ٹریڈ یونین تحریک تاریخ اور نسائی نقطۂ نظر

پاکستان میں ٹریڈ یونین کا ابھار 1968 کی سیاسی تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا۔


Mahnaz Rehman April 26, 2019

برصغیر میں ٹریڈ یونین تحریک کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہو گیا تھا۔ 1919 میں عالمی ادارہء محنت کے قیام سے دنیا بھر میں ٹریڈ یونین تحریک کو تقویت ملی۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح بھی لیبر لیڈر تھے۔ وہ آل انڈیا پوسٹل اسٹا ف یونین کے 1925 میں صدر رہے۔ رکن اسمبلی کی حیثیت سے انھوں نے ٹریڈ یونین ایکٹ 1926 بنوانے میں حصہ لیا۔

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہاں ریلوے اور پورٹ کی مضبوط یونینیں موجود تھیں۔ لاہور ریلوے ورکشاپ یونین کی قیادت مرزا ابراہیم کے ہاتھ میں تھی۔ ہائیڈرو الیکٹرک سینٹرل لیبر یونین کے سر براہ بشیر بختیار تھے۔ جب کہ سندھ میں نارائن داس نے یونینیں منظم کی تھیں۔ پاکستان میں ٹریڈ یونینوں کو صوبائی انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ کے تحت ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہی راولپنڈی سازش کیس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی تھی اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما زیر زمین رہ کر کام کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

عوام کے سامنے آکر پسے اور کچلے ہوئے طبقات کے لیے کام کرنے کا سیاسی پارٹیوں کے علاوہ ایک ہی پلیٹ فارم ان کے پاس بچا تھا اور وہ تھا ٹریڈ یونین کا پلیٹ فارم جو شروع سے بائیں بازو کے ہاتھ میں رہا مگر پھر صنعتکاروں اور آمروں نے مضبوط یونینوںکو توڑا اور متوازی اور پاکٹ یونینیں بنوانا شروع کیں۔ فیض احمد فیض تو امرتسر میں قیام کے زمانے سے ہی ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد انھوں نے مختلف یونینیں جیسے تانگہ یونین، پوسٹل یونین، ریلوے یونین بنوانے میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ یہ لوگ مزدوروں میں سیاسی شعور پیدا کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن بنوانے میں بھی فیض نے کلیدی کردار ادا کیا جس میں کوئی سو یونینوں نے شمولیت اختیار کی۔ فیض اس کے پہلے نائب صدر منتخب ہوئے۔

پاکستان میں ٹریڈ یونین کا ابھار 1968 کی سیاسی تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا۔ جب مزدور رہنما ایوب خان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ سیاسی جلسے، جلوسوں اور مزدوروں کی ہڑتالوںکے نتیجے میں ایوب خان کو جانا پڑا اور وہ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار یحییٰ خان کو سونپ کر چلے گئے۔ بھٹو اقتدار میں آئے تو بائیں بازو کے طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کی حمایت سے لیکن ان کے دور میں بھی پولیس نے ہڑتالی مزدوروں پر گولیاں چلائیں۔ بھٹو نے صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی اپنائی مگر بعد میں بے نظیر اور نواز شریف نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر نجکاری کا سلسلہ شروع کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہوتی چلی گئی۔

ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میںمزدوروں کی تعداد تریسٹھ اعشاریہ چونتیس ملین ہے۔ فیڈریشنوں اور کنفیڈریشنز کے علاوہ اس وقت پاکستان میں 945 یونینیں فعال ہیں۔ (منصور رضا۔ ڈان)۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں: ٭پاکستان ورکرز کنفیڈریشن ٭پاکستان ٹرانسپورٹ اینڈ جنرل ورکرز فیڈریشن ٭آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن ٭پاکستان ورکرز فیڈریشن ٭پاکستان لیبر فیڈریشن ٭آل پاکستان فیڈریشن آف لیبر ٭آل پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز ٭آل پاکستا ن ٹریڈ یونین کانگریس ٭پاکستان نیشنل فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز۔ ریلوے ورکرز یونین کا شمار آج بھی پاکستان کی اہم یونینوں میں ہوتا ہے۔

آج جب سرمایہ دارانہ نظام نیولبرل ازم کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، مزدوروں کے لیے ٹریڈ یونینز کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے کیونکہ مزدور تحریک کے ذریعے ہی اس استحصالی نظام سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹریڈ یونینوں کو صرف بارگیننگ یا سودے بازی تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس استحصالی نظام کو بدلنے اور سماجی انصاف پر مبنی نظام لانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔

مزدوروں کی اقتصادی جدوجہد کو مربوط اور منظم بنانے کے لیے ٹریڈ یونینز بے حد اہمیت رکھتی ہیں اور مزدوروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ پاکستان میں عورتیں بڑی تعداد میں اقتصادی میدان میں داخل ہو چکی ہیں لیکن انھیں معاوضہ کم ملتا ہے۔

پاکستان لیبر فورس سروے 2014-2015 کے مطابق پاکستان بھر میں غیر زرعی شعبے سے وابستہ خواتین کا 74 فی صد حصہ غیر رسمی معاشی شعبے سے وابستہ ہے جب کہ رسمی شعبے سے صرف چھبیس فی صد خواتین وابستہ ہیں۔ غیر رسمی شعبے میں عورتوں کی بڑی تعداد ((64% مینو فیکچرنگ شعبے میں کام کر رہی ہے۔ کمیونٹی، سوشل اور پرسنل سروسز کے شعبے میں اٹھائیس فی صد خواتین کام کر رہی ہیں۔

پنجاب اور سندھ میں گھر مزدور خواتین کے لیے پالیسی بن چکی ہے جب کہ سندھ میں ان کے لیے قانون بھی بن گیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی کوشش ہے کہ ان کے لیے کم از کم اجرت مقرر ہو اور انھیں تنظیم سازی کا حق ملے۔ صوبائی لیبر محکموں میں ان کی رجسٹریشن ہو۔ EOBI اور SESSI جیسے اداروں میں رجسٹریشن کے تحت صحت کی سہولیات، سماجی تحفظ اور بڑھاپے میں ملنے والی پنشن اور دیگر فوائد کو یقینی بنایا جائے۔ تنظیم سازی اور اجتماعی لین دین کے حق کو ممکن بنایا جائے۔

کارل مارکس نے کہا تھا کہ بنی نوع انسانیت کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ گزشتہ ادوار کے مقابلے میں سرمایہ داری دورمیں طبقاتی تفریق بہت واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اب دو طبقات ہیں، ایک وہ جو ذرایع پیداوار کا مالک ہے اور دوسرا محنت کش طبقہ۔ محنت کش طبقے کو منظم کرنے کے لیے ٹریڈ یونینز بہت ضروری ہیں۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین کی قیادت زیادہ تر مردوں کے ہاتھ میں رہی لیکن جب عورتوں کو موقع ملا تو انھوں نے بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ فیصل آباد (لائلپور) کی صبیحہ شکیل ہوں یا کراچی کی کنیز فاطمہ اور اسٹیل مل کی گلزار بیگم، ان سب کے نا م پاکستان کی ٹریڈ یونین کی تاریخ میں ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ حالیہ ادوار میں بھٹہ مزدور تحریک کے حوالے سے غلام فاطمہ، انجمن مزارعین اوکاڑہ کی عقیلہ ناز، لیڈی ہیلتھ ورکرز کی بشریٰ ارائیں اور دیگر کے نام سامنے آئے ہیں۔

پبلک سیکٹر میں عورتیں تعلیم، صحت، پی ٹی سی ایل، پی آئی اے، واپڈا، پوسٹ آفس، ریلوے، بینکوں اور دیگر اداروں میں کام کر رہی ہیں۔ ضیا الحق کے دور میں ٹریڈ یونینوں پر پابندی سے پہلے سیاسی شعور رکھنے والی عورتیں ٹریڈ یونینوں میں فعال کردار ادا کرتی تھیں۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران عورتوں نے اسپتالوں کی ہڑتالوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین بھی ڈاؤن سائزنگ کے خلاف ہڑتالوں میں حصہ لیتی اور ریاستی تشدد کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ نجی صنعتی شعبے میں عورتیں زیادہ تر ٹیکسٹائل، گارمنٹس، فارماسیوٹیکل اور کھیلوں اور سرجری کے اوزار بنانے والی فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں۔ زیادہ تر عورتیں روزانہ اجرت یا کنٹریکٹ پر کام کرتی ہیں۔ یہ خواتین انتہائی برے حالات میں بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرتی ہیں اور انھیں مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔

بہت سی فیکٹریوں میں ٹریڈ یونینیں موجود نہیں ہیں۔ فری مارکیٹ اور لبرلائزیشن کی پالیسیوں، مزدور دشمن اور ٹریڈ یونین مخالف پالیسیوں نے ٹریڈ یونین کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔

'جہاں تک ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے دفاتر، ٹریول ایجنسیوں، پرائیویٹ اسکولز، بڑے ہوٹلوں اور ڈپارٹمنٹل اسٹورز میںکام کرنے والی خواتین کا تعلق ہے، انھیں ٹریڈ یونین بنانے کی اجازت نہیں ملتی۔ جب کہ گھروں اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کی حالت غلاموں سے بھی بد تر ہے۔ اس وقت چالیس فی صد عورتیں دیہی معیشت میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہیں لیکن انھیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ عورتوں کے انسانی حقوق، چائلڈ لیبر کے خلاف اور جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین اور این جی اوز میں کام کرنے والی خواتین خود بھی ان حقوق سے محروم ہیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں نے بھی ٹریڈ یونینوں کے انحطاط میں کردار ادا کیا ہے'۔ (رخسانہ منظور)۔

نظریاتی لوگوں کے نقطہء نظر سے اسوقت ٹریڈ یونین تحریک کی خامی صرف سودے بازی تک محدود ہو جانا اور نظام میں تبدیلی یعنی سوشلزم یا فلاحی ریاست کے لیے جدوجہد نہ کرنا ہے۔ ٹریڈ یونین رہنماؤں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ان کے مسائل کا سبب ذرایع پیداوار کی نجی ملکیت ہے۔ جب کہ محنت کش طبقے کے پاس کوئی املاک نہیں ہوتی۔ ٹریڈ یونینوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش طبقے کو متحد ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنا ہو گا تاکہ ذرایع پیداوار نجی ملکیت سے نکل کر سماجی ملکیت بن جائیں۔ ٹریڈ یونین طبقے کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ان کی کوششوں کا مقصد سیاسی طاقت حاصل کرنا بھی ہے۔ صنعتی شعبے میں ان کی جدوجہد ایک سوشلسٹ یا فلاحی حکومت کے قیام کی جدوجہد سے جڑی ہونی چاہیے۔

محنت کش طبقے کے لیے ٹریڈ یونین کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں مزدوروں کو مناسب اجرتیں ملتی ہیں۔ یونین کی رکنیت کے نتیجے میں ہیلتھ کئیر تک رسائی ہوتی ہے۔ سماجی اور اقتصادی زندگی میں عورتوں کی مساوی شراکت کے لیے ان کی تولیدی صحت کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ تولیدی دیکھ بھال صرف سماجی مسئلہ نہیں بلکہ اس کا تعلق سماجی انصاف سے بھی ہے۔ با معاوضہ چھٹیوں کی سہولت بھی ٹریڈ یونین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ عورتوں کے لیے اس کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ اپنی تولیدی ذمے داریوں کے علاوہ گھر کے بیمار افراد کی دیکھ بھال کے لیے بھی عورت کو چھٹیوں کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔ یاد رہے کہ عورت کو کام کی جگہ پر جو سہولتیں اور مراعات ملتی ہیں، اس کا فائدہ معیشت اور معاشرے دونوں کو ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں