میں اور میرا معاشرہ

ہم اپنے درمیان لوگوں کو ان کے لباس، اسٹیٹس اور گاڑی سے پہچانتے ہیں، نہ کہ ان کے ایمان، اخلاص اور سیرت سے

معاشرے کا ہر طبقہ ہی گردشِ دوراں کا شکار ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آسکر وائلڈ آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں 1854 میں پیدا ہوا۔ وہ ایک غیرمعمولی امیر اور شہرت یافتہ خاندان کا فرد تھا۔ وہ آکسفورڈ میں پڑھا، اچھا بولتا اور اچھا لکھتا تھا۔ اس کی تحریروں میں معاشرے کے طبقاتی فرق پر کا فی چبھن ہے۔ اس کا ایک افسانہ جس میں وہ لکھتا ہے کہ ایک بادشاہ انتقال کے وقت کیسے اپنی اکلوتی بیٹی کے بچے کو اپنے سے اگلا بادشاہ بنانے کی وصیت کرتا ہے، جس کا بچپن ایک چرواہے کی طرح گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ محل میں آکر قیمتی چیزوں کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جس دن اس کی تاج پوشی ہونا ہوتی ہے، اس سے ایک رات پہلے وہ اپنے نوکروں کو حکم دیتا ہے کہ اس کی پوشاک کے لیے دنیا کا بہترین کپڑا لیا جائے اور اس میں دنیا کے اعلیٰ ترین جواہرات مزین کیے جائیں، نیز اس کا تاج بھی اپنی مثال آپ ہو، جس کے لیے اچھی نسل کے ہیروں کا انتخاب کیا جائے۔ وہ یہ احکامات دے کر سو جاتا ہے۔

رات میں وہ خواب دیکھتا ہے کہ ایک جنگل میں کچھ غلام کام کررہے ہیں۔ غلاموں پر ملیریا اور طاعون کا حملہ ہوتا ہے اور ان میں سے کئی مر جاتے ہیں۔ اس کے پوچھنے پر لوگ بتاتے ہیں کہ یہ بادشاہ کے لیے روبی تلاش کررہے تھے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ وہ ایک بوسیدہ عمارت میں ہے جہاں سے بدبو اٹھ رہی ہے، وہاں مختلف لوگ کپڑا بن رہے ہیں۔ ان کے چہرے زرد ہیں، کمزوری سے وہ لاغر ہوچکے ہیں۔ وہ پھر پوچھتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ اسے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ بادشاہ وقت کے لیے کپڑا بن رہے ہیں۔ وہ ان مزدورں کی حالت دیکھ کر روتا ہے۔ تیسرے خواب میں وہ دیکھتا ہے کہ ایک کشتی دریا میں روانہ ہے، جسے چلانے والوں کو کوڑے مارے جارہے ہیں۔ پھر ایک نوجوان کے جسم کے ساتھ پتھر باندھ کر اسے دریا میں پھینک دیا جاتا ہے۔ وہ پانی میں غائب ہوجاتا ہے۔ کچھ دیر بعد اچانک وہ پانی سے باہر آتا ہے اور ہاتھ میں موتی لیے ہوتا ہے۔ اسے ایک بار پھر پانی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ہر بار وہ موتی ڈھونڈ لاتا ہے لیکن اسی دوران اس کے ناک اور کان سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ آخری بار باہر نکلتا ہے اور جان، جانِ آفرین کے سپرد کردیتا ہے۔ اسے ہمیشہ کے لیے دریا میں پھینک دیا جاتا ہے۔


مستقبل کے نوجوان بادشاہ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اسے محل کے خاص حصے میں لے جایا جاتا ہے تاکہ اس کی تاج پوشی کی جائے، لیکن وہ انکار کردیتا ہے۔ اسے اپنے تاج اور اپنی پوشاک سے خون کی بو آرہی ہوتی ہے۔ وہ اپنے پرانے چرواہے والے کپڑے پہن لیتا ہے اور سر پر محل کے باہر لگے پودوں کے کانٹے سجالیتا ہے۔ لیکن محل کی بیوروکریسی اس کو بادشاہ ماننے سے انکار کردیتی ہے، کیونکہ وہ دیکھنے میں کہیں سے بھی بادشاہ نہیں لگ رہا ہوتا۔ وہ محل سے باہر عوام میں آجاتا ہے۔ عوام بھی اسے بادشاہ ماننے سے منکر ہوجاتی ہے، کیونکہ اس کے پاس بادشاہوں سا کوئی پروٹوکول بھی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے گھوڑے پر عبادت گاہ کی طرف چل پڑتا ہے۔ جہاں اسے عبادت گاہ کا رکھوالا ملتا ہے۔ وہ اپنی کہانی اسے سناتا ہے۔ گھاگ رکھوالا اسے مشورہ دیتا ہے کہ سب کچھ بھول کر محل چلا جائے اور اپنی بیوروکریسی کی بات مان لے اور تاج پوشی کروائے، لیکن وہ نہیں مانتا اور عبادت گاہ میں جاکر خدا کے حضور سجدہ ریز ہوجا تاہے۔ اتنے میں عوام بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں تلواریں اور خنجر ہوتے ہیں اور نعرے لگارہے ہوتے ہیں کہ کہاں ہے وہ بھکاری؟ ہم اسے چیر دینے کے لیے آئے ہیں۔ کیونکہ وہ کسی ایسے بادشاہ کو ماننا نہیں چاہتے جو عام سا لگے اور بھکاریوں والا لباس پہنے۔ عوام اس کو مارنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں کہ ایک شعاع عبادت گاہ میں داخل ہوتی ہے اور اس کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ باہر نکلتا ہے تو کوئی اس تک نہیں پہنچ پاتا، کیونکہ اس کو دنیاوی بادشاہ سے بڑا درجہ مل چکا ہوتا ہے۔

نجانے کیوں مجھے میرے معاشرے میں بھی بالکل یہی حالات نظر آتے ہیں۔ جو زیادہ پیسے والا ہے اور جو بڑا چوہدری ہے اور جس کی پگ زیادہ بڑی ہے، اس کو زیادہ سیلوٹ لگتے ہیں۔ ہر چھوٹا چوہدری بڑے چوہدری کو سلام کرتا ہے اور ہر بڑا اپنے سے چھوٹے کا استحصال کرتا ہے۔ ہم اپنے درمیان لوگوں کو ان کے لباس، اسٹیٹس اور گاڑی سے پہچانتے ہیں، نہ کہ ان کے ایمان، اخلاص اور سیرت سے۔ اچھا لباس، قیمتی گھڑی، مہنگا گھر، نئی گاڑی؛ یہی وہ عینک ہے جو ہم میں سے ہر شخص نے اپنی انکھوں پر لگا رکھی ہے۔ جو اس عینک میں پورا آگیا میں اسی کو دیکھوں گا اور اسے ہی سلام کرون گا، اور جو نہیں آیا، میری طرف سے وہ انسان ہونے سے بھی گیا۔

72 سال ہوگئے اس معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنے، لیکن میرے معاشرے میں اس قدر تقسیم اور غیر اسلامی رسومات سے محبت ہے اور وہ میرے جینز کے ساتھ ایسے نسل در نسل منتقل ہورہی ہیں کہ میں انہیں چھوڑنا بھی چاہوں تو چھوڑ نہیں سکتا۔ کہیں ذات پات ہے تو کہیں فرقہ پرستی، نہیں تو صوبائی اور لسانی تضادات تو ہیں ہی۔ شادی اور مرگ پر ہونے والی واہیات رسومات بھی ابھی تک نہیں چھوڑ سکا۔ شہروں میں سوسائٹیز اور کچی آبادیوں کی تقسیم اور دیہاتوں میں بڑا چوہدری، چھوٹا چوہدری اور کمین کی تقسیم موجود ہے۔


اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تو ایسی کوئی تقسیم نہیں بتائی۔ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں، مگر تقویٰ، والا اصول تو آپ ﷺ نے 1400 سال پہلے ہی واضح کردیا تھا، جو زندگی کے ہر اصول پر لاگو ہوگا۔ قرآن میں بھی فوقیت کا معیار ایمان اور اعمال مقرر ہوا۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر منحصر ہوا۔ اور نیتیں تب تک ٹھیک نہیں ہونی جب تک علم عام نہ ہو۔ جو ہمارے ہاں بہت مفقود ہے۔

میرے معاشرے کا ہر طبقہ ہی گردشِ دوراں کا شکار ہے۔ جسے دیکھو وہ دوسرے کا استحصال کررہا ہے۔ اس میں صرف طبقاتی، معاشرتی اور معاشی استحقاق ہی شامل نہیں، بلکہ اس میں انتہائی معزز پڑھے لکھے پروفیشنلز کا بھی اپنا ایک حصہ ہے۔ ڈاکٹر، اساتذہ، انجینئرز، چارٹرڈ اکائونٹنٹس، ہر کوئی اس میں ساجھے دار ہے۔ ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں کو جانورں کے باڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اساتذہ اسکولوں میں تدریس کے شعبے میں کم اور اپنی پرائیویٹ اکیڈمیز اور ٹیوشن سینٹرز پر زیادہ فوکس کرتے ہیں، جبکہ تعلیمی پالیسیاں بنانے والے ادارے ملکی طلبا کو یکساں اور جدید تعلیمی نصاب دینے میں سراسر ناکام نظر آتے ہیں۔ جس کا نتیجہ نوجوانوں اور بچوں کی عقلی اور علمی تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ سڑکوں، ہائی ویز، بجلی، گیس، ہوابازی سفر، اور کان کنی کے شعبے جس زوال کا شکار ہیں، اس سے ہمارے انجینئرز کی استعداد کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اور چارٹرڈ اکائونٹنٹس، جو کہ ملکی ٹیکس کے محافظ مانے جاتے ہیں ان کو صرف ٹیکس بچانے کے لیے ہائر کیا جاتا ہے۔ جس سے امیر اور غریب کے درمیان موجود خط مزید گہرا ہوجاتا ہے، کیونکہ ٹیکس کا اکٹھا نہ ہونا ملک میں غربت کا باعث بنتا ہے۔

ان سارے مسائل کا حل صرف علم کے عام کرنے میں پوشیدہ ہے۔ علم ایک وسیع تر اصطلاح ہے، جس میں دینی و دنیاوی علم کے ساتھ عملی تربیت بھی شامل ہے۔ جس کی کشیدہ کاری میں ریاست کا کردار بہت اہم ہے۔ ریاست کے پاس ایک مکمل مشینری موجود ہوتی ہے، جس کا بین الاقوامی طرز پر لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب یہ طے ہوجائے تو اس کو قابل عمل بنانے کے لیے پوری کوشش کی جائے۔ پھر اس میں تبدیلی معیار کی ہو، لائحہ عمل یا سسٹم کی نہ ہو۔ عام زبان میں اس میں بہتری کے طریقے تو لائے جائیں لیکن ایک طے شدہ نظام کو کسی سیاسی یا ذاتی مقصد کے حصول میں جڑ سے ہی نہ اکھاڑ پھینکا جائے، کیونکہ ایک نظام بنانے اور اسے قابل عمل بنانے میں عوام کا وقت اور پیسہ انویسٹ ہوچکا ہوتا ہے۔

ایک عام آدمی ہونے کے ناتے میں بھی اپنے معاشرے کو تعلیم یافتہ، پرسکون اور وضع دار دیکھنا چاہتا ہوں، جو اپنے لیے تو پھلنے پھولنے کا باعث ہو، ساتھ میں دوسروں کے لیے ایک مثال بھی ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story