ورلڈکپ میں کیا ہوگا

سرفراز احمد کئی مرتبہ ثابت کر چکے کہ وہ ایک فائٹر کپتان ہیں


Saleem Khaliq April 27, 2019
سرفراز احمد کئی مرتبہ ثابت کر چکے کہ وہ ایک فائٹر کپتان ہیں ۔ فوٹو : فائل

میں وہ منظر زندگی بھر نہیں بھول سکتا جب 2 برس قبل لندن میں پاکستان نے چیمپئنز ٹرافی جیتی، آئی سی سی نے میڈیا کانفرنس کیلیے صحافیوں کو گراؤنڈ کے اندر سے ہی لے جانے کا فیصلہ کیا، باؤنڈری لائن پرمیں چل رہا تھا اور چاروں طرف سے پاکستان زندہ باد کی آوازیں آ رہی تھیں جہاں نظر دوڑاتا گرین شرٹس پہنے اور سبز ہلالی پرچم لہراتے مرد، خواتین اور بچے نظر آتے، سب کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔

چند لمحات کیلیے میں یہ بھول گیا کہ انگلینڈ آیا ہوا ہوں، مجھے ایسا لگا جیسے کراچی یا لاہور کے اسٹیڈیم میں ہی موجود ہوں، پھر جب میڈیا کانفرنس والے ایریا میں آیا تو کچھ دیر بعد وہاں پاکستانی کھلاڑی بھی آنے لگے، شعیب ملک قومی پرچم لپیٹے ہوئے تھے، میں نے چند روز قبل لاہور میں جب انھیں یہ یاد دلایا تو ان کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی، وہ ایک بار پھرلندن میں ہی وہ پْرمسرت لمحات دوبارہ پانے کیلیے بے چین نظر آئے۔

اسی طرح کپتان سرفراز احمد و دیگر کھلاڑیوں میں بھی جیت کا جذبہ دکھائی دیا، ورلڈکپ آئندہ ماہ شروع ہو گا، گوکہ ابھی کسی کو نہیں پتا کہ اس میں کیا ہوگا البتہ ماہرین پاکستان کو سیمی فائنل تو کھیلتا دیکھ ہی رہے ہیں، گوکہ ایونٹ کیلیے تیاریوں کو متاثر کن قرار تو نہیں دیا جا سکتا مگر پھر بھی شائقین کو ٹیم سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، دیکھنا یہ ہو گا کہ انگلینڈ سے سیریز میں گرین شرٹس کیسا پرفارم کرتے ہیں۔

سلیکشن کمیٹی نے کپتان سرفراز احمد کو آسٹریلیا سے سیریز میں جبری رخصت پر بھیج کرماحول خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، خیر اب وہ واپس آ چکے اور امید ہے کہ نئے جوش و جذبے کے ساتھ قیادت کریں گے، انگلینڈ کی سرزمین ویسے ہی انھیں راس آ گئی ہے،2017میں وہاں چیمپئنز ٹرافی جیتی اور گذشتہ برس لارڈز ٹیسٹ میں میزبان کو ہرایا، امید ہے کہ اس بار بھی مایوس نہیں کریں گے۔

اسکواڈ میں تقریباً وہ تمام پلیئرز شامل ہیں جو گذشتہ چند برسوں سے پاکستان کیلیے کھیل رہے ہیں، البتہ محمد عامر کے حوالے سے سلیکشن کمیٹی کنفیوژ نظر آتی ہے، ایک طرف انھیں ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل نہیں کیا مگر ساتھ ہی انگلینڈ سے سیریز کیلیے منتخب کر لیا کہ اچھا پرفارم کرنے پر روک لیں گے، اس سے حسنین پر دباؤ بڑھ جائے گا، خیر اچھی بات یہ ہے کہ ٹیم کافی پہلے انگلینڈ پہنچ چکی اور کنڈیشنز سے ہم آہنگی کا پورا موقع موجود ہے۔

ورلڈکپ سے ہی انضمام الحق کی سلیکشن کمیٹی کا مستقبل وابستہ ہے اسی لیے وہ زیادہ پریشان دکھائی دیتے ہیں، کوئی کتنا بھی امیر ہو اگر گھر بیٹھے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ، مفت دورے اور دیگر سہولتیں ملیں تو انھیں چھوڑنا پسند نہیں کرتا،کوچ مکی آرتھرو دیگر کے معاہدے بھی ختم ہونے والے ہیں، وہ بھی اچھے نتائج کیلیے جان لڑا دیں گے، مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ پی سی بی ماہر نفسیات پرکیوں اتنا مہربان ہے۔

ٹھیک ہے وہ اظہر محمود کے دوست ہیں اور ایم ڈی کی طرح برطانیہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ براہ راست پاکستان ٹیم کے ساتھ منسلک ہو جائیں، اب تک کھلاڑیوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر تیمور علی خان کے سی وی پر پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ضرور درج ہو چکا، دوستیاں نبھانے سے ملکی کرکٹ کو بہت نقصان پہنچا مگر افسوس یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

انگلینڈ کے دورے میں ہر بار کوئی نہ کوئی تنازع ضرور سامنے آتا ہے بورڈ کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے،طلعت علی کو منیجر بنایا گیا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ کسی نسبتاً ینگ فرد کو ذمہ داری سونپی جاتی، ظاہر ہے طلعت صاحب ہر وقت ٹیم پر نظر نہیں رکھ سکتے ہیں، یو اے ای میں عمر اکمل رات بھر ہوٹل سے غائب رہے اور مینجمنٹ کو اس کا علم صبح ہوا، انگلینڈ میں اگر کسی کھلاڑی نے ایسی حرکت کی تو بڑا اسکینڈل بن جائے گا۔

ورلڈکپ جیسے ٹورنامنٹ میں ویسے بھی دنیا بھر کے جواری آئے ہوئے ہوں گے اس لیے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، سیکیورٹی منیجر کو سائے کی طرح پلیئرز کے ساتھ رہنا ہوگا، اسی طرح برطانوی میڈیا تو ہمیشہ سے پاکستانی ٹیم سے جڑی منفی خبروں کی تلاش میں رہتا ہے، اس بار تو بھارتی صحافیوں کی بھی بڑی تعداد وہاں آئی ہو گی، ایسے میں میڈیا منیجر رضا راشد کو بیحد چوکنا رہنا پڑے گا۔

ویسے میں آئی سی سی اور اے سی سی کے کئی ایونٹس کور کر چکا، آج تک کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ پاکستانی میڈیا کو کسی دوسرے ملک کے کرکٹر کے انٹرویو کی اجازت ملی ہو، بھارت کی تو پریس کانفرنس میں بھی سوال کا موقع مشکل سے ملتا ہے، البتہ ہمارے کھلاڑی سب کیلیے دستیاب ہوتے ہیں، امید ہے اب ایسا نہیں ہوگا۔

انگلینڈ میں ان دنوں موسم سرد ہے لیکن جون تک گرمی ہو جائے گی، گذشتہ سال تو مجھے وہاں بعض اوقات کراچی جیسا موسم محسوس ہوا تھا، اس سے ہماری ٹیم کو فائدہ ہی ہوگا، گوکہ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ گرین شرٹس سے زیادہ امیدیں نہ رکھیں لیکن میں ان سے متفق نہیں ہوں، ہمارے پاس فخرزمان، بابر اعظم اور حسن علی جیسے کئی اچھے کھلاڑی موجود ہیں جو ٹیم کی مہم کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

شعیب ملک اور محمد حفیظ کا تجربہ بھی کام آئے گا، عابد علی اور محمد حسنین کے بارے میں ابھی حریف ٹیمیں زیادہ نہیں جانتیں وہ سرپرائز پیکیج ثابت ہو سکتے ہیں، البتہ شاداب خان کی علالت سے پلاننگ متاثر ہوئی ہے، اطلاعات تو امید افزا سامنے آ رہی ہیں، امید ہے وہ فٹ ہو کر ورلڈکپ کیلیے تیار ہوں گے، ویسے بھی نیگیٹیوٹی اچھی بات نہیں، ہمیں سوچ مثبت رکھنی چاہیے، ایک بار درست کمبی نیشن بن گیا تو چیمپئنز ٹرافی کی طرح ٹیم بہت آگے جائے گی۔

سرفراز احمد کئی مرتبہ ثابت کر چکے کہ وہ ایک فائٹر کپتان ہیں، اب بھی انھیں موقع ملا ہے کہ قومی ٹیم کو ایک فاتح جتھے میں تبدیل کر دیں، اگر ایسا ہوگیا تو ہمیں ایک بار پھر لارڈز میں سبزہلالی پرچم لہراتے ہوئے نظر آئے گا۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں