اندھوں کی رہنمائی کا نتیجہ
آپ اپنا پہلا قدم اٹھا کر دیکھیں پھر کس طرح ہماری ناکامی کی راکھ سے کامیابی جنم لیتی ہے۔
بروک نے کہا تھا شکست نہ کھانے والا ارادہ ، پریشان نہ ہونے والا خیال اور ختم نہ ہونے والی جدوجہد یہ کامیابی کے ضامن ہیںانگریز عالم آئن نیشن جاپان گئے انھوں نے وہاں گیارہ سال رہ کر جاپانی زبان سیکھی اور گہرائی کے ساتھ جاپانی قوم کا مطالعہ کیا اس کے بعد انھوں نے اپنے مطالعے اور تحقیق کے نتائج کی روشنی میں 238 صفحات کی ایک کتاب لکھی جس کانام ہے '' جاپان کی کہانی '' اس میں مصنف لکھتے ہیں '' جاپانی قوم کی زندگی کو جس چیز نے سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ متاثر کیا وہ سیاست نہیں تھی بلکہ کا نٹو کا عظیم زلزلہ تھا۔
یکم ستمبر 1923 کوزلزلہ کے زبردست جھٹکوں نے مشرقی جاپان کو تہس نہس کر دیا جو کہ جاپان کا سب سے زیادہ آباد علاقہ تھا دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945 میں جاپان کی شکست تھی جب کہ دوایٹم بموں نے جاپان کے دو انتہائی بڑے شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا زلزلہ سے اگر تعمیر نو کا ذہن پیدا ہوتو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے اس کے بر عکس زلزلہ اگر صرف محرومی اور جھنجھلا ہٹ کا احساس پیدا کرے تو اس کے بطن سے سیاسی چیخ پکاروجود میں آتی ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اتنی بے معنیٰ ہے کہ اس سے زیادہ بے معنیٰ کو ئی چیز نہیں ''۔
دوسری عالمی جنگ کی ابتدا میں امریکہ براہ راست شامل نہ تھا تاہم ہتھیار اور سامان کے ذریعے اس کی مدد بر طانیہ اور اس کے ساتھیوں کی طاقت کا ذریعہ بنی ہوتی تھی چنانچہ جاپان نے امریکہ کے خلاف ایک خفیہ منصوبہ بنایا ا س نے 7 دسمبر1941 کو اچانک امریکہ کے بحری اڈہ پر ل ہاربر پر شدید حملہ کیااور اس کو تبا ہ کر دیا تاہم امریکہ کی ہوائی طاقت بدستور محفو ظ رہی ۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکہ میں ایٹم بم کی پہلی کھیپ زیر تکمیل تھی چنا نچہ اس کے مکمل ہوتے ہی امریکہ نے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ورنہ اس کو برباد کر دیاجائے گا جاپان کو امریکہ کی جدید قوت کا اندازہ نہ تھا اس نے اس کو منظور نہیں کیا چنا نچہ 14 اگست 1945 کو امریکہ نے جاپان کے دو بڑے صنعتی شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گراد یئے ایک لمحہ میں جاپان کی فوجی طاقت تہس نہس ہوکر رہ گئی اور جاپان نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا اس کے فوراً بعد جنرل میکا ر تھر امریکی فوجوں کے ساتھ جاپان میں اتر گئے اور جاپان کے اوپر مکمل طورپر امریکہ کافوجی قبضہ ہوگیا جاپان اگر چہ فوجی اعتبار سے شکست کھا چکا تھا مگر جاپانیوں کا جنگی جنون بدستو ر قائم تھا جاپانیوں کا جنگی جنون اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنے جسم میں بم باندھ کر جہازوں کی چمنی میں کو د جاتے تھے اب جنرل میکارتھر کے سامنے یہ سوال تھا کہ اس جنگی جنون کا خاتمہ کس طرح کیاجائے جنر ل میکارتھر نے اس کا حل اس تدبیر میں تلا ش کیا کہ جاپانیوں کے جذبہ کو جنگ سے ہٹا کر معاشی سر گرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے امریکی مبصر اینتھونی لیوس نے 1985 میں لکھا جب جاپان نے 40سال پہلے ہتھیار ڈالے تو جنرل میکار تھر نے نہ صرف جاپان پر فوجی قبضہ کر لیا بلکہ اس کے ساتھ ان کی مہم یہ تھی کہ وہ ملک کی از سر نو تشکیل کر یں اگر اس وقت ان سے پو چھا جاتاکہ ان کی سب سے بڑی خواہش کیاہے تو میرا خیال ہے کہ وہ کہتے کہ جاپان کے جار ح عوام کے جو ش کو جنگ کے بجائے اقتصادی حو صلوں کی طرف مو ڑ دینا ''۔
اس وقت جاپان کے لیے ایک صورت یہ تھی کہ وہ اپنے جنگی جوش کو باقی رکھتا اگر کھلے طور پر میدان جنگ میں لڑنے کے مواقع نہیں تھے تو وہ خفیہ طور پر امریکہ کے خلاف اپنی مقابلہ آرائی کو جاری رکھتا مگر جاپان نے فاتح کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے فو راً اپنے عمل کا رخ بدل دیا اس نے امریکہ سے براہ راست ٹکرائو کو مکمل طور پر ختم کردیا اور اپنی تمام قوتوں کو سائنس، تعلیم اور ٹیکنیکل ترقی کے راستے میں لگا دیا جاپان کو اس عقل مندی نے اس کے لیے نیا عظیم ترامکان کھول دیا جنگی میدان میں اقدام کے مواقع نہ پاکر اس نے اقتصادی میدانوں میں اپنی جدو جہد شروع کر دی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف 30سال میں جاپان نے پہلے سے زیادہ طاقت ور حقیقت حاصل کر لی۔
جاپان کو خود اپنے فاتح کے مقابلے میں کامیابی اس لیے حاصل ہوئی کہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیاتھا حقیقت کا اعتراف ہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے ۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک درست سمت میں ہے اور وہ اپنی حکمت عملی ،پالیسیوں اور نظریہ کی وجہ سے روز بروز طاقتور سے طاقتور ہو تا جارہاہے عوام آزاد، خو شحال ہوچکے ہیں ملک کے تمام ادارے مستحکم ہوچکے ہیں پاکستان بنا نے کے تمام مقاصد ہم نے حاصل کرلیے ہیں تو پھر آپ اپنی موجود ہ پالیسیوں ، حکمت عملی اور نظریہ پر قائم و دائم رہیں آپ کو نہ کوئی روکے گا اور نہ ہی کوئی ٹو کے گا لیکن اگر آپ ملک کے20 کروڑ عوام کی طرح یہ سو چتے ہیں کہ ہم اپنی موجودہ پالیسیوں ، حکمت عملیوں ، نظرئیے ، خارجہ پالیسی ، پڑوسیوں سے خراب تعلقات ، اقتصادی پالیسیوں ، عدم مساوات ، عدم برداشت، اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی وجہ سے مکمل ناکامی ،تباہی اور بربادی سے دو چار ہو چکے ہیں تو پھرآپ ملک کے 20 کروڑ عوام کی طرح صحیح سو چتے ہیں ۔
میتیھو نے کہا تھا جب اندھے کی راہنمائی اندھا کررہا ہو تو دونوں گڑھے میں گرتے ہیں اور ہمارے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا ہے ۔ جب ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہم گڑھے میں گر چکے ہیں تو ظاہر ہے ہم اس سے باہر نکلنے کی کوئی نہ کوئی صورت اور راستہ نکال لیں گے اور یہ ہی وہ وقت ہوگا جب ہمارے نئے سفر کا ناکامی سے کامیابی کی طرف آغاز ہوجائے گا۔ سائر س نے اس موقع کے لیے یہ کہا تھا اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی بلند مقام تک پہنچاجائے تو پھر کہیں سے بھی سفر شروع کر دیں ۔ سیڑھی پر چڑھنے کے لیے پہلے زینے پر قدم ضرور رکھنا پڑتا ہے ۔
آپ اپنا پہلا قدم اٹھا کر دیکھیں پھر کس طرح ہماری ناکامی کی راکھ سے کامیابی جنم لیتی ہے۔ بس ہمیں اپنا رخ تبدیل کرنا ہے اورعوام کے جوش کو اقتصادی حو صلوں کی طرف مو ڑ دینا ہے دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک وہ جو سو چتے ہی رہتے ہیں اور کرتے کچھ بھی نہیں دوسرے وہ جو بلا سو چے سمجھے ہر طرف ہاتھ مارتے ہیں اور ہر طرف سے منہ کی کھاتے ہیں تیسر ے وہ جو سو چتے بھی اور کرتے بھی ہیں یہ ہی وہ لوگ ہیں جو مٹی کو سو نا بنا لیتے ہیں آئیں ہم اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے آنے والوں کے لیے سو چیں اور کرتے بھی جائیں ۔ مایوسی کفر ہے صبح جتنی قریب ہوگی رات اتنی ہی تاریک ہوگی ۔ نپو لین نے بالکل صحیح کہا تھا فتح ہمیشہ مستقل مزاج لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ پاکستانیوں کو بس یہ ثابت کر نا ہے کہ وہ مستقل مزاج ہیں ۔