ستاروں میں ہم جیسے لوگ
کائنات میں دوسری دنیاؤں کے وجود کا ثبوت شاید خلائی دوربین سے حاصل ہوسکے۔
اگر کائنات میں ڈھیر سارے سیارے ہیں تو کیا وہاں ہم جیسے لوگ بھی بستے ہیں؟ ہم جیسے لوگوں کی تو ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ وہاں آسمان پر آبادی ہو۔ ہر تہذیب کو ستاروں سے کوئی نہ کوئی جھانکتا ضرور نظر آتا ہے۔ قدیم روما کی دیو مالائی کہانیاں ہوں یا جدید مغربی تہذیب کی قصہ کہانیاں سب کی تان آسمانوں پر دیوتاؤں یا ذہین تہذیبوں پر ٹوٹتی ہے۔
دیوتاؤں کا ذکر ہوجائے تو ورثہ (Legend) اور مریخ پر زندگی کی بات ہو تو ''سائنس فکشن'' کہلاتی ہے۔ جدید سائنس والے بھی آخر کو انسان ہیں۔ وہ بھلا کائنات میں ذہین مخلوق کی موجودگی پر ''نہ'' کیسے کرسکتے ہیں بلکہ آج کے ماہرین فلکیات نے اپنے آبا و اجداد کے سب سے پرانے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے غیر اراضی ذہین مخلوق کو پیغام بھی ارسال کرنا شروع کردیے ہیں کہ ''ہم یہاں!''
سائنسدان کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں ''ملکی وے'' میں 200 بلین سیاراتی نظام یا نظام ہائے شمسی موجود ہیں۔ ان میں 200 ملین سیارے ایسے ہوں گے جہاں زندگی کی پیدائش کی تمام بنیادی شرائط موجود ہیں اور اگر ان میں سے صرف ایک فیصد سیاروں پر ذہین مخلوق موجود ہے تو ہر دو سو نوری سال کے فاصلے پر ایک ذہین تہذیب موجود ہے۔ دو سو نوری سال کائناتی اعتبار سے گلی کا نکڑ ہے اور اگر صرف ملکی وے کہکشاں میں قدم قدم پر ہم جیسے لوگوں کا ڈیرہ ہے تو پوری کائنات تو زندگی سے بھری پڑی ہوگی تو پھر کیوں نہ انھیں ''ہیلو'' کہا جائے؟
غیر اراضی مخلوق کی تلاش آج کی فلکیات کی بہت بڑی کوشش ہے۔ پائینئر اور وائجر خلائی جہازوں کے بعد دیگر خلائی مشن میں ان کے نام پیغامات روانہ کیے گئے ہیں۔ ریڈیو دوربینوں کے پیغام سننے میں مصروف ہیں اور بڑے بڑے سائنسدان اہل ثروت و حکومت سے روپیہ طلب کر رہے ہیں تاکہ ''ان'' سے بات چیت کے لیے بہتر مواقع ڈھونڈے جاسکیں، لیکن کیوں؟ کیا جدید انسان اپنے پرکھوں کی طرح ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے یا وہاں واقعی کوئی ہے؟ کیا وہ واقعی ہمارے تخیل کے پیدا کردہ ہیں یا واقعی وجود رکھتے ہیں؟ اگر ان کا واقعی وجود ہے تو ان کی ہیئت، شکل و صورت، کیمیا، مزاج اور تہذیب کیسی ہے؟ کیا وہ ہماری طرح لڑاکو اور فسادی ہیں یا اس کے برعکس رحم دل اور محبت کرنے والے ہیں؟ اور اگر وہ انسان کے حد سے زیادہ زرخیز تخیل کی پیداوار ہیں تو یقین جانیے ہم سب کو بہت افسوس ہوگا۔
کائنات میں اور بھی سیارے ہیں؟
نظام شمسی سیارے ہیں۔ یہ سورج کے ساتھ اس وقت وجود میں آنا شروع ہوئے جب ہائیڈروجن، ہیلیم اور کائناتی دھول مٹی کا بادل سکڑنا شروع ہوا۔ سکڑتے ہوئے بادل کی ہائیڈروجن مرکزی حصے میں جمع ہوگئی اور اس سے سورج بنا، جب کہ کائناتی دھول اور دوسرے عناصر نے مل کر سیاروں کو جنم دیا، سیاراتی پیدائش کی یہ ایک اجمالی تصویر ہے لیکن ہمیں تفصیلات کا زیادہ علم نہیں۔ ماہرین ارضیات کے لیے سیاراتی پیدائش کا معمہ ''مرکزی مسئلہ'' ہے جس پر سر کھپانے میں بہت سے مصروف ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ستارے کی پیدائش کائناتی بادل ''نیبولا'' کے ذریعے ہوتی ہے اور اس عمل میں سیارے ضرور بنتے ہیں تو پھر کیا کائنات کے ہر ستارے کے ساتھ اس کے عاشق سیارے موجود ہیں؟ جو اس کے گرد گردش کناں ہیں؟
مسئلہ یہ بھی ہے کائنات بہت بڑی ہے اور ستارے ہم سے بہت دور ہیں اور ستم بالائے ستم یہ بھی کہ سیارے صرف روشنی منعکس کرسکتے ہیں کہ ان کی روشنی نہیں ہوتی۔ یوں اگر کائنات میں سیارے ہیں بھی تو کم ازکم انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ سائنسدانوں نے جب انفرا ریڈ سیارچے کے ذریعے قریب ستاروں پر نظر ڈالی تو کئی ستاروں کے ساتھ اجسام یا ہالے نظر آئے۔
ماہرین فلکیات کے خیال میں یہ اجسام سیارے اور ہالے پیدا ہوتے ہوئے نظام شمسی ہوسکتے ہیں لیکن یقین سے کچھ قبل ازوقت ہے۔ کائنات میں دوسری دنیاؤں کے وجود کا ثبوت شاید خلائی دوربین سے حاصل ہوسکے جس کے ذریعے سائنسدان ستاروں کے چال چلن کا مشاہدہ کریں گے اور پھر شاید معلوم ہوسکے گا کائنات میں زمین جیسی ہزاروں جگہیں موجود ہیں یا نظام شمسی ایک انوکھی دنیا ہے۔