استقبال رمضان
آج سچی تڑپ کے ساتھ ا پنے قلوب کو بیدار کیجیے اور اس ماہ رمضان کی آمد پر عہد کیجیے۔
رحمتوں، برکتوں، اور فضیلتوں والا مہینہ آگیا۔ یقینا اہل ایمان کے لیے یہ خوشی و مسرت کا پیغام ہے۔ کیوں کہ التجا کرنے، آسانیاں طلب کرنے، اپنے اعمال پر غور و فکر کرنے، اپنے نفس کو قابو کرکے دین پر عمل کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : '' اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو۔'' چوں کہ روزہ ایک ایسی ریاضت کا نام ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات و دیگر تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالتا ہے۔ پہلی امتوں کو بھی روزے کا حکم دیا گیا تھا۔
امت محمدیؐ کے لیے ایک سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے لے کر غروب آفتاب تک رکھا گیا، جو مزاج انسانی کے لیے انتہائی معتدل اور مناسب ہے۔ اگر اس وقت میں کمی یا زیادتی کر کے دیکھا جائے تو بھی انسان وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا جو طلوع سحر سے غروب آفتاب کے درمیان اپنے نفس کی تربیت اور ریاضت کرکے حاصل کر لیتا ہے۔
رسالت مآب ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے : '' جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب! قدم بڑھا کے آگے آ، اور اے بدی اور بدکاری کے شائق! رک، آگے نہ آ، اور اللہ کی طرف سے بہت سے گناہ گار بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔ اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا : '' اے لوگو! تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالی نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑے ہونے کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔'' صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا : '' اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروا دے۔ پھر فرمایا کہ جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالی میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا : اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش جہنم سے آزادی ہے۔ جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔'' (شعب الایمان )
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک خاص قسم کی تاثیر رکھی ہے جو دنیا کی اور کسی کتا ب میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے ہی نہیں بل کہ سننے والے کی طبعیت پر بھی ایک خاص اثر پڑتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : '' مجھے قرآن سناؤ، میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں جب کہ قرآن پاک آپ ؐپر نازل ہوا ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: ہاں! دل یہی چاہتا ہے کہ قرآن کسی اور سے سنوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں، میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کردی، جب اس آیت کریمہ پر پہنچا، مفہوم: '' اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے۔'' تو آپؐ نے فرمایا: اب بس کردو! میں نے آپؐ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔'' (بخاری)
یہی حال رسول اکرمؐ کے اصحابؓ کا بھی تھا۔ ایک رات حضرت عمر ؓ شہر کی دیکھ بھال کے لیے نکلے تو ایک گھر سے کسی مسلمان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی، آپؓ نے سواری روکی اور کھڑے ہو کر سننے لگے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے: '' بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر ہی رہے گا، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں۔'' تو حضرت عمرؓ کی زبان بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: ''رب کعبہ کی قسم سچ ہے۔'' پھر آپ ؓ سواری سے اتر ے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، یہاں تک کے چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ امیرالمومنین حضرت عمر ؓاس آیت کو سننے کے بعد ایسے بیمار ہوئے کہ کم و بیش ایک ماہ تک بستر علالت پر پڑے رہے۔
یہ تو وہ بزرگ، مقدس و مطہر شخصیات تھیں جن سے اللہ رب العزت راضی ہو نے کا اعلان خود قرآن میں کرچکے تھے، مگر اس کے باوجود بھی ان کا یہ حال تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم مسلمانی کا دعوی کرنے کے بعد کس موڑ پر کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے اس طرح قرآن کریم میں غوطہ زن ہوکر اس کے رموز و اسرار کو پانے کی کوشش کی؟ کیا ہماری نوجوان نسل شعور قرآنی کو حاصل کرنے کی خواہاں ہے؟ کیا ہماری خواتین مسائل قرآنی کو سمجھنے کی سکت رکھتی ہیں؟ کیا ہم میں قرآن کو سمجھنے کی تڑپ ہے۔۔۔۔ ؟
آئیے، آج سچی تڑپ کے ساتھ ا پنے قلوب کو بیدار کیجیے اور اس ماہ رمضان کی آمد پر عہد کیجیے کہ نبی آخرالزماں ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر، ان کے صحابہؓ کی سی تڑپ کو اپنے دلوں میں سلگا کر، قرآن کریم کو صرف پڑھنے ہی نہیں بل کہ ہر حرف میں ڈوب کر، آیات کو سمجھ کر اللہ رب العزت کے دیے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : '' اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو۔'' چوں کہ روزہ ایک ایسی ریاضت کا نام ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات و دیگر تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالتا ہے۔ پہلی امتوں کو بھی روزے کا حکم دیا گیا تھا۔
امت محمدیؐ کے لیے ایک سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے لے کر غروب آفتاب تک رکھا گیا، جو مزاج انسانی کے لیے انتہائی معتدل اور مناسب ہے۔ اگر اس وقت میں کمی یا زیادتی کر کے دیکھا جائے تو بھی انسان وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا جو طلوع سحر سے غروب آفتاب کے درمیان اپنے نفس کی تربیت اور ریاضت کرکے حاصل کر لیتا ہے۔
رسالت مآب ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے : '' جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور اللہ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب! قدم بڑھا کے آگے آ، اور اے بدی اور بدکاری کے شائق! رک، آگے نہ آ، اور اللہ کی طرف سے بہت سے گناہ گار بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔ اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔'' (سنن ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا : '' اے لوگو! تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اللہ تعالی نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑے ہونے کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔'' صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا۔ آپؐ نے فرمایا : '' اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروا دے۔ پھر فرمایا کہ جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالی میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا : اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش جہنم سے آزادی ہے۔ جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔'' (شعب الایمان )
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک خاص قسم کی تاثیر رکھی ہے جو دنیا کی اور کسی کتا ب میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے ہی نہیں بل کہ سننے والے کی طبعیت پر بھی ایک خاص اثر پڑتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا : '' مجھے قرآن سناؤ، میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں جب کہ قرآن پاک آپ ؐپر نازل ہوا ہے۔ آپ ؐنے فرمایا: ہاں! دل یہی چاہتا ہے کہ قرآن کسی اور سے سنوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں، میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کردی، جب اس آیت کریمہ پر پہنچا، مفہوم: '' اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے۔'' تو آپؐ نے فرمایا: اب بس کردو! میں نے آپؐ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو آپؐ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔'' (بخاری)
یہی حال رسول اکرمؐ کے اصحابؓ کا بھی تھا۔ ایک رات حضرت عمر ؓ شہر کی دیکھ بھال کے لیے نکلے تو ایک گھر سے کسی مسلمان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی، آپؓ نے سواری روکی اور کھڑے ہو کر سننے لگے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے: '' بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر ہی رہے گا، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں۔'' تو حضرت عمرؓ کی زبان بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: ''رب کعبہ کی قسم سچ ہے۔'' پھر آپ ؓ سواری سے اتر ے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، یہاں تک کے چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ امیرالمومنین حضرت عمر ؓاس آیت کو سننے کے بعد ایسے بیمار ہوئے کہ کم و بیش ایک ماہ تک بستر علالت پر پڑے رہے۔
یہ تو وہ بزرگ، مقدس و مطہر شخصیات تھیں جن سے اللہ رب العزت راضی ہو نے کا اعلان خود قرآن میں کرچکے تھے، مگر اس کے باوجود بھی ان کا یہ حال تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم مسلمانی کا دعوی کرنے کے بعد کس موڑ پر کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے اس طرح قرآن کریم میں غوطہ زن ہوکر اس کے رموز و اسرار کو پانے کی کوشش کی؟ کیا ہماری نوجوان نسل شعور قرآنی کو حاصل کرنے کی خواہاں ہے؟ کیا ہماری خواتین مسائل قرآنی کو سمجھنے کی سکت رکھتی ہیں؟ کیا ہم میں قرآن کو سمجھنے کی تڑپ ہے۔۔۔۔ ؟
آئیے، آج سچی تڑپ کے ساتھ ا پنے قلوب کو بیدار کیجیے اور اس ماہ رمضان کی آمد پر عہد کیجیے کہ نبی آخرالزماں ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر، ان کے صحابہؓ کی سی تڑپ کو اپنے دلوں میں سلگا کر، قرآن کریم کو صرف پڑھنے ہی نہیں بل کہ ہر حرف میں ڈوب کر، آیات کو سمجھ کر اللہ رب العزت کے دیے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔