سارے رنگ

والدین کا حق ان کی خدمت ہوتی ہے۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے محروم نے یہ دلیل دی ہے۔

والدین کا حق ان کی خدمت ہوتی ہے۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے محروم نے یہ دلیل دی ہے۔

وہ امتحانی جواب میں بھی شعر کہہ دیا کرتے۔۔۔
زینت اللہ جاوید
محروم ؔ نے کبھی کسی سے اصلاح سخن نہیں لی، بلکہ ہمیشہ اپنی طبیعت ہی کو اپنا راہ بر سمجھا۔ نویں جماعت سے ان کے شعری افکار ملک کے مشاہیر ادبی جرائد و رسائل میں شائع ہونے شروع ہوگئے تھے، جن میں زمانہ (کانپور) اور مخزن (لاہور) بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ نومشقی کے زمانے میں محروم کو سرور جہاں آبادی، بشیر الدین احمد خاں، اکبر الہ آبادی اور ڈاکٹر اقبال سے داد سخن ملا کرتی تھی۔
1901ء میں ملکہ وکٹوریہ کے انتقال کے موقع پر اسکول میں ماتمی جلسہ ہوا اس موقع کے لیے محروم نے بھی ایک ماتمی مسدس لکھی اور پڑھی۔ اب ہیڈ ماسٹر بھی اپنے شاگرد کی اہلیتوں کے قائل ہوگئے تھے۔ کچھ دنوں بعد جب ڈویژنل انسپکٹر آف لالہ شیولال ۔ ایم ۔ اے اسکول کا معائنہ کرنے آئے، تو ہیڈ ماسٹر نے یہ بات ان کو فخریہ سنائی کہ ان کے اسکول کا ایک لڑکا شاعر بھی ہے۔ لالہ شیو لال خود بھی صاحب ذوق آدمی تھے۔ شعرو شعاری سے انہیں بھی شغف تھا۔ ان کی فرمائش پر محروم نے مذکورہ مرثیہ بھی بڑھا اور مرثیہ کے علاوہ ایک نظم 'ماں باپ کی خدمت' بھی سنائی۔ وکٹوریہ کے مرثیہ کا یہ شعر لالہ صاحب کو بھی پسند آیا۔
فرطِ غم سے غنچے چپ ہیں گل گربیاں چاک ہیں
نوجوانانِ چمن بھی سر پہ ڈالے خاک ہیں
والدین کا حق ان کی خدمت ہوتی ہے۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے محروم نے یہ دلیل دی ہے۔
گو ضعیف العمر ہیں پر حق نہیں ان کا ضعیف
ہے نصیحت کام کی محروم ان سے مت گزر
اپنی شعری پیش کش کے باعث محروم انسپکٹر کی جانب سے ایک روپیا انعام کے مستحق قرار دیے گئے اور ان کی تعریف بھی کی گئی۔ یہ واقعہ محروم کے لیے مزید شہرت و نام وَری کا باعث ہوا۔ محروم بوقت امتحان اپنے پرچا جات میں بھی شعر درج کر دیا کرتے تھے۔ ایک بار موسم سرما میں امتحان ہوا تو جواب میں یہ شعر محروم کے نوک قلم پر آئے۔
پرچہ کاغذ اڑاتی ہے ہوا
کس قدر مجھ کو ستاتی ہے ہوا
کرتی ہے محروم سے سرگوشیاں
کون سا مژدہ سناتی ہے ہوا
محروم نے بارہا ایسے اشعار کاپیوں میں نقل کیے تھے۔ اساتذہ نے انہیں دھمکایا بھی تھا، لیکن محروم کا زور قلم کم نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ کچھ اساتذہ کے وہ تحسین آمیز جملے بھی تھے جو وہ آپس میں نجی گفتگو کے وقت شعر محروم کے بارے میں کہا کرتے تھے اور خود بھی اشعار محروم سے محظوظ ہوا۔

۔۔۔

''وہ جو ہم سب کو معلوم ہیں۔۔۔!''
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

گزشتہ دنوں کراچی میں 242 موبائل فون تقسیم کرنے کی ایک تقریب ہوئی۔۔۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ موبائل کس خوشی میں بانٹے گئے؟ تو جناب یہ وہ 'کچھ' موبائل تھے، جو شہریوں سے سرِ راہ چھینے گئے تھے۔ ارے، کیا کہا۔۔۔! جب واپس ہی دینے تھے تو پھر چھینے ہی کیوں؟ ارے نہیں، نہیں! توبہ کیجیے صاحب، یہ تو 'نامعلوم' ملزمان نے لوگوں سے آتے جاتے چھینا جھپٹی کی تھی، وہ تھے یہ۔۔۔! اور 'کچھ' ہم نے اس لیے لکھا کہ اسی تقریب میں ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ نے آج کے 'پُرامن کراچی' کے دور میں یہ بات تسلیم کی کہ ''یہاں یومیہ 30 موبائل چھینے جا رہے ہیں'' ہم اگر 30 موبائل کو ہی پیمانہ بنائیں، تو 242 موبائل تو کراچی میں فقط ہفتے بھر کے ہی چھینے گئے موبائل بنتے ہیں، جس کے لیے یہ محفل جمائی گئی، جب اس مقصد کے لیے باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی، تو یقیناً اس کی عکس بندی بھی کی گئی ہوگی اور 242 'خوش نصیبوں' کو دعوت نامے بھی دیے گئے ہوں گے کہ آئیے، باقاعدہ 'تقریب تقسیم بازیاب شدہ موبائل' میں شریک ہو کر اپنا موبائل واپس لے جائیے! ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر انہیں اسٹیج بار بلا بلا کر موبائل دیے گئے ہوں گے، تو موبائل لینے والوں متاثرین کو اس لمحے کیسا لگا ہوگا۔۔۔!

خیر، آئی جی صاحب نے تقریب میں یہ بھی فرمایا کہ ''اچھی شکل کے بچے جو فیکٹریوں میں ملازمت کرتے ہیں، وہ چوریوں میں ملوث ہو گئے ہیں۔'' ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ انہیں اعتراض کس بات پر ہوا؟ کیا چھینا جھپٹی کے لیے 'بُری' شکل ہونا ضروری ہے؟ کیا 'خوش شکل چور' پہلے اپنی صورت بگاڑیں، پھر چوری کریں، یا پھر اگر وہ یہ لوٹ مار کر ہی رہے ہیں، تو کم سے کم فیکٹری کی ملازمت چھوڑ دیں؟

انہوں نے مزید فرمایا کہ ''آگے بڑھیں عوام اور پولیس ایک ہو جائیں!'' یہ بات بالکل درست ہے، جرائم کی حقیقی بیخ کنی کے لیے پولیس اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب ہونا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس دن (17 اپریل) کے 'ایکسپریس' میں یہ خبر شایع ہوئی، اسی دن صفحۂ اول پر صفورہ چورنگی، کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے ڈیڑھ سالہ شیرخوار بچہ احسن کاشف کے قتل کی خبر بھی تھی۔۔۔! پہلے پہل اس واقعے کو ڈاکوئوں سے مقابلہ کہا گیا، لیکن وہاں سے صرف پولیس اہل کار کے ہی گولیوں کے خول ملے، اگر ملزمان تھے اور پولیس کا مقابلہ کر رہے تھے، تو ان کی گولیوں کے خول کہاں ہیں؟ اس بات سے بچے کے ورثا کے موقف کو تقویت ملتی ہے کہ دراصل پولیس والے ہی آپس میں لڑ رہے تھے۔ اب آپ خود بتائیے کیا ایسے ہوں گے پولیس اور عوام ایک؟

'ایکسپریس' کی رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس گزشتہ 15 ماہ (یعنی جنوری 2018ء تاحال) میں 9 شہریوں کو قتل کر چکی ہے، جس میں سے کوئی ایک مقدمہ بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔ 13 جنوری 2018ء کو ڈیفنس میں والدین کا اکلوتی اولاد انتظار احمد۔۔۔ 20 جنوری 2018ء کو شاہراہ فیصل پر پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی مقصود۔۔۔ 16جون 2018ء کو مبینہ ٹائون میں معصب۔۔۔ یکم اگست 2018ء کو نارتھ کراچی میں بزرگ رکشا ڈرائیور نفیس بلوچ۔۔۔ 13 اگست کو ڈیفنس میں 10 سالہ امل۔۔۔ 25 اگست 2018ء کو گڈاپ میں طالب علم بلال۔۔۔ 22 فروری 2019ء کو انڈہ موڑ پر میڈیکل کی طالبہ نمرہ۔۔۔ اور چھے اپریل 2019ء کو قائد آباد میں 12 سالہ سجاد انہی قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں اپنی زندگی گنوا چکے ہیں۔

ماضی قریب میں کہا جاتا تھا کہ کراچی میں 'نامعلوم افراد' کا راج ہے، وہی یہاں قتل وغارت گری کرتے پھرتے ہیں، اسی پس منظر میں ایک فلم 'نامعلوم افراد' بھی بنائی گئی۔۔۔ عقیل عباس جعفری نے انہی نامعلوم افراد پر ایک نظم بھی لکھی ، پھر لفظ 'نامعلوم' اپنی معنویت کھونے لگا۔۔۔ اب عوام بھی یہ نعرے لگانے لگے ہیں کہ ''یہ جو نامعلوم ہیں۔۔۔ یہ ہمیں معلوم ہیں!'' کراچی میں نو شہریوں کو قتل کرنے والے پولیس اہل کار تو ہم سب کو معلوم ہیں، تو پھر انہیں سزا دینے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔۔۔؟

۔۔۔


تاکہ ہماری اردو سنبھلی رہے۔۔۔
محمد اسلم بھٹی، سرگودھا
اردو زبان و ادب میں ہمارے شوق سے زیادہ ہماری لکھائی کو دوش ہے۔ اسکول کے زمانے میں ہمارے اردو کے استاد، نہ صرف اعلیٰ درجے کے خطاط، بلکہ اعلیٰ پائے کے انسان اور زبان دوست تھے۔ اکثر کہتے تھے کہ لکھا کرو، کبھی تو پڑھا جائے گا۔ ہمارا شمار اوسط درجے کے طالب علموں میں ہوتا تھا۔ امتحان میں جو بھی تھوڑا بہت لکھتے، نمبر اچھے آجاتے تھے۔ یہی خوشی ہمیں کالج لے آئی، لیکن معلوم ہوا کہ یہاں تو انگریزی کی موٹی موٹی کتابیں ہیں اور امتحان بھی انگریزی میں ہوگا۔

پریشانی تو ہوئی، لیکن اردو سے تعلق قائم رہا۔ گریجویشن میں اردو کا چناؤ کیا، تو دوستوں نے کہا اب یہ ''جہاں سے گئے'' لیکن ہمارے نمبر اس مضمون میں باقی مضامین سے زیادہ آئے۔ اس دوران ہمیں انارکلی لاہور کی فٹ پاتھوں سے پرانی کتابوں کا شوق چڑھ چکا تھا۔ پھر ایم۔اے کا داخلہ ہونے سے بھی پہلے ایک محکمے میں ملازمت کا موقع مل گیا۔ کتاب اور تحریر سے تعلق کم ہوا تو ریڈیو پاکستان نے یہ کمی پوری کی، لیکن اب صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ریڈیو، ٹی وی کے اردو مباحثوں، تقریروں اور میزبانوں کے الفاظ میں انگریزی کے لفظ زیادہ اور اردو کے کم سنائی دیتے ہیں۔ یہاں تو ایک پانچ سال کے بچے کا یہ حال ہے کہ وہ انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے اور گھر آکر جب اردو بولتا ہے، تو ہر دسواں لفظ 'انگریزی' کا ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ آج اگر ہم موٹی موٹی کتابیں نہ سہی، کم سے کم روزانہ کے اخبار کی عادت تو ڈالیں، تاکہ ہماری اردو کسی قدر سنبھلی رہے۔

۔۔۔

کتب شناسی
سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
پرانی کتابیں خریدتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتب فروش اب ہمیں پہچان کر پرانی کتابوں کی بھی اچھی خاصی قیمت وصول کرتے ہیں، وہ جان لیتے ہیں کہ یہ کتاب اگر ہم نے اٹھائی ہے، تو یقیناً یہ ہماری ضرورت کی ہے اور یہ کتاب ہلکی بھی نہیں ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اب پرانی کتب بیچنے والوں کو سادہ یا لاعلم کہنا درست نہیں۔ گزشتہ دنوں ایک پرانی کتاب لیتے ہوئے جب میں نے صرف یہ پوچھا کہ ذرا بتانا اس کتاب کی تاریخ اشاعت کیا ہے، تو اُس نے تاریخ اشاعت بتانے کے بہ جائے کہا کہ 'وہ جو 40 صفحات بعد میں آئے ہیں نا، وہ اس ایڈیشن میں شامل ہیں۔' جس کے بعد میں پرانی کتاب والوں کی کتب شناسی اور 'سمجھ داری' کی قائل ہو گئی ہوں۔

۔۔۔

''ہم اگر محبت کرتے، تو حکومت بھی کرتے!''
مرسلہ: احمد کامران، لاہور

اٹلی کے ساحلی علاقے میں ایک ایسا کنگری دار پہاڑ نما جزیرہ موجود ہے، جسے ٹیولارا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ پانچ کلومیٹر لمبا اور ایک کلو میٹر چوڑا ہے۔ اس جزیرے کا ایک رخ اٹلی کے ساحل کی جانب ہے، جب کہ دوسرا ایک ڈھلوان نما طویل راستہ ہے، جو کہ ایک ریتیلے ساحل سے ملحق ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس جزیرے کا یہی حصہ رہائش کے قابل ہے، لیکن آپ کو یہ جان کر ضرور حیرانی ہوگی کہ یہاں گزشتہ 200 سالوں سے صرف گیوسپی برٹولیونی Giuseppe Bertoleoni فیملی سے تعلق رکھنے والا خاندان ہی آباد ہے۔

گیوسپی برٹولیونی نامی شخص جیونوسی (Genovese) کا رہائشی تھا اور اس نے اس جزیرے پر اپنے خاندان کے ساتھ 1807ء میں قدم رکھا۔ اس کے خاندان میں دو بیویاں اور بچے شامل تھے۔ گیوسپی برٹولیونی کو دو بیویاں رکھنے کی وجہ سے اس جزیرے پر رہائش اختیار کرنا پڑی، کیوں کہ جیونوسی میں دوسری شادی کرنا ایک جرم تھا۔ اس جزیرے پر پہنچ کر گیوسپی برٹولیونی نے خود کو یہاں کا بادشاہ قرار دے دیا اور تب سے آج تک اس جزیرے پر اسی خاندان کی حکم رانی ہے۔ ان خودساختہ حکم رانوں کے گزر بسر کا دارومدار ماہی گیری، زراعت اور سیاحوں کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے پر ہے اور اسی مقصد کے تحت یہاں دو ریستوران بھی قائم کیے گئے ہیں۔ شاعر نے تو شکوہ کیا تھا کہ 'کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا، ہم اگر محبت نہ کرتے تو حکومت کرتے' شاعر اگر جیونوسی سے واقف ہوتا تو کچھ یوں کہتا کہ ''ہم اگر محبت کرتے، تو حکومت بھی کرتے!''

۔۔۔

صد لفظی کتھا
مظلوم
رضوان طاہر مبین
''وہاں دہشت گرد مخالفین کو شناخت کر کے مارتے ہیں۔۔۔!''
اُس نے بتایا۔
''پھر وہ لوگ اپنی شناخت چھپاتے کیوں نہیں؟'' میں نے کہا۔
''اُن لوگوں نے شناختی کارڈ رکھنا چھوڑ دیا۔۔۔
کئی نے اپنا حلیہ بدل لیا، محلے تبدیل کیے۔۔۔
دوسری زبانیں سیکھیں۔۔۔ مختلف عقائد جانے۔۔۔
کچھ نے روایتی ملبوس کا فائدہ اٹھایا اور بھاری دستار سے اپنے چہرے چھپانے لگے، مگر پھر بھی نشانہ وار قتل ہوتے رہے!'' وہ چپ ہو گیا۔
''آخر دہشت گرد انہیں کیسے پہچان لیتے ہیں؟'' مجھے حیرت ہوئی۔
''وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں، جس سے پہچانے جاتے ہیں۔۔۔!''
اُس نے بتایا۔
Load Next Story