معاصر ادب میں نئی تحریک
آلِ احمد سرور طرزِ احساس کی تبدیلی کے ذریعے نئے ادب کی تخلیق کے خواہاں تھے۔
کیا اِس وقت ہمیں ایک نئی ادبی تحریک کی ضرورت ہے؟
بلاشبہ یہ ایک اہم سوال ہے، لیکن اس پر غور کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ کم سے کم ایک ڈیڑھ بات تو بالکل صاف لفظوں میں سمجھ لی جائے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کوئی بھی خیال یا سوال اگر آج کسی کے ذہن میں آرہا ہے تو چاہے اُس کے اسباب جو بھی ہوں، مگر اُسے اور اس کے ساتھ دوسروں کو بھی جان لینا چاہیے کہ یہ کوئی طبع زاد یا بالکل نیا اور اچھوتا خیال نہیں ہے۔ صرف گزشتہ چار دہائیوں ہی کو سامنے رکھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان ہندوستان دونوں جگہ اس سوال کی گونج کئی بار سنی گئی ہے۔ آلِ احمد سرور، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر اسلوب احمد انصاری فضیل جعفری کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی اپنے اپنے انداز سے اس ضمن میں اپنا ممکنہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔
آلِ احمد سرور طرزِ احساس کی تبدیلی کے ذریعے نئے ادب کی تخلیق کے خواہاں تھے۔ وزیر آغا نظم کی کروٹوں میں اس کا سراغ پاتے اور امتزاجی تنقید سے اس کے لیے راہ ہموار کرتے رہے۔ اسلوب احمد انصاری فکشن اور فضیل جعفری نئی دنیا کے حقائق کے ذریعے نئے ادب کا رستہ دیکھتے تھے۔ البتہ جمیل جالبی نے اس ضمن میں سب سے زیادہ کام کیا۔ انھوں نے اس دور میں تخلیق کیے جانے والے ادب کا مطالعہ و محاکمہ کیا اور من حیث المجموع اُس کے اور بالخصوص غزل، نظم اور افسانے کے ژولیدہ اور پژمردہ ہونے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے ان کو مسترد کیا اور کہا کہ اب نئی تحریک ہی ان اصناف میں نئی روح پھونک کر انھیں تازہ کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے نئی تنقید کے خطوط متعین کیے اور کہا کہ وہ اس سے اسی طرح کام لینے کے خواہاں ہیں جیسے سائنس سے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس خیال کا بالکل کھلے بندوں اظہار کیا کہ یہ تنقید نئے شعور کو جنم دینے اور نئی ادبی تحریک کو ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔ مختصر یہ کہ نئی ادبی تحریک کی ضرورت ہمارے یہاں کم سے کم پچھلے چار عشروں سے محسوس کی جارہی ہے۔
دوسرے یہ کہ تہذیب، سماج اور ادب میں تبدیلی کی ہوائیں تو وقتاً فوقتاً چلتی رہتی ہیں اور ان ہواؤں کے اثرات بھی وقت کے عمل میں نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن جسے انقلابی درجے کی تبدیلی کہا جاتا ہے، جس کے بعد منظرنامہ بالکل بدل کر رہ جائے اور نئے رجحانات و امکانات ایک تحریک کی صورت گری کرتے دکھائی دیں، وہ چیزے دگر ہوتی ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ادب یا تہذیب کی سطح پر انقلابی تغیر یا نئی تحریک کا یہ تناظر کسی فرد کی ذاتی خواہش و کوشش اور اعلانات سے قائم ہوتا ہے اور نہ ہی رونما۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ہمارے یہاں گزشتہ نصف صدی میں ایک نہیں، کئی ایک تحریکیں ادب میں جنم لے چکی ہوتیں۔ اس لیے کہ نئی ادبی تحریک کے حوالے سے جن لوگوں نے ضرورت کا اظہار کیا تھا، وہ سب ہمارے ادب کے نمائندہ افراد تھے اور اس ضمن میں انھوں نے اپنے اپنے دائرۂ فکر و فن میں نہ صرف خود کام کیا تھا، بلکہ دوسروں کے لیے ایک لائحۂ عمل بھی بنایا اور اُن خطوط کا تعین بھی کیا جن پر کام کرکے نئی تحریک کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
اب اگر یہ سب انفرادی کوششیں کام یاب نہیں ہوپائیں، اور ہمارے یہاں کوئی نئی ادبی تحریک اس عرصے میں سامنے نہیں آئی تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اس نوع کے کسی بھی کام کے پس منظر میں انفرادی خواہشیں اور کوششیں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ جس تہذیب اور معاشرے میں ایسا ہوتا ہے وہاں بہ یک وقت متعدد عوامل اور محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ خارجی ہوتے ہیں اور کچھ داخلی۔ ان میں سب سے قوی محرک اجتماعی روح کا وہ مطالبہ ہوتا ہے جو ایک طرف شعورِ عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنی روایت کے زندہ عناصر سے مملو بھی۔ اس لیے کہ کوئی بھی تحریک خواہ وہ تہذیبی ہو یا سماجی، فکری ہو یا ادبی پہلے اجتماعی باطن میں اپنی ضرورت اور وقعت کا احساس پیدا کرتی ہے، بعدازاں ظاہر میں اس کے نقوش اور اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کام وہ اپنی تہذیب کے زندہ عناصر کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے ہی کرسکتی ہے، ان کے بغیر نہیں۔
اچھا تو سوچا جانا چاہیے کہ کسی سماج یا اس کے کسی تہذیبی مظہر، مثلاً ادب میں کوئی نئی تحریک پیدا کس وقت ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب خاصی تفصیل چاہتا ہے، لیکن مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں جب کسی سماج کی روح یہ محسوس کرتی ہے کہ مروّجہ اسالیب و افکار یہاں تک کہ الفاظ اور اُن کے رائج معانی، سب کے سب اُس کی قوت کو سہارنے اور ابھارنے سے قاصر ہیں، اُس کی کیفیات کی تفہیم و ابلاغ سے عاری ہیں اور اُس کے مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں تو بس پھر اجتماعی لاشعور میں وہ عمل شروع ہوجاتا ہے جو آگے چل کر کسی تحریک کو جنم دیتا ہے۔ یہاں ایک مثال سے بات ذرا واضح ہوپائے گی۔ کسی سماج یا تہذیب میں کوئی نئی تحریک اسی طرح پیدا ہوتی جس طرح ایک کونپل چٹان کا سینہ چیر کر رونما ہوتی ہے۔ جب تک وہ ظاہر نہیں ہوجاتی، اُس وقت تک دیکھنے والوں کو یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ چٹان میں کسی جگہ ایسا کوئی شگاف پڑ سکتا ہے اور وہاں سے ایک نازک سی کونپل بھی سامنے آسکتی ہے۔ اِس عمل میں کئی ایک فیکٹرز مکمل خاموشی، لیکن مؤثر انداز سے اپنا کردار ادا کرتے اور مل کر اُس قوت کو متحرک کرتے ہیں جو اس عمل کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔
ملکوں کی سماجی و تہذیبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اِس قوت کا ایک نام نژادِ نو بھی ہے۔ نئی نسل کے متحرک اور زرخیز لوگ اپنے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی مظاہر اور اُن کے سیاق میں اپنے یہاں موجود بیانیے سے جب مکمل ناآسودگی اور سخت الجھن محسوس کرتے اور اسے اپنی راہ میں حائل دیکھتے ہیں تو اس کے خلاف بغاوت پر مائل ہوتے ہیں۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن موجود نظام، رویے اور صورتِ حال انھیں اس کا موقع دیتی نظر نہیں آتی۔ تب اپنے اظہار کے لیے اور اپنا لوہا منوانے کے لیے جو کچھ رائج ہے، اس سے ٹکرانا اور اس کی نفی کرنا ان کے داخل کا ایک ناگزیر باطنی مطالبہ بن جاتا ہے۔ یہ کام ایسے ہی ہوتا ہے جیسے اچھے خاصے پُرسکوت نظر آنے والے پہاڑوں میں اندر ہی اندر ایک لاوا پکتا رہتا ہے جو ایک خاص مرحلے پر اس طرح باہر آتا ہے کہ پھر روکے نہیں رکتا اور کسی شے کو اپنی راہ میں حائل نہیں رہنے دیتا۔ تاہم تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ کسی سماج میں نفی کا یہ عمل صرف اسی صورت میں بعدازاں اثبات کی بنیاد بن سکتا ہے، یعنی ایک نئی تحریک پیدا کرسکتا ہے جب اس باغی نژادِ نو کے پاس نہ صرف تخلیقی قوت اور کہنے کے لیے کچھ نیا ہو، بلکہ اُس نے بغاوت اور انہدام سے پہلے پورے شعور کے ساتھ اپنی روایت کے زندہ عناصر کو بھی اپنے اندر جذب کرلیا ہو۔
یہ تو ہوئے کسی سماج میں ایک نئی تحریک کو جنم دینے والے عوامل اور لوازم۔ آئیے اب ذرا دیکھتے ہیں کہ ہمارا عصری ادبی و سماجی منظرنامہ کیا نقشہ دکھا رہا ہے؟ کیا وہاں پر ایسے کچھ حالات دکھائی دے رہے ہیں جو کسی نئی تحریک کے رونما ہونے اور معاشرے میں نئے رنگ و آہنگ کے ابھرنے کا سامان مہیا کرتے اور راستہ بناتے ہیں؟ یہاں ہمیں چند باتوں پر غور کرنا ہوگا، مثلاً یہ کہ گذشتہ دو عشروں میں نژادِنو کی ہمارے ادب میں جو دو نئی صفیں شامل ہوئی ہیں، کیا وہ اس تخلیقی قوت کی حامل ہیں کہ اس روایت کے دھارے کو اپنی ضرورت اور خواہش کے تحت کوئی نیا رخ دے سکیں؟ کیا ہماری اجتماعی روح اپنے اظہار و اثبات کے لیے کسی نئے شعور کی متقاضی ہے؟
کیا تہذیب و سماج کے خارجی عناصر ایسے کسی مطالبے کے آثار ظاہر کررہے ہیں؟ کیا وقت کی شاہراہ پر ہمیں اپنے اندر یا کہیں باہر فکر و احساس کے کسی نئے کارواں کی چاپ سنائی دے رہی ہے؟ کیا ادب اور سماج میں ہمارے یہاں اس وقت وہ رشتہ ہے جو اجتماعی شعور کو کسی نئی سمت میں بڑھنے کے لیے درکار قوت فراہم کرسکے؟ کیا اس وقت ہمارے یہاں اپنے فکری بیانیہ اور تخلیقی رویوں سے عدم اطمینان کا احساس نمایاں ہورہا ہے، اگر ایسا ہے تو کیا اس کی بنیاد شعور کی کسی نئی تشکیل پر ہے؟ کیا ادب کی نئی تحریک سے ہم اپنی تہذیب کی بقا و استحکام اور اس کے مظاہر کی تجدید چاہتے ہیں؟ یہ اور ایسے ہی بعض دوسرے سوالوں پر ہمیں بالالتزام اور تفصیلاً غور کے بعد ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن نکتہ حاصل ہوسکتا ہے۔ تاہم اجمالاً ان سب سوالوں کا ہمارے پاس فی الجملہ جواب ہے، نہیں۔ ہر سوال کے سیاق میں اس 'نہیں' کے اسباب بے شک الگ ہوں گے، لیکن آخر میں ہمیں جواب اسی 'نہیں' کی صورت میں ملے گا۔
یہ تو نہیں کہا جانا چاہیے کہ اس وقت ہمارے یہاں ادب تخلیق نہیں ہورہا۔ یقینا ہورہا ہے اور اُس میں اچھا اور معیاری ادب بھی بہرحال نظر آتا ہے، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس کا تناسب کچھ بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہمارے یہاں سماج اور ادب کا رشتہ بھی آج بہرحال اب وہ نہیں ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا جس کی جدلیاتی فضا دونوں طرف اثرات کا ثبوت فراہم کرتی تھی۔ ٹھیک ہے، لوگ اب بھی پڑھتے ہیں، ادب پر سوچتے اور بات کرتے ہیں، مگر یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اب ادب اور ادیب ہمارے سماجی منظرنامے کے مرکز میں نہیں رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ سرکتے ہوئے اب تو وہ حاشیے پر آگئے ہیں۔ یہ احساس ہمیں گہرے اضطراب میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس لیے کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم یہاں گھڑی بھر کو رک جائیں اور ذرا عالمی تناظر میں ادب، بلکہ جملہ تہذیبی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈال لیں۔ تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں، سو اختصار کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ادب اور تہذیب سے اغماض کا یہ رویہ آج صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، بلکہ اس وقت یہ ایک گلوبل فینومینا ہے۔
تہذیبیں اور اُن کے مظاہر عالمی تناظر میں روگردانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ عہدِجدید اس وقت انسانی فکر و احساس کا پورا پیراڈائم تبدیل کررہا ہے، بلکہ بڑی حد تک کرچکا ہے۔ آج انسانی زندگی میں اشیا، افکار اور افراد کی ضرورت و اہمیت کا معیار اس حد تک بدل چکا ہے کہ گذشتہ زمانے کے اصولوں اور معیاروں سے اس عہد کی صورتِ حال کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی حکم لگایا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا عہد مادّے کی فتح مندی کا زمانہ ہے۔ ادب جیسی غیرمادّی چیزیں اس عہد کی ضرورت ہی نہیں رہیں۔ اس لیے ہمارے یہاں، بلکہ پوری دنیا میں اب عام آدمی کی توجہ کا اس سے ہٹ جانا اور ادیب شاعر کا سماج کے اقداری نظام کے مرکز سے نکل کر حاشیے پر منتقل ہوجانا کتنی ہی افسوس ناک ہو، لیکن اچنبھے کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔
اب رہ گئی بات ہمارے یہاں نژادِنو کی تو آپ اور ہم سب ہی مل کر یہ دیکھ رہے ہیں کہ اُس میں غالب اکثریت اوّل تو ادب سے کوئی سروکار نہیں رکھتی، اور اگر ان میں کچھ فی صد لوگ ایسے ہیں جو ادب سے کچھ تعلق جوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ بھی ادب سے زیادہ اصل میں اس کی سماجیات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اُن کے نزدیک ادب مقصود بالذات نہیں ہے، جیسے کبھی ہماری روایت میں ہوا کرتا تھا، بلکہ وہ تو اب کچھ اور مقاصد کی تکمیل اور دوسرے اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ رویہ بھی محض مقامی نہیں، بلکہ عالمی تناظر میں سامنے آیا ہے۔ اب جب کہ حقائق اور احوال نامہ یہ ہے تو ادب میں یا پھر اس وقت یا مستقبل قریب میں کسی نئی تحریک کے رونما ہونے کا احساس سراسر خیالِ خام کے سوا بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔
غرضے کہ اب اپنی قومی صورتِ حال دیکھیے یا عالمی سطح پر نگاہ کیجیے، دونوں طرف منظر یہی بتاتا ہے کہ تہذیب و ادب، بلکہ جملہ ثقافتی اوضاع و مظاہر پر اس وقت پت جھڑ کا موسم ہے۔ خالی پن اور سناٹا بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس موسم میں برگ و بار نہیں آتے۔ چہچہے سنائی دیتے ہیں اور نہ ہی شگوفے کہیں پھوٹتے ہیں۔ یہ وقت کا عمل ہے اور جو کچھ ہورہا ہے فطرت کے اصول کے عین مطابق ہورہا ہے، اسے روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی وقت کے پہیے کو الٹا پھیرا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی موسم کا احساس بیان کرتے ہوئے میر صاحب نے کہا تھا:
صد موسمِ گل ہم کو تہِ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اب سوال یہ ہے کہ ایسے بے برگ و بار دنوں میں کیا کیا جانا چاہیے۔ دیکھیے بات یہ ہے کہ اس موسم میں وقت کی منڈیر پر امید کے چراغ اور انسانی سینے کی محراب میں جذبے کی لو کو زندہ رکھنا ہی اصل کام ہے۔ تاریکی اور سکوت موت کا احساس بڑھاتے اور مایوسی پھیلاتے ہیں۔ ان کو روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت بھی ہمیشہ نہیں رہے گا، گزر جائے گا۔ اگر معاشرے میں ادب پڑھنے اور تخلیق کرنے والے موجود ہیں تو پھر آگے چل کر اپنے وقت پر اس میں نئی تحریک کے راستے بھی خود بہ خود پیدا ہوجائیں گے۔ فی الحال تو ادب کو اُس کی حرارت کے ساتھ باقی رکھا جانا اصل کام ہے۔ اس کی ذمے داری ہم پر، یعنی ڈھلتی عمر کے لوگوں پر سب سے بڑھ کر عائد ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے بعد کے لوگوں اور نوجوان نسل کے اندر اپنی روایت کے زندہ عناصر کا شعور پیدا کرنا ہے، ان کے تحفظ کی ضرورت کا احساس دلانا ہے اور نئے لوگوں کو جوڑنا اور مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے اور اپنا جوہر بہ روے کار لانے کا موقع اور اعتماد فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح جیسے اگلے وقت میں ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے یہ سب کام کیے تھے۔ اس لیے کہ فی الحال یہی ہماری تہذیبی اور ادبی بقا کا راستہ ہے۔
بلاشبہ یہ ایک اہم سوال ہے، لیکن اس پر غور کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ کم سے کم ایک ڈیڑھ بات تو بالکل صاف لفظوں میں سمجھ لی جائے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ایسا کوئی بھی خیال یا سوال اگر آج کسی کے ذہن میں آرہا ہے تو چاہے اُس کے اسباب جو بھی ہوں، مگر اُسے اور اس کے ساتھ دوسروں کو بھی جان لینا چاہیے کہ یہ کوئی طبع زاد یا بالکل نیا اور اچھوتا خیال نہیں ہے۔ صرف گزشتہ چار دہائیوں ہی کو سامنے رکھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان ہندوستان دونوں جگہ اس سوال کی گونج کئی بار سنی گئی ہے۔ آلِ احمد سرور، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر اسلوب احمد انصاری فضیل جعفری کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی اپنے اپنے انداز سے اس ضمن میں اپنا ممکنہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔
آلِ احمد سرور طرزِ احساس کی تبدیلی کے ذریعے نئے ادب کی تخلیق کے خواہاں تھے۔ وزیر آغا نظم کی کروٹوں میں اس کا سراغ پاتے اور امتزاجی تنقید سے اس کے لیے راہ ہموار کرتے رہے۔ اسلوب احمد انصاری فکشن اور فضیل جعفری نئی دنیا کے حقائق کے ذریعے نئے ادب کا رستہ دیکھتے تھے۔ البتہ جمیل جالبی نے اس ضمن میں سب سے زیادہ کام کیا۔ انھوں نے اس دور میں تخلیق کیے جانے والے ادب کا مطالعہ و محاکمہ کیا اور من حیث المجموع اُس کے اور بالخصوص غزل، نظم اور افسانے کے ژولیدہ اور پژمردہ ہونے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے ان کو مسترد کیا اور کہا کہ اب نئی تحریک ہی ان اصناف میں نئی روح پھونک کر انھیں تازہ کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے نئی تنقید کے خطوط متعین کیے اور کہا کہ وہ اس سے اسی طرح کام لینے کے خواہاں ہیں جیسے سائنس سے لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس خیال کا بالکل کھلے بندوں اظہار کیا کہ یہ تنقید نئے شعور کو جنم دینے اور نئی ادبی تحریک کو ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔ مختصر یہ کہ نئی ادبی تحریک کی ضرورت ہمارے یہاں کم سے کم پچھلے چار عشروں سے محسوس کی جارہی ہے۔
دوسرے یہ کہ تہذیب، سماج اور ادب میں تبدیلی کی ہوائیں تو وقتاً فوقتاً چلتی رہتی ہیں اور ان ہواؤں کے اثرات بھی وقت کے عمل میں نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن جسے انقلابی درجے کی تبدیلی کہا جاتا ہے، جس کے بعد منظرنامہ بالکل بدل کر رہ جائے اور نئے رجحانات و امکانات ایک تحریک کی صورت گری کرتے دکھائی دیں، وہ چیزے دگر ہوتی ہے۔ یہاں سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ادب یا تہذیب کی سطح پر انقلابی تغیر یا نئی تحریک کا یہ تناظر کسی فرد کی ذاتی خواہش و کوشش اور اعلانات سے قائم ہوتا ہے اور نہ ہی رونما۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ہمارے یہاں گزشتہ نصف صدی میں ایک نہیں، کئی ایک تحریکیں ادب میں جنم لے چکی ہوتیں۔ اس لیے کہ نئی ادبی تحریک کے حوالے سے جن لوگوں نے ضرورت کا اظہار کیا تھا، وہ سب ہمارے ادب کے نمائندہ افراد تھے اور اس ضمن میں انھوں نے اپنے اپنے دائرۂ فکر و فن میں نہ صرف خود کام کیا تھا، بلکہ دوسروں کے لیے ایک لائحۂ عمل بھی بنایا اور اُن خطوط کا تعین بھی کیا جن پر کام کرکے نئی تحریک کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
اب اگر یہ سب انفرادی کوششیں کام یاب نہیں ہوپائیں، اور ہمارے یہاں کوئی نئی ادبی تحریک اس عرصے میں سامنے نہیں آئی تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اس نوع کے کسی بھی کام کے پس منظر میں انفرادی خواہشیں اور کوششیں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ جس تہذیب اور معاشرے میں ایسا ہوتا ہے وہاں بہ یک وقت متعدد عوامل اور محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ خارجی ہوتے ہیں اور کچھ داخلی۔ ان میں سب سے قوی محرک اجتماعی روح کا وہ مطالبہ ہوتا ہے جو ایک طرف شعورِ عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنی روایت کے زندہ عناصر سے مملو بھی۔ اس لیے کہ کوئی بھی تحریک خواہ وہ تہذیبی ہو یا سماجی، فکری ہو یا ادبی پہلے اجتماعی باطن میں اپنی ضرورت اور وقعت کا احساس پیدا کرتی ہے، بعدازاں ظاہر میں اس کے نقوش اور اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ کام وہ اپنی تہذیب کے زندہ عناصر کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے ہی کرسکتی ہے، ان کے بغیر نہیں۔
اچھا تو سوچا جانا چاہیے کہ کسی سماج یا اس کے کسی تہذیبی مظہر، مثلاً ادب میں کوئی نئی تحریک پیدا کس وقت ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب خاصی تفصیل چاہتا ہے، لیکن مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں جب کسی سماج کی روح یہ محسوس کرتی ہے کہ مروّجہ اسالیب و افکار یہاں تک کہ الفاظ اور اُن کے رائج معانی، سب کے سب اُس کی قوت کو سہارنے اور ابھارنے سے قاصر ہیں، اُس کی کیفیات کی تفہیم و ابلاغ سے عاری ہیں اور اُس کے مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں تو بس پھر اجتماعی لاشعور میں وہ عمل شروع ہوجاتا ہے جو آگے چل کر کسی تحریک کو جنم دیتا ہے۔ یہاں ایک مثال سے بات ذرا واضح ہوپائے گی۔ کسی سماج یا تہذیب میں کوئی نئی تحریک اسی طرح پیدا ہوتی جس طرح ایک کونپل چٹان کا سینہ چیر کر رونما ہوتی ہے۔ جب تک وہ ظاہر نہیں ہوجاتی، اُس وقت تک دیکھنے والوں کو یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ چٹان میں کسی جگہ ایسا کوئی شگاف پڑ سکتا ہے اور وہاں سے ایک نازک سی کونپل بھی سامنے آسکتی ہے۔ اِس عمل میں کئی ایک فیکٹرز مکمل خاموشی، لیکن مؤثر انداز سے اپنا کردار ادا کرتے اور مل کر اُس قوت کو متحرک کرتے ہیں جو اس عمل کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔
ملکوں کی سماجی و تہذیبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اِس قوت کا ایک نام نژادِ نو بھی ہے۔ نئی نسل کے متحرک اور زرخیز لوگ اپنے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی مظاہر اور اُن کے سیاق میں اپنے یہاں موجود بیانیے سے جب مکمل ناآسودگی اور سخت الجھن محسوس کرتے اور اسے اپنی راہ میں حائل دیکھتے ہیں تو اس کے خلاف بغاوت پر مائل ہوتے ہیں۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن موجود نظام، رویے اور صورتِ حال انھیں اس کا موقع دیتی نظر نہیں آتی۔ تب اپنے اظہار کے لیے اور اپنا لوہا منوانے کے لیے جو کچھ رائج ہے، اس سے ٹکرانا اور اس کی نفی کرنا ان کے داخل کا ایک ناگزیر باطنی مطالبہ بن جاتا ہے۔ یہ کام ایسے ہی ہوتا ہے جیسے اچھے خاصے پُرسکوت نظر آنے والے پہاڑوں میں اندر ہی اندر ایک لاوا پکتا رہتا ہے جو ایک خاص مرحلے پر اس طرح باہر آتا ہے کہ پھر روکے نہیں رکتا اور کسی شے کو اپنی راہ میں حائل نہیں رہنے دیتا۔ تاہم تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ کسی سماج میں نفی کا یہ عمل صرف اسی صورت میں بعدازاں اثبات کی بنیاد بن سکتا ہے، یعنی ایک نئی تحریک پیدا کرسکتا ہے جب اس باغی نژادِ نو کے پاس نہ صرف تخلیقی قوت اور کہنے کے لیے کچھ نیا ہو، بلکہ اُس نے بغاوت اور انہدام سے پہلے پورے شعور کے ساتھ اپنی روایت کے زندہ عناصر کو بھی اپنے اندر جذب کرلیا ہو۔
یہ تو ہوئے کسی سماج میں ایک نئی تحریک کو جنم دینے والے عوامل اور لوازم۔ آئیے اب ذرا دیکھتے ہیں کہ ہمارا عصری ادبی و سماجی منظرنامہ کیا نقشہ دکھا رہا ہے؟ کیا وہاں پر ایسے کچھ حالات دکھائی دے رہے ہیں جو کسی نئی تحریک کے رونما ہونے اور معاشرے میں نئے رنگ و آہنگ کے ابھرنے کا سامان مہیا کرتے اور راستہ بناتے ہیں؟ یہاں ہمیں چند باتوں پر غور کرنا ہوگا، مثلاً یہ کہ گذشتہ دو عشروں میں نژادِنو کی ہمارے ادب میں جو دو نئی صفیں شامل ہوئی ہیں، کیا وہ اس تخلیقی قوت کی حامل ہیں کہ اس روایت کے دھارے کو اپنی ضرورت اور خواہش کے تحت کوئی نیا رخ دے سکیں؟ کیا ہماری اجتماعی روح اپنے اظہار و اثبات کے لیے کسی نئے شعور کی متقاضی ہے؟
کیا تہذیب و سماج کے خارجی عناصر ایسے کسی مطالبے کے آثار ظاہر کررہے ہیں؟ کیا وقت کی شاہراہ پر ہمیں اپنے اندر یا کہیں باہر فکر و احساس کے کسی نئے کارواں کی چاپ سنائی دے رہی ہے؟ کیا ادب اور سماج میں ہمارے یہاں اس وقت وہ رشتہ ہے جو اجتماعی شعور کو کسی نئی سمت میں بڑھنے کے لیے درکار قوت فراہم کرسکے؟ کیا اس وقت ہمارے یہاں اپنے فکری بیانیہ اور تخلیقی رویوں سے عدم اطمینان کا احساس نمایاں ہورہا ہے، اگر ایسا ہے تو کیا اس کی بنیاد شعور کی کسی نئی تشکیل پر ہے؟ کیا ادب کی نئی تحریک سے ہم اپنی تہذیب کی بقا و استحکام اور اس کے مظاہر کی تجدید چاہتے ہیں؟ یہ اور ایسے ہی بعض دوسرے سوالوں پر ہمیں بالالتزام اور تفصیلاً غور کے بعد ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن نکتہ حاصل ہوسکتا ہے۔ تاہم اجمالاً ان سب سوالوں کا ہمارے پاس فی الجملہ جواب ہے، نہیں۔ ہر سوال کے سیاق میں اس 'نہیں' کے اسباب بے شک الگ ہوں گے، لیکن آخر میں ہمیں جواب اسی 'نہیں' کی صورت میں ملے گا۔
یہ تو نہیں کہا جانا چاہیے کہ اس وقت ہمارے یہاں ادب تخلیق نہیں ہورہا۔ یقینا ہورہا ہے اور اُس میں اچھا اور معیاری ادب بھی بہرحال نظر آتا ہے، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس کا تناسب کچھ بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہمارے یہاں سماج اور ادب کا رشتہ بھی آج بہرحال اب وہ نہیں ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا جس کی جدلیاتی فضا دونوں طرف اثرات کا ثبوت فراہم کرتی تھی۔ ٹھیک ہے، لوگ اب بھی پڑھتے ہیں، ادب پر سوچتے اور بات کرتے ہیں، مگر یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ اب ادب اور ادیب ہمارے سماجی منظرنامے کے مرکز میں نہیں رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ سرکتے ہوئے اب تو وہ حاشیے پر آگئے ہیں۔ یہ احساس ہمیں گہرے اضطراب میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس لیے کوئی مضائقہ نہیں اگر ہم یہاں گھڑی بھر کو رک جائیں اور ذرا عالمی تناظر میں ادب، بلکہ جملہ تہذیبی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈال لیں۔ تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں، سو اختصار کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ادب اور تہذیب سے اغماض کا یہ رویہ آج صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، بلکہ اس وقت یہ ایک گلوبل فینومینا ہے۔
تہذیبیں اور اُن کے مظاہر عالمی تناظر میں روگردانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ عہدِجدید اس وقت انسانی فکر و احساس کا پورا پیراڈائم تبدیل کررہا ہے، بلکہ بڑی حد تک کرچکا ہے۔ آج انسانی زندگی میں اشیا، افکار اور افراد کی ضرورت و اہمیت کا معیار اس حد تک بدل چکا ہے کہ گذشتہ زمانے کے اصولوں اور معیاروں سے اس عہد کی صورتِ حال کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی حکم لگایا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا عہد مادّے کی فتح مندی کا زمانہ ہے۔ ادب جیسی غیرمادّی چیزیں اس عہد کی ضرورت ہی نہیں رہیں۔ اس لیے ہمارے یہاں، بلکہ پوری دنیا میں اب عام آدمی کی توجہ کا اس سے ہٹ جانا اور ادیب شاعر کا سماج کے اقداری نظام کے مرکز سے نکل کر حاشیے پر منتقل ہوجانا کتنی ہی افسوس ناک ہو، لیکن اچنبھے کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔
اب رہ گئی بات ہمارے یہاں نژادِنو کی تو آپ اور ہم سب ہی مل کر یہ دیکھ رہے ہیں کہ اُس میں غالب اکثریت اوّل تو ادب سے کوئی سروکار نہیں رکھتی، اور اگر ان میں کچھ فی صد لوگ ایسے ہیں جو ادب سے کچھ تعلق جوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ بھی ادب سے زیادہ اصل میں اس کی سماجیات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اُن کے نزدیک ادب مقصود بالذات نہیں ہے، جیسے کبھی ہماری روایت میں ہوا کرتا تھا، بلکہ وہ تو اب کچھ اور مقاصد کی تکمیل اور دوسرے اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ رویہ بھی محض مقامی نہیں، بلکہ عالمی تناظر میں سامنے آیا ہے۔ اب جب کہ حقائق اور احوال نامہ یہ ہے تو ادب میں یا پھر اس وقت یا مستقبل قریب میں کسی نئی تحریک کے رونما ہونے کا احساس سراسر خیالِ خام کے سوا بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔
غرضے کہ اب اپنی قومی صورتِ حال دیکھیے یا عالمی سطح پر نگاہ کیجیے، دونوں طرف منظر یہی بتاتا ہے کہ تہذیب و ادب، بلکہ جملہ ثقافتی اوضاع و مظاہر پر اس وقت پت جھڑ کا موسم ہے۔ خالی پن اور سناٹا بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس موسم میں برگ و بار نہیں آتے۔ چہچہے سنائی دیتے ہیں اور نہ ہی شگوفے کہیں پھوٹتے ہیں۔ یہ وقت کا عمل ہے اور جو کچھ ہورہا ہے فطرت کے اصول کے عین مطابق ہورہا ہے، اسے روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی وقت کے پہیے کو الٹا پھیرا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی موسم کا احساس بیان کرتے ہوئے میر صاحب نے کہا تھا:
صد موسمِ گل ہم کو تہِ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اب سوال یہ ہے کہ ایسے بے برگ و بار دنوں میں کیا کیا جانا چاہیے۔ دیکھیے بات یہ ہے کہ اس موسم میں وقت کی منڈیر پر امید کے چراغ اور انسانی سینے کی محراب میں جذبے کی لو کو زندہ رکھنا ہی اصل کام ہے۔ تاریکی اور سکوت موت کا احساس بڑھاتے اور مایوسی پھیلاتے ہیں۔ ان کو روکنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت بھی ہمیشہ نہیں رہے گا، گزر جائے گا۔ اگر معاشرے میں ادب پڑھنے اور تخلیق کرنے والے موجود ہیں تو پھر آگے چل کر اپنے وقت پر اس میں نئی تحریک کے راستے بھی خود بہ خود پیدا ہوجائیں گے۔ فی الحال تو ادب کو اُس کی حرارت کے ساتھ باقی رکھا جانا اصل کام ہے۔ اس کی ذمے داری ہم پر، یعنی ڈھلتی عمر کے لوگوں پر سب سے بڑھ کر عائد ہوتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے بعد کے لوگوں اور نوجوان نسل کے اندر اپنی روایت کے زندہ عناصر کا شعور پیدا کرنا ہے، ان کے تحفظ کی ضرورت کا احساس دلانا ہے اور نئے لوگوں کو جوڑنا اور مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو ابھرنے اور اپنا جوہر بہ روے کار لانے کا موقع اور اعتماد فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح جیسے اگلے وقت میں ہمارے بڑوں نے ہمارے لیے یہ سب کام کیے تھے۔ اس لیے کہ فی الحال یہی ہماری تہذیبی اور ادبی بقا کا راستہ ہے۔