عمران خان برطرف اعجاز شاہ تعینات

سمندر کی گہرائی اور امور سلطنت کی گیرائی جاننے کے لیے سمندر میں اترنا اور امور سلطنت میں الجھنا ضروری ہوتا ہے


عمران خان نے وزارتِ داخلہ کا قلمدان بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو سونپ دیا۔ (فوٹو: فائل)

جب عمران خان وزارتِ داخلہ کا قلمدان اپنے آپ سے لے کر یعنی خود کو وزیر داخلہ کے عہدے سے برطرف کرکے اور اپنے قریبی، وفادار اور نظریاتی ساتھی شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلی امور کے عہدے سے برطرف کرکے بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو وزارت داخلہ کا مختار کل بنا رہے ہوں گے تو انہیں کیسا لگ رہا ہوگا؟ منیر نیازی یاد آ گئے

خیال جس کا تھا مجھے، خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے

یار لوگ خان صاحب کی 46 رکنی کابینہ میں 17 غیر منتخب افراد کی شمولیت اور منتخب حکومت کی پالیسی سازی میں غیرمنتخب ٹیکنوکریٹس کو حاصل کلیدی اور فیصلہ کن حیثیت اور تبدیلی کی علمبردار نصف عمران کابینہ کے مشرف اور پی پی دور کے وزیروں، مشیروں و معاونین خصوصی پر مشتمل ہونے کے غم میں گھلے جارہے ہیں، لیکن وہ اس سارے ہنگامے میں پوشیدہ خیر مستور کو شاید بھولتے جارہے ہیں۔ اور وہ خیر مستور ہے ارتقا!

جی ہاں ارتقا! جو کہ ایک فطری عمل ہے اور جو سیکھنے سمجھنے اور جاننے کے عمل کا جزو لاینفک ہے۔ ارتقا انسان اور انسانی تہذیب کی ترقی کے لیے لازم تو ہے مگر یہ ظہور پذیر کیسے ہوتا ہے؟ ہم کیا کریں کہ ہم اور ہماری تہذیب ارتقائی منازل طے کرتی چلی جائے؟ مشتاق عاجز نے اس کیمیا گری کا نسخہ نہایت وضاحت کے ساتھ کچھ یوں بیان کیا ہے۔

جن اکھین سے نیر نہ ٹپکے وہ اکھین ویران
منوا دکھ سے خالی ہے تو جیون ہے شمشان
جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ
من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ

اگر کبھی عمران خان کو یہ سمجھنا تھا کہ پرانے پاکستان کے سیاسی اکابرین بالخصوص سابق سربراہان مملکت و حکومت مثلاً نواز شریف اور آصف زرداری سول حکومتوں کے معاملات میں مداخلت کا رونا کیوں روتے رہتے ہیں تو وہ انہیں کسی کے سمجھانے سے ہرگز نہیں سمجھنا تھا، کیونکہ صرف مشتاق عاجز ہی نہیں ہر واقف حال کا یہی کہنا ہے کہ انسان کو سمجھ اسی وقت آتی ہے جب خود اس پر بیتتی ہے۔ بقول اقبال، جب انسان آسمان سے زمین پر پہنچا تو زمین نے اس کا استقبال کرتے ہی اسے سمجھا دیا تھا کہ

تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

اقبال خوب جانتے تھے کہ سمجھ سمجھانے کی نہیں بلکہ وارداتِ قلبی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ جبھی تو انہوں نے کہا تھا کہ

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

جب میڈیا پر کابینہ میں ممکنہ تبدیلی کی خبریں آئیں تو بقول فواد چوہدری، خان صاحب نے ان کو میسیج کرکے بتایا کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ پھر پیمرا نے یہ خبر چلانے والے چینلز کو نوٹس بھی بھجوا دیے اور پھر دو تین روز بعد کابینہ میں تقریباً 9 تبدیلیاں رونما ہوگئیں۔ اگر خان صاحب ایسا پہلے سے سوچ رہے تھے تو پھر فواد کے ساتھ وہی سلوک کیوں کیا جو عاطف میاں کی نامزدگی کے وقت کیا تھا؟ اور بالآخر انہیں بار بار بے عزت ہونے اور پوری دنیا کے سامنے اپنی جماعت اور اپنے لیڈر کی ہر غلط درست بات کا اور ہر کمی کوتاہی کا دفاع کرنے کا صلہ کیا ملا؟ اور اگر خان صاحب کو بھی اس فیصلے کا پہلے کچھ پتا نہیں تھا اور صاحبان اختیار نے صحافیوں کو پہلے اور خان صاحب کو بعد میں اس فیصلے سے آگاہ کیا تو پھر تو خان صاحب کو فوری طور پر دنیاوی دانش کو خیرباد کہہ کر دانش درویش پر تکیہ کر لینا چاہیے۔ جس نے برسوں پہلے حضرتِ انسان کو یہ مفت مشورہ دے ڈالا تھا کہ

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

کیونکہ پہلے خان صاحب کا من روشن ہی نہیں تھا اور انہوں نے زہر آگہی پیا ہی نہیں تھا۔ پہلے وہ صرف دیکھنے والوں اور بولنے والوں میں سے تھے۔ اب وہ بھگتنے والوں اور کرنے والوں میں سے ہیں۔ چنانچہ اب منطقی طور پر وہ جاننے والوں میں بھی شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ تمام صوفی، تمام درویش یہی کہتے ہیں۔ سمندر کی گہرائی اور امور سلطنت کی گیرائی جاننے کے لیے سمندر میں اترنا اور امور سلطنت میں الجھنا ضروری ہوتا ہے۔

شوق کہتا ہے پکڑ یوں دوڑ کر دامان یار
کیا کروں مستی سے کچھ ہاتھوں میں گیرائی نہیں

پہلے صرف مستی تھی۔ اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آچکا ہے۔ اب حجاب اٹھتے جائیں گی۔ اب حقیقتیں آشکار ہوتی جائیں گی۔ اب صداقتیں بے حجاب ہوتی چلی جائیں گی۔ لگتا ہے کہ کسی عالم غم میں شاید نواز شریف کے دل سے خان صاحب کے متعلق یہ دعا نکل گئی ہو کہ

محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے

جیسے جیسے خان صاحب امور سلطنت میں دھنستے جارہے ہیں، ویسے ویسے وہ بھٹو اور نواز شریف کی طرح، اپنے کارکنان اور اپنی جماعت کے سرکردہ ساتھیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی پرانی ٹیم کے نرغے میں آتے چلے جارہے ہیں۔ پاکستان میں ہر سیاستدان کی سوچ کا ارتقا اسی دور کے گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔ کیونکہ جب حکمران کے غیرسیاسی فیصلے بڑھ جاتے ہیں اور سیاسی و معاشی اصلاحات کے بجائے وہ روزمرہ امور سلطنت کو مشینی یا نپے تلے بیوروکریٹک انداز میں چلانا شروع کردیتا ہے اور عوام پر آشکار ہوجاتا ہے کہ یہ تو وہی طرز حکمرانی ہے جس سے وہ ہمیشہ سے تنگ تھے، تو پھر وہ بددل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور سیاستدان اپنے ووٹ بینک کو کھونے لگتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ جس نے پہلے اسے اپنی ناجائز ضدیں ماننے پر مجبور کیا ہوتا ہے، اب اسے اپنی قوت کے مرکز سے کٹا ہوا پاکر مزید کمزور کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کا مقدر، نیب، عدالتیں، تھانے، کچہریاں، اٹھاون دو بی یا باسٹھ تریسٹھ یا میرے عزیز ہم وطنو کی صدائے دلربا ٹھہرتی ہے۔

مگر یہی وہ دور ہوتا ہے کہ جس کے بعد طلوع صبح کا مرحلہ آتا ہے۔ سیاستدان کی سوچ کا ارتقا مکمل ہوجاتا ہے اور وہ صدارتی نظام، ایوب دور کی تعریفوں اور مشرف کی کابینہ اور ٹیکنوکریٹس کی محبت کو خیرباد کہہ کر سمجھ لیتا ہے کہ صرف اور صرف عوام ہی اس کی طاقت کا منبع ہیں اور ان کی بقا کے لیے اسے ملک میں موجود جبر کے نظام کو بدلنا ہوگا۔ نیا پاکستان بنانا ہوگا!

بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑا اور مکان کے منشور کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ سے دل لگایا اور مارے گئے۔ نواز شریف نے کشکول توڑنے کے وعدوں کو فراموش کیا اور اٹک قلعہ جا پہنچے۔ دوبارہ آئے تو کبھی مشرف کو باہر بھیجا، کبھی پرویز رشید کو برطرف کیا لیکن پھر بھی خود کو نہ بچا سکے۔ تین بار وزیراعظم بنے لیکن توازن کا راستہ نہ پہچان پائے۔ کبھی کسی کی زبان کٹوائی تو کبھی کسی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر عدالت جا پہنچے اور کبھی کسی ملاقاتی کے پاس فواد حسن فواد کو بھیج کر کہلوا ڈالا کہ تمہاری راہیں الگ، ہماری راہیں الگ۔ لیکن ہاتھ پھر بھی کچھ نہ آیا۔

خیر! اب سیکھنے کی باری خان صاحب کی ہے۔ جلدی سیکھ گئے تو شاید انہیں کچھ موقع مل جائے، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب وہ بھی گلیوں گلیوں صدا لگا رہے ہوں گے ''کیوں نکالا؟ بتاؤ مجھے کیوں نکالا؟''

لیکن تب شاید انہیں اس سوال کا اس کے سوا اور کوئی جواب نہ ملے کہ

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں