طالبان نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بینظیربھٹو کے خلاف کارروائی کی تھی ہیرالڈومنوز
پرویزمشرف اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔ہیرالڈومنوز
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیرالڈومنوز نے اپنے آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کا حکم القاعدہ نے دیا تھا جب کہ طالبان نے اسٹیبلیشمنٹ کی ہی مدد سے قاتلانہ کارروائی کی تھی۔
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیرالڈومنوز نے امریکی میگزین فارن افئیرز میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات سے پردہ فاش کردیا، ہیرالڈومنوز نے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ بینظیر قتل کیس کا معمہ کبھی حل نہیں ہوگا، وہ لکھتے ہیں کہ مقامی پولیس نے بینظر بھٹو قتل کیس کے حقائق پر پردہ ڈالا ہے، انہوں نے بے نظیربھٹو کے قتل میں پرویز مشرف کے کردار کے حوالے کئی سوالات اٹھائے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے ای میل کے ذریعے پہلے ہی پرویزمشرف کی جانب سے لاحق خطرات سے بھی آگاہ کردیا تھا، یہ بات بھی ثبوت کے طورپرموجود ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ معاہدے کے باوجود بے نظیر بھٹو نے وطن کی واپسی پران کی حکومت پرسخت تنقید شروع کردی تھی اور الیکشن میں قبل ازوقت دھاندلی کے الزامات بھی لگائے تھے، جبکہ پرویزمشرف اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔
ہیرالڈومنوز نے آرٹیکل میں آئی ایس آئی کے کردار کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کیس میں خفیہ اہلکاروں کے ملوث ہونے کے شبے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، طالبان نے اسٹیبلیشمنٹ عناصر کی مدد سے قاتلانہ کارروائی کی تھی۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے ملاقات کرنے پر انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اعتراف کیا تھا کہ مقامی پولیس نے واقعے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا، وہ سمجھتے تھے کہ بیت اللہ محسود قبائلی علاقوں سے باہر بڑی کارروائی نہیں کر سکتا، ہیرالڈو منوز نے مزید لکھا کہ بے نظیر بھٹو کی ذاتی سیکورٹی ٹیم بھی اس روز ناکام رہی اور قتل کا واقعہ ایک نہیں بلکہ کئی افراد کی شمولیت سے پیش آیا۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیرالڈومنوز کو جولائی 2008 میں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے پر مقرر کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیرالڈومنوز نے امریکی میگزین فارن افئیرز میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات سے پردہ فاش کردیا، ہیرالڈومنوز نے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ بینظیر قتل کیس کا معمہ کبھی حل نہیں ہوگا، وہ لکھتے ہیں کہ مقامی پولیس نے بینظر بھٹو قتل کیس کے حقائق پر پردہ ڈالا ہے، انہوں نے بے نظیربھٹو کے قتل میں پرویز مشرف کے کردار کے حوالے کئی سوالات اٹھائے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے ای میل کے ذریعے پہلے ہی پرویزمشرف کی جانب سے لاحق خطرات سے بھی آگاہ کردیا تھا، یہ بات بھی ثبوت کے طورپرموجود ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ معاہدے کے باوجود بے نظیر بھٹو نے وطن کی واپسی پران کی حکومت پرسخت تنقید شروع کردی تھی اور الیکشن میں قبل ازوقت دھاندلی کے الزامات بھی لگائے تھے، جبکہ پرویزمشرف اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔
ہیرالڈومنوز نے آرٹیکل میں آئی ایس آئی کے کردار کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کیس میں خفیہ اہلکاروں کے ملوث ہونے کے شبے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، طالبان نے اسٹیبلیشمنٹ عناصر کی مدد سے قاتلانہ کارروائی کی تھی۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے ملاقات کرنے پر انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اعتراف کیا تھا کہ مقامی پولیس نے واقعے میں نااہلی کا مظاہرہ کیا، وہ سمجھتے تھے کہ بیت اللہ محسود قبائلی علاقوں سے باہر بڑی کارروائی نہیں کر سکتا، ہیرالڈو منوز نے مزید لکھا کہ بے نظیر بھٹو کی ذاتی سیکورٹی ٹیم بھی اس روز ناکام رہی اور قتل کا واقعہ ایک نہیں بلکہ کئی افراد کی شمولیت سے پیش آیا۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیرالڈومنوز کو جولائی 2008 میں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے پر مقرر کیا تھا۔