یہ کیا جگہ ہے دوستو
پہلے جیسا چلتا تھا چلتا رہتا تھا کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ ہم ریاست مدینہ قائم کر رہے ہیں۔
یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے؟ جہاں ہم آپ رہ رہے ہیں کہ یہاں ہر مسیحا ملک الموت، ہر محافظ دشمن جاں، ہر رکھوالا لٹیرا، ہر تعلیمی ادارہ ایوان تجارت، ہر مہربان ظالم، ہر شخص بے روزگار اوپر سے مہنگائی کی مار اس خیالی و مثالی دیار کے بارے میں ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے ''یہ کیا جگہ ہے دوستو'' مگر درست جواب تو تب ملے جب واقعی سوال دوستوں سے کیا جائے، جسے لوگ دوست سمجھ رہے ہیں وہی تو سب سے بڑا دشمن ہے، کیونکہ یہ وہ دیار ہے جہاں سوال کرنا قانوناً منع ہے، مگر خالی کھوپڑی والے (جو خود کو دانشور کہتے ہیں) سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔
وجہ اس کی شاید یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق کوئی پرانا دیار نیا ہونے جا رہا تھا اس نئے جامے کو 9 دن میں 90 فیصد تیار کیا جانا تھا ، مگر نو ماہ ہوگئے جو باقی 10 فیصد صرف ایک دن بعد مکمل ہو جاتا یعنی صد فیصد نیا جامہ پرانے دیار کو پہنا دیا جاتا مگر جانے اس ایک دن کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا کہ کیلنڈر سے پھسل کر کہیں گم ہوگیا، لوگ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خود ہی غائب ہونا شروع ہوگئے جو روز روز پریس کانفرنس کرکے اپنی ناکامی کو بطور کارکردگی بیان کیا کرتے تھے، ایک ''معمار نو'' آج جو کہتا دوسرا اگلے دن اس کی تردید میں پہلے سے بڑی اور زوردار پریس کانفرنس کرکے اور کچھ شوشہ چھوڑ کر مداری کی طرح ڈگڈگی بجاتے ہوئے روانہ ہوجاتا اور ہمارے ذرایع ابلاغ کو مزید کئی شوشے چھوڑنے کا موقعہ مل جاتا۔
اب یہ نئے پرانے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ بہت برسوں سے پرانے دیار میں لوٹ مار کی باریاں لگ رہی تھیں جس شعبے جس ادارے کا ذکر ہوتا وہاں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی دھاندلی اس کے ذکر کے ساتھ ساتھ بلکہ آگے ہی آگے چلتی ویسے تو یہ باریاں لینے والے ایک دوسرے کے مخالف تھے مگر ایک بات قابل تعریف ان میں یہ تھی کہ پوری ایمانداری سے اپنی اپنی باری لیتے اور دوستانہ مخالفت کی باری بھی بڑے خلوص سے پوری کرتے اس صورتحال سے کچھ لوگ بھی اکتا گئے تھے کچھ ''ان کو'' حکمرانی کا شوق بھی تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان دونوں کو راہ سے ہٹا کر خود کو کیسے راہ پر لایا جائے لہٰذا ''نئے یار'' کا شور مچایا گیا لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے نئے جام میں پرانی شراب ڈال کر پیش کی گئی یعنی سبز باغ، سنہرے وعدے اور دعوے کہ ہر بے روزگار کو روزگار، ہر بے گھر کو گھر، ہر جاہل کو تعلیم، حق دار کو اس کا حق دیا جائے گا۔ یہ سب سن کر پڑھ کر برسوں سے ان سب چیزوں سے محروم لوگ تو آپے سے باہر ہی ہوگئے۔ شنید ہے کہ لوگ کچھ زیادہ آپے سے باہر نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں البتہ اللہ تعالیٰ ہی کچھ زیادہ مہربان ہوگئے تھے (یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے دیار کے والی وارث کون ہیں؟)
بہرحال دوران انتخاب کیے گئے وعدے حسب وعدہ پورے کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں یہ ضرور ہے کہ نو دن کے بجائے 9 ماہ میں بھی جب کہ اتنی مدت میںانسان منصہ شہود پر جلوہ گر ہوجاتا ہے وہ ''نیا دیار'' معرض وجود میں نہ آسکا وعدے کچھ یوں پورے ہو رہے ہیں کہ نہ جانے کتنے پتھارے، دکانیں، کھوکھے تجاوزات قرار دے کر (جو واقعی تھے بھی) مسمار کردیے گئے اور کتنے ہی شادی ہال ڈھا دیے گئے ، ہونے کو تو اور بھی بہت کچھ ہوا مگر ذرا حساب کیجیے کہ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے، کتنے کاروبار تباہی سے دوچار ہوئے، شادی ہال سے منسلک ہی کئی کاروبار مثلاً پکانے والے، سجانے والے، شامیانہ قناتوں والے اور جانے کون کون اس کی زد میں آیا۔
لاکھ روزگار کی بجائے ہزاروں مزید بے روزگار ہوئے، ہر کسی کو گھر کا وعدہ یوں پورا ہوگا کہ کسی نے سر چھپانے کو کچی مٹی کی دیواروں پر ٹین کی چھت کا ایک حجرہ بنالیا تو وہ بھی تجاوزات کی زد میں آیا اور لوگ ٹین کی چھت سے بھی محروم ہوگئے۔ مانا کہ یہ سب ضروری تھا تو اول تو روزگار دینے کا وعدہ نہ کیا جاتا یا پھر پہلے اس کا کچھ انتظام کرلیا جاتا تو اگلا قدم یہ اٹھایا جاتا، کہنا ہم کچھ یہ چاہ رہے ہیں کہ جو بھی کام کرنا تھا اس کی منصوبہ بندی کی جاتی، جب اتنے برسوں سے کرسی اقتدار پر نظر تھی تو کچھ ہوم ورک تو کرکے رکھا ہوتا، ہوم ورک ہو تو سکتا تھا اگر ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے سے فرصت ہوتی تو۔
پچھلوں کی لوٹ مار اور امن و امان کی صورتحال کو زیادہ واضح کیا گیا اور لوگوں کو تاثر دیا گیا کہ ہم سب سے پہلے کرپشن کو ختم کریں گے اور امن و امان قائم کرنا اولین ترجیح ہوگی۔ کیا کرپشن ختم ہوگئی؟ بڑے بڑے لٹیروں کی تو ضمانت پر ضمانت ہوتی جا رہی ہے اور وقت گزرتا جا رہا ہے لٹیرے بھی اپنی جان صرف اس صورت میں بچانا چاہتے ہیں کہ کسی طرح موجودہ حکمرانوں کو جلدازجلد گھر واپس بھیج دیا جائے اور روز روز کا قصہ تمام ہوجائے ملک بھی اپنی جگہ لوٹنے والے بھی اپنی جگہ اللہ اللہ خیر صلہ۔
ہم نے آغاز میں لکھا تھا ہر مسیحا ملک الموت، دانت کے درد کا علاج موت یعنی خود اپنے پیروں سے چل کر جائیں اور موت خرید لائیں، غلط انجکشن، غلط تشخیص سے ہنستے کھیلتے بچے بڑے مسیحائی کو جائیں اور ایمبولینس میں واپس آئیں۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ مہینے اور اس ماہ کے ابتدائی دو ہفتوں میں ماں کی گود میں بیٹھا بچہ، طالبہ (کئی ماہ قبل) اسکول میں کھیلتی بچی نامعلوم سمت سے آئی گولی کا نشانہ بن چکے۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ یہ ہمارے محافظوں کا انداز تحفظ ہے کہ گھر کے باہر بیٹھے ہوئے سبزی خریدتے ہوئے لوگ محافظوں کی حفاظت کی نذر ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنے ہی دروازے پر گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور قاتلوں کا پتا تک نہیں چلتا۔ بازاروں سے دکانوں سے بچے بچیاں نہیں بلکہ جوان لڑکیاں اٹھا لی جاتی ہیں ہمارے رکھوالے انھیں تلاش ہی نہیں کرپاتے۔ دو ماہ کے دوران تقریباً ساٹھ افراد گولیوں کا نشانہ بن جائیں (صرف ایک شہر میں) اور کہا جائے کہ امن و امان ہماری پہلی ترجیح ہے۔ تو نئے اور پرانے دیار میں آخر فرق کیا ہے؟ سوچا تو جائے، پوچھا تو جائے؟
بہت سوچا بہت غور کیا کہ پہلے اور اب میں کیا فرق، کیا نیا پن ہے تو معلوم ہوا کہ پہلے جیسا چلتا تھا چلتا رہتا تھا کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ ہم ریاست مدینہ قائم کر رہے ہیں، اب ہم ریاست مدینہ میں رہنے کا دعویٰ کر رہے ہیں؟ کیا وہ ریاست ایسی تھی کہ لوگ مرتے رہیں کوئی پوچھے بھی نہیں نہ قاتل پکڑے جائیں نہ انصاف ہو پائے۔ میرے خیال میں تو یہ ریاست مدینہ کی معاذاللہ توہین ہے۔ ہمارے ملا بغلیں بجا رہے ہیں کہ اسلامی ریاست قائم ہو رہی ہے۔
وجہ اس کی شاید یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق کوئی پرانا دیار نیا ہونے جا رہا تھا اس نئے جامے کو 9 دن میں 90 فیصد تیار کیا جانا تھا ، مگر نو ماہ ہوگئے جو باقی 10 فیصد صرف ایک دن بعد مکمل ہو جاتا یعنی صد فیصد نیا جامہ پرانے دیار کو پہنا دیا جاتا مگر جانے اس ایک دن کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا کہ کیلنڈر سے پھسل کر کہیں گم ہوگیا، لوگ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خود ہی غائب ہونا شروع ہوگئے جو روز روز پریس کانفرنس کرکے اپنی ناکامی کو بطور کارکردگی بیان کیا کرتے تھے، ایک ''معمار نو'' آج جو کہتا دوسرا اگلے دن اس کی تردید میں پہلے سے بڑی اور زوردار پریس کانفرنس کرکے اور کچھ شوشہ چھوڑ کر مداری کی طرح ڈگڈگی بجاتے ہوئے روانہ ہوجاتا اور ہمارے ذرایع ابلاغ کو مزید کئی شوشے چھوڑنے کا موقعہ مل جاتا۔
اب یہ نئے پرانے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ بہت برسوں سے پرانے دیار میں لوٹ مار کی باریاں لگ رہی تھیں جس شعبے جس ادارے کا ذکر ہوتا وہاں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں کی دھاندلی اس کے ذکر کے ساتھ ساتھ بلکہ آگے ہی آگے چلتی ویسے تو یہ باریاں لینے والے ایک دوسرے کے مخالف تھے مگر ایک بات قابل تعریف ان میں یہ تھی کہ پوری ایمانداری سے اپنی اپنی باری لیتے اور دوستانہ مخالفت کی باری بھی بڑے خلوص سے پوری کرتے اس صورتحال سے کچھ لوگ بھی اکتا گئے تھے کچھ ''ان کو'' حکمرانی کا شوق بھی تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان دونوں کو راہ سے ہٹا کر خود کو کیسے راہ پر لایا جائے لہٰذا ''نئے یار'' کا شور مچایا گیا لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے نئے جام میں پرانی شراب ڈال کر پیش کی گئی یعنی سبز باغ، سنہرے وعدے اور دعوے کہ ہر بے روزگار کو روزگار، ہر بے گھر کو گھر، ہر جاہل کو تعلیم، حق دار کو اس کا حق دیا جائے گا۔ یہ سب سن کر پڑھ کر برسوں سے ان سب چیزوں سے محروم لوگ تو آپے سے باہر ہی ہوگئے۔ شنید ہے کہ لوگ کچھ زیادہ آپے سے باہر نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں البتہ اللہ تعالیٰ ہی کچھ زیادہ مہربان ہوگئے تھے (یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے دیار کے والی وارث کون ہیں؟)
بہرحال دوران انتخاب کیے گئے وعدے حسب وعدہ پورے کیے گئے اور کیے جا رہے ہیں یہ ضرور ہے کہ نو دن کے بجائے 9 ماہ میں بھی جب کہ اتنی مدت میںانسان منصہ شہود پر جلوہ گر ہوجاتا ہے وہ ''نیا دیار'' معرض وجود میں نہ آسکا وعدے کچھ یوں پورے ہو رہے ہیں کہ نہ جانے کتنے پتھارے، دکانیں، کھوکھے تجاوزات قرار دے کر (جو واقعی تھے بھی) مسمار کردیے گئے اور کتنے ہی شادی ہال ڈھا دیے گئے ، ہونے کو تو اور بھی بہت کچھ ہوا مگر ذرا حساب کیجیے کہ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے، کتنے کاروبار تباہی سے دوچار ہوئے، شادی ہال سے منسلک ہی کئی کاروبار مثلاً پکانے والے، سجانے والے، شامیانہ قناتوں والے اور جانے کون کون اس کی زد میں آیا۔
لاکھ روزگار کی بجائے ہزاروں مزید بے روزگار ہوئے، ہر کسی کو گھر کا وعدہ یوں پورا ہوگا کہ کسی نے سر چھپانے کو کچی مٹی کی دیواروں پر ٹین کی چھت کا ایک حجرہ بنالیا تو وہ بھی تجاوزات کی زد میں آیا اور لوگ ٹین کی چھت سے بھی محروم ہوگئے۔ مانا کہ یہ سب ضروری تھا تو اول تو روزگار دینے کا وعدہ نہ کیا جاتا یا پھر پہلے اس کا کچھ انتظام کرلیا جاتا تو اگلا قدم یہ اٹھایا جاتا، کہنا ہم کچھ یہ چاہ رہے ہیں کہ جو بھی کام کرنا تھا اس کی منصوبہ بندی کی جاتی، جب اتنے برسوں سے کرسی اقتدار پر نظر تھی تو کچھ ہوم ورک تو کرکے رکھا ہوتا، ہوم ورک ہو تو سکتا تھا اگر ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے سے فرصت ہوتی تو۔
پچھلوں کی لوٹ مار اور امن و امان کی صورتحال کو زیادہ واضح کیا گیا اور لوگوں کو تاثر دیا گیا کہ ہم سب سے پہلے کرپشن کو ختم کریں گے اور امن و امان قائم کرنا اولین ترجیح ہوگی۔ کیا کرپشن ختم ہوگئی؟ بڑے بڑے لٹیروں کی تو ضمانت پر ضمانت ہوتی جا رہی ہے اور وقت گزرتا جا رہا ہے لٹیرے بھی اپنی جان صرف اس صورت میں بچانا چاہتے ہیں کہ کسی طرح موجودہ حکمرانوں کو جلدازجلد گھر واپس بھیج دیا جائے اور روز روز کا قصہ تمام ہوجائے ملک بھی اپنی جگہ لوٹنے والے بھی اپنی جگہ اللہ اللہ خیر صلہ۔
ہم نے آغاز میں لکھا تھا ہر مسیحا ملک الموت، دانت کے درد کا علاج موت یعنی خود اپنے پیروں سے چل کر جائیں اور موت خرید لائیں، غلط انجکشن، غلط تشخیص سے ہنستے کھیلتے بچے بڑے مسیحائی کو جائیں اور ایمبولینس میں واپس آئیں۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ مہینے اور اس ماہ کے ابتدائی دو ہفتوں میں ماں کی گود میں بیٹھا بچہ، طالبہ (کئی ماہ قبل) اسکول میں کھیلتی بچی نامعلوم سمت سے آئی گولی کا نشانہ بن چکے۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ یہ ہمارے محافظوں کا انداز تحفظ ہے کہ گھر کے باہر بیٹھے ہوئے سبزی خریدتے ہوئے لوگ محافظوں کی حفاظت کی نذر ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنے ہی دروازے پر گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور قاتلوں کا پتا تک نہیں چلتا۔ بازاروں سے دکانوں سے بچے بچیاں نہیں بلکہ جوان لڑکیاں اٹھا لی جاتی ہیں ہمارے رکھوالے انھیں تلاش ہی نہیں کرپاتے۔ دو ماہ کے دوران تقریباً ساٹھ افراد گولیوں کا نشانہ بن جائیں (صرف ایک شہر میں) اور کہا جائے کہ امن و امان ہماری پہلی ترجیح ہے۔ تو نئے اور پرانے دیار میں آخر فرق کیا ہے؟ سوچا تو جائے، پوچھا تو جائے؟
بہت سوچا بہت غور کیا کہ پہلے اور اب میں کیا فرق، کیا نیا پن ہے تو معلوم ہوا کہ پہلے جیسا چلتا تھا چلتا رہتا تھا کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ ہم ریاست مدینہ قائم کر رہے ہیں، اب ہم ریاست مدینہ میں رہنے کا دعویٰ کر رہے ہیں؟ کیا وہ ریاست ایسی تھی کہ لوگ مرتے رہیں کوئی پوچھے بھی نہیں نہ قاتل پکڑے جائیں نہ انصاف ہو پائے۔ میرے خیال میں تو یہ ریاست مدینہ کی معاذاللہ توہین ہے۔ ہمارے ملا بغلیں بجا رہے ہیں کہ اسلامی ریاست قائم ہو رہی ہے۔