادی ووٹوں کی ضرورت تھی ، انھوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ ردِ عمل میں وہ اپنی ناراضی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف پہلا واک آؤٹ کیا تو سردار اختر مینگل بھی اپوزیشن کے ساتھ باہر نکل گئے تھے ۔ ہم اسمبلی میں بیٹھے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے تھے ۔کوئی وجہ تو تھی جس نے انھیں اس طرف مائل کیا ہوگا۔
جنوری2019ء کے وسط میں اچانک ایک روز جناب آصف علی زرداری قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کے چیمبر میں ملاقات کے لیے چلے گئے تو اُس شام حزبِ اختلاف کی جو مشترکہ بیٹھک ہُوئی ، اُس میں سردار اختر مینگل بھی شریک تھے۔ یہ دوسرا بڑا منظر تھا بی این پی کا پی ٹی آئی سے ناراض اور نالاں ہونے کا۔ جس سے یہ اندازے اور قیافے لگائے گئے کہ عمران خان اور اختر مینگل کے اتحاد میں کوئی دراڑ ضرور پڑ چکی ہے ؛ چنانچہ اخبار نویسوں نے مینگل صاحب سے اس بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کہا: ''حکومت گرانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ اگر خانصاحب کی حکومت خود ہی گرے تو معلوم نہیں بچا سکیں گے یا نہیں ؛ تاہم ہمارے مطالبات مان لیے گئے تو حکومت کے ساتھ چلیں گے ۔
حکومت سے ہمارے چھ نکات پر بات چیت ہُوئی تھی۔ ہم آزاد بینچوں پر بیٹھے ہیں۔ اگر حکومت کوئی اچھی بات کرے گی تو اُس کی حمایت کریں گے۔ مجھے تو حکومتی رویے میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ حکومت نے ہمارے چھ نکات میں سے ایک پر بھی ابھی تک عمل نہیں کیا ۔ حکومت کے ساتھ مستقل چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ ہماری سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔'' اختر مینگل صاحب کا لہجہ بتا رہا ہے کہ حکومت اور بی این پی کے درمیان تلخی موجود ہے ۔ یہ تلخی پی ٹی آئی کی حکومت ، جو اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے، کے لیے ہر گز مفید نہیں ہے۔ بلوچستان کے شکوے شکایات اور محرومیاں ویسے بھی بہت ہیں۔ حالیہ شدید بارشوں نے بلوچ عوام اور بلوچ کسانوں کا ناک میں دَم کر دیا ہے ۔ یہ موسمی حالات حکومت کے سیاسی حالات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔
بلوچ عوام کو یہ بھی شکوہ ہے کہ قومی میڈیا میں اُن کے مسائل اور مصائب کو مطلوبہ اسلوب میں ڈسکس نہیں کیا جاتا ۔ شنید ہے کہ ''بی اے پی'' ( بلوچستان عوامی پارٹی) بھی خانصاحب کی حکومت سے نالاں ہے اور مرکزی حکومت کی اتحادی ہونے کے ناتے صوبائی حکومت میں مزید حصہ طلب کر رہی ہے ۔ ایسے میں اگر بلوچستان سے اختر مینگل بھی پی ٹی آئی کی حکومت سے نالاں اور ناراض ہیں تو معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ جناب عمران خان پر لازم ہے کہ آگے بڑھ کر اختر مینگل کو راضی کرنے کی کوشش کریں لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وزیر اعظم کے لیے ممکن بھی ہے کہ وہ اختر مینگل کے چھ نکاتی مطالبات پر عمل کر گزریں؟
سردار اختر مینگل جب اپنے 6 مطالبات کا ذکر کرتے ہیں تو اُن میں بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی بازیابی، افغان مہاجرین کی فوری واپسی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کا چھ فیصد کوٹہ، بلوچستان میں ڈیمز کی تعمیر اور گوادر میں بلوچوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کرنا ہے ۔ مسنگ پرسنز کا ذکر کرتے ہُوئے وہ اپنے بھائی، اسد مینگل ، کا ذکر کرنا نہیں بھولتے جو بقول اُن کے ''چالیس سال پہلے غائب ہو گئے تھے اور اب ہمیں یقین ہے کہ وہ زندہ نہیں ہے۔'' اختر مینگل بلوچستان میں قیام پذیر افغان مہاجرین کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کا لہجہ تلخ ہو جاتا ہے اور وہ (عمران خان کے ایک اعلان کا اشارتاً) ذکر کرتے ہُوئے کہتے ہیں: ''اگر حکومت انھیں پاکستان کے قومی شناختی کارڈ دینا چاہتی ہے تو پھر پاکستان کو عالمی یتیم خانہ قرار دے دینا چاہیے۔'' پی ٹی آئی نے مینگل صاحب کے ان چھ مطالبات پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
اب بھی ریکارڈ میں وہ پریس کانفرنس دیکھی اور سُنی جا سکتی ہے جس میں شاہ محمود قریشی کھڑے ہو کر ایک بھرے مجمع کے سامنے ان مطالبات کو ایک ایک کر کے پڑھ رہے ہیں۔ قریشی صاحب نے اس مجمعے میں (جب کہ اُن کے ساتھ جہانگیر ترین بھی کھڑے تھے) یہ بھی اعلان کیا تھا کہ یہ وعدے پورے کیے جائیں گے ۔ وعدے مگر پورے نہیں ہُوئے ہیں ، تبھی تو اختر مینگل ناراض ہیں ۔ 26 مارچ2019ء کو اختر مینگل کی وزیر اعظم عمران خان سے پھر ملاقات ہُوئی تو ایک بار پھر مینگل صاحب نے وہی مطالبات دہرائے ۔
اختر مینگل اگر عمران خان سے بوجوہ ناراض ہیں تو بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ، عبدالقدوس بزنجو، بھی مبینہ طور پر عمران خان سے ناراض ہو چکے ہیں ۔ یکم اپریل2019ء کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے قدوس بزنجو نے رنجور لہجے میں جو گفتگو کی ہے ، اُس میں وزیر اعظم سے ناراضی اور غصہ دونوں جھلکتے ہیں ۔ اس خطاب سے دو ایک روز قبل ہی وزیر اعظم صاحب گوادر پورٹ تشریف لے گئے تھے ۔
اِسی بارے میں عبدالقدوس بزنجو نے جلسے کے سامعین کو بتایا: ''وزیر اعظم عمران خان نے مجھے اور ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کو گوادر کی اس تقریب میں دعوت دینے کا تکلّف بھی گوارا نہ کیا۔ جب ہم نے خود ساتھ جانے کی درخواست کی تو ہمیں کورا سا جواب دے دیا گیا، یہ کہہ کر کہ جہاز میں ہم لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔'' اس شکوے کی باز گشت پاکستان بھر میں سنائی دی گئی ہے۔ لگتا ہے کوئی آخری فیصلہ کرنے سے قبل سردار اختر مینگل حجت تمام کرنا چاہتے ہیں ۔ شائد اِسی لیے انھوں نے وسط اپریل میں وزیر اعظم کے معتمدِ خاص جہانگیر ترین سے پھر ملاقات کی اور ایک بار پھر اپنے چھ مطالبات پورے کیے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔
جناب اختر مینگل کا ایک مبینہ بیان چند دن قبل اِن الفاظ میں میڈیا کی زینت بنا ہے : ''ہمارے مطالبات اگست2019ء تک پورے نہ ہُوئے تو ہم اگست ہی میں حکومتی اتحاد سے نکل سکتے ہیں۔'' ناراضی صاف عیاں ہے ۔ اختر مینگل بلوچستان حکومت کو بھی ٹف ٹائم دینے لگے ہیں۔ خدا کرے صلح صفائی کی کوئی شکل سامنے آ جائے کہ بلوچستان میں ہمیں کامل اتحاد اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے ۔
چار سال کے لیے۔ بلوچستان کے ہمارے یہ معروف اور طاقتور سیاستدان بی این پی کے سربراہ بھی ہیں ۔ خضدار ( این اے 269) سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے ۔ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کے لیے جب اعتمادی ووٹوں کی ضرورت تھی ، انھوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ ردِ عمل میں وہ اپنی ناراضی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف پہلا واک آؤٹ کیا تو سردار اختر مینگل بھی اپوزیشن کے ساتھ باہر نکل گئے تھے ۔ ہم اسمبلی میں بیٹھے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے تھے ۔کوئی وجہ تو تھی جس نے انھیں اس طرف مائل کیا ہوگا۔
جنوری2019ء کے وسط میں اچانک ایک روز جناب آصف علی زرداری قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کے چیمبر میں ملاقات کے لیے چلے گئے تو اُس شام حزبِ اختلاف کی جو مشترکہ بیٹھک ہُوئی ، اُس میں سردار اختر مینگل بھی شریک تھے۔ یہ دوسرا بڑا منظر تھا بی این پی کا پی ٹی آئی سے ناراض اور نالاں ہونے کا۔ جس سے یہ اندازے اور قیافے لگائے گئے کہ عمران خان اور اختر مینگل کے اتحاد میں کوئی دراڑ ضرور پڑ چکی ہے ؛ چنانچہ اخبار نویسوں نے مینگل صاحب سے اس بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کہا: ''حکومت گرانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ اگر خانصاحب کی حکومت خود ہی گرے تو معلوم نہیں بچا سکیں گے یا نہیں ؛ تاہم ہمارے مطالبات مان لیے گئے تو حکومت کے ساتھ چلیں گے ۔
حکومت سے ہمارے چھ نکات پر بات چیت ہُوئی تھی۔ ہم آزاد بینچوں پر بیٹھے ہیں۔ اگر حکومت کوئی اچھی بات کرے گی تو اُس کی حمایت کریں گے۔ مجھے تو حکومتی رویے میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ حکومت نے ہمارے چھ نکات میں سے ایک پر بھی ابھی تک عمل نہیں کیا ۔ حکومت کے ساتھ مستقل چلنے یا نہ چلنے کا فیصلہ ہماری سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔'' اختر مینگل صاحب کا لہجہ بتا رہا ہے کہ حکومت اور بی این پی کے درمیان تلخی موجود ہے ۔ یہ تلخی پی ٹی آئی کی حکومت ، جو اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے، کے لیے ہر گز مفید نہیں ہے۔ بلوچستان کے شکوے شکایات اور محرومیاں ویسے بھی بہت ہیں۔ حالیہ شدید بارشوں نے بلوچ عوام اور بلوچ کسانوں کا ناک میں دَم کر دیا ہے ۔ یہ موسمی حالات حکومت کے سیاسی حالات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔
بلوچ عوام کو یہ بھی شکوہ ہے کہ قومی میڈیا میں اُن کے مسائل اور مصائب کو مطلوبہ اسلوب میں ڈسکس نہیں کیا جاتا ۔ شنید ہے کہ ''بی اے پی'' ( بلوچستان عوامی پارٹی) بھی خانصاحب کی حکومت سے نالاں ہے اور مرکزی حکومت کی اتحادی ہونے کے ناتے صوبائی حکومت میں مزید حصہ طلب کر رہی ہے ۔ ایسے میں اگر بلوچستان سے اختر مینگل بھی پی ٹی آئی کی حکومت سے نالاں اور ناراض ہیں تو معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ جناب عمران خان پر لازم ہے کہ آگے بڑھ کر اختر مینگل کو راضی کرنے کی کوشش کریں لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وزیر اعظم کے لیے ممکن بھی ہے کہ وہ اختر مینگل کے چھ نکاتی مطالبات پر عمل کر گزریں؟
سردار اختر مینگل جب اپنے 6 مطالبات کا ذکر کرتے ہیں تو اُن میں بلوچستان کے مسنگ پرسنز کی بازیابی، افغان مہاجرین کی فوری واپسی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کا چھ فیصد کوٹہ، بلوچستان میں ڈیمز کی تعمیر اور گوادر میں بلوچوں کو ترجیحی بنیادوں پر ملازمتیں فراہم کرنا ہے ۔ مسنگ پرسنز کا ذکر کرتے ہُوئے وہ اپنے بھائی، اسد مینگل ، کا ذکر کرنا نہیں بھولتے جو بقول اُن کے ''چالیس سال پہلے غائب ہو گئے تھے اور اب ہمیں یقین ہے کہ وہ زندہ نہیں ہے۔'' اختر مینگل بلوچستان میں قیام پذیر افغان مہاجرین کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کا لہجہ تلخ ہو جاتا ہے اور وہ (عمران خان کے ایک اعلان کا اشارتاً) ذکر کرتے ہُوئے کہتے ہیں: ''اگر حکومت انھیں پاکستان کے قومی شناختی کارڈ دینا چاہتی ہے تو پھر پاکستان کو عالمی یتیم خانہ قرار دے دینا چاہیے۔'' پی ٹی آئی نے مینگل صاحب کے ان چھ مطالبات پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
اب بھی ریکارڈ میں وہ پریس کانفرنس دیکھی اور سُنی جا سکتی ہے جس میں شاہ محمود قریشی کھڑے ہو کر ایک بھرے مجمع کے سامنے ان مطالبات کو ایک ایک کر کے پڑھ رہے ہیں۔ قریشی صاحب نے اس مجمعے میں (جب کہ اُن کے ساتھ جہانگیر ترین بھی کھڑے تھے) یہ بھی اعلان کیا تھا کہ یہ وعدے پورے کیے جائیں گے ۔ وعدے مگر پورے نہیں ہُوئے ہیں ، تبھی تو اختر مینگل ناراض ہیں ۔ 26 مارچ2019ء کو اختر مینگل کی وزیر اعظم عمران خان سے پھر ملاقات ہُوئی تو ایک بار پھر مینگل صاحب نے وہی مطالبات دہرائے ۔
اختر مینگل اگر عمران خان سے بوجوہ ناراض ہیں تو بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ، عبدالقدوس بزنجو، بھی مبینہ طور پر عمران خان سے ناراض ہو چکے ہیں ۔ یکم اپریل2019ء کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے قدوس بزنجو نے رنجور لہجے میں جو گفتگو کی ہے ، اُس میں وزیر اعظم سے ناراضی اور غصہ دونوں جھلکتے ہیں ۔ اس خطاب سے دو ایک روز قبل ہی وزیر اعظم صاحب گوادر پورٹ تشریف لے گئے تھے ۔
اِسی بارے میں عبدالقدوس بزنجو نے جلسے کے سامعین کو بتایا: ''وزیر اعظم عمران خان نے مجھے اور ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کو گوادر کی اس تقریب میں دعوت دینے کا تکلّف بھی گوارا نہ کیا۔ جب ہم نے خود ساتھ جانے کی درخواست کی تو ہمیں کورا سا جواب دے دیا گیا، یہ کہہ کر کہ جہاز میں ہم لوگوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔'' اس شکوے کی باز گشت پاکستان بھر میں سنائی دی گئی ہے۔ لگتا ہے کوئی آخری فیصلہ کرنے سے قبل سردار اختر مینگل حجت تمام کرنا چاہتے ہیں ۔ شائد اِسی لیے انھوں نے وسط اپریل میں وزیر اعظم کے معتمدِ خاص جہانگیر ترین سے پھر ملاقات کی اور ایک بار پھر اپنے چھ مطالبات پورے کیے جانے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔
جناب اختر مینگل کا ایک مبینہ بیان چند دن قبل اِن الفاظ میں میڈیا کی زینت بنا ہے : ''ہمارے مطالبات اگست2019ء تک پورے نہ ہُوئے تو ہم اگست ہی میں حکومتی اتحاد سے نکل سکتے ہیں۔'' ناراضی صاف عیاں ہے ۔ اختر مینگل بلوچستان حکومت کو بھی ٹف ٹائم دینے لگے ہیں۔ خدا کرے صلح صفائی کی کوئی شکل سامنے آ جائے کہ بلوچستان میں ہمیں کامل اتحاد اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے ۔