کوچۂ سخن

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل
چاروں طرف سے بند تھا پتھر کا آدمی
باہر کہاں سے جھانکتا اندر کا آدمی
میرے تمام راز عدو جانتا ہے کیوں
کیا اس سے مل رہا ہے کوئی گھر کا آدمی
میں ایڑیاں کٹا کے بھی اس سے بلند ہوں
وہ چاہتا ہے اپنے برابر کا آدمی
ہو کیسے ختم نشہ تری نسبتوں کا یار
جائے کہاں اب اٹھ کے ترے در کا آدمی
جیسے اسی کے پاس ہوں سب کارِ اختیار
اترا رہا ہے خود پہ یوں دَم بھر کا آدمی
گرداب کر رہے تھے مرا ذکر بار بار
لہروں کو میں لگا تھا سمندر کا آدمی
(آزاد حسین آزاد۔ منڈی بہائو الدین)


۔۔۔
غزل
آپ بے کار الجھ بیٹھے ہیں تقدیر کے ساتھ
پہلے پڑھیے تو ذرا صبر کو تفسیر کے ساتھ
مصلحت ہے کہ محبت ہے غضب ہے جو ہے
دیکھ! دیوار اتر آئی ہے تصویر کے ساتھ
مفلسی آگئی اس بار بھی آڑے ورنہ
لازماً پھول بھی ملتے تجھے تحریر کے ساتھ
کیا ہی اچھا تھا شہہِ وقت کہ ایسا ہوتا
دکھ فلسطیں کا بھی ہوتا تجھے کشمیر کے ساتھ
سوجھتا ہے کبھی فیصلؔ جو کنارا کرنا
لاکھ خدشات جنم لیتے ہیں تدبیر کے ساتھ
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
یہ مری شاعری محبت کی
داستاں آپ کی محبت کی
جن دنوں تیرے شہر آئے تھے
اُن دنوں آخری محبت، کی
پہلے تھا عشق شاعری سے مجھے
آپ سے دوسری محبت کی
چاندی اتری ہوئی تھی بالوں میں
ہم نے بے موسمی محبت کی
پھول مسلا پڑا ہے پیروں میں
دیکھ لے خود کشی محبت کی
ہم نے عمرانؔ عمر بھر بانٹی
چار سُو روشنی محبت کی
(علی عمران۔ احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
اس سے کہتا ہوں مری جان، مری جان نہ لے
اور ڈرتا ہوں میری بات کہیں مان نہ لے
میں مسافر ہوں، مرے پاس فقط دل ہے مرا
میرا سامان یہی ہے، میرا سامان نہ لے
روز کاجل یونہی آنکھوں میں لگائے رکھنا
میری صورت کو زمانہ کہیں پہچان نہ لے
جانے والے میں ترے واسطے پاگل ہوں بہت
تجھ پہ مر جاؤں گا، لیکن مجھے آسان نہ لے
مشورہ دے تو دیا ہے کہ بچھڑ جاتے ہیں
یار جاذبؔ وہ کہیں میرا کہا مان نہ لے
(سلیمان جاذب۔ سرگودھا)


۔۔۔
غزل
نہ تو ہجر ہی میں سکون ہے، نہ قرار پایا وصال میں
یہ بڑی عجیب ہے کیفیت، ہے کمی ہی کوئی غزال میں
وہ جو دور ہو تو رفیق ہے، وہ قریب ہو تو دقیق ہے
میں کروں تو ایسے میں کیا کروں، یہی کشمکش ہے خیال میں
وہ حسیں، جمیل ہے خوبرو، میں ہوں عام سی لیے رنگ و بُو
وہ ہے آسماں، تُو زمیں ہے، وہ عروج ہے، تُو زوال میں
تیری جستجو میں نہ کچھ ملا، مجھے شرق و غرب پھرا دیا
مجھے تُو کہیں بھی نہ مل سکا، نہ جنوب میں نہ شمال میں
وہ جواز تیری نماز کا، وہ خراج راز و نیاز کا
وہ جو کل ہے حسن مجاز کا، اسے ڈھونڈ حسنِ خیال میں
نہ قریب ہے نہ وہ دور ہے، نہ وہ برق ہے، نہ وہ طور ہے
وہ اگرچہ نور ہی نور ہے، وہ ملے گا قلبِ غزال میں
(غزالہ تبسم۔ اسلام آباد)


۔۔۔
غزل
پھول بکھرے پڑے ہیں وعدوں کے
کاغذی پیرہن ہیں باتوں کے
شہر میں تم ہی اک سخن ور ہو
پتے جھڑنے لگے ہیں شاخوں سے
شام ہوتے ہی گھیر لیتے ہیں
مجھ کو جگنو تمھاری یادوں کے
آپ نے ٹھیک ہی سنا ہو گا
اب کئی زاویے ہیں سوچوں کے
میں نے سارے اتار پھینکے ہیں
نقش جتنے تھے چاند چہروں کے
(امجد بابر۔ گوجرہ)


۔۔۔
غزل
عجب خمار تری یاد کی شراب میں ہے
کہ یہ قرار بھی اب حدِاضطراب میں ہے
بگڑتی بنتی ہے شب بھر وہ دیدہ و دل میں
جو ایک شکل دل و دیدۂ خراب میں ہے
وہ ابر تھا کہ نکل ہی نہیں سکی تھی وہ کل
جو دھوپ پھیلی ہوئی آج میرے خواب میں ہے
بچا کے رکھتا ہے ہر جمع و خرچ سے مجھے
وہ ایک دستِ دعا جو مرے حساب میں ہے
کسے بتائیں محبت ہے جو ہے پیشِ نظر
کسے دکھائیں جو وحشت ابھی حجاب میں ہے
(کامران نفیس۔ کراچی)


۔۔۔
غزل
خموش ہونٹوں سے سارے کلام کرنے لگے
وہ سب کے سب ترے بارے کلام کرنے لگے
ڈھلی جو شام تو اشکوں سے گفتگو تھی مری
پھر اس کے بعد ستارے کلام کرنے لگے
تمہارا ذکر چھڑا جب تو معجزہ یہ ہوا
کہ جتنے گونگے تھے سارے کلام کرنے لگے


تری اداسیوں، بے چینیوں سے ظاہر ہے
کہ اب یہ زخم ہمارے کلام کرنے لگے
کسی کے سامنے گلزار آگ ہونے لگی
کسی کے جسم سے آرے کلام کرنے لگے
ہماری غزلوں کا تاثیر، آسرا لے کر
تمہارے ہجر کے مارے کلام کرنے لگے
(تاثیر جعفری۔ کبیر والا، ملتان)


۔۔۔
غزل
بیلوں سے لدی کوئی بھی کھڑکی ہے کہ در ہے
اندر بھی کوئی ہے کہ مِرا حسنِ نظر ہے
میں شہر میں رہ کر بھی کہاں ہوں کسے پوچھوں
اِن بَل پڑی گلیوں میں اِدھر ہے نہ اُدھر ہے
اترے ہیں سرِ شام شعاؤں کے جنازے
کیا میرے بدن میں بھی سمندر کا جگر ہے
ہِل جائوں اگر صبح کی اک چاپ بھی ابھرے
جس موڑ پہ اس وقت مِرا شب کا سفر ہے
آنکھیں ہیں کہ ہیں سرحدِ امکان پہ چوکس
دل ہے کہ ہلاکو کی گزر گاہِ نظر ہے
میں داد طلب تھاکبھی اب عذر طلب ہوں
اب عذر بیانی ہی یہاں دادِ ہنر ہے
(اقبال رمیض۔ جھنگ)


۔۔۔
غزل
کہتا ہے آج بھی مرا یاور فلاں فلاں
ہیں کام عشق سے بہتر فلاں فلاں
ہیں بابِ خواب پر کئی اپنے کماں بدست
تانے ہوئے فصیلوں میں نشتر فلاں فلاں
وہ سانحاتِ عشق سے ڈرتی ہے کیا کروں
کہ ہو رہے ہیں قتل بھی در در فلاں فلاں
حاصل ہوا ہے کیا ہمیں بیگانگی کے بعد
ہیں تذکرے تو آج بھی گھر گھر فلاں فلاں
کل ان کی خوشبوؤں نے سجایا تھا مرغزار
آئے ہوئے تھے پھول بھی چل کر فلاں فلاں
کہتی ہے اک غزل تو میرے نام بھی کہیں
ہیں آپ کو تو شعر بھی ازبر فلاں فلاں
عصمتؔ مقدروں کے ہیں تابع محبتیں
کہ ہیں اڑان میں کئی شاہپر فلاں فلاں
(عصمت اللہ سیکھو۔ گوجرانوالہ)


۔۔۔
غزل
ماہ گزرے ہیں سال گزرے ہیں
مجھ پر اکثر محال گزرے ہیں
مشکلیں، دکھ، مصیبتیں، صدمے
کیسے کیسے وبال گزرے ہیں
آنا جانا تھا جن کا سالوں سے
میرے کوچے سے خال گزرے ہیں
جب بھی آئے ہو میرے خوابوں میں
سارے لمحے کمال گزرے ہیں
دل شگفتہ میں راہیں نکلی ہیں
میرے شیشے میں بال گزرے ہیں
رونقیں میرے گھر کی کیا ہوں گی
سب اندھیروں میں سال گزرے ہیں
میں اکیلا کبھی نہ تھا بزمیؔ
ساتھ رنج و ملال گزرے ہیں
(شبیر بزمی۔ لاہور)


۔۔۔
غزل
منصف ہو آج کر دو محبت کا فیصلہ
میں مانتا ہوں تیری شریعت کا فیصلہ
انصاف کب کسی کو ملا ہے سماج سے
کرتے ہیں لوگ اپنی ضرورت کا فیصلہ
سورج گرم ہے یا تیرے سانسوں کی ہے تپش
ہونے لگا ہے آج قیامت کا فیصلہ
تم آؤ گے؟ تو آؤں گا، موسم بھی خوش گوار
ہے آج تیری میری طبیعت کا فیصلہ
میں ہوں غلام اِبنِ علی کے غلام کا
کیسے کروں یزید کی بیعت کا فیصلہ
(شاہنواز ارشد۔ بھکر)


۔۔۔
غزل
دل میں تیرا خیال رکھنے سے
کیا ملا ہے ملال رکھنے سے؟
سب جوابوں سے آشنا ہوا میں
تیرے در پر سوال رکھنے سے
زہر اتنا بھی مت بھرو دل میں
پھٹ نہ جائے وبال رکھنے سے
تیری عزت بنی رہے گی میاں
پگڑیوں کو سنبھال رکھنے سے
دور بیماریاں ہو جاتی ہیں
رزق گھر میں حلال رکھنے سے
مر گئیں مچھلیاں سمندر میں
دیکھ پانی پہ جال رکھنے سے
کیا ملے گا تجھے بتا عاشرؔ؟
یونہی خود کو نڈھال رکھنے سے
(راشد خان عاشر۔ ڈیرہ غازی خان)


۔۔۔
غزل
جھوٹی محبت، جھوٹے وعدے سارے ہیں
ہر میدان میں جیت کے بھی ہم ہارے ہیں
چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں جو آنگن میں
خواب ہیں، اک اک کر کے میں نے مارے ہیں
جو سورج تھا، وہ تو کب کا ڈوب چکا
اب تو میرے دامن میں بس تارے ہیں
جن کے ساتھ بہت ہی گہرا رشتہ تھا
اُف وہ در دیوار بہت ہی پیارے ہیں
توبہ توبہ کتنا شہرہ ہے ان کا
ان کی آمد کے ہر سو نقّارے ہیں
یا رب تیرے ہات میں لاج ہے احمدؔ کی
دریا میں ہے کشتی، دور کنارے ہیں
(احمد رضا۔ گجرات)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

Load Next Story