اپنے آپ سے لڑتا بھارت
شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں جاری علیحدگی پسند تحریکیں
بھارت کے طول و عرض میں اس وقت درجنوں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں جن میں سے کچھ اندرونی خودمختاری اور بقیہ بھارت سے آزادی کی خواہش مند ہیں۔ نریندر مودی کے دورِحکومت میں تو ان علاقوں کو '''نو گو ایریاز'' کے طور پر برتا جا رہا ہے۔
ان تحریکوں سے جڑی خبروں کو نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ وہاں کا بکاؤ میڈیا بھی منظرِعام پر نہیں لاتے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ''سچ چھپائے نہیں چھپتا''، حقیقت کُھل کر رہتی ہے۔ کئی نڈر، بے باک اور ذمہ دار صحافیوں نے پوری دنیا کو بھارتی ظلم و بربریت کی وہ داستانیں سنائی ہیں کہ ''بھارت ماتا'' کے پُجاریوں کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا ہے، امریکا تک اس کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگیا ہے اور بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک میں اونچے درجے پر فائز کیا گیا ہے۔
کشمیر، خالصتان اور ماؤنواز تحریکوں کے بارے میں تو بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن بھارت کی '' 7 ریاستی بہنوں'' میں غریب عوام پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں سات ریاستیں واقع ہیں جنہیں '' سات ریاستی بہنیں'' بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھا لیہ، میزورام، ناگالینڈ اور تری پورہ شامل ہیں۔ سِکم، جسے اکثر لوگ ان ریاستوں کا حصہ سمجھتے ہیں ان سے ہٹ کر واقع ہے۔ ان ریاستوں کا مجموعی رقبہ 262،230 کلومیٹر اسکوائر ہے جب کہ مجموعی آبادی 45،772،188 ہے۔ ان ریاستوں کے لوگوں میں اکثریت بدھ مت اور عیسائیت کی پیروکار ہے۔ نہ صرف ان کا مذہب بلکہ ان کی زبان، تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور نسل تک ہندو اور ہندوستانیوں سے مختلف ہے۔ یہ چینی نسل کے لوگ ہیں جن کو خود بھارت کے اندر بھی تعصب کا سامنا ہے۔
ہند چینی کا یہ خطہ جو بھارت، چین، بھوٹان اور برما کے بیچ میں واقع ہے، ماضی میں کبھی بھارت کا حصہ نہ تھا اور آج بھی یہ بھارت کے مرکزی حصے سے الگ 22 کلومیٹر کی ایک چھوٹی سی تنگ زمینی پٹی ''سلیگوری کوریڈور'' (جسے دنیا کے نقشے پر اپنی تنگی و باریکی کی وجہ سے چوزے کی گردن بھی کہا جاتا ہے) سے جُڑا ہے۔ یہاں کے ابتدائی آبادکاروں کا تعلق ''جنوب مشرقی ایشیا'' سے تھا، جن کے بعد قبلِ مسیح کے دور میں تبت اور برما کے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ یہ ہمیشہ سے ہی ''قبائلی علاقہ'' رہا ہے جہاں مختلف قبائل اپنے اپنے رنگ ڈھنگ اور الگ الگ ثقافتوں کے ساتھ ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ برطانوی سام راج نے بیسویں صدی کے اوائل میں ان علاقوں کو باقاعدہ طور پر ریاستوں کی شکل دی۔ اس وقت تک یہ علاقے اپنے روایتی تجارتی حلیفوں، بھوٹان اور میانمار سے کٹ چکے تھے۔ برطانوی سام راج میں، موجودہ دور کے میزورام، میگھالیہ اور ناگالینڈ کے لوگوں کو عیسائی مشنریوں نے عیسائیت کی تعلیم دی اور ان کو عیسائی بنا دیا۔
آئینے ان ریاستوں اور ان میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔
اروناچل پردیش:
بھوٹان، بھارت، برما اور چین کے بیچ سینڈوچ بنی یہ ریاست اپنے برف پوش پہاڑوں اور خوب صورت نظاروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ ریاست کے ایک بڑے رقبے پر چین دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اس کی ملکیت ہے۔ 1962 کی جنگ کے بعد چین نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن جلد ہی اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے چین ''میکموہن لائن'' پر واپس چلا گیا، جو انڈیا اور چائنا کی بین الاقوامی سرحد ہے، لیکن آج بھی چین کے نقشوں پر یہ علاقہ تبت کے جنوبی حصے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
اس علاقے کا پرانا نام ''شمال مشرقی سرحدی ایجنسی'' تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ''یونین'' کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ''نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ'' اور''اروناچل ڈریگن فورس'' سرِفہرست ہیں۔ یہ تحریکیں علاقے کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ''ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ'' بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ''برٹش تولا کاؤنٹی'' تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔
اس علاقے میں بھارتی فوجوں کو نہ صرف چین کی طرف سے دراندازی کا خطرہ لاحق ہے بلکہ وہ اندرونی مزاحمت سے بھی نبرد آزما ہیں۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔
آسام:
سات ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست آسام ، اپنے گھنے جنگلات، برہم پُترا کی وادیوں، تیل کے ذخائر، آسامی ریشم اور چائے کے باغات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکو بنگلہ دیش اور بھوٹان کا بارڈر لگتا ہے جب کہ ''سلیگوری'' نام کی ایک تنگ سی پٹی آسام سمیت تمام ساتوں ریاستوں کو بھارت سے جدا کرتی ہے۔
1824 کی اینگلوبرمی جنگ میں فتح کے بعد یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے1833 میں ''راجا پُرندر سنگھ'' کے حوالے کردیا اور 1838 کے بعد اس کو اپنے تسلط میں لے لیا۔ شروع میں آسام کو بنگال کا حصہ بنایا گیا۔ 1906 میں اسے مشرقی بنگال کے ساتھ ''بنگال اور آسام'' کے نام سے علیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ 1937 میں آسام لیجسلیٹو اسمبلی کی بنیاد رکھی گئی۔ ساتھ ہی برطانوی تاجروں نے وسطی ہندوستان سے مزدوروں کو یہاں لا کر آباد کیا اور آسام کی آبادی میں کام یابی سے ردوبدل کیا۔ بٹوارے کے دوران آسام کا ضلع ''سلہٹ'' مشرقی پاکستان میں شامل کردیا گیا۔
بٹوارے کے بعد ہندوستانی حکومت نے اس صوبے اور یہاں کے قبائل کی طاقت کو توڑنے کے لیے بار بار تقسیم کیا۔ 1963 میں ضلع ''ناگا ہِلز'' میں توینسانگ کا علاقہ ملا کر بھارت کی 16 ریاست ''ناگا لینڈ'' بنادی گئی۔ پھر 1970 میں، سطح مرتفع میگھا لیہ کے لوگوں کے پر زور اسرار پر آسام کے اندر ایک خودمختار ریاست بنائی گئی جو 1972 میں ایک علیحدہ ریاست '' میگھالیہ'' کے نام سے وجود میں آئی۔ 1972 میں ہی میزورام اور اروناچل پردیش کو آسام سے علیحدہ کر کے الگ ریاست بنادیا گیا۔ یوں آسام کی بہت بڑی ریاست سمٹ کر رہ گئی۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مختلف قبائل کا ہے جو وقتاً فوقتاً بھارت سے اپنی آزادی اور خودمختاری کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ 1970 کے بعد سے آسام کی آزادی کے لیے بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں ''یونا ئیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام'' (اُلفا)، ''مسلم لبریشن ٹائیگرز'' ، ''آسام رائفلز'' اور ''نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ بوڈو لینڈ'' شامل ہیں۔ 1990 میں بھارتی فوج نے ان تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کیا جس میں اُلفا کے 12000 جنگجو مارے گئے اور دس سال تک یہ علاقہ جلتا رہا۔ اُلفا مسلح کوشِشوں کے ذریعے ایک آزاد آسامی ریاست کا قیام چاہتی ہے جس میں اسے عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ 1990 میں بھارتی حکومت نے اس تنظیم پر پابندی لگا دی تھی۔ آج تک اس علاقے میں نسلی فسادات عروج پر ہیں اور بھارتی فوج چاہ کر بھی اپنی رٹ یہاں قائم نہیں کرپائی۔
منی پور:
میانمار کے مشرق میں واقع ریاست منی پور اپنے لوک رقص اور ثقافتی رنگوں کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ برطانوی راج اور اس سے پہلے یہ ریاست ایک '' شاہی ریاست'' تھی۔ منی پور نے انگریز دور میں ''برما'' کی بجائے ''ہندوستان'' میں ضم ہونے کو ترجیح دی۔ 1949 میں ''مہاراجا بُدھا چندرا'' نے ریاست کا الحاق بھارت سے کردیا جس پر مختلف ریاستی گروہوں کو شدید تحفظات تھے۔ یہی تحفظا ت آنے والے 50 سالوں میں ریاست میں بدامنی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی کارروائیوں کی وجہ بنے۔ 2010 سے 2013 کے درمیان ان ہنگاموں اور کارروائیوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ منی پور میں 53 فی صد لوگ ''میٹی'' قوم جب کہ 20 فی صد مختلف قبائل سے ہیں۔ ہندومت کے ساتھ ساتھ بدھ مت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والے بھی یہاں بستے ہیں۔ یہاں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کی دو اقسام ہیں، قبائلی عوام اور شہری عوام۔
تمام تحریکوں ''منی پور پیپلز لبریشن آرمی''، ''یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ'' اور ''پیپلز فرنٹ آف منی پور'' کی آواز ایک ہی ہے، ریپبلک آف منی پور کی آزاد ریاست کا قیام۔
میگھالیہ:
بنگلادیش اور آسام کے درمیان واقع ''مشرق کے اسکاٹ لینڈ'' میگھا لیہ کو اگر موسلا دھار بارشوں، جنگلات اور بادلوں کی سر زمین کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ریاست کے 70 فی صد رقبے پر ایسے جنگلات ہیں جہاں بھارت میں ریکارڈ بارش ہوتی ہے۔ یہ بھارت کی وہ ریاست ہے جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں۔
1972 میں آسام کے ''خاصی''، ''گارو'' اور ''جینتیا '' ضلعوں کو ملا کر ریاست میگھالیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور حیرت انگیز طور پر انگریزی ریاستی سرکاری زبان قرار پائی۔ برٹش راج سے پہلے بھی خاصی، گارو اور جینیتا قبائل کی اپنی الگ الگ ریاستیں تھیں جنہیں پہلے آسام اور پھر صوبہ مشرقی بنگال و آسام کا حصہ بنادیا گیا۔ لیکن تب بھی اس علاقے کو ''نیم خودمختار'' ریاست کا درجہ حاصل رہا۔
شروع شروع میں تو میگھالیہ کے قیام کو ایک ''وسیع بھارتی ریاست میں الگ قومیت کے انضمام'' کی مثال کے طور پر بہت سراہا گیا لیکن جلد ہی اس غبارے کی ہوا نکل گئی جب مقامی قبائل کے درمیان ایک قوم کے طور پر ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی اور بھارتی قوم پرستی، خاصی اور گارو قوم پرستیوں کے مدِمقابل آ کھڑی ہوئی۔ دوسری ریاستوں میں موجود قوم پرستی اور لسانیت پرستی نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ قبائل کے آپسی لڑائی جھگڑوں سے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے اور میگھالیہ میں مختلف علیحدگی پسند گروہوں (اے ام ایل اے، ایچ این ایل سی) نے جنم لیا۔
میزورام:
آبشاروں، جھیلوں، وادیوں اور پرانی رسومات کی سرزمین میزورام ، برما اور بنگلادیش کی سرحدوں کے ساتھ واقع ہے۔ اس کے معنی ہیں ''میزو کی سرزمین''۔ دیگر ریاستوں کی طرح 1972 تک میزورام بھی پہلے آسام کا حصہ تھی جب اسے آسام سے نکال کر ایک یونین اور پھر 1987 میں بھارت کی تئیسویں ریاست بنایا گیا۔ یہ بھارت کی دوسری کم آبادی والی ریاست ہے۔
ریاست کے 95 فی صد باشندوں کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے مختلف قبیلوں سے ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ قبائل اس ریاست میں رہتے ہیں۔ اور میزورام بھارت کی تین ''عیسائی اکثریتی'' ریاستوں میں سے ایک ہے۔
ریاست میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ باہر سے آنے والے آسامی لوگوں کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور مقامی ''میزو'' قبائل کا نظرانداز ہونا ہے۔ یہاں بسنے والے قبائل ہمارس، چکماس، بروس، لائیس اور ریانگس حکومت سے علیحدگی اور خودمختاری کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ''میزورام فارمرز لبریشن فورس'' اور ''زومی انقلابی تحریک'' بڑے علیحدگی پسند گروہ ہیں۔
ناگا لینڈ:
آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے چھوٹی ریاست ''ناگا لینڈ'' اروناچل پردیش، آسام، منی پور اور برما کے درمیان واقع ہے۔ اس ریاست میں 16 قبائل رہتے ہیں جو زبان، رسم و رواج اور پہناوے تک میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔زیادہ تر آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔
تقسیم کے بعد ناگالینڈ ریاست آسام کا حصہ تھا، 1963 میں اسے علیحدہ ریاست بنادیا گیا۔ اگرچہ ناگا قوم کی خودمختاری اور آزادی کے بھرپور مطالبے کے بعد اسے الگ ریاست بنایا گیا لیکن اس کے پس پردہ جہاں ایک طرف بھارت آسام کی قوت کو کم کرنا چاہتا تھا وہیں دوسری طرف ناگا قبائل کو اپنے آئین کے تحت لانا چاہتا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے عزائم پورے نہ ہوسکے آسام میں اب بھی بغاوت جاری ہے اور ناگالینڈ علیحدہ ریاست بن جانے کے باوجود بھارتی آئین کو ماننے سے انکاری ہے۔ اور یہاں بھی بقیہ 6 ریاستوں کی طرح آزادی کی زبردست تحریک جاری ہے۔ناگا قوم، ناگالینڈ، آسام اور برما تک پھیلی ہوئی ہے۔
ناگالینڈ کا علاقہ آزادی سے قبل بھی انتہائی پسماندہ تھا لیکن انگریزوں نے اس علاقے کو فروغِ عیسائیت کے لیے تر نوالہ سمجھتے ہوئے ترقی دی اور عیسائی مشنریز نے یہاں کے لوگوں کو تعلیم و صحت کے بدلے میں عیسائیت کی تبلیغ کی۔ تبھی آج اس ریاست میں (میگھالیہ اور میزورام کی طرح) عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے۔
1947 میں جب ناگا قوم نے بھارت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کا اعلان کیا تب بھارت نے کشمیر، حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح اس علاقے پر بھی فوج کشی کردی۔ بہت سے ناگا نوجوان مارے گئے لیکن حریت پسندوں کی بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت ختم نہ ہوئی اور ایک بار پھر 1955 میں ناگا قوم نے بھارت سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ بھارت نے اسے بغاوت تصور کرتے ہوئے ناگا قوم پر ایک بار پھر جنگ مسلط کردی۔ ناگا لینڈ میں بھرپور زمینی اور فضائی کارروائی کی گئی اور کئی دیہات کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ناگا قوم کے لوگ مارے گئے اور بہت سوں کو سپردِزنداں کردیا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ''ناگے'' خاموش نہیں بیٹھے اور احتجاج شروع کردیا۔ تنگ آ کر بھارت نے 1963 میں ناگالینڈ کو آسام سے علیحدہ کر کے ایک الگ ریاست بنادیا۔ ناگوں کی بھارت سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور یہ بھارت سے سوائے آزادی کے کسی چیز پر سمجھوتے کو تیار نہ تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ کشمیریوں کے بعد اگر کسی نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا ہے تو بلاشبہ وہ ناگا قوم ہے۔
ناگالینڈ میں ''ناگا نیشنل کونسل'' ، ''نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ'' اور ''ناگامی فیڈرل آرمی'' کے نام سے مسلح تنظیمیں موجود ہیں۔ ناگالینڈ کے عیسائی ہونے کی وجہ سے یورپ کے عیسائی ممالک بھی ان کی حمایت کرتے ہیں خاص طور پہ فرانس اور جرمنی جب کہ ناگالیڈروں نے نیدرلینڈ میں اپنی جلاوطن حکومت کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ تمام 7 ریاستوں میں ناگالینڈ کی تحریک نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی طور پر بھی مضبوط ہے۔ ناگا قوم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے دشمن کے سر کاٹ کہ اسے محفوظ کر لیتے ہیں۔ ناگے بھارت کا سر کاٹتے ہیں یا بھارت انکا سر کچلنے میں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
تری پورہ:
تری پورہ کی شاہی ریاست وہ آخری ریاست تھی جس نے حکومتِ ہندوستان سے 1949 میں الحاق کیا۔ اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تری پورہ کی ریاست تین اطراف سے بنگلادیش سے یوں گِھری ہے جیسے کسی ماں نے بچے کو گود میں لے رکھا ہو۔
تری پورہ میں بدامنی اور سرکشی کی تاریخ 1970 سے شروع ہوتی ہے جب قرب و جوار کے بنگالیوں نے اس علاقے میں منتقل ہونا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بنگالیوں نے یہاں کی آبائی اقوام اور قبائل کو اقلیت میں بدل دیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان قبائل کی روایتوں اور ثقافت کو نقصان پہنچا بلکہ ان کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں بھی انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ باہر سے آبسنے والے بنگالیوں کے خلاف
ریاست کے لوگوں میں نفرت پنپتی رہی اور آخر تری پورہ کے باسیوں نے بھی اپنی بقا کے لیے ہتھیار اٹھالیے۔
مارچ 1989 میں ''نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ'' اور1990 میں ''آل تریپورہ ٹائیگر فورس'' کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان گروہوں کے قیام کا واحد مقصد صرف ''بنگالی مہاجروں'' کا ریاست سے اخراج تھا لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور ناانصافیوں سے تنگ آ کر ان تنظیموں نے اپنا دائرہ کار وسیع کرلیا۔
شمال مشرقی ریاستوں یا ''سات بہنوں'' کا علاقہ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہ تھا۔ ہمیشہ سے یہ علاقے یا تو خودمختار رہے ہیں یا ان پر مختلف قبائل اور راجوں نے حکومت کی ہے۔ اس علاقے کے ایک طرف ایشیا کا ''منگول'' حِصہ جب کہ دوسری جانب ایشیا کا ''آرین'' حِصہ ہے۔ یہاں کہ لوگ نہ صرف نسلی طور پر، بلکہ مذہبی، معاشرتی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پر جنوب مشرقی ایشیا، تبت اور برما سے جڑے ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ ان علاقوں پر بھارت کے جبری قبضے کا نوٹس لے اور آزادی کی ان تحریکوں کی مالی و اخلاقی مدد کرے۔
ان تحریکوں سے جڑی خبروں کو نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ وہاں کا بکاؤ میڈیا بھی منظرِعام پر نہیں لاتے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ ''سچ چھپائے نہیں چھپتا''، حقیقت کُھل کر رہتی ہے۔ کئی نڈر، بے باک اور ذمہ دار صحافیوں نے پوری دنیا کو بھارتی ظلم و بربریت کی وہ داستانیں سنائی ہیں کہ ''بھارت ماتا'' کے پُجاریوں کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آ گیا ہے، امریکا تک اس کی مذمت کرنے پر مجبور ہوگیا ہے اور بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک میں اونچے درجے پر فائز کیا گیا ہے۔
کشمیر، خالصتان اور ماؤنواز تحریکوں کے بارے میں تو بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن بھارت کی '' 7 ریاستی بہنوں'' میں غریب عوام پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں سات ریاستیں واقع ہیں جنہیں '' سات ریاستی بہنیں'' بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھا لیہ، میزورام، ناگالینڈ اور تری پورہ شامل ہیں۔ سِکم، جسے اکثر لوگ ان ریاستوں کا حصہ سمجھتے ہیں ان سے ہٹ کر واقع ہے۔ ان ریاستوں کا مجموعی رقبہ 262،230 کلومیٹر اسکوائر ہے جب کہ مجموعی آبادی 45،772،188 ہے۔ ان ریاستوں کے لوگوں میں اکثریت بدھ مت اور عیسائیت کی پیروکار ہے۔ نہ صرف ان کا مذہب بلکہ ان کی زبان، تہذیب و ثقافت، رسم و رواج اور نسل تک ہندو اور ہندوستانیوں سے مختلف ہے۔ یہ چینی نسل کے لوگ ہیں جن کو خود بھارت کے اندر بھی تعصب کا سامنا ہے۔
ہند چینی کا یہ خطہ جو بھارت، چین، بھوٹان اور برما کے بیچ میں واقع ہے، ماضی میں کبھی بھارت کا حصہ نہ تھا اور آج بھی یہ بھارت کے مرکزی حصے سے الگ 22 کلومیٹر کی ایک چھوٹی سی تنگ زمینی پٹی ''سلیگوری کوریڈور'' (جسے دنیا کے نقشے پر اپنی تنگی و باریکی کی وجہ سے چوزے کی گردن بھی کہا جاتا ہے) سے جُڑا ہے۔ یہاں کے ابتدائی آبادکاروں کا تعلق ''جنوب مشرقی ایشیا'' سے تھا، جن کے بعد قبلِ مسیح کے دور میں تبت اور برما کے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ یہ ہمیشہ سے ہی ''قبائلی علاقہ'' رہا ہے جہاں مختلف قبائل اپنے اپنے رنگ ڈھنگ اور الگ الگ ثقافتوں کے ساتھ ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ برطانوی سام راج نے بیسویں صدی کے اوائل میں ان علاقوں کو باقاعدہ طور پر ریاستوں کی شکل دی۔ اس وقت تک یہ علاقے اپنے روایتی تجارتی حلیفوں، بھوٹان اور میانمار سے کٹ چکے تھے۔ برطانوی سام راج میں، موجودہ دور کے میزورام، میگھالیہ اور ناگالینڈ کے لوگوں کو عیسائی مشنریوں نے عیسائیت کی تعلیم دی اور ان کو عیسائی بنا دیا۔
آئینے ان ریاستوں اور ان میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں مزید جانتے ہیں۔
اروناچل پردیش:
بھوٹان، بھارت، برما اور چین کے بیچ سینڈوچ بنی یہ ریاست اپنے برف پوش پہاڑوں اور خوب صورت نظاروں کے حوالے سے مشہور ہے۔ ریاست کے ایک بڑے رقبے پر چین دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اس کی ملکیت ہے۔ 1962 کی جنگ کے بعد چین نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن جلد ہی اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے چین ''میکموہن لائن'' پر واپس چلا گیا، جو انڈیا اور چائنا کی بین الاقوامی سرحد ہے، لیکن آج بھی چین کے نقشوں پر یہ علاقہ تبت کے جنوبی حصے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔
اس علاقے کا پرانا نام ''شمال مشرقی سرحدی ایجنسی'' تھا جسے 1972 میں بدل کہ اروناچل پردیش کر دیا گیا۔ فروری 1987 کو اسے ''یونین'' کی بجائے بھارت کی ریاست کا درجہ ملا۔ اروناچل پردیش میں بہت سی علیحدگی پسند تحریکیں ہیں جو برسوں سے بھارتی تسلط سے آزادی چاہتی ہیں۔ ان میں ''نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ'' اور''اروناچل ڈریگن فورس'' سرِفہرست ہیں۔ یہ تحریکیں علاقے کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتی ہیں۔ اروناچل ڈریگن فورس جسے ''ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ'' بھی کہا جاتا ہے، ایک مسلح تنظیم ہے جس کا مقصد ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ہے جیسی برٹش راج میں ''برٹش تولا کاؤنٹی'' تھی جس میں اروناچل پردیش کے ساتھ آسام بھی شامل تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو چین کی حمایت حاصل ہے۔
اس علاقے میں بھارتی فوجوں کو نہ صرف چین کی طرف سے دراندازی کا خطرہ لاحق ہے بلکہ وہ اندرونی مزاحمت سے بھی نبرد آزما ہیں۔ آسام اور دیگر ریاستوں سے اروناچل پردیش میں داخل ہونے کے لیے بھی خاص اجازت نامہ درکار ہے۔
آسام:
سات ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست آسام ، اپنے گھنے جنگلات، برہم پُترا کی وادیوں، تیل کے ذخائر، آسامی ریشم اور چائے کے باغات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکو بنگلہ دیش اور بھوٹان کا بارڈر لگتا ہے جب کہ ''سلیگوری'' نام کی ایک تنگ سی پٹی آسام سمیت تمام ساتوں ریاستوں کو بھارت سے جدا کرتی ہے۔
1824 کی اینگلوبرمی جنگ میں فتح کے بعد یہ علاقہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے1833 میں ''راجا پُرندر سنگھ'' کے حوالے کردیا اور 1838 کے بعد اس کو اپنے تسلط میں لے لیا۔ شروع میں آسام کو بنگال کا حصہ بنایا گیا۔ 1906 میں اسے مشرقی بنگال کے ساتھ ''بنگال اور آسام'' کے نام سے علیحدہ صوبہ بنایا گیا۔ 1937 میں آسام لیجسلیٹو اسمبلی کی بنیاد رکھی گئی۔ ساتھ ہی برطانوی تاجروں نے وسطی ہندوستان سے مزدوروں کو یہاں لا کر آباد کیا اور آسام کی آبادی میں کام یابی سے ردوبدل کیا۔ بٹوارے کے دوران آسام کا ضلع ''سلہٹ'' مشرقی پاکستان میں شامل کردیا گیا۔
بٹوارے کے بعد ہندوستانی حکومت نے اس صوبے اور یہاں کے قبائل کی طاقت کو توڑنے کے لیے بار بار تقسیم کیا۔ 1963 میں ضلع ''ناگا ہِلز'' میں توینسانگ کا علاقہ ملا کر بھارت کی 16 ریاست ''ناگا لینڈ'' بنادی گئی۔ پھر 1970 میں، سطح مرتفع میگھا لیہ کے لوگوں کے پر زور اسرار پر آسام کے اندر ایک خودمختار ریاست بنائی گئی جو 1972 میں ایک علیحدہ ریاست '' میگھالیہ'' کے نام سے وجود میں آئی۔ 1972 میں ہی میزورام اور اروناچل پردیش کو آسام سے علیحدہ کر کے الگ ریاست بنادیا گیا۔ یوں آسام کی بہت بڑی ریاست سمٹ کر رہ گئی۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ مختلف قبائل کا ہے جو وقتاً فوقتاً بھارت سے اپنی آزادی اور خودمختاری کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ 1970 کے بعد سے آسام کی آزادی کے لیے بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں ''یونا ئیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام'' (اُلفا)، ''مسلم لبریشن ٹائیگرز'' ، ''آسام رائفلز'' اور ''نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ بوڈو لینڈ'' شامل ہیں۔ 1990 میں بھارتی فوج نے ان تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کیا جس میں اُلفا کے 12000 جنگجو مارے گئے اور دس سال تک یہ علاقہ جلتا رہا۔ اُلفا مسلح کوشِشوں کے ذریعے ایک آزاد آسامی ریاست کا قیام چاہتی ہے جس میں اسے عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ 1990 میں بھارتی حکومت نے اس تنظیم پر پابندی لگا دی تھی۔ آج تک اس علاقے میں نسلی فسادات عروج پر ہیں اور بھارتی فوج چاہ کر بھی اپنی رٹ یہاں قائم نہیں کرپائی۔
منی پور:
میانمار کے مشرق میں واقع ریاست منی پور اپنے لوک رقص اور ثقافتی رنگوں کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ برطانوی راج اور اس سے پہلے یہ ریاست ایک '' شاہی ریاست'' تھی۔ منی پور نے انگریز دور میں ''برما'' کی بجائے ''ہندوستان'' میں ضم ہونے کو ترجیح دی۔ 1949 میں ''مہاراجا بُدھا چندرا'' نے ریاست کا الحاق بھارت سے کردیا جس پر مختلف ریاستی گروہوں کو شدید تحفظات تھے۔ یہی تحفظا ت آنے والے 50 سالوں میں ریاست میں بدامنی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی کارروائیوں کی وجہ بنے۔ 2010 سے 2013 کے درمیان ان ہنگاموں اور کارروائیوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ منی پور میں 53 فی صد لوگ ''میٹی'' قوم جب کہ 20 فی صد مختلف قبائل سے ہیں۔ ہندومت کے ساتھ ساتھ بدھ مت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والے بھی یہاں بستے ہیں۔ یہاں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کی دو اقسام ہیں، قبائلی عوام اور شہری عوام۔
تمام تحریکوں ''منی پور پیپلز لبریشن آرمی''، ''یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ'' اور ''پیپلز فرنٹ آف منی پور'' کی آواز ایک ہی ہے، ریپبلک آف منی پور کی آزاد ریاست کا قیام۔
میگھالیہ:
بنگلادیش اور آسام کے درمیان واقع ''مشرق کے اسکاٹ لینڈ'' میگھا لیہ کو اگر موسلا دھار بارشوں، جنگلات اور بادلوں کی سر زمین کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ریاست کے 70 فی صد رقبے پر ایسے جنگلات ہیں جہاں بھارت میں ریکارڈ بارش ہوتی ہے۔ یہ بھارت کی وہ ریاست ہے جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں۔
1972 میں آسام کے ''خاصی''، ''گارو'' اور ''جینتیا '' ضلعوں کو ملا کر ریاست میگھالیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور حیرت انگیز طور پر انگریزی ریاستی سرکاری زبان قرار پائی۔ برٹش راج سے پہلے بھی خاصی، گارو اور جینیتا قبائل کی اپنی الگ الگ ریاستیں تھیں جنہیں پہلے آسام اور پھر صوبہ مشرقی بنگال و آسام کا حصہ بنادیا گیا۔ لیکن تب بھی اس علاقے کو ''نیم خودمختار'' ریاست کا درجہ حاصل رہا۔
شروع شروع میں تو میگھالیہ کے قیام کو ایک ''وسیع بھارتی ریاست میں الگ قومیت کے انضمام'' کی مثال کے طور پر بہت سراہا گیا لیکن جلد ہی اس غبارے کی ہوا نکل گئی جب مقامی قبائل کے درمیان ایک قوم کے طور پر ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی اور بھارتی قوم پرستی، خاصی اور گارو قوم پرستیوں کے مدِمقابل آ کھڑی ہوئی۔ دوسری ریاستوں میں موجود قوم پرستی اور لسانیت پرستی نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ قبائل کے آپسی لڑائی جھگڑوں سے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے اور میگھالیہ میں مختلف علیحدگی پسند گروہوں (اے ام ایل اے، ایچ این ایل سی) نے جنم لیا۔
میزورام:
آبشاروں، جھیلوں، وادیوں اور پرانی رسومات کی سرزمین میزورام ، برما اور بنگلادیش کی سرحدوں کے ساتھ واقع ہے۔ اس کے معنی ہیں ''میزو کی سرزمین''۔ دیگر ریاستوں کی طرح 1972 تک میزورام بھی پہلے آسام کا حصہ تھی جب اسے آسام سے نکال کر ایک یونین اور پھر 1987 میں بھارت کی تئیسویں ریاست بنایا گیا۔ یہ بھارت کی دوسری کم آبادی والی ریاست ہے۔
ریاست کے 95 فی صد باشندوں کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے آنے والے مختلف قبیلوں سے ہے۔ بھارت میں سب سے زیادہ قبائل اس ریاست میں رہتے ہیں۔ اور میزورام بھارت کی تین ''عیسائی اکثریتی'' ریاستوں میں سے ایک ہے۔
ریاست میں بدامنی کی سب سے بڑی وجہ باہر سے آنے والے آسامی لوگوں کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور مقامی ''میزو'' قبائل کا نظرانداز ہونا ہے۔ یہاں بسنے والے قبائل ہمارس، چکماس، بروس، لائیس اور ریانگس حکومت سے علیحدگی اور خودمختاری کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ''میزورام فارمرز لبریشن فورس'' اور ''زومی انقلابی تحریک'' بڑے علیحدگی پسند گروہ ہیں۔
ناگا لینڈ:
آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے چھوٹی ریاست ''ناگا لینڈ'' اروناچل پردیش، آسام، منی پور اور برما کے درمیان واقع ہے۔ اس ریاست میں 16 قبائل رہتے ہیں جو زبان، رسم و رواج اور پہناوے تک میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔زیادہ تر آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔
تقسیم کے بعد ناگالینڈ ریاست آسام کا حصہ تھا، 1963 میں اسے علیحدہ ریاست بنادیا گیا۔ اگرچہ ناگا قوم کی خودمختاری اور آزادی کے بھرپور مطالبے کے بعد اسے الگ ریاست بنایا گیا لیکن اس کے پس پردہ جہاں ایک طرف بھارت آسام کی قوت کو کم کرنا چاہتا تھا وہیں دوسری طرف ناگا قبائل کو اپنے آئین کے تحت لانا چاہتا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے عزائم پورے نہ ہوسکے آسام میں اب بھی بغاوت جاری ہے اور ناگالینڈ علیحدہ ریاست بن جانے کے باوجود بھارتی آئین کو ماننے سے انکاری ہے۔ اور یہاں بھی بقیہ 6 ریاستوں کی طرح آزادی کی زبردست تحریک جاری ہے۔ناگا قوم، ناگالینڈ، آسام اور برما تک پھیلی ہوئی ہے۔
ناگالینڈ کا علاقہ آزادی سے قبل بھی انتہائی پسماندہ تھا لیکن انگریزوں نے اس علاقے کو فروغِ عیسائیت کے لیے تر نوالہ سمجھتے ہوئے ترقی دی اور عیسائی مشنریز نے یہاں کے لوگوں کو تعلیم و صحت کے بدلے میں عیسائیت کی تبلیغ کی۔ تبھی آج اس ریاست میں (میگھالیہ اور میزورام کی طرح) عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے۔
1947 میں جب ناگا قوم نے بھارت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کا اعلان کیا تب بھارت نے کشمیر، حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح اس علاقے پر بھی فوج کشی کردی۔ بہت سے ناگا نوجوان مارے گئے لیکن حریت پسندوں کی بھارتی فوج کے خلاف مزاحمت ختم نہ ہوئی اور ایک بار پھر 1955 میں ناگا قوم نے بھارت سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ بھارت نے اسے بغاوت تصور کرتے ہوئے ناگا قوم پر ایک بار پھر جنگ مسلط کردی۔ ناگا لینڈ میں بھرپور زمینی اور فضائی کارروائی کی گئی اور کئی دیہات کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ناگا قوم کے لوگ مارے گئے اور بہت سوں کو سپردِزنداں کردیا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ''ناگے'' خاموش نہیں بیٹھے اور احتجاج شروع کردیا۔ تنگ آ کر بھارت نے 1963 میں ناگالینڈ کو آسام سے علیحدہ کر کے ایک الگ ریاست بنادیا۔ ناگوں کی بھارت سے نفرت بڑھتی چلی گئی اور یہ بھارت سے سوائے آزادی کے کسی چیز پر سمجھوتے کو تیار نہ تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ کشمیریوں کے بعد اگر کسی نے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا ہے تو بلاشبہ وہ ناگا قوم ہے۔
ناگالینڈ میں ''ناگا نیشنل کونسل'' ، ''نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ'' اور ''ناگامی فیڈرل آرمی'' کے نام سے مسلح تنظیمیں موجود ہیں۔ ناگالینڈ کے عیسائی ہونے کی وجہ سے یورپ کے عیسائی ممالک بھی ان کی حمایت کرتے ہیں خاص طور پہ فرانس اور جرمنی جب کہ ناگالیڈروں نے نیدرلینڈ میں اپنی جلاوطن حکومت کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ تمام 7 ریاستوں میں ناگالینڈ کی تحریک نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی طور پر بھی مضبوط ہے۔ ناگا قوم کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے دشمن کے سر کاٹ کہ اسے محفوظ کر لیتے ہیں۔ ناگے بھارت کا سر کاٹتے ہیں یا بھارت انکا سر کچلنے میں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
تری پورہ:
تری پورہ کی شاہی ریاست وہ آخری ریاست تھی جس نے حکومتِ ہندوستان سے 1949 میں الحاق کیا۔ اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تری پورہ کی ریاست تین اطراف سے بنگلادیش سے یوں گِھری ہے جیسے کسی ماں نے بچے کو گود میں لے رکھا ہو۔
تری پورہ میں بدامنی اور سرکشی کی تاریخ 1970 سے شروع ہوتی ہے جب قرب و جوار کے بنگالیوں نے اس علاقے میں منتقل ہونا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بنگالیوں نے یہاں کی آبائی اقوام اور قبائل کو اقلیت میں بدل دیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف ان قبائل کی روایتوں اور ثقافت کو نقصان پہنچا بلکہ ان کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں بھی انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ باہر سے آبسنے والے بنگالیوں کے خلاف
ریاست کے لوگوں میں نفرت پنپتی رہی اور آخر تری پورہ کے باسیوں نے بھی اپنی بقا کے لیے ہتھیار اٹھالیے۔
مارچ 1989 میں ''نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ'' اور1990 میں ''آل تریپورہ ٹائیگر فورس'' کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان گروہوں کے قیام کا واحد مقصد صرف ''بنگالی مہاجروں'' کا ریاست سے اخراج تھا لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمیوں اور ناانصافیوں سے تنگ آ کر ان تنظیموں نے اپنا دائرہ کار وسیع کرلیا۔
شمال مشرقی ریاستوں یا ''سات بہنوں'' کا علاقہ کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہ تھا۔ ہمیشہ سے یہ علاقے یا تو خودمختار رہے ہیں یا ان پر مختلف قبائل اور راجوں نے حکومت کی ہے۔ اس علاقے کے ایک طرف ایشیا کا ''منگول'' حِصہ جب کہ دوسری جانب ایشیا کا ''آرین'' حِصہ ہے۔ یہاں کہ لوگ نہ صرف نسلی طور پر، بلکہ مذہبی، معاشرتی، جغرافیائی اور ثقافتی طور پر جنوب مشرقی ایشیا، تبت اور برما سے جڑے ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ ان علاقوں پر بھارت کے جبری قبضے کا نوٹس لے اور آزادی کی ان تحریکوں کی مالی و اخلاقی مدد کرے۔