ٹرمپ کا اسلحے پر پابندی کے معاہدے سے باہر نکلنے کا اعلان
اسلحہ پر پابندی کی تحریک کی حمایت میں اب تک 101 ممالک اکٹھے ہو چکے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی قومی رائفل ایسوسی ایشن (این آر اے) کی سالانہ تقریب میں اعلان کیا ہے کہ امریکا اس بین الاقوامی معاہدے سے باہر نکل جائے گا جس پر 2013 میں سابق صدر براک اوباما کے دور میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس وقت بھی امریکا کی قومی رائفل ایسوسی ایشن اور دیگر قدامت پرست گروپوں نے اس معاہدے کی کڑی مخالفت کی تھی۔ اس معاہدے کو امریکا کی سینیٹ کی طرف سے منظوری نہیں دی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ نے اسلحے پر ہر قسم کی پابندی ختم کرنے کے حق کی حمایت کرنے والوں کے اجلاس میں تالیوں کی گونج میں اس معاہدے سے باہر نکلنے کا اعلان کیا۔اجلاس کے شرکاء کی اکثریت نے سرخ ہیٹ پہنے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا کہ ''امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں''۔ امریکا کی قومی رائفل ایسوسی ایشن کافی عرصہ سے ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی کوششوں کی مخالفت کر رہی ہے جب کہ امریکا میں روایتی ہتھیاروں کی تجارت کا حجم 70 ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔
ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کیا گیا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اس معاہدے سے امریکی بریت کا نوٹس بہت جلد اقوام متحدہ کو بھجوا دیا جائے گا۔ اپریل 2013 میں امریکا کی اوباما حکومت نے ہتھیاروں پر پابندی کے حوالے سے جو فیصلہ کیا تھا اقوام متحدہ کی 193 رکن جنرل اسمبلی نے اس کا زبردست خیرمقدم کیا تھا اور این آر اے کی طرف سے شدید مخالفت کے باوجود اس سمجھوتے کو منظور کر لیا گیا۔
اب ٹرمپ کے اعلان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے سخت مذمت کی گئی ہے اور اوکسام کے امریکی صدر ایبی میکس مین نے کہا ہے کہ چونکہ امریکا ایران، شمالی کوریا اور شام کے ساتھ دو دو ہاتھ کرانا چاہتا ہے اس لیے اس کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے کے سربراہ ایڈوٹی اکونی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسلحہ کے سیلاب کے بڑے دروازے کھولنے پر تلی ہوئی ہے۔
اسلحہ پر پابندی کی تحریک کی حمایت میں اب تک 101 ممالک اکٹھے ہو چکے ہیں اور انھوں نے رسمی طور پر اس سمجھوتے پر دستخط بھی کر دیئے ہیں۔ مزید 29 ممالک نے جن میں امریکا بھی شامل ہے اس پر دستخط کیے ہیں مگر معاہدے میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ تقریب میں شرکت کے موقع پر امریکا کے قومی سلامتی کونسل کے مشیر جان بولٹن بھی ٹرمپ کے ہمراہ تھے، وہ بھی اسلحہ پر پابندی کے خلاف ہیں اور ان کا تعلق اسلحہ سازوں کی مضبوط لابی سے ہے۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ ماحولیاتی آلودگی کے عالمی معاہدے سے بھی امریکا کو نکال چکے ہیں جس پر پیرس میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس سال مئی کے مہینے میں صدر ٹرمپ ایران کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی دھمکی دے چکے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا کے جارحانہ عزائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اسلحے پر ہر قسم کی پابندی ختم کرنے کے حق کی حمایت کرنے والوں کے اجلاس میں تالیوں کی گونج میں اس معاہدے سے باہر نکلنے کا اعلان کیا۔اجلاس کے شرکاء کی اکثریت نے سرخ ہیٹ پہنے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا کہ ''امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں''۔ امریکا کی قومی رائفل ایسوسی ایشن کافی عرصہ سے ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی کوششوں کی مخالفت کر رہی ہے جب کہ امریکا میں روایتی ہتھیاروں کی تجارت کا حجم 70 ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔
ہتھیاروں پر پابندی کا معاہدہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کیا گیا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اس معاہدے سے امریکی بریت کا نوٹس بہت جلد اقوام متحدہ کو بھجوا دیا جائے گا۔ اپریل 2013 میں امریکا کی اوباما حکومت نے ہتھیاروں پر پابندی کے حوالے سے جو فیصلہ کیا تھا اقوام متحدہ کی 193 رکن جنرل اسمبلی نے اس کا زبردست خیرمقدم کیا تھا اور این آر اے کی طرف سے شدید مخالفت کے باوجود اس سمجھوتے کو منظور کر لیا گیا۔
اب ٹرمپ کے اعلان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے سخت مذمت کی گئی ہے اور اوکسام کے امریکی صدر ایبی میکس مین نے کہا ہے کہ چونکہ امریکا ایران، شمالی کوریا اور شام کے ساتھ دو دو ہاتھ کرانا چاہتا ہے اس لیے اس کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے کے سربراہ ایڈوٹی اکونی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسلحہ کے سیلاب کے بڑے دروازے کھولنے پر تلی ہوئی ہے۔
اسلحہ پر پابندی کی تحریک کی حمایت میں اب تک 101 ممالک اکٹھے ہو چکے ہیں اور انھوں نے رسمی طور پر اس سمجھوتے پر دستخط بھی کر دیئے ہیں۔ مزید 29 ممالک نے جن میں امریکا بھی شامل ہے اس پر دستخط کیے ہیں مگر معاہدے میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ تقریب میں شرکت کے موقع پر امریکا کے قومی سلامتی کونسل کے مشیر جان بولٹن بھی ٹرمپ کے ہمراہ تھے، وہ بھی اسلحہ پر پابندی کے خلاف ہیں اور ان کا تعلق اسلحہ سازوں کی مضبوط لابی سے ہے۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ ماحولیاتی آلودگی کے عالمی معاہدے سے بھی امریکا کو نکال چکے ہیں جس پر پیرس میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس سال مئی کے مہینے میں صدر ٹرمپ ایران کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی دھمکی دے چکے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا کے جارحانہ عزائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔